Search This Blog

Monday, 28 November 2016

اترپردیش الیکشن پرنوٹ بندی کے اثرات !

اترپردیش الیکشن پرنوٹ بندی کے اثرات !


کسی بھی ملک کا معاشی نظام نہ صرف اس کی معیشت کو استحکام بخشنے کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ شہریوں کی اقتصادی حالت کو سدھارنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔فی الوقت وطن عزیز گزشتہ چند دنوں سے روپیہ کی تبدیلی کے باعث مسائل سے دوچار ہے۔نتیجہ میں ایک جانب عوام بنیادی ضرورتوں کے حصول میں پریشان حال زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تو وہیں چھوٹے کاروباریوں کا کاروبار حد درجہ متاثر ہے۔یہ صحیح ہے کہ روپیہ کی تبدیلی نے کسی نہ کسی سطح پر اُن لوگوں کو ضرور دقتوں میں ڈالا ہوگا جنہوں نے بے شمار دولت خزانوں کی شکل میں اپنے پاس جمع کی ہوئی تھی ۔برخلاف اس کے عام شہری جس نے اپنی پائی پائی جوڑ کر مختصر ترینرقم جمع کی تھی، وہ بدحال پریشان حال اور دشوار گزار زندگی جینے پر مجبور ہے۔ بے شمار مقامات پر شہری روپیہ کی تبدیلی کے نتیجہ میں اچانک درپیش آنے والی پریشانی کے لیے تیار نہیں تھے، اس لیے بھی وہ اس پریشانی سے نکلنے میں ناکام ہیں۔دوسری جانب ان لوگوں پر شک کیا جا رہا ہے جنہیں کسی بھی سطح پر روپیہ کی تبدیلی کی معلومات تھی یا اس کے امکانات ہیں، انہوں نے قبل از وقت مسئلہ سے نبٹنے کے لیے راہیں فراہم کی ہوں گییا راہ کے کانٹے پہلے ہی نکال دیئے ہوں گے۔کہا یہ گیا تھا کہ روپیہ کی تبدیلی سے نہ صرف ملک کی معیشت مستحکم اور مضبوط ہوگی بلکہ کالے دھن کے نام پر جن لوگوں نے اپنی تجوریوں میں بے شمار دولت جمع کی ہوئی ہے ان پر لگام کسنے میں آسانی ہوگی۔اس کے باوجود ابھی تک ایسے افراد کھل کر سامنے نہیں آئے ہیں جنہوں نے کسی بھی سطح پر کالے دھن کی شکل میں دولت جمع کی ہوئی ہو اور وہ پریشان بھی نظر آئیہوں،ممکن ہے وہ خاموش ہوں اور صحیح وقت کا انتظار کر رہے ہوں۔دیکھا جائے تو یہ کالا دھن عموماً دو طرح کے لوگوں سے تعلق رکھتا ہے۔ایک سیاست کی بساط پر سرگرم عمل رہنے والے سیاسی رہنما تودوسرے وہ جو بڑے کاروباری کہلاتے ہیں ۔یہی دو قسم کے لوگ ٹیکس کی چوری میں بھی سب سے آگے ہوتے ہیں اور یہی وہ لوگ بھی ہیں جن کی دولت تجوریوں میں بند رہتی ہے، اس پر سود کھاتے ہیں،بیرون ملک اپنی دولت منتقل کرتے ہیں اور پھر دولت سے دولت کر ضرب کرتے ہوئے ہر صبح اس سے نہ جانے کیا کیا فوائد حاصل کرتے ہیں،اور دولت ہے کہ اس میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔

روپیہ کی تقسیم پر برسراقتدار حکومت کا حصہ رہی شیوسینا کا رخ کیا ہے؟آئیے اس کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔شیوسینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے اس فیصلے کو عام آدمی کے ساتھ لوٹ سے تعبیر کیا ہے۔ساتھ ہی بی جے پی سے کہا ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی بات کو سنجیدگی سے لیں کیونکہ وہ مشہور ماہر اقتصادیات ہیں۔تھاکرے نے کہا ہے کہ جس طرح نوٹ تبدیلی اور نوٹ بندی کو لاگو کیا گیا ہے، میں اس پر شیدید رخ اختیار کرنے سے نہیں ہچکچاؤں گا۔وہیں مایاوتی جو بہوجن سماج وادی پارٹی کی سپریمو ہیں نے کہا ہے کہ نوٹ تبدیلی کے عمل نے پورے ملک میں افراتفری پھیلائی ہے،یہ ایک طرح کی غیر اعلانیہ ایمرجنسی ہے ،ساتھ ہی یہ عمل جلد بازی میں قدم اٹھانے کے متاردف ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ملک کا شہری نوت تبدیلی سے حددرجہ پریشان ہے۔اور اُسی کا نتیجہ ہے کہ حزب مخالف کی پارٹیاں عوام کی پریشانیوں کو مزید بڑے پیمانہ پر واضح کرنے نیز عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے مختلف طریقوں سے سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں۔ ایک جانب لیفٹ پارٹیوں نے بھارت بند منانے کا فیصلہ لیا ہے۔تو وہیں کانگریس کا کہنا ہے کہ اس نے بھارت بند نہیں کیا لیکن آکروش دیوس منانے کا فیصلہ لیا ہے۔تیسری جانب ایس پی اور بی ایس پی نے گرچہ اپنا موقف واضح نہیں کیا ہے اس کے باوجود حکومت پر ان کے زبانی حملے جاری ہیں اور کٹہرے میں کھڑا کرنے کی تیاریاں بھی نظر آرہی ہیں۔

آپ جانتے ہیں کہ سابقہ یو پی اے حکومت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ ایک ماہر اقتصادیات و معاشیات بھی ہیں۔اسی حیثیت سے ان کا کہنا ہے کہ نوٹ تبدیلی کے فیصلہ کے نفاذ میں حکومت ہر سطح پر ناکام رہی ہے۔جس کے نتیجہ میں حکومت کی سنگین غلطیوں کا عوام کو خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔جی ڈی پی میں2فیصدکمی کا اندیشہ ہے۔غریبوں میں 50دنوں میں، جس کی مہلت نریندر مودی نے مانگی ہے،تک آفات کا سامنا کرنا مشکل ترین عمل ہے۔فیصلے سے عوام کا کرنسی اور بینکنگ سسٹم میں اعتماد کم ہوگا۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ نونوٹوں کی منسوخی کے فیصلہ کے نفاذ میں زبردست بدنظمی کے چلتے 60سے 65لوگ اب تک اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔نیز جو قدم اٹھایا گیا ہے اس کا معیشت پر تباہ کن اثر پڑے گا۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس اسکیم کے نفاذ کا طریقہ زرعی اور چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کو نقصان پہنچائے گا، اور یہی کچھ دیکھنے کو بھی مل رہا ہے۔وہیں واقعہ یہ بھی ہے کہ فی الوقت ملک کے شہری چہار جانب بینکوں کے باہر لائن لگائے کھڑے ہیں۔کہیں کوئی غش کھاکر گر رہا ہے،کہیں کوئی بیماری میں مبتلا ہو رہا ہے،کہیں لوگوں کے پیروں میں سوجن آرہی ہے اور پروں کے درد سے پریشان ہے تو کہیں بھیڑ پر قابو پانے کے لیے پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج ہورہا ہے اور عوام اپنا ہی پیسہ حاصل کرنے کے لیے زخمی ہو رہے ہیں۔کہیں لوگ خود کشی کرنے پر مجبور ہیں تو کہیں لائینوں میں کھڑے لوگوں کی اموات سامنے آرہی ہیں۔ایک عجیب و غریب صورتحال ہے ۔ایک ایسی صورتحال جس کاتجربہ موجودہ زمانہ کے افراد نے نہ کیا اور نہ ہی اس کی امید رکھتے تھے۔وہیں دوسری جانب اس پریشانی کا حل بھی نظر نہیں آرہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مانگی گئی 50دن کی مہلت مکمل ہونے کے بعد کیاآسانیاں واقعی میسر آئیں گی؟اور وہ تمام فوائد حاصل ہوں گے جس کے لیے یہ تکلیفیں اٹھائی اور اٹھوائی جا رہی ہیں؟اس موقع پر دلچسپ اور قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ جہاں ملک اس بہرانی کیفیت سے دوچار ہے وہیں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جوپرسکون زندگی جی رہاہے۔یہ دو کیفیتیں کیوں ہیں؟اور ان دو طبقات کے درمیان اس قدر فرق کیوں محسوس کیا جا رہا ہے؟یہ ایک سوال ہے جو ہر عام آدمی اپنی زبان حال سے کہتا نظر آرہا ہے۔معاف کیجیے گا یہ عام آدمی’عام آدمی پارٹی’کا ورکر نہیں ہے ، یہ عام آدمی وہ عام شہری ہے جو اس تکلیف میں مبتلا ہے، اور یہ عام شہری ملک کا تقربیاً 90%فیصد انسان ہے۔کہیں باپ کی شکل میں،کہیں ماں کی شکل میں کہیں بیٹے اور بیٹیوں کی شکل میں تو کہیں وہ معصوم بچے ہیں،جو بھوک اور پیاس سے پریشان ہیں لیکن تبدیل شدہ نوٹ نہ ملنے یا ایک بڑی رقم والا نوٹ ملنے پر ، اُس کے استعمال سے پریشان ہیں۔

سوچنے اور غور و فکر کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب ہوا کیوں؟اور کیوں نوٹ تبدیل کیا گیا؟اس کی وجوہات کچھ حکومت نے بتائی ہیں اور کچھ وجوہات دیگر پارٹیوں کے ذمہ داران نے ۔معاملہ کچھ بھی ہو،عام خیال یہ ہے کہ اس نوٹ تبدیلی کے مثبت و منفی اثرات اترپردیش میں آئندہ دنوں ہونے والے اسمبلی الیکشن پر بھی نظر آئیں گے ۔اب کس کو قسم کا فائدہ ہوگا اور کس طرح کا نقصان ؟یہ تو وقت ہی بتائے گا۔کیونکہ وطن عزیز میں ووٹ عموماً مانگا تو ترقی کے نام پر ہی جاتا ہے،لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ یہاں الیکشن کے ایک دن پہلے والی رات شراب اور نوٹ کی تقسیم کے نتیجہ میں ،نتائج کو تبدیل کر دیتی ہے۔کیا ایسا ہی کچھ آئندہ دنوں ہونے والے الیکشن میں بھی دیکھنے کو ملے گا؟ہمیں اس وقت تک انتظارکرنا ہوگا۔اس وقت تک حکومت کی جانب سے مانگی گئی مہلت کے 50دن بھی پورے ہوجائیں گے اور عوام کے ہاتھ میں ووٹ کی شکل میں اپنی خوشی و ناراضگی کے اظہار کا ذریعہ بھی موجود ہوگا!


No comments:

Post a Comment