روس شام میں کیا کر رہا ہے؟
لیز ڈوسٹ
چیف بین الاقوامی نامہ نگار
روس نے شام میں ایک بڑا حملہ شروع کر دیا ہے جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ اس میں 'دہشت گردوں کے ٹھکانوں' کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اگرچہ ماسکو کا کہنا ہے کہ اس کے جنگی طیاروں نے شامی ساحل پر کھڑے بحری جہاز سے اڑ کر حلب کو نشانہ نہیں بنایا، البتہ روس کے دوسرے علاقوں میں بڑھتے ہوئے حملے اس دفاعی لحاظ سے اہم شہر پر غلبہ حاصل کرنے کی طویل جنگ کا نقشہ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ان حملوں کی ٹائمنگ اس لحاظ سے اہم ہے کہ چند ماہ کے اندر اندر امریکہ میں ایک نیا صدر اقتدار سنبھالنے جا رہا ہے جس کی شام کے بارے میں حکمتِ عملی بالکل مختلف ہو سکتی ہے۔
ستمبر 2015 میں روس نے اچانک فیصلہ کیا کہ وہ شام میں جنگی مداخلت کرنے جا رہا ہے، جس سے وہاں جاری خانہ جنگی کا رخ بدل گیا۔
ی بی سی آن لائن کے اکثر قارئین پوچھتے ہیں کہ روس اسد حکومت کی حمایت کیوں کر رہا ہے؟
روس طویل عرصے سے شام کا اتحادی رہا ہے، اور بہت سے شامی فوجی افسروں کی تربیت روس میں ہوئی ہے، جب کہ اسے بہت سا اسلحہ بھی روس ہی سے ملتا ہے۔
روس کی جانب سے شامی حکومت کی فوجی، سیاسی اور اخلاقی مدد ہی کے سہارے پسپا ہوتی ہوئی شامی فوج کو تقویت ملی۔
جنگ میں روس کی شمولیت کے کچھ ہی عرصے بعد میں دمشق گئی تو دیکھا کہ شامی حکام اور فوجی روس سے قریبی ثقافتی تعلق کے گن گا رہے ہیں اور ضرورت کے لمحات میں ان کی مدد کے شکرگزار ہیں۔
روسی حکام اکثر کہتے ہیں کہ ان کی مداخلت نے دولتِ اسلامیہ کے سیاہ پرچموں کی پیش قدمی روک دی، ورنہ قریب تھا کہ وہ دمشق پر لہرا رہے ہوتے۔ دولتِ اسلامیہ کا خطرہ حقیقی ہے، لیکن اسد کی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنا روس کے لیے کئی محاذوں پر عمدہ چال تھی۔
اسی کے باعث روس شامی سٹیج پر ایک چھوٹے سے کردار سے بڑھ کر مرکزی کردار بن گیا۔ امریکی حکام نے ایک سال قبل خبردار کیا تھا کہ روس کی یہ چال اسے ایک اور افغانستان کی دلدل میں پھنسا سکتی ہے، جس کا نتیجہ سرد جنگ کی طرح شرمندگی کی صورت میں برآمد ہو گا۔
تاہم شامی باغیوں کے عرب حامی بھی بعض اوقات نجی محفلوں میں روسی صدر ولادی میر پوتن کی جانب سے اپنے اتحادی کی ٹھوس پشت پناہی کی تعریف کرتے سنے جا سکتے ہیں، جس کی روس کو اب تک بہت کم قیمت چکانا پڑی ہے۔
اکتوبر میں روسی پارلیمان نے ایک معاہدے کی منظوری دی جو اس سے پہلے خفیہ رکھا گیا تھا۔ اس کے تحت روس کو شام میں حکام کی نگرانی یا مداخلت کے بغیر فوجی اور سامان بھیجنے اور نکالنے کی کھلی چھوٹ مل گئی۔
پچھلے برس جدید میزائل نظام سمیت فوجی اور گولہ باردو شام بھیجے گئے۔ روسی میڈیا کے مطابق شام میں خصوصی روسی فورسز سرگرم ہیں جب کہ ہزاروں روسی شہری وہاں فوجی کمپنیوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔
روس اور شام کی مشترکہ کوششیں دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں موثر ثابت ہوئی ہیں۔ گذشتہ مارچ میں پیلمائرا شہر کی بازیابی اس کا ثبوت ہے، جہاں اب روس نے جنگی چوکی قائم کر رکھی ہے۔
تاہم مغربی حکومتیں الزام لگاتی ہیں کہ روس ان باغیوں پر بھی حملے کر رہا ہے جنھیں مغرب کی پشت پناہی حاصل ہے۔
اس کے علاوہ اس پر سکولوں اور ہسپتالوں پر حملوں کی وجہ سے جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام بھی لگایا جا رہا ہے۔
روس کے لیے یہ معاملہ شام سے کہیں بالاتر ہے۔ اس کے لیے یہ ایک بڑی جیو پولیٹیکل جنگ کا ایک اور محاذ ہے جس کے تحت وہ دنیا میں امریکہ کے برابر مرتبہ اور طاقت حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ماسکو کے سرد جنگ کے زمانے کے نیٹو ممالک کے ساتھ نئی کشیدگی کے دور میں روس یوکرین سے آگے نکل کر ایک نیا نقشہ تخلیق کرنا چاہتا ہے۔
روس اور ایران اس جنگ میں ایک طرف کھڑے ہیں، اور ان کے ساتھ لبنان کی حزب اللہ ہے۔
ایران کے مقاصد مختلف مگر اتنے ہی اہم ہیں۔ وہ حزب اللہ کے ساتھ زمینی رابطہ بحال رکھنا چاہتا ہے، شامی زیارات کا تحفظ چاہتا ہے اور اپنے سنی حریف سعودی عرب کے مقابلے پر پورے خطے میں اپنا سیاسی اور دفاعی اثر برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
روس اور ایران دونوں شام کی مدد کر رہے ہیں لیکن لازمی نہیں کہ شام ان کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہے۔
شامی صدر بشار الاسد دوسروں سے فائدہ حاصل کرنے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں۔
جب روس نے مارچ میں اچانک اعلان کیا کہ وہ شام سے اپنی فوج کا بڑا حصہ نکال رہا ہے تو دمشق میں باتیں ہونے لگیں کہ اس خلا کو ایران پر کر دے گا۔
اس معاملے پر قیاس آرائیاں ہوتی رہتی ہیں کہ آیا شام کے اتحادی انجامِ کار اسد کو ہٹا کر کسی کم متنازع شخصیت کو سامنے لا سکتے ہیں۔
لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ فی الحال اسد کو شامی عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔
اور اب نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سارے معاملے کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ ان کا دولتِ اسلامیہ اور النصرہ فرنٹ کے خلاف موقف واضح ہے۔ صدر اسد نے پہلے ہی ٹرمپ کو 'قدرتی حلیف' قرار دے دیا ہے۔
صدر پوتن نے گذشتہ برس شام کی 'گریٹ گیم' میں کود کر جوا کھیلا تھا۔ مغربی رہنما اکثر کہتے ہیں کہ ان کے پتے کمزور تھے لیکن انھوں نے کمزور پتوں سے کھیل خوب کھیلا ہے۔ کم از کم ان معاملات میں جو انھیں اور ان کے حلیفوں کے مطلب کے ہیں۔
بہ شکریہ بی بی سی اردو
No comments:
Post a Comment