دنیا کے بہت سے لیڈروں نے امریکا کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کی غیر متوقع خبر پر کسی بے پایاں خوشی کا اظہار نہیں کیا ہے لیکن نیتن یاہو کی اسرائیلی حکومت کو اس معاملے میں منفرد استثنا حاصل ہے۔ کیا نیتن یاہو امریکا کے اس سب سے نقص زدہ مستقبل کے صدر میں وہ کچھ دیکھتے ہیں جو ہم سب کو نظر نہیں آ رہا ہے؟
شاید ایسا نہیں۔انھیں ان کے اپنے تصور میں تخلیق کردہ قیادت کو دیکھنا چاہیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران وہی حربے آزمائے ہیں جو نیتن یاہو دو عشرے سے زیادہ عرصے کے دوران انتخابات جیتنے کے لیے بروئے کار لاتے رہے ہیں۔ جھوٹ ،دھوکے بازی ،نسل پرستی ،وعدے ،جن کو کبھی عملی جامہ نہیں پہنایا جائے گا اور اپنے کے لیے کام کرنے والوں کے ساتھ ناروا سلوک ،وہ مختصر مشترکات ہیں جو ان دونوں عمررسیدہ مگر دولت مند گوروں میں پائی جاتی ہیں۔ وہ اپنے اپنے معاشروں کے محروم اور پسے ہوئے طبقات اور اپنے اپنے ملک کے مستقبل کی نمائندگی کے دعوے دار ہیں۔
دونوں ''دوسروں'' کے بارے میں بہت ہی منفی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔اس وجہ سے وہ یقین کرتے ہیں کہ ان کے ملکوں کی سکیورٹی اور بھلائی کے لیے خدمات انجام دینے والے لوگوں میں دیواریں حائل ہیں۔وہ بات چیت کے ذریعے مشترکہ مفادات کو سامنے نہیں لاتے ہیں۔نیتن یاہو گذشتہ دو عشروں کے دوران دس سال سے زیادہ عرصے سے وزارت عظمیٰ پر فائز ہیں۔ان کے نقطہ نظر سے ان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ اس عرصے کے دوران میں وائٹ ہاؤس میں ڈیمو کریٹک صدور برسر اقتدار رہے ہیں۔ پہلے 1990ء کے عشرے میں بل کلنٹن صدر تھے اور گذشتہ سات سال سے زیادہ عرصے سے براک اوباما امریکی صدر ہیں۔ یہ دونوں صدور بنیامین نیتن یاہو ہی کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کی راہ میں حائل سمجھتے رہے ہیں۔
ان کے دور حکومت میں پہلی مرتبہ واشنگٹن میں ایک ری پبلکن صدر اقتدار پر فائز ہونے جارہا ہے لیکن اس مرتبہ یہ سب ایک بالکل ناقابل پیشین گوئی انداز میں ہو رہا ہے۔ایک ایسے صدر کا منتخب ہونا ،جس کو خارجہ امور کا کوئی علم ہے اور نہ مشرق وسطیٰ کی پیچیدگیوں کی تفہیم، یروشیلم کے لیے نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ٹرمپ نے اسرائیلی ،فلسطینی ایشو کے بارے میں اپنے نقطہ نظر میں تبدیلی لاتے ہوئے اپنی ''غیر جانبداری'' کا اعلان کیا اور پھر اسرائیل کے لیے غیرمتزلزل حمایت کا اظہار کردیا ہے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ انھیں یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ امریکا میں انتخابات کے دوران اسرائیل کے بارے میں غیر جانبدار رہنا ایک ایسے امیدوار کے لیے کوئی آپشن نہیں ہے جو جیتنا چاہتا ہے۔
نیتن یاہو کے مقرب سیاسی حلقے سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر صاحب کا کہنا ہے کہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل کے درمیان بہت سے معاملات میں یکسانیت پائی جاتی ہے جبکہ صدر اوباما کے ساتھ ان کا ایسا معاملہ نہیں تھا۔ ایک اور نے اعلان کیا ہے کہ اب فلسطینی ریاست کے نعرے کو دفن کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
نیتن یاہو حکومت اور اوباما انتظامیہ کے درمیان جن دو بڑے ایشوز پر ناچاقی پیدا ہوئی تھی،ان میں ایک مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی یہودی آبادکاروں کے لیے بستیوں میں توسیع اور دوسرا ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ تھا۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کی تحریک اور اس کے حامیوں کے لیے صدر اوباما ایک دشمن تھے کیونکہ انھوں نے اسرائیل پر دباؤ ڈالا تھا کہ ان میں مزید توسیع نہ کی جائے اور خاص طور پر مقبوضہ بیت المقدس کے گرد ونواح میں یہودی آبادکاروں کو نہ بسایا جائے۔
یہ دلیل دی جاتی رہی ہے کہ شاید نیتن یاہو امریکی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائے ہیں۔اس کو انھوں نے آبادکاری تحریک کے مسلسل دباؤ کو متوازن کرنے کے لیے مؤثر انداز میں استعمال کیا ہے۔

امن اور آباد کاری

اگر ٹرمپ کے قریبی مشیر جیسن گرین بالٹ کی یہ بات درست ہے کہ نومنتخب صدر اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ یہودی آباد کاری کی سرگرمی کی مذمت نہیں کی جانی چاہیے اور یہ کہ یہ امن میں رکاوٹ نہیں ہے، تو پھر اسرائیل میں ان کے انتخاب پر شادیانے بجنے پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔اوباما ایک حد تک یہودی آباد کاروں کے لیے تعمیرات کو محدود کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن اب یہ سب غیر موثر ہو کر رہ جائے گا۔
مزید برآں گرین بالٹ کے مطابق ٹرمپ اسرائیل کے اس بیانیے سے مکمل طور پر متفق ہیں کہ غزہ کی پٹی سے سنہ 2005ء میں انخلاء اور وہاں سے یہودی بستیوں کی مسماری کے بعد امن کے لیے کوئی پیش رفت ہونے کے بجائے حماس برسر اقتدار آ گئی تھی۔ تنازعے کا یہ سادہ تر نقطہ نظر ٹرمپ کی نئی انتظامیہ میں برقرار رہے گا۔نتیجتاً ،بندہ حیران وپریشان ہی ہوجاتا ہے کہ اسرائیل کو کس طرح فلسطینی سرزمین پر قبضے کو پھیلانے سے روکا جاسکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی وعدے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اگر تل ابیب سے امریکی سفارت خانے کو یروشیلم ( مقبوضہ بیت المقدس) منتقل کیا جاتا ہے تو یقینی طور پر یہ اقدام اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان ممکنہ امن سمجھوتے کے لیے آخری کیل ثابت ہوگا۔
ٹرمپ کی انتخابی مہم کسی جست سے خالی اور حماقتوں سے بھرپور تھی۔انھوں نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو ایک تباہی قرار دیا اور اس کو مذاکرات کے نتیجے میں طے پانے والی بدترین ڈیل قرار دیا تھا۔ انھوں نے اپنے ان دعووں کے حق میں کوئی جواز پیش نہیں کیا تھا۔یعنی اگر آپ ڈونلڈ ٹرمپ ہیں تو پھر آپ کو کسی منطقی وضاحت کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
نیتن یاہو ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کے خلاف مہم کی قیادت فرماتے رہے ہیں۔ نومنتخب امریکی صدر نے کہا تھا کہ وہ اس سمجھوتے کی شرائط پر دوبارہ مذاکرات چاہتے ہیں۔اس تحریک سے اس سمجھوتے ہی کو نقصان پہنچ سکتا ہے حالانکہ اس میں بعض نقائص کے باوجود بظاہر تمام فریق اس کی پاسداری کرنا چاہتے ہیں۔اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو شاید ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے والی چھے بڑی طاقتوں میں سے امریکا کو الگ تھلگ پائیں۔سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک اور جرمنی نے ایران کے ساتھ سمجھوتا طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔یہ اگرچہ نقائص سے مبرا نہیں لیکن اس کے باوجود اب تک اپنے مقاصد میں کامیاب رہا ہے۔
ٹرمپ کی انتظامیہ نے اگر اس سمجھوتے کو ختم کیا تو پھر کسی بھی امریکی انتظامیہ کے ساتھ سمجھوتوں پر دستخط ایک مذاق بن کر رہ جائیں گے کیونکہ اس کے بعد آنے والی انتظامیہ تو ان کو چیلنج کردے گی یا پھر انھیں مسترد کردے گی۔اسرائیلی فیصلہ ساز اس تجویز کے حامی ہیں کہ اوول آفس کا نیا مکین ایران کے ساتھ پیچیدہ سفارتی تعلق کو برقرار رکھنے کے بجائے کشیدگی کو ترجیح دے۔
اسرائیلی حکومت ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب پر شاداں وفرحاں ہے اور وہ نئے سال کے آغاز پر صدر اوباما کی صدارت کو الوداع کہنے کی تیاری کررہی ہے لیکن وہ یہ سب کچھ شاید غلط وجوہ کی بنا پر کررہی ہے۔ ٹرمپ بنک دیوالے سے ثمرات حاصل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں لیکن ان پر بہت جلد یہ راز کھل جائے گا کہ بین الاقوامی تعلقات میں جب آپ کی خارجہ پالیسی کا دیوالہ نکل جائے تو پھر کوئی دوسرا موقع نہیں آتا ہے۔
امریکا کی مشرق وسطیٰ کے بارے میں پالیسی بالعموم اور امن عمل کے حوالے سے بالخصوص پہلے ہی کسی ساکھ کی حامل نہیں ہے۔اگر ٹرمپ انتخابی راستے پر چلتے ہوئے اپنے غیر ذمے دارانہ وعدوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو امریکا کی خارجہ پالیسی کا مکمل طور پر دیوالہ نکل جائے گا اور اسرائیل میں جو لوگ ٹرمپ کی صدارت کا بڑے پرجوش انداز میں خیر مقدم کررہے ہیں،انھیں بھی پتا چل جائے گا کہ جب آپ کا قریب ترین اتحادی سیاسی دیوالیہ پن کا شکار ہوجائے تو پھر کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔
کالم نگار کی رائے سے ہمارامتفق ہونا ضروری نہیں ہے