دہشت گرد تنظیموں کو مسلم دنیا سے باہر پھینک دیں گے، ترک صدر
ترک صدر کا کہنا ہے کہ القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کو مغربی دنیا کی حمایت حاصل ہے، ترکی ان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کے بقول دہشت گردوں کو دنیائے اسلام سے باہر پھینک دیا جائے گا۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے پاکستان میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
اسلام اور دہشتگردی کا کوئی جوڑ نہیں
ترک صدر نے پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا کہ داعش اور القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور ترکی ان کے خلاف اندرون ملک اور شام میں کارروائیاں کر رہا ہے۔ ترک صدر کے بقول، ’’اسلام ایک پر امن مذہب ہے۔ اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بے گناہ انسانوں کو قتل نہیں کیا جا سکتا اور دہشت گرد معصوم لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔‘‘ ترک صدر نے مغربی دنیا کو تنقید نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’’مغربی دنیا ان دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ہے، داعش کے پاس جو اسلحہ ہے، وہ مغربی ممالک کی عنایت ہے، اس تنظیم کو مغربی دنیا کی حمایت حاصل ہے۔‘‘رجب طیب ایردوآن کے مطابق پاکستان، افغانستان، شام اورعراق دہشتگردی سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
گولن تحریک
انہوں نے اپنے خطاب میں مبلغ فتح اللہ گولن کی تحریک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گولن امریکا میں بیٹھ کر پوری دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔ ترک صدر نے کہا، ’’فتح اللہ گولن کی تحریک ایک دہشت گردانہ تحریک ہے، گولن نے اپنی سرگرمیوں کو 120 ممالک میں جاری رکھا ہوا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ حکومت پاکستان نے ترکی سے تعلق رکھنے والے ایک سو آٹھ اساتذہ اور ان کے اہلخانہ کو بیس نومبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ یہ اساتذہ پاک ترک اسکول نیٹ ورک میں پڑھاتے ہیں۔ اس اسکول پر شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس کا تعلق فتح اللہ گولن تحریک سے ہے۔ اس حکومتی فیصلے کے خلاف اسکول نیٹ ورک نے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ ترک صدر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خطاب سے قبل پاکستان کے وزیر اعظم کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا،’’ گولن تحریک سے منسلک کسی بھی تنظیم کو پاکستان میں جگہ نہیں ملے گی۔ پاکستان اور ترکی کے مابین جاری تعاون کے نتیجے میں ان اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کا خیال رکھا جائے گا۔‘‘ ترک صدر نے کہا کہ وہ اس معاملے پر متحد ہو کر فیصلہ لینے پر پاکستانی انتظامیہ کے شکر گزار ہیں۔
بہ شکریہ ڈی ڈبلیو
http://www.dw.com/ur/%D8%AF%DB%81%D8%B4%D8%AA-%DA%AF%D8%B1%D8%AF-%D8%AA%D9%86%D8%B8%DB%8C%D9%85%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85-%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7-%D8%B3%DB%92-%D8%A8%D8%A7%DB%81%D8%B1-%D9%BE%DA%BE%DB%8C%D9%86%DA%A9-%D8%AF%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%DB%92-%D8%AA%D8%B1%DA%A9-%D8%B5%D8%AF%D8%B1/a-36423845
No comments:
Post a Comment