Search This Blog

Tuesday, 7 August 2012

مسلم نوجوان میدان عمل میں آئیں

ماہِ رمضان مبارک میں تباہ حال مسلمانوں کی دست گیری ضروری
مسلم نوجوان میدان عمل میں آئیں


     بین الاقوامی سطح ہو کہ ملکی سطح۔ ہر چہار طرف امت مسلم ایک زبردست عبران سے گذر رہی ہے۔ اغیار، اسلام اور مسلمانوں کو ہر طرح کا زخم دینے کے لیے کیا کچھ نہیں کررہے ہیں۔ آج کا سپر پاور امریکہ و اُس کے حمایتی یوروپین حلیف ممالک مذہب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سب ساتھ ساتھ ہیں۔ ایسے میں اسرائیل کیوں تماشائی بنا رہے۔ اک طرف دشمنان اسلام کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہ بہیمانہ رویہ دوسری طرف بذات خود اسلام کے ماننے والے۔ اک کلمہ توحید کے ماننے والے، جغرافیہ، وطن، نسل، مسلک، زبان کے نام پر آپس میں سر پھٹول کر کے، جگ ہنائی کا سامان مہیا کررہے ہیں۔ جنہیں میرکارواں بننا تھا۔ وہ گرد کارواں بنے ہیں۔ آج بدقسمتی سے ہمارے ملک ہندوستان میں، مسلمانوں کی جو حالت ہے۔ جو کربناکی و اذیت سے بھرپور ہے۔ اس کا مداوا ہونا ضروری ہے۔ دوسری جانب برما میں لاکھوں مسلمان دُکھ، تکلیف، اذیت جھیل رہے ہیں۔ ہزاروں مسلمان ہتہ تیغ کردیے گئے۔ بھر گھر ہوئے۔ پڑوس میں مسلم اکثریت والا بنگلہ دیش ملک بھی انہیں پناہ دینے کو تیار نہیں۔ ہمارے ملک یوپی اور آسام میں، انسانیت پسندی کی دعویدار صوبائی اور مرکزی حکومت ہونے کے باوجود مسلمانوں پر بڑی افتاد آپڑی ہے۔ 2002ئ کے گجرات کے بھیانک فرقہ وارانہ فسادات میں، جس قدر مسلمان بے گھر نہیں ہوئے تھے۔ پناہ گزیں کیمپوں میں نہیں تھے۔ تقریباً 4لاکھ مسلمان پناہ گزیں کیمپوں میں، آج آسام میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے نام پر بے معصوم مسلمانوں کی گرفتاری کا سلسلہ رکتا نہیں۔ کتنے ہی معصوم بے گناہ مسلمان مہینوں برسوں جیل و قید کی زندگی گذارنے کے بعد رہا ہورہے ہیں۔ اُن کے خلاف پولس کے جھوٹے ثبوت عدالت کے سامنے ٹک پاتے ہی نہیں۔
    ماہِ رمضان کا مبارک مہینہ جاری و ساری ہے۔ سارے مہینوں میں انتہائی فضیلت کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں عبادت و نیکی کا اجر، اللہ کے یہاں کسی اور مہینے سے زیادہ ہے۔ مسلمان اک مسلمان کا بھائی ہے۔ اُن مسلمانوں کی فکر کرنا اور عملی مدد و تعاون کرنا ہمارا فرص اولین ہے، جو انتہائی دردناک دور سے گزر رہے ہیں۔ جو فرقہ وارانہ فسادات کا شکار ہیں۔ گھروں سے بے دخل کردیے گئے۔ جو نان وجوین کو ترس رہے ہیں۔ بدن پر کپڑے نہیں، ناتواں و ضعیف ہیں ،کہ معیاری دوائیں نہیں۔ بلا وجہ گرفتار کیے گئے ہیں۔ اُن کا اور اُن کے گھر والو ںکا کوئی پرسان حال نہیں۔
کرو مہربانی اہل زمین پر
خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر
    آج مسلمان، پورے ہندوستان میں جس دور سے گذر رہا ہے۔ وہ انتہائی بربریت، ظلم و ستم کا دور ہے۔ اسلام میں مایوسی کفر ہے۔ ہمت کی ضرورت ہے۔ ظلم و بربریت کے یہ بادل انشاء اللہ چھٹ جائیں گے۔ پیارے نبیۖ نے فرمایا ''بھوکوں کو کھانا کھلائو، بیماروں کی عیادت کرو اور جو لوگ ناحق قید کرلیے گئے ہیں اُن کیرہائی کی کوشش کرو۔'' (مسلم) اسی طرح اللہ نے فرمایا ''اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو!  اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو، میرے فرمانبردار ہوجائو۔ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ ہم مسلمانوں کو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ اُس کے قریب ہونا ہے تو پیارے نبیۖ کے فرمانبردار ہونا ضروری ہے۔
    آج سائنس کی بے پناہ ترقی کی بناء پر پوری دُنیا سمٹ کر گویا اک کمرے میں آچکی ہے۔ خبروں کے متعدد ذرائع انتہائی تیزی کے ساتھ خبروں کو اک جگہ سے دوسری جگہ ساعتوں میں پہنچا دیتے ہیں۔ آج جس قدر پوری دُنیا کی معلومات، جس قدر تیزی کے ساتھ ، تفصیل کے ساتھ مل جاتی ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہ تھا۔ پوری دُنیا اور ہندوستان میں مسلمانوں کا کیا حال ہے۔ وہ اچھی طرح سے موجودہ سائنسی ذرائع سے مل جاتا ہے۔ یقینا پوری دُنیا اور بذات خود ہندوستان میں مسلمانوں پر جو افتاد ، تکالیف ، پریشانیاں ہیں لگتا ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ ایسے پرآشوب دور میں ہم مسلمانوں کو اپنے اُن مسلم بھائیوں کو اکیلے بے یار د مددگار نہیں چھوڑنا ہے۔ آج یوم اعمال ہے۔ کل یومِ حساب (قیامت کا دن) ہوگا۔ ہمارے ہر اعمال کا حساب کتاب یوم حساب (قیامت) کو ہوگا۔
    پیارے نبیۖ نے فرمایا:  کہ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان بندے کو کسی ایسے موقع پر بے مدد چھوڑے گا جس میں اس کی عزت پر حملہ ہو اور اُس کی آبروُ  اُتاری جاتی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی ایسی جگہ اپنی مدد سے محروم رکھے گا۔ جہاں واللہ کی مدد کا خواہشمند (اور طلب گار) ہوگا اور جو (باتوفیق مسلمان) کسی بندے کی ایسے موقع پر مدد اور حمایت کرے گا جہاں اس کی عزت و آبرو پر حملہ ہوتو اللہ تعالیٰ ایسے موقع پر اس کی مدد فرمائے گا۔ جہاں وہ اُس کی نصرت کا خواہش مند (اور طلبگار) ہوگا۔ (سنن ابی دائود)
    نوجوان کسی بھی قوم و معاشرے کا پیش قیمت اثاثہ ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے اس پرآشوب دور میں مسلم نوجوانوں پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس ماہِ رمضان میں مسلم نوجوان بڑھ چڑھ کر نماز  روزہ کی پابندی کے ساتھ
    آسام ، یوپی، برما کے بے آسرا، بے یار و مددگار مسلمانوں کی درمہ درمہ سخنے بڑھ چڑھ کر مدد کریں گے۔ نیز وہ معصوم مسلمان جو بے گناہ جیلوں میں قید ہیں اُن کی رہائی کے لیے نمایاں عملی اقدامات کریں گے۔ نیز اُن کے افراد خانہ کی دست گیری میں آگے رہیں گے۔ تاریخ اسلام باصلاحیت مسلم نوجوانوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے۔

سمیع احمد قریشی
میٹ والی چال، روم نمبر68، دادا صاحب پھالکے روڈ، دادر، ممبئی
فون نمبر:  9323986725


ادارۂ فلاح الدارین بارہمولہ خدمات واصلاحات کا عنوانِ جلّی ہے

ادارۂ فلاح الدارین بارہمولہ
خدمات واصلاحات کا عنوانِ جلّی ہے

 جدیددنیا کے ہر معاشرے اور سماج میںغیر سرکاری بنیادوں پرایسی رضا کارتنظیمیں اور ادارے مصروف ِعمل ہیں جو سماج کے نادار،بے آسرا اور مفلوک الحا ل ضر ورت مندوں کی امداد واعانت کر کے اپنا انسانی فریضہ انجام دیتے رہتے ہیں اور یوں اپنے لئے دونوں جہانوں کی سرخروئی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔اس سلسلے میں یہ شعر اپنے اندر معانی کا ایک دنیا سموئے ہوئے ہے  ؎
دردِ دل کے  واسطے  پیدا کیا  انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں 
ان ہی غیر سرکاری تنظیموں کی فہرست میں دردِ دل رکھنے والی ایک تنظیم کا نام ہے’’ادارہ فلاحـــــــ الدارین‘‘ ہے۔یہ شما لی کشمیر کے ضلع بارہ مولہ میںنوجوانوں کی ایک فعال تنظیم ہے جو اپنے سرگرمیوںکے حوالے سے جھلملاتی اور جگمگاتی کہکشاں دکھائی دے رہی ہے۔ اللہ کی تو فیق سے اس تنظیم کی کار کردگی کو دیکھ کر یہاں کے با شعور عوام کو اس جماعت سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ ادارہ فلاح الدّارین کے نام سے بننے والی یہ تنظیم قصبہ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ،اسلام پسند ملازمین، دیندار تاجرین اور طلبہ و طالبات کے دم خم سے رواںدواں ہے،جو سب مل کرادارے کے اصلاحی اور فلاحی کا م انجام دینے میں پیش پیش رہتے ہیں ۔ ما شاء اللہ اس سے وابستہ مخلص نو جوانوں کے کردار میں نہ کسی قسم کا جھول ہے اور نہ ہی وہ کسی مخصوص مسلکی خول کی تنگنائیوں میںبند ہو کر ڈیڑھ انچ کی مسجد کی چہار دیواری میں خود کو گرفتار کئے ہوئے ہیں۔ بس یہ نو جوان خدا کی رضا اور معاشرے کی اصلاح کے لئے میدان میں آئے ہیں۔ شکر ہے کہ آ ج کے اس دور پر آ شوب میں ان پا ک نفوس میں جذبۂ ہمدردی، للٰہیت اور دین پسندی نہ صرف عیاں و بیاں ہے بلکہ پاکیزہ زندگی کی ہر جہت میں دن کے اجالے کی طرح ان کا  اصلا حی کام بھی نمایاں ہے۔
فلاح الدّارین اپنے ارد گردکے معاشرے میںبلا تمیز مذہب و ملت ،ذات پات اور رنگ و نسل لو گو ں میں خوشگوار تعلقات اُستوار کرنے اور معاشرے کو تمام برائیوں سے پاک و صاف کرنے ، منشیات کی لت میں ملوث نوجوانوں کواُس لعنت سے چھٹکارا دلانے اور اخلاقی بندشوں کی پٹری سے اُترنے والے بر گشتہ افراد کوپٹری پر واپس لانے کے لئے حتی المقدورر کام کررہا ہے ۔ دو نو ں دنیا ؤ ں کی بہتری اوراسلامی تہذیب کواپنی اصل روح کے ساتھ زندہ رکھنے کے لئے فلاح الدّارین مرد و خواتین کے ہفتہ وار چھوٹے بڑے اجتما عات منعقد کر تا رہتا ہے اور اس طرح عامتہ الناس تک اسلام کا آفاقی پیغام امن و انسانیت پہنچانے میں اپنا رول نبھا رہا ہے۔ان اجتماعات میں جہاں مسلمان کثرت سے شرکت کرتے ہیں،وہاں ہندو، سکھ اور عیسائیوں کے نمایندے بھی وقتاًفوقتاً شریک ہوتے ہیںاوران حوالو ں سے تنظیم کے اصلاحی اور فلاحی کاموں کی سراہنا کرنے میں رطب اللسان رہتے ہیں۔بارہ مولہ میں یہ واحد رضا کار تنظیم ہے ،جس کے اسٹیج پرہر مذہب کے دانشور،سر بر آوردہ شخصیات اور سول سو سائٹی کے جانے مانے لوگ آ کر جہاں باہمی بھائی چارہ کو فروغ دینے او ر معاشرے میں ہر قسم کے مخرب الاخلاق عادات و اطوار کا قلع قمع کرنے اور سماج کے پسماندہ جاتیوں کے مسائل و مشکلات کو انسانی بنیادوں پرحل کرنے پر زور دیتے ہیں ،وہیں ہر طبقۂ فکر بارہمولہ میں انسانی بنیادوں پراس ادارے کے ذریعے تواتر کے ساتھ کام انجام پانے کو وقت کی ایک اہم ضرورت سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔  
اﷲ کے یہ پُر اسرار بندے اپنے قصبہ اور مضافات کی بستیوں میں مفلوک الحال،نادار اور بے آسرا سماج کے تڑپتے اور بِلکتے افراد کی بلا تمیزِ دین و دھرم مالی معاونت کا بار اُٹھائے ہوئے ہیںاور کمال تن دہی سے بیمار انسانیت کے رِستے ناسوروں پر پھاہا رکھنے کا نیک کام انجام دیتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی شہری خواہ وہ کسی مذہب یا ذات برادری سے تعلق رکھتا  ہو، خدانخواستہ کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوجس کے علاج کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو ،ادارہ اُس کا علاج ومعالجہ کرانے میں پیش پیش رہتا ہے۔ ادارہ یہ کام محض اللہ کی خوشنودی، رسول ؐ کی اتباع اور آخرت کی کا میا بی پانے کے لئے مستقل بنیادوں پرانجام دے رہا ہے۔
اس ادارے کو چلانے کے ما لی وسائل میں بارہمولہ اور اس کے گرد ونواح میں رہنے والے وہ سینکڑوں مخیّرحضرات اور صاحب دل اصحاب کی داد ودہش پر منحصر ہیں جن کے سامنے اس ادارے کے وہ جملہ فلاحی کام واضح ہیں جن سے بارہمولہ کا معاشرہ مختلف عنوانات سے مستفیدرہا ہے۔ یہ امر بھی بلا اشتباہ ہر ذی شعور پرواضح ہے کہ اس نیک دینی وانسانی جذبہ کے آ فتاب پر آ ج تک کسی قسم کی سیاست یا گروہی وطبقاتی  مفادات کے بادل نہ چھا گئے اور ادار ہ کسی کا دُم چھلا نہ بنا…تمام سیاسیات اور ذاتیات سے بالاتر ہو کرادارہ کو عوام میں محض اپنے بے لو ث کام کی بنا پر بہ نظر استحسان دیکھا جا رہا ہے ۔  یہ ہو نا بھی چا ہیے کیو نکہ یہ ادارہ کسی مخصوص سیاست کا بھو نپو بجا کرمستقبل میں نہ کسی مخصوص سیاست کا میدان مارنے کادلدادہ نظر آتا ہے اور نہ ہی اس کے ارکان میں رائج الوقت سیاست سے کوئی دور کا بھی واسطہ ہے۔بس یہ خدا کی اس زمین پر اللہ کے اُس آفاقی پیغام کو سماج کے ہر انسان تک پہنچانے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتا ہے ،جو پیغام دنیائے انسانیت کے فلا ح وصلا ح کے واسطے اللہ کے آخری نبیؐ کے ذریعے  عالم انسانیت کو عطا کیا گیاہے۔ 
اس ادارے کے کئی شعبے سرگرم عمل ہیں۔ہر شعبہ دوسرے شعبے سے معنوی طور جُدا نہییں البتہ حدود کار متعین ہیں ۔کوئی شعبہ دین کا صحیح مقلّد بننے کے لئے تشہیر و تبلیغ کرتا ہے،کچھ اراکین معاونین بن کرسوسائٹی کے نا دار لوگوں کی دلجو ئی کرتے ہیںاورکچھ ایک سماج کے بے روزگار افراد کے روز گار کا بندوبست کرتے ہیں،کوئی شعبہ ایسے برگشتہ جوانوں کو راہِ راست پر لانے میں جُٹا ہواہے ،جو مخرّب ا خلاق برائیوں میں ملوث ہو کراپنے والدین اور سماج کے لئے دردِ سر بنے ہوئے ہو ں۔ اس حوالے سے یہ بات ڈنکے کی چوٹ کی کہی جاسکتی ہے کہ بفضل تعالیٰ بارہمولہ میں اس ادارے نے گزشتہ پانچ برس کے دوران دو سو سے زیادہ ایسے جوانوں کو خوش قسمتی سے منشیات کی لت سے نجات دلانے میں ایک قابلل اعتناء کام کیا ہے۔ یہ نوجوان یا تو غلط سوسائٹی کے سبب منشیات کے شکار ہو گئے تھے یا بے روز گار ہونے کی بنا پر اپنا غم غلط کرنے کے نتیجے میں نشے کے عادی بن گئے تھے۔اس کام میں ادارے کے اراکین کو ڈسٹرکٹ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بھی کونسلنگ کے ذریعے شاندار رہنما ئی کی۔ اپنے قصبہ سے منشیات کا قلع قمع کرنے کے لئے اس ادارہ نے ’’ڈرگ اڈیکشن ‘‘کا شعبہ قائم کر رکھا ہے جس نے آج تک لا ئق تحسین کام انجام دیا ہے۔ بارہمولہ کا یہی وہ خیراتی ادارہ ہے جو سال میں کم از کم چار بار بلڈ ڈونیشن کیمپ لگانے کا اہتمام کرتا ہے۔ یو ں ضلع ہسپتال میں ایسے مریضوں کی جان بچانے کاکام آ سان ہوتا ہے،جن کو جان کے لالے پڑگئے ہوتے ہیں۔یہی وہ ادارہ ہے جو اپنے قصبہ اور اس کے گرد و نواح میں رسوماتِ بد کے بے جا اسراف کا خاتمہ کرنے کے لئے سرگرم ہے ۔یہ بتا نے کی شاید ضرورت نہیں کہ شادی بیاہ کے مقدس رشتے کو یہی رسومات قبیحہ اوررواجات نا پسندیدہ غریب والدین اور ان کی با لغ اولادوں کے لئے وبالِ جان بنا رہے ہیں ۔اس معاشرتی وبا کو دور کرنے کے لئے ادارہ نے شعبۂ سماجی خدمات کے تحت ’’نکاح کونسلنگ سیل‘‘ کا قیام عمل میں لایا ہے جس کے ذریعے ادار ہ شرعی حدود کے اندرتمام بدعات اور اسراف سے اجتناب کرتے ہوئے شادیاں بھی کراتا رہتا ہے۔اس ادارہ کا ایک اور شعبہ بڑا ہی قابلِ توجہ ہے جو’’ کیرئر کونسلنگ‘‘ کے نام سے موسوم ہے ۔اس شعبہ کے ذریعے ملّت کے تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم نو جوانوں کو اُن کا مستقبل سنوارنے کے لئے کیرئر کی کونسلنگ کی جاتی ہے تاکہ وہ سماج میں ایک کامیاب شہری کے طور پر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ یہ ادارہ سماج میں صالح فکر پیدا کرنے کے لئے اکثر مساجد اور کھلے میدانوں میں اجتماعات اور جلسے منعقدکراتا رہتا ہے جس میں مرد و خواتین کے بیٹھنے کے لئے الگ انتظام کیا گیا ہوتا ہے۔ان اجتماعات میں سب سے زیادہ متاثر کُن وہ منظر ہو تا ہے جس میں بولنے والے علماء ،خطیب اور دانشور ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں ۔ اور اس خوشگوار طرزعمل سے واعتصمو بحبل اللہ جمیعاًًوّ ولا تفرقو کا سماں بندھ جاتا ہے۔
ادارہ فلا ح الدارین نے ۱۹۱۰ء ؁ میں چلنے والی طویل ہڑتال میں بے کار ہونے والے لوگوں میں پانچ ماہ کے دوران اللہ کی توفیق سے۱۶ لاکھ روپے تقسیم کر کے بارہ مولہ میں ایک بڑے بحران کو ٹال دیا۔ا ن دنو ں چونکہ حا لات بے قابو تھے، اس لئے ادارے نے خصوصی طورہسپتال میں زیرعلاج مریضوں اور اُن کی عیادت کرنے والوں کی طرف خصوصی تو جہ دی ۔ اس کام میں اس ادارے نے قصبہ کے کھاتے پیتے گھرانوں کا ایثار قابل تعریف رہا۔ اس ادارے کو اپریل ۲۰۱۱ ء تا جون ۲۰۱۲ ء تک عطیات،خیرات ،زکواۃ اورامداد کی صورت میں مبلغ/= 62,62239 روپے وصول ہوئے۔ اسی مدت کے دوران مبلغ57,40715/= روپے مختلف امدادی کاموں میں خر چ ہوئے۔ادارے کے مقررہ مدات پر صرفہ کرنے کا یہ سلسلہ اب تک جاری و ساری ہے۔
یہ تنظیم اصل میں ۹۰ء کے پراضطراب حالا ت میں معر ض وجود آ ئی ۔ اس کے قیام کا فوری محرک یہ بات بنی کہ اس پیچیدہ  فضا میں خیراتی ادارے اور مذہبی جماعتیں  یک بہ یک سماج سے کٹ گئی تھیں۔جب عام لو گ وقت کا جبر سہتے سہتے گھور اندھیروں میں بھٹک رہے تھے۔ اُس وقت بارہ مولہ کے یہ مٹھی بھر اسلام پسند نوجوان  محض فی سبیل اللہ حالا ت کے متا ثرین کی کما حقہ امداد کے سلسلے میں میدان میں کو د پڑے۔ انہوں نے لو جہ اللہ سماج کے تئیں بے لو ث خدمت گزاری کا جذ ب وجنو ں اپنے کمزور شانو ں پر اللہ کی تا ئید وحما یت سے لاد کر اور بنا کسی دنیو ی مفاد کے فلا حی مشن کا بیڑا اُٹھایا۔شکراللہ کا کہ تادم تحریریہ اپنے مشن کی آ بیاری میں صرف ایک اللہ کے واحد سہا رے سے آگے بڑھ رہے ہیں، انہیں سرد و گرم چشیدہ بزرگوں کا ساتھ اور رہنما ئی بھی مہیا ہے۔ ادارہ نے ۲۰۱۰ ء  میں اپنے دس سالہ سفر کے دوران مختلف پڑاؤ طے کئے اور بڑے انہماک کے ساتھ اپنی کار کردگی میں مزید تاثیراور چاشنی پیدا کر نے کی راہ پر برابر گامزن ہے۔ اس صبرآ زما سفر کے دوران ادارے سے جو بھی کمیا ں کو تا ہیاں رہیں ہو ں یا غلطیا ں سرزد ہو ئی ہو ں، خدا وندکریم ان کو معاف فرمائے۔۔اﷲ تعالیٰ اس ادارہ کے نوجوانوں کو نورِ بصیرت عطا کرے اور پیروں کا اُستاد بنا دے
…………
رابطہ نمبر :  ۵۶۴۹۱ ۹۸۵۸۳
Courtesy Kashmir Uzma - Srinagar

AMAN DUSHMAN AMERIKI SAMRAJ - KRISHN DEV SETHI

امن دشمن امریکی سامراج
فتن وفساد سے بھر ی دنیا پہ کس کا راج؟؟

ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میںنہیں جُزاز نوائے قیصری
                                     اقبالؔ
اس وقت عراق، افغانستان اور فلسطین وغیرہ میں جنگ اور جارحیت کے شعلے بھڑک ہی رہے ہیںجب کہ شام میں خون ریز خانہ جنگی جاری ہے ۔ اس سب کے پیچھے امریکی سامراج کی کرم فرمائی ایک عیاں وبیاں حقیقت ہے جو اپنے حقیرمفادات کے لئے اقوام متحدہ کو حسب سابق استعمال کر کے دمشق کے خلاف تحت براہ راست مسلح بیرونی مداخلت کے ضمن میں زور دار کوششوں میں مصروف ہے۔ امریکی سامراج اور سامراجی میڈیا شام میںانسانی حقوق کی پائمالی کا شور کچھ اس طرح مچارہاہے جیسے ان کے دل میں ساری انسانیت کا درد اترا ہو اور یہ بذات خود دودھ کے دھلے ہو ں۔ اس دکھا وے اور مگر مچھ کے ان آ نسو ؤں میں جذ بۂ خلو ص یاہمدردی کی مٹھاس گندھی ہوئی نہیں بلکہ یہ صاف طور دکھا رہا ہے کہ شام کے افسوس ناک حالا ت دیکھ کر ان کے منہ سے سامراجی مفادات کی رال ٹپک رہی ہے ۔ اس بات سے انکا ر نہیں کہ شامی صدر بشار الا سدکی سرکار کچھ فاش غلطیاں کر رہے ہوں لیکن اس زمینی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بنیادی طورپر سامراجی یلغار کی وجہ دمشق کی طرف سے امریکی سامراج اور اسرائیل کے مکروہ عزائم کی مزاحمت ہے۔ جس طرح لیبیامیں کرنل قذافی اورعراق میں صدام حسین کی حکو متو ں کے خلاف انسانی حقوق کی پائمالی کے خلاف واویلا کرکے بیرونی مسلح مداخلت کی راہ ہموار کرکے ان ممالک میں امریکی غلبہ قائم کیاگیا، اسی طرح کے سازشی ہتھکنڈے شام میںآ زما ئے جار ہے ہیں اور اگر یہ جا رحیت پسندانہ سلسلہ سامراجی ایجنڈے کے عین مطابق جارہی رہا تو اس کے بعد ایران کی باری آ نی ہی آ نی ہے۔ بہرصورت جدید دنیامیں مختلف تضادات اور تنا زعات کے پس منظر میں امریکی سامراج کے عزائم بدکی جانکاری حا صل کر نا اور دنیامیں مختلف برسر پیکار قوتوں کے توازن کو ذہن نشین کرنا اشد ضروری ہے۔
 کامریڈ مائوزے تنگ نے ’’تین دنیائوں‘‘ کاتصور پیش کیاتھا اور کہاتھا کہ دنیابھر کے عوام کومتحدہ ہوکر پہلی دنیا یعنی بڑی سامراجی طاقتوں کے خلاف جدوجہد کرنی چاہے۔ دنیا اسی تصور کے مطابق گھوم رہی ہے۔
 موجودہ عالمی صورت حال کوصحیح طورپر سمجھنے کے لئے مناسب ہوگا کہ کرئہ ارض زمین کی تین دنیائوں میں تفریق اور دنیا میں تین بڑے متضاد نظریات کا مختصر ساجائزہ لے لیاجائے۔
 پہلی دنیا:
جب تین دنیائوں کی تفریق کا نظریہ پیش کیاگیاتھا۔ اس وقت سوویت یونین اورا مریکہ دو بر تر طاقتیں تھیںجو ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لئے گتھم گتھا تھیں اور سرگرمی سے نئی جنگ کے لئے تیاری کررہی تھیں۔ یہ صورتحال پہلی دنیا کی تشکیل کرتی تھی۔یہ دنیاسب سے بڑے بین الاقوامی ظالم، جابر ، جارح ، استحصال کے شیدائی اور دنیا کی تمام اقوام کے مشترکہ دشمن کے طورپر وجود میںآچکی تھی۔ دونوںبلا کو ں کے درمیان دشمنی لازماً نئی عالمی جنگ کی طرف لے جارہی تھی۔ دونوں میںعالمی برتری یاچودھراہٹ کا سکہ جما نے کے لئے عالمی لڑائی تمام ملکوں کے لئے خطرہ بنی ہوئی تھی۔سوویت یونین اب زوال پذیر ہوچکی ہے۔ اب صرف امریکہ ہی سپر پاور کی حیثیت سے باقی ہے جو بدستور ایک خطرہ ہے اور عوام اس کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں ۔یہ آج کی عالمی سیاست کے لئے ایک  درد سر والامسئلہ بن چکاہے۔
 دوسری دنیا:
  ترقی یافتہ ممالک جاپان، یوروپ، اور کنیڈا درمیانی سیکشن کا تعلق دوسری دنیا سے ہے۔ یہ ملک تیسری دنیا کی مظلوم اور مجبور قوتوں پر ظلم وجبر کرتے ہیں اور ان کااستحصال کرتے ہیں۔ جب کہ امریکہ اور اس وقت کی سوویت یونین دوسری دنیا کے ملکوں کو بھی ڈراتے دھمکاتے اور کنٹرول کرتے تھے لیکن سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکہ واحد سپر پارو کی حیثیت سے انہیں اب بھی ڈراتا دھمکاتا رہتاہے اور کنٹرول کرتاہے۔ لہٰذا دوسری دنیا کے ملکوں جاپان، یوروپ اور کنیڈا کا کردار دوغلہ ہے۔ ان کا تضاد پہلی اور تیسری دنیا کے ساتھ بنتاہے لیکن پھر بھی وہ ایک طاقت ہیںجنہیں اپنی طرف جیتا جاسکتاہے یا جن کے ساتھ سپر طاقت امریکہ کے خلاف جدوجہد میں اتحاد کیا جاسکتاہے۔
تیسری دنیا:
 ہم تیسری دنیا ہیں۔ تیسری دنیا ایک بہت بڑی آبادی کی دنیاہے۔ سوائے جاپان کے ایشیاء کا تعلق تیسری دنیا سے ہے۔ سارا افریقہ تیسری دنیا میں ہے، لاطینی امریکہ بھی۔ چین اوردیگر مظلوم و مجبور قومیںجو دنیا کی گنجان ترین آبادی والی قوموں میں شمار ہوتی ہیں اور نہایت بری طرح استحصال زدہ ہیں اسی تیسر ی دنیا کی تشکیل کرتی ہیں۔ سوویت یونین کے علاوہ مشرقی یوروپ کی ریاستوں کے زوال کے بعد طاقت کے توازن کاجھکائو زیادہ تر امریکہ کی طرف بڑھ گیاہے اور اب برتر طاقت امریکہ کے خلاف عالمی جدوجہد میں تیسری دنیا سب سے اہم قوت کی حیثیت سے آمنے سامنے کھڑی ہے۔
 دنیا میں تین بڑے تضادات:۔
کامریڈ لینن نے جن تین بڑے تضادات کا ذکر کیاتھا وہ اب بھی دنیا میں تین بڑے تضادات ہیں۔ ان میں سے اصل یا بنیادی تضاد کی جونشاندہی کی گئی تھی وہ درج ذیل ہے:۔
(۱)۔ سرمائے اور محنت کے درمیان تضاد
(2) ۔سامراجی طاقتوں کے مابین تضاد
(3) ۔سامراج اور دنیا کے مظلوم ومجبور عوام اور قوموں کے درمیان تضاد۔
تین بڑے تضادات میں سے آخری تضاد اصل تضاد ہے لیکن کیا ان تضادات میںکوئی تبدیلی آئی ہے؟ یا آج کی دنیامیں یہ تضادات کس طرح کام کررہے ہیں؟
اس حوالے سے ہی جب ہم مغربی ممالک کی حقیقت پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں توبس یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ( اگر کوئی نوآبادیاتی یا نیم آبادیاتی ملکوں کی بات کرتاہے تو کرنے دیجئے ) وہاںکے محنت کش طبقے پر نہایت منصوبہ بندی اورمنظم طریقے سے حملہ کیاجارہاہے۔ سماجی بہبود ، سلامتی اور پنشن یا اسی طرح کے دیگر فوائد محنت کش طبقے کو فیاضیانہ تحائف کے طورپر نہ دئے گئے تھے بلکہ یہ عشروں کی انتھک جدوجہد اور جانفشانی کے بعد حاصل کئے گئے تھے۔ اب ہرشیٔ حملوں کی زد میں ہے۔ موجودہ حقوق پرحملے ہورہے ہیںاورنام نہاد نئی معیشت ( اصل میںنئی مشقت) محنت کش طبقے کے حقوق خواہ وہ کتنے ہی معمولی کیوں نہ ہوں، واپس چھیننے کے لئے برسرپیکارہے ۔
 مشرقی دنیا کے عوام کے ایک خاصے حصے کو یہ امیدتھی کہ ان کا مستقبل ڈالر اور یورو کے باعث روشن ہوجائے گا۔ سامراجی مجرموں نے غربت اور بے روزگاری سے فائدہ اٹھاکر اقلتیوں کے خلاف بدترین شکل کے تشدد کو ایجاد کیا۔ (جس طرح بھارت کے مغربی صوبہ گجرات میںمسلمانوں کاقتل عام کیاگیا) لیکن آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایسے واقعات اب ماضی کا قصہ بننا شروع ہوگئے ہیں۔ زندگی اپنے آپ کو منوارہی ہے۔ مشرقی یوروپ کا محنت کش طبقہ جس نے مغرب کو فریبِ نظر کے باعث قبول کرلیاتھا۔ اسے اب حقیقت کا سامنا کرنا پڑرہاہے اور محنت بالمقابل سرمایہ کا تضاد جاری ہے۔
 ۲۔سامراجی طاقتوں کے درمیان تضاد:۔
ساری دنیا کو باور کرایاگیاہے کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد سردجنگ ختم ہوچکی ہے۔ سامراجی طاقتوں کے درمیان کوئی تضاد باقی نہیںرہاہے۔ گویا سب کچھ مختلف ہے اوریکساں بھی، جس طرح برطانیہ من مانی سے انکل سام کی پیروی کرتاہے۔ اگرایسا ہی ہے تو پھر نیٹو کی توسیع کاکیا مقصدہے؟ یورو فوج جس کی بعض ممبران نے ابھی کمزور تجویز پیش کی ہے اور جس کی تیاری ابھی حقیقت سے بہت دور ہے ، اس کی وجہ تسمیہ کیا ہے ؟ یوروپین یونین کے لئے فرانس اور جرمنی کے درمیان کیا رشتہ ہے؟ یورو جس کابہت چرچاکیاگیاہے یوروپ کے سارے ملکوں نے اسے قبول کیوںنہیںکیا؟ شک پرستوں اور سٹہ بازوں نے نیٹو کی توسیع کے سلسلے میں اوباما اور پیوٹن کے درمیان معاہدے کے متعلق اپنے تجزئے کے ذریعے پہلے سے ہی ہوا خراب کرناشروع کردیا ہواہے لیکن یہ’’ معاہدۂ کچھ لو اورکچھ دو‘‘ اصل میں کیا ہے ؟ روس کے ساتھ معاہدے کرنے کی ضرورت کیوںپیش آئی؟ صرف اس معاملے میں ہی نہیں بلکہ کئی دیگر صورتوں میں بھی ایسے معاہدے کئے گئے ،جب کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد روس بہت کمزور ہوچکاہے۔ یا یہ اس حقیقت کی وجہ سے ہوا کہ روس اب بھی دو برترایٹمی طاقتوں میںسے ایک ہے۔
 مختصراً سامراج کا مطلب ہے جنگ ، اس لئے جب تک سامراج باقی ہے جنگ کا خطرہ بھی باقی ہے اور یہ جب اپنے انتہائی عروج کی شکل میں عیاں نہیںہوتا تب بھی کمزور صورت میں اپنے مقامی خدمت گاروں کے توسط سے قائم مقام جنگیں جاری رکھتاہے ۔ بعض اوقات یہ ممکن ہے کہ وہ یا ان میںسے کچھ ساز بازکرلیں لیکن سامراجیوں کے آپس میں تعلقات میں لڑائی جھگڑے کو بنیادی خدو خال کی حیثیت حاصل ہے۔ گو 1980اور 1970کی طرح مقابلے کی صورت کو جوفوقیت حاصل تھی اب نہیںہے لیکن سامراج طاقتوں کے مابین ابتدائی تضادہر طرح سے موجود ہے۔
۳۔جدید دنیا میں اہم ترین اصل تضاد اب بھی وہی ہے جس کی نشاندہی کئی عشرے قبل کی گئی تھی یعنی ایک طرف ساری دنیا کے مظلوم و مجبور عوام اور اقوام اور دوسری طرف امریکی سامراج کی سربراہی میں دیو ہیکل سامراجیت ۔ کہاجاتاہے کہ یوگو سلاویہ اور کا سوؤ کے خلاف جنگ گزشتہ صدی کی آخری جنگ اور افغان جنگ نئے ملنیٔم میں پہلی صدی کی پہلی جنگ ہے لیکن کیا یہ سچ ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر تمام تر فلسطینی عوام اور فلسطینی قوم کے خلاف نسل کشی کی جنگ کو کون سی جنگ کہنا چاہیے ؟اسے کون جاری رکھے ہوئے ہے؟پوری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کی پشت پناہی اولاً امریکی سامراج اور پھر اس کا چھوٹا حصہ دار برطانیہ بک رہاہے۔ آئے دن عالم گیر یت کی سامراجی منشا کی سرگرم طرفداری کرنے کے لئے ۔ یواین او (یونائٹیڈنیشن ) ڈبلیو ٹی ٹی او ، ڈبلیو بی، آئی ایم ایف جیسے سیاسی اور اقتصادی ادارے موجود ہیں۔ سیاسی اور اقتصادی جارحانہ جنگ کے نام پر اب جارحانہ فوجی کاروائی میںاضافہ کرنے کے بعد اسے برقراررکھنے اور مزید پھیلانے کے مقصد سے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اب جارحانہ فوجی کاروائی کا سلسلہ جاری ہے۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگن کے گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد انہیں فرضی بہانے کے طورپر استعمال کرتے ہوئے مکار امریکی سامراجی ،متکبرانہ اور گستاخانہ انداز میں بتارہے تھے :اگر تم ہمارے ساتھ نہیں توپھر تم’’ دہشت گردوں‘‘ کے ساتھ ہو، لہٰذا تم پر حملہ کر نا واجب ہے۔ وہ ریاستیں یا قومیں جو ان کے ڈاکو اور لٹیرے پن کی مخالفت کرتی ہیں ان پر ’’بدمعاش‘‘ ریاستوں کا لیبل چسپاں کردیا جاتاہے۔ چاہے وہ عراق ہویا شام ہو،شمالی کوریا ہویا کیوبا ہو یا ایران ہو۔گزشتہ صدی کے پچاس ویں اور ساٹھ ویں عشرے میں ان کی’’ مقدس‘‘ جنگ کمیونزم کے خلاف تھی اور موجودہ’’ مقدس جنگ دہشت گردی‘‘ کے خلاف ہے۔
امریکی سامراج دنیا کے عوام کادشمن نمبر ایک ہے۔ سوویت یونین کے خلاف اس نے عالمی کر تا دھرتا بننے کے لئے ’مسلم اتحاد ‘ کا ایجاد کیا۔ پاکستان کے توسط سے برسر پیکار جہادی عناصر کو خبر کئے بغیر بڑے فنکارانہ انداز میں اپنا تابع فرمان بنایالیکن فلسطین میں امریکہ کے کردار نے تمام دنیا میں غصے کی آگ کوبھڑکایا اور بن لادن سعودی عرب سے امریکی فوج کے نکل جانے پر افغانستان میںپائپ لائن کے منصوبہ سے کمائے جانے والے منافع میں حصہ داری کا مطالبہ کرنے لئے امریکہ کی نظرمیں ’’راکھشس‘‘ خیال کئے جانے لگے۔ ان کی مخالفت کرنے کے لئے پاکستان پر تو دبائو ڈالا اور خوف زدہ کیاجاسکتاتھا لیکن اس کے برعکس سعودی عرب جو مشرقی وسطیٰ میں امریکی مفادات کے لئے کیمپ مرید کی حیثیت رکھتاہے ، نے ایک مرتبہ انہیں سعودی عرب سے باہر نکال دیاتھا، نے بھی فلسطین میں امریکہ کے کردار کی کھلی مخالفت کی۔ کیا سعودی عرب کے حکمران طبقے کا کرداراب بدل گیاتھا؟ نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ فلسطین میںامریکہ کے جرائم کے خلاف عرب عوام کا مزاج نہایت ہی تندوتیز ہے ،اس لئے سعودی حکومت کوعوام کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کے لئے یہ پوزیشن لینی پڑی۔
گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد امریکہ کے برسر اقتدار طبقے کی طرف سے امریکی قوم کے ضمیر پر ’’معتصب قومی پرستی‘‘ کے خوب تازیا نے برسائے گئے لیکن چند مہینوںکے بعد امریکی دارالحکومت میں سے زیادہ لوگ احتجاج کے لئے جمع ہوئے۔ اسی طرح چالیس ہزار لوگوں نے فرانسسکو میں فلسطینیوں  کے حق میں مظاہرہ کیا۔
سامراج اپنی نشوونما کے دوران نئی شکلیں اور صورتیں اختیار کرتاہے۔ کرۂ ارض پر عوام الناس ایک بہت بڑی تعداد پر جبرا ً اور ان کااقتصادی سیاسی اور ثقافتی اورفوجی طورپر استحصال کرنے کے لئے واحد عالمگیر ریاست کی شکل میں نمود (گلوبلائزڈسٹیٹ) جدوید دور کے سامراج کی خاص علامت بن چکی ہے۔ دنیا جہاں ایک طرف دوسری عالمی جنگ کے آس پاس جمہوری تحریک اور قومی آزادی کی لہر اور دوسری جانب سرد جنگ کے دور میںسامراج کے مابین دشمنی سے متاثرہوئی تھی ، اب امریکی سامراج کی (دوسری قوموں پر) بالاداستی کے جال میںپھنس چکی ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی پر اجارہ داری کے ذریعہ نمایاں اقتصادی استحکام ، خاص کر امریکی سامراج کی دوسرے اہم سامراجی ملکوں پر فوجی برتری ،کثیر القومی مالیاتی سرمائے کا قومی سرمائے اور تیسری دنیا کی معیشت پر کنٹرول نیز عالم گیر پیمانے پر ثقافتی مداخلت کی بوچھاڑ وغیرہ دیگر ممالک پر بالادستی برقراررکھنے کے اسباب ہیں۔ اس فاشسٹ وضع قطع کے امریکی سامراج کی اساس سنگین نظریاتی بحران پرکھڑی کی گئی ہے۔ سامراجی سرغنے اب قرون وسطیٰ کے بے بصریت وجبریت کی تقلید وحمایت سے حکومت کرناچاہتے ہیں۔
 آج کے سائنسی دورمیں اوباما کی طرف سے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف نام نہاد صلیبی جنگ کا اعلان سامراج کے نظریاتی بحران کی گہرائی کو واضح کرتاہے۔ اس نئے گلوبلائزڈ سامراج کی انسانیت کی ترقی کے نئے دور کے طورپر تشہیر کسی بھی سطح سے کیوں نہ کی جائے ؟اَن گنت زندہ حقائق ،تجربے اور عمل نے یہ ثابت کردیاہے کہ یہ تنگی اور قابل نفریں قسم کی نوآباد کاری کے سواکچھ نہیں۔ نوے کے عشرے کے بعد غربت کے تیز کردہ عمل کے جال میں پھنسنے کے بعد دنیا کے عوام کی اکثریت کا معیار زندگی گر چکاہے۔ تیس ہزار بچے جو ابتدائی علاج سے بچائے جاسکتے تھے، روزانہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ عوام الناس کی بہت بڑی تعداد ناقص غذا کے باعث صحت کے مسائل سے دوچار ہے۔ 
 ان میںسے اکثریت ان کی ہے جو بمشکل چالیس سال کی عمر کوپہنچتے ہیں۔ تیسری دنیا کے بے شمار بچے، غلام بچوں کی حیثیت سے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے کے لئے کام کرنے پرمجبورہیں۔ روزانہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں نوجوان لڑکیوں کو عصمت فروشی کی طرف دھکیلا جارہاہے۔ نوجوانوں کی بے روزگار اکثریت ’’گلوبلائز ڈمزدور منڈی‘‘ میں ذریعۂ معاش کی تلاش میں مارے مارے پھررہی ہے۔ اس طرح انفرادیت پسندی اور آزاد خیالی کا نیا عالمی نظام صر ف اس حقیقت کی غمازی کرتاہے کہ یہ نظام پوری دنیا کے عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت کو ایک ہی کڑھائی میںتلنے کے عمل کو تیز کرتا چلاآرہاہے۔
ایک اور پہلو جو قابل توجہ ہے یہ ہے کہ امریکی سامراج کی گلا بلائزڈسٹیٹ ( جس کی افزائش دنیا کے ایک سو چالیس ممالک میں فوجی اڈے قائم کرنے کے باعث ہوئی ہے) قدرتی طورپر عالم گیر مزاحمت اور بغاوت کو معیار کے لحاظ سے لازمی اور ممکن بناچکی ہے ۔آج کسی بھی جمہوری یا قومی آزادی کی تحریک کا دنیا کے کسی بھی ملک میںکامیاب ہونا ممکن نہیں تاوقتیکہ یہ عالمی عوام کی مزاحمت کا لازم وملزوم حصہ بن کر آگے نہ بڑھے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے عوام سے لے کر دنیا کے ان تمام براعظموں تک جنہیں گلوبلائز ڈسامراج کے اس قسم کے جبر، جارحیت اور استحصال کا نشانہ بنایاجارہاہے، عراق میں نئے ویت نام کی حیثیت سے افزدوگی پانے والی مزاحمت اور افغانستان سے لے کر نیپال ،انڈیا ، پیرو،ترکی کی اور فلپائن کی انقلابی تحریکوں تک عوامی احتجاج کی زنجیر تک اور امریکہ سے لے کر یوروپ تک عوام کی بڑھتی ہوئی بے چینی، امریکی سامراجی اور اُس کے ایجنٹ اورصرف مقامی حکمران ہی ہر کہیں عوام کے مشترکہ دشمن ثابت ہوئے ہیں۔
تاہم آج کی دنیاکافیصلہ ایک طرف امریکہ سامراج کے ہاتھوںمیں کیا جارہاہے۔ (جو گلوبلائیز ڈریاست کی صورت میں آگے بڑھ رہاہے) اور دوسری طرف ا س کے خلاف عالمی جدوجہدہے۔ بہر حال اکیسویں صدی میںعالمی  فیڈریشن کے تصور کی نشونما تک اور اس کے جھنڈے تلے عوامی تحریکیں اورہر ملک کی قومی آزادی کی جدوجہد کا آغاز آج کی اشد ضرورت ہے۔
 بہر صورت آخرپہ ہم امریکی سامراج کو مائوزے تنگ کے الفاظ میں کاغذی شیر سمجھتے ہیں اور اس سلسلہ میں علامہ اقبال کے فکرانگیزاشعار کو دوہرانا چاہتے ہیں  ؎
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یارہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکارہوگا
 چلاگیاہے وہ دورساقی کہ چھپ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
 بنے گا سارا جہاں میخانہ ہر کوئی بادہ خوارہوگا
دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کہ بستی ودکان نہیں ہے
 کھرا  جیسے تم سمجھ رہے ہو وہ اک دن زر کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
 جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوںگا اپنے درماندہ کاروراںکو
 شررفشاں ہوگی آہ میری نفس میرا شعلہ بار ہوگا 

BURMA KE MUSALMANON KI HALATE ZAR

برماکے مسلمانوں کی حالتِ زار

عالمگیر آفریدی 
-’’برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر‘‘ کے مصداق آج ایک بار پھر ایک ایسی قوم اور مذہب کے پیروکاروں کی جانب سے روہنگیا (اراکان، برما) کے مسلمانوں کا خونِ ناحق بہایا جارہا ہے جنہیں فلسفۂ عدم تشدد کا پرچارک سمجھا جاتا ہے اور جن کی امن پسندی اور انسان دوستی کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ بدھ مت کے ان پیروکاروں نے گزشتہ دہائیوں کے دوران بالعموم اور گزشتہ دو ماہ کے دوران بالخصوص جس بڑے پیمانے پر برمی مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے اس پر عالمی ضمیر کی پراسرار خاموشی اور ان تمام واقعات کو برما کا اندرونی معاملہ قرار دے کر مسلمان ممالک کا اس پوری صورت حال پر غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا باعثِ تشویش ہی نہیں قابلِ مذمت بھی ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں ایک طرف برما کی حکومت اپنے شہری ماننے کے لیے تیار نہیں ہے تو دوسری جانب بنگلہ دیشی حکومت بھی لٹے پٹے روہنگیا مسلمان خاندانوں کو اپنے ہاں اسلامی اور انسانی بھائی چارے کی بنیاد پر پناہ دینے میں لیت ولعل سے کام لے رہی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ان کی سرحد پر پاکستان جیسی کسی اسلامی نظریاتی مملکت کا وجود نہیں ہے۔ بظاہر تو روہنگیا کے مسلمانوں کے اکثریتی علاقے اراکان کی سرحد بنگلہ دیش سے لگی ہوئی ہے لیکن بنگلہ دیش حکومت نے اپنی روایتی طوطا چشمی اور اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف برما کے ساتھ اپنی سرحد مکمل طور پر سیل کررکھی ہے بلکہ اراکان اور بنگلہ دیش کے درمیان واقع خلیج بنگال میں بھی اپنے کوسٹ گارڈز کی تعداد میں اضافہ کرکے سمندر کے راستے اراکانی مسلمانوں کے بنگلہ دیش میں داخلے کے تمام بحری راستوں کو بند کردیا ہے۔ بنگالی حکومت کی اس بے حسی اور برما حکومت کی اس سفاکی اور انتہاپسندی کے باعث آٹھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کی زندگیاں اور ان کی شناخت بہت بڑے المیے سے دوچار ہیں۔ غیر جانب دار بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق اب تک 20 ہزار سے زائد بے گناہ اور نہتے مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا جاچکا ہے، ہزاروں مسلمان مائوں اور بیٹیوں کی عزتیں تار تار کی جاچکی ہیں، ہزاروں بچے یتیم اور ہزاروں خواتین بیوہ بنادی گئی ہیں، مسلمان نوجوانوں کو چن چن کر ہلاک کیا گیا ہے، مسلمان بستیوں کو فوج اور پولیس کی نگرانی میں آگ لگا کر خاکستر کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روہنگیا مسلمان بے بسی اور مایوسی کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ اولاً تو انہیں اپنا قصور معلوم نہیں ہے کہ انہیں کس جرم میں مارا جارہا ہے، ثانیاً پوری مہذب دنیا بالخصوص اقوام متحدہ اور عالم اسلام اس سفاکی اور انسانیت سوز مظالم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر روہنگیا کے مسلمانوں کا جرم کیا ہے جس کی انہیں اتنی بڑی سزا دی جارہی ہے! روہنگیا کے مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ مسلمانوں کی وہ نسل ہے جو انتہائی امن پسند اور غیر متشدد واقع ہوئی ہے۔ ان سے اب تک ایسی کوئی بات یا واقعہ منسوب نہیں جس کی بنیاد پر ان کے خلاف تاریخِ جدید کی مغربی اصطلاحات یعنی تشدد پسندی، انتہا پسندی یا عسکریت پسندی کا الزام لگایا جاسکے۔ روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ یہاں نویں صدی عیسوی میں آباد ہوئے۔ برما کی حکومت نے شروع دن سے ان علاقوں کی ترقی اور ملکی معاملات میں ان کی شمولیت سے گریز کی پالیسی اپنائی، جس سے یہ علاقے نہ صرف انتہائی پسماندگی سے دوچار ہوئے بلکہ برما کی قومی وحدت کا حصہ بننے سے بھی محروم رہے۔ سانحہ سقوطِ ڈھاکا تک روہنگیا کے مسلمان کسی نہ کسی طرح مشرقی پاکستان کے ساتھ اپنے رشتے ناتے بر قرار رکھنے میں کامیاب رہے، لیکن بنگلہ دیش کے قیام کے بعد چونکہ وہاں خالص بنگلہ قوم پرست سیکولر عناصر چھا گئے اس لیے اُن کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کی پشت پناہی اور تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا گیا، اس کے علاوہ ان کے خلاف برمی حکومت کی درخواست پر بعض سخت اقدامات بھی اٹھائے گئے۔ برما کے مسلمانوں کا قضیہ سیاسی اور انسانی المیے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ قیادت کا فقدان ہے۔ اگر انہیں ایک مؤثر قیادت دستیاب ہوجاتی ہے اور پوری کمیونٹی اتفاق واتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی قیادت کے پیچھے کھڑی ہوجاتی ہے تو تمام تر مسائل اور مشکلات کے باوجود وہ نہ صرف دنیا سے اپنا وجود منوانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کو دنیا کے سامنے لاسکتے ہیں اور ان مظالم کے خلاف پُرامن سیاسی جدوجہد کے ساتھ مسلح مزاحمت کا مسلمہ حق بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ روہنگیا کے مسلمان اقوام متحدہ کی ہر تعریف کی رو سے نہ صرف اپنا ایک الگ مذہبی، لسانی اور قومی تشخص رکھتے ہیں بلکہ برمی حکومت کے مظالم کے خلاف انہیں اپنی بقا، خودمختاری، حتیٰ کہ آزادی کا بنیادی حق بھی حاصل ہے۔ برما کے مسلمان ویسے تو کئی حوالوں سے بدقسمت اور لاچار واقع ہوئے ہیں، لیکن ان کے ساتھ اسلامی ممالک نے جس بے رخی اور بے مروتی کا مظاہرہ کیا ہے وہ یقینا دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ عالم اسلام کے حکمران جو امریکی تابعداری میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، اور جو امریکی شہہ پر اپنے ہی مسلمان شہریوں اور برادر اسلامی ممالک کے خلاف مسلح جارحیت سے بھی دریغ نہیں کرتے ان کی جانب سے روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی اور اس ضمن میں اب تک اسلامی کانفرنس تنظیم کے حرکت میں نہ آنے سے اس بے جان اور بے روح تنظیم نے اپنی نااہلی اور اسلام دشمنی ایک بار پھر ثابت کردی ہے۔ سعودی عرب، ترکی،انڈونیشیائ، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے بڑے اسلامی ممالک کی روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی اور ان مظالم کے خلاف اپنی اپنی حکومتوں کی سطح پر آواز بلند نہ کرنے سے عام مسلمانوں میں اپنے بے ضمیر اور بے حس حکمرانوں کے خلاف نفرت اور انتقام کے جذبات میں یقینا اضافہ ہوگا۔ امریکا کو چین، ایران اور شمالی کوریا وغیرہ میں انسانی اور مذہبی حقوق پامال ہونے پر تو ہر وقت تشویش لاحق رہتی ہے لیکن اس کی جانب سے روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی اُس کی روایتی اسلام دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ برما کے مسلمانوں کی نسل کشی پر اب تک اقوام متحدہ نے جو منفی کردار ادا کیا ہے اُس نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کردی ہے کہ اقوام متحدہ کا کام محض امریکی مفادات کی تکمیل ہے۔ امریکہ کو جب بھی اپنے مفادات کے لیے کسی اسلامی ملک کے خلاف ننگی جارحیت کا مرحلہ درپیش ہو تاہے وہ اقوام متحدہ کی چھتری استعمال کرکے پوری دنیا کو دھونس اور طاقت سے اپنے ساتھ ملا کر اسلامی ممالک کے خلاف تباہی و بربادی کا محاذ کھول دیتا ہے۔ عراق، افغانستان، صومالیہ، لیبیا، شام، سوڈان اور یمن اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے دوغلے اور منافقانہ کردار کا اندازہ اس کی جانب سے انڈونیشیا اور سوڈان میں عیسائی اکثریتی علاقوں مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں وہاں کی حکومتوں کی مرضی اور منشا کے خلاف دو آزاد عیسائی ریاستوں کے قیام میں امریکی باندی کا کردار ادا کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کو فلسطین اور        کے 65سال پرانے تنازعات تو نظر نہیں آتے لیکن مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے تنازع کو راتوں رات حل کردیا جاتا ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی روک تھام اور وہاں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی سرگرمیوں کا آغاز، نیز وہاں کے مسلمانوں کو ان کے مذہب اور رسم و رواج کے مطابق عزت و آبرو کی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنا نہ صرف اقوام متحدہ کا فرض ہے بلکہ یہ اس کے مینڈیٹ کا بنیادی تقاضا بھی ہے۔ لہٰذا اگر اقوام متحدہ خود پر سے جانبداری اور اسلام دشمنی کا لیبل اتارنا چاہتی ہے تو اسے جہاں دیگر اسلامی خطوں کے مسائل پر توجہ دینا ہوگی وہیں روہنگیا کے مسلمانوں کی دادرسی اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے بھی آگے بڑھ کر اپنا نام نہاد عالمی کردار ادا کرنا ہوگا۔

Monday, 6 August 2012

عید کی خوشیاں

عید کی خوشیاں

-عبدالجبار خان
’’اجی! آج اکیسواں روزہ تھا۔ عید سر پر ہے، بچے کہہ رہے تھے نئے کپڑے بنوانے ہیں، جوتے اور دوسرا سامان بھی لینا ہے۔‘‘ غلام رسول صاحب گھر آئے تو افطاری کے بعد ’’بیگم رانی‘‘ نے بچوں کی فرمائشیں پیش کردیں۔ ’’ہاں رانو! آپ کو تو ابھی خیال آیا ہے اور مجھے پہلے روزے سے ہی اس کی فکر تھی۔ تمہیں تو معلوم ہے کہ میں ایک معمولی پولیس ملازم ہوں، تنخواہ سے بمشکل دال روٹی چلتی ہے، کوشش تو بہت کی کچھ بچت ہوجائے لیکن…‘‘ غلام رسول کی آواز بھر آئی… لفظ ’’لیکن‘‘ کے بعد جو کچھ غلام رسول کہنا چاہ رہے تھے، بیگم اُسے اچھی طرح سمجھ گئی تھیں۔ غلام رسول محکمہ پولیس کے ایک معمولی ملازم تھے، رشوت سے کوسوں دور، ہمیشہ ایک ایک پائی میں حلال کا خیال رکھتے تھے، تبھی تو آج عید کے کپڑوں کے لیے رقم کا بندوبست نہیں ہورہا تھا… ’’تو پھر کوئی انتظام ہوسکتا ہے؟‘‘ بیگم، کرسی کھینچ کر بیٹھ گئیں اور کپ میں چائے ڈالنے لگیں… انتظام! غلام رسول کے کانوں میں دوستوں کی آوازیں گونجنے لگیں، رفیق کہہ رہا تھا: ’’یار آج جیک لگ گیا ہے، پورے 25 ہزار لے کر ’’کالو خان‘‘ کو فرار کردیا ہے، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ذوالفقار بتارہا تھا ’’اس دفعہ تو اپنی عیدی بن ہی گئی ہے، پوری ایک کلو چرس شیدے پہلوان سے برآمد ہوئی تھی، دس ہزار وصول کرکے چھوڑ دیا۔‘‘ ندیم کیسے پیچھے رہتا، بولا: ’’آج ایک آدمی سے میں نے موبائل چھین لیا، آخر پولیس کی وردی میں تھا، بے چارہ کانپ گیا، شریف صورت آدمی تھا، بہت منتیں کیں اور پھر چپ ہوکر اپنی راہ لی، پورے چھ ہزار کا بیچا ہے، ایسے دو چار اور شریف ہاتھ لگ گئے تو اپنی عیدی پکی۔‘‘ رشوت، بدعنوانی، فراڈ، لوٹ مار… نہیں نہیں، ہرگز نہیں، یہ نہیں ہوگا، اللہ کو منہ دکھانا ہے… غلام رسول دوستوں کی باتیں سوچ کر بری طرح جھنجھلا گیا۔ ’’کیوں نا ہم قرض لے لیں، تنخواہ میں تھوڑا تھوڑا بچا کر واپس کردیںگے‘‘ بیگم نے رائے دی۔ ’’رانو بیگم! عید قریب ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، کس کے پاس اتنی رقم ہے جو ہمیں قرض دے گا!‘‘ غلام رسول کے چہرے سے مایوسی نمایاں تھی… ’’آخر کوشش کرنے میں کیا حرج ہے‘‘… ’’اچھا بیگم! آج ایک آدمی کے پاس جاتا ہوں، کافی کھاتا پیتا ہے، امید ہے قرض دے دے گا۔‘‘ ………٭……… ’’سلطان صاحب! آپ کو پتا ہے کہ میں ایک معمولی ملازم ہوں، عید سر پر ہے، بچوں کے کپڑے بنوانے ہیں، کچھ رقم قرض کے طور پر چاہیے۔‘‘ ’’جناب والا! واپس کب کرو گے؟‘‘ ’’سلطان جی! آئندہ ماہ جو تنخواہ ملے گی، آپ کا قرض چکا دوں گا۔‘‘ سلطان نے اپنے دونوں پائوں ٹیبل پر دراز کیے اور سگریٹ کا ایک بڑا کش لگاتے ہوئے دھواں سامنے بیٹھے غلام رسول کی طرف پھونکا اور کہا: ’’غلام رسول! زندگی اور موت کا کیا بھروسا، تم آئندہ ماہ تک زندہ رہنے کا تحریری ثبوت دے دو، میں تمہیں رقم دے دیتا ہوں۔‘‘ یہ سلطان وہی تھا، جس نے ایک مرتبہ غلام رسول کو ایک ناجائز کام کرانے کے عوض رشوت کی پیش کش کی تھی اور غلام رسول نے انکار کردیا تھا، آج اس نے پورا پورا بدلہ لیا تھا۔ غلام رسول کی زبان گنگ ہوگئی۔ وہ الٹے پائوں گھر واپس آگیا۔ ’’جی رقم کا بندوبست ہوا؟‘‘ بیگم نے امید بھری نظروں سے غلام رسول کو دیکھا۔ ’’نہیں بیگم! بچوں سے کہہ دو کہ تمہارا باپ تمہیں عید کے لیے نئے کپڑے بنواکر نہیں دے سکتا۔‘‘ غلام رسول چارپائی پر بیٹھا منہ دیوار کی طرف کیے ہوئے تھا اور ڈھیر سارے بے بسی کے آنسو اس کی خالی جھولی کو تر کررہے تھے۔ آخر پرانے کپڑوں میں ہی غلام رسول اور اس کے بچوں نے عید کی نماز ادا کی۔ گھر آئے تو سب سے پہلے بڑا بیٹا ابوہریرہ باپ سے ملنے آیا: ’’ابا جان! عید کی ڈھیروں خوشیاں مبارک ہوں۔‘‘ بیٹے کو عید والے دن پرانے کپڑوں میں دیکھ کر غلام رسول اپنے آنسو ضبط نہ کرسکا اور بولا: ’’بیٹا! تم کہتے ہو گے کہ باپ کتنا ظالم ہے، ہمیں عید والے دن بھی نئے کپڑے بناکر نہیں دے سکا۔‘‘ سعادت مند بیٹا جس کی رگوں میں حلال کمائی کا خون دوڑ رہا تھا، بڑے تحمل سے بولا: ’’نہیں ابا جان! آج ہمارا سر فخر سے بلند ہے کہ ہمارے باپ نے لوگوں کے مال میں خیانت نہیں کی، کبھی رشوت نہیں لی، لوٹ مار اور فراڈ نہیں کیا، ہمیشہ ہمیں حلال اور پاکیزہ لقمہ کھلایا۔ ابا جان! ہم آپ کی اس ایمان داری اور جرأت کو سلام کرتے ہیں۔‘‘ ’’شاباش میرے بچو! مجھے تم سے اسی جواب کی امید تھی۔‘‘ یہ سعادت مند گھرانہ دسترخوان پر بیٹھا دودھ والی سویاں کھاتے ہوئے عجب لطف محسوس کررہا تھا اور ساتھ ساتھ خوش گپیوں میں بھی مصروف تھا۔ اب ہر طرف مسکراہٹ ہی مسکراہٹ تھی، کیونکہ ان لوگوں نے عید کی حقیقی خوشیاں پالی تھیں۔