Search This Blog

Wednesday, 19 April 2017

طیب اردگان کی کامیابی : خدا جانے کتنی دعاؤں کا اثر ہے!

طیب اردگان کی کامیابی : خدا جانے کتنی دعاؤں کا اثر ہے!
مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری
ترکی کی سرزمین سے ہر مسلمان کوایک گہرا تعلق اور خصوصی دلچسپی ہے ،اسلامی تاریخ کی یادیں اس سرزمین سے وابستہ ہیں ۔اس لحاظ سے وہاں پیش آنے والے حالات وواقعات پردنیا کے مسلمان بالخصوص نظر رکھتے ہیں ،اچھی خبروں سے خوش ہوتے ہیں کامیابی اور ترقی کی اطلاعات سے مسرت محسوس کرتے ہیں ،اور مسلمانوں کے عروج وسربلندی سے عالمِ اسلام کے لئے فالِ نیک لیتے ہیں۔چناں چہ گزشتہ دنوں ترکی میں صدارتی نظام میں ترمیم کے مقصدسے ریفرنڈم ہوا،جس میں ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان کامیاب ہوگئے ،اردگان کی یہ کامیابی بہت بڑی کامیابی ہے ،اس کی وجہ سے ان شاء اللہ ایک نئے دور کو آگے بڑھنے اور کامیابی کے ساتھ سفر طے کرنے میں بڑی مدد ملے گی ،حیرت انگیز طور پر اس کامیابی کا اثر پوری دنیا میں محسوس کیا گیا اور مسلمانوں میں ایک خوشی ومسرت کی لہر دوڑگئی ۔خود ترکی باشندوں نے اس کامیابی پر صرف ظاہری خوشیوں کا مظاہرہ نہیں کیابلکہ وہ فرطِ جذبات میں اللہ تعالی کے حضور سجدہ ریز ہوگئے،اللہ اکبر کی صداؤں سے ترکی گونج اٹھا اورلوگوں کو اس فتح وکامیابی سے ایک حوصلہ ملا ۔
ترکی میں ریفرنڈم ہو ،کامیابی رجب طیب اردگان کو حاصل ہو اور دنیا کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں میں خوشی ومسرت پائی جانے لگے ،یقیناًیہ ایک حیرت انگیز بات ہے ،اگردنیا کے دیگر مسلمان طیب اردگان کی کامیابی پر خوشی محسوس کررہے ہیں اور اس کو ایک عظیم فتح سمجھ رہے ہیں تو اس کی ایک وجہ ہے ۔وجہ یہ ہے کہ ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایک طویل دور تک عظمتِ اسلام کا نشان رہنے والی اس سرزمین پر ایسی تیز وتند آندھیاں بھی آئیں کہ آمریت وجابریت کے علم برداروں نے الحاد ودہریت کی جڑوں کو مضبوط کیا ،اوربغاوت اور دین بے زاری کا ماحول پیداکرنے میں اسلام دشمنوں نے کو ئی کسر نہیں چھوڑی ،لیکن سخت ترین حالات ،آزمائش وامتحان کے کٹھن زمانہ میں بھی اس سرزمین پر ایمان کی خاموش محنتیں ہوتی رہیں،ایمان کی چنگاریاں بجھی نہیں تھیں ،اور حفاظتِ اسلام کی تڑپ رگ وپے میں باقی تھی،جانوں کا نذرانہ پیش کرکے نسلوں کے ایمان واسلام کا بیڑااٹھانے والے ترکی کے ایمان پسندوں نے بڑی قربانیاں دیں۔حالات ومشکلا ت سے گزر کر ترکی پھر اب ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہاں کے مسلمانوں کی بڑی تعداد پھر سے حرارتِ ایمانی سے سرشار ہورہے ہیں ،اس انقلاب کو برپاکرنے میں خاموش اور دور اندیش محنتیں اور کوششیں رہی ہیں ۔اور وہاں کے علماء ومفکرین اور مصلحین کی غیر معمولی جدوجہد رہی ،افراد کو تیار کرنے اور ان کے ذہن ودل کو اسلامی سانچے میں ڈھال کر تربیت دینے میں بڑی کوشش کی گئی تب جاکر آج آنکھوں کو یہ دلکش نظارے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
اسلامی انقلاب کے زیر اثر تربیت والوں میں ایک ’’رجب طیب اردگان ‘‘ بھی ہیں۔جو اس وقت ملتِ اسلامیہ کے ایک عظیم رہبر ورہنما اور قائد کی حیثیت سے پہنچانے جارہے ہیں ،وہ جہاں اپنے ملک کی ترقی ،نیک نامی ،اپنی لوگوں کی کامیابی ،ان کی عزت ،فلاح کی جدوجہدکرتے ہوئے دلوں پر حکمرانی کرنے والے بے مثال قائد بن گئے جنہیں ترکی کے لوگ دل وجان سے چاہتے ہیں اور ایک اشارہ پر انقلاب برپا کرنے لئے تیار ہوجاتے ہیں ،وہیں انہیں ہر مسلمان سے محبت ہے ،وہ ہر مسلمان کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھتے ہیں ،خنجر کسی پر چلے ،حالات کاکوئی بھی شکار ہو،دنیا کے کسی بھی خطے اور گوشے میں مسلمان ظلم وستم میں مبتلا سب سے پہلے اپنے درد وکرب کا اظہار کرنے والے اور مظلوم انسانوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرنے والے ایک مثالی قائد کی حیثیت سے اردگان نے اپنی پہنچان بنائی ہے۔اور یہ کوئی بناوٹ یا ظاہری ڈھونگ نہیں بلکہ ان کی انسانیت دوستی ،اورمظلوموں کی حمایت کا ثبوت ملکِ شام ،فلسطین ،برما وغیر ہ ہیں۔نیک دل اور معتدل مزاج ادرگان اس وقت دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے مسیحا وخیر خواہ سمجھے جاتے ہیں ،ان کے کتنے ویڈیواور تصاویر ہیں جنہیں آپ دیکھ سکتے ہیں جس میں وہ شام کے بے قصور انسانوں پر ہونے والے مظالم کو بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں ،فلسطینیوں کی حمایت میں سب سے پہلے رہنے والے اور وہاں کے انسانوں کو امن وامان دلانے کے لئے فکر مند رہنے والے اردگان ہیں،اپنی سرزمین کوانہوں نے مظلوم انسانوں کے لئے پناہ گاہ بنائی ،ان کو آباد کیا ،ان کے لئے سہولیتیں فراہم کی۔ابھی چند دن پہلے جب قاتل بشار الاسد نے زہریلی گیس کے ذریعہ حملہ کیااور بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتارا،جس میں بڑی تعداد میں معصوم بچے بھی تھے۔ صدر طیب اردگان سے کیمیائی حملوں کا شکار بننے والے 9ماہ کے جڑواں بچوں کے باپ عبد الحمید الیوسف نے ملاقات کی اور اپنے دکھ اور درد کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ:’’ہمیں امید ہے کہ دنیا ہمارے دکھ کو سمجھے گی،میرے بچے بہت خوبصورت تھے ،لیکن وہ پہلے بچے نہیں تھے جو اسد کے ظلم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں،ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ ہم کتنے صابر ہیں،اس جاری جنگ میں نہ ہم پہلے نشانہ بننے والے ہیں اور نہ آخری نشانہ ہیں ،چھ سال سے ہم اپنے بچوں کے لاشے اٹھارہے ہیں۔‘‘اس نوجوان نے فرطِ جذبات میں صدر طیب اردغان کی تسلی،تعزیت اوراظہارِ ہمدردری پر پیشانی کا بوسہ دیتے ہوئے کہاکہ:’’وہ اس کی آخری امید ہیں۔‘‘مظلوموں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کے لئے ان کا یہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ:سوئزرلینڈ کے شہر ڈیوس میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں اسرائیل کے صدر شمعون پیرز نے اپنی تقریرمیں کہاتھاکہ اسرائیل کو غزہ میں کئے گئے قتل عام پر کوئی شرمندگی نہیں ۔اگر ضرورت پڑی تو مستقبل میں بھی وہ اس طرح کے اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔اسرائیلی صدر کی وحشیانہ اقدام اور درندگی کے اعلان پر مشتمل اس متکبرانہ تقریر کا جواب دینے کے لئے اجلاس میں رجب طیب اردگان نے منتظمین سے وقت مانگا ۔منتظمین کے انکار پر وہ اجلاس سے یہ کہتے ہوئے واک آؤٹ کرگئے کہ وہ اس اجلاس میں آئندہ کبھی شریک نہیں ہوں گے ،چوں کہ اجلاس کے منتظمین کا رویہ مظلوم مسلمانوں کے خلاف اور ظالم اسرائیل کے حق میں جانب دارانہ ہے۔‘‘اس کے علاوہ بھی اردگان نے دنیا کے ہر علاقہ میں ہونے والے ظلم وتشدد کے خلاف کہا ہے اور مسلمان جہاں کہیں کا بھی ہو ،ان کے ساتھ برابر ہمدردی کا اظہار کیا اور جو کچھ وہ اور ان کی حکومت کرسکتی ہے اس کے کرنے سے بالکل بھی گریز نہیں کیا ،ظالموں کے خلاف صدائے احتجاج بلندکی ،مظلوموں کے لئے اپنے دروازے کھول دئیے ،خداجانے کتنوں کوانہوں نے سہارادیا،بے ٹھکانوں کو آباد کیا،بلکتے انسانوں کے آنسوؤں کو صاف کیا ،یتیم بچوں کو سینے سے لگایا،عورتوں کو عزت واکرام کے ساتھ زندگی گزارنے کا حوصلہ دیا۔اس وقت ترکی کی سرزمین شام کے مظلوم مسلمانوں کا دوسرا ٹھکا نہ ہے۔اردگان نے حکومت کا نظام سنبھال کر اپنی انفرادیت بھی بتائی ،لوگوں کے دلوں کو بھی جیتا ،مسائل ومشکلات کو بھی حل کیا،مغرب زدہ ذہنوں کو اسلام کی طرف لانے اور اسلامی فکر کو پروان چڑھانے کا عظیم کارنامہ بڑی حکمت،دوراندیشی کے ساتھ انجام دیااور دینے میں لگے ہوئے ہیں۔اردگان کی قیادت پر تبصرہ کرتے ہوئے عالم اسلام کے معروف قلم کار ومصنف مفتی ابولبابہ شاہ منصور لکھتے ہیں:’’عظیم ترک قائدرجب طیب اردگان کی قیادت وسیادت نے نہ صرف ترکی میں اسلامی تحریک کو منظم ومستحکم کیا ،بلکہ پورے عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک کے عوام کے اسلامی رجحان ومیلان کے لئے حوصلہ افزاترغیبی مثال پیش کی ہے۔اب ان ممالک کے عوام اورمخلص قائدین کے لئے انسانی فلاح وبہبود کا نمونہ امریکا،برطانیہ،فرانس اور روس وغیرہ نہیں رہے ۔ان کی نگاہیں ترکی پر ٹکی ہوئی ہیں۔اس وقت ہر ملک کے باشعور اور خوش حالی چاہنے والے افراد رجب طیب ارگان کی سی سحر انگیز اور کایاپلٹ قیادت کے طلب گار ہیں۔‘‘
اگر آج صدر رجب طیب اردگان نے ایک تاریخی کامیابی حاصل کی ہے تو جہاں اس میں ان کے خلوص ،درد وتڑپ ،ملنساری و معتدل مزاجی اورعوامی خدمات ومقبولیت کا دخل ہے ،وہیں اردگان کے لئے خدا جانے کتنی ماؤں،کتنے بچوں ،کتنے بوڑھوں،کتنے جوانوں ،کتنی عورتوں کی صبح وشام کی دعاؤں کا اثر ہوگا ،جن کے دلوں کو اردگان نے جیت لیا اور جنہیں ظلم وستم سے نجات دلاکر امن واطمینان کی زندگی گزارنے کے لئے اپنی سرزمین پر رہائش فراہم کی اور ظالموں کے چنگل سے نکالنے کے لئے ہرممکن تگ ودو کی۔محبت بانٹنے والے، ہر ایک کو ہنستا مسکراتا دیکھنے والے اورظلم کا نشانہ بنے دیکھ کر بے قرار وبے اختیار ہوجانے والے اردگان دعاؤں کے حصار میں ہے اور وہ بھی مظلوم انسانوں کی دعائیں ان کے لئے عظیم تمناؤں کے ساتھ ہیں ،اور بے شمار مسلمانوں کی دعائیں ہیں جو ان کی ترقی ،نیک نامی ،سلامتی کے لئے ہر وقت نکلتی ہیں کیوں کہ اس وقت ملتِ اسلامیہ کو ایسے ہی قائدین اور حکمرانوں کی ضرورت ہے۔خدا اردگان کو سلامت رکھے،اور پاکیزہ عزائم وبلند ارادوں میں کامیاب کرے۔آمین

یہی نا........ کہ نکلا پہاڑ کهودا چوها

یہی نا........ کہ  نکلا پہاڑ کهودا چوها
عزیزخان بڑیچ

 .جی هاں وہ معجزہ تم هی تهے کہ جس کو زمین پر  رونما هوجانے کی خاطر  کروڑوں اور اربوں  مرد و زن پیدائش کے عمل میں مشغول رهے.......
کیوں؟
تاکہ آخرکار  ڈرامائی اور معجزانہ طور پر سلسلہ آپ پر منتہج هو......
آپ ذرا اپنی  8 نسلیں پیچهے کی طرف دیکهے تو آپ دیکهه لوگے کہ اس دوران  250  مرد و زن  جمع هوجاتے ہیں جنکی برمحل مجامعت پر آپکی هستی کا دارومدار هے..

آپ  20 نسلیں پیچهے کی طرف سفر کریں تو دیکهوگے کہ  1048576  افراد فقط آپکی خاطر پیدائیش کے عمل میں مصروف ہیں.....

اگر آپ  25 نسلیں پیچهے تک دوڑے  تو  مرد و زن کا اک ٹهاٹیں مارتا هوا سمندر  یعنی   33 کروڑ  55 لاکهه 44 هزار 432  افراد کو صرف تمہاری پیدائیش کی خاطر تگ و دو  میں مصروف پاوگے......

اور پهر اس سے مزید پانچ نسلیں  یعنی  اگر آپ اپنے 30 نسلوں کا خاکہ بنانے کی کوشش کروگے تو  آپ یہ دیکهه کر حیران رہ جاوگے کہ صرف تیس نسلوں تک کا وہ سلسلہ جسکی آخری کڑی تم پر آکر سستانے لگی هے کی بطون میں ایک ارب سے بهی زیادہ یعنی   1073741824 خوابیدہ  مرد اور عورتوں کا صرف آپکو  زمین پر اتارنے کے ارمان، تگ و دو، خواهشات اور کاوشیں  لئے  آپکی شکل میں زمین پر رقصاں ہیں........ صرف اور صرف آپکی شکل میں......... یعنی اک تم  اور  اک ارب سے زیادہ لوگوں کے آپ پر احسانات.....

اور.....اور..... اور جب آپ تهوڑی سی همت کرکے  اپنی نسل کے  64 ویں  کڑی پر پہنچ جائے  تو اتنے لوگوں کا احسان کہ آپکے لئے تصور کرنا محال هوجائے..........
یعنی  ان لوگوں کی تعداد جن کے میل ملاپ کی بدولت آپ نے  عدم وجود سے هستی میں قدم رکها  اندازاا   1000000000000000000  اتنی بنتی هے  اور یہ تعداد ان لوگوں کی تعداد سے سینکڑوں گنا زیادہ هے جو کسی بهی وقت اس کرہ ارض پر موجود رهے............
یہ بات ذہین نشین رهے  کہ ان افراد میں  بهائی ، بہین، چچا ، پهوپهی ، خالہ  غرض کوئی بهی شامل نہیں سوائے  ماں اور باپ کے.........

کیا سمجهے؟؟؟؟؟ 
یہی نا......  کہ ان لاتعداد انسانوں کو مجهے اس دهرتی پر اتارنے کیلئے  کی خواهشات، ارمانوں، محنت اور احسانات کا نتیجہ یہ هرگز نہیں هوسکتا کہ..............  تم سارا دن کمانے اور پیسہ بنانے میں صرف اس لیئے صرف کردو  کہ پهر بیٹه کر آرام سے کهایا جائے اور راتوں کو سکون کی نیند سویا جائے... اور بس....

اگر هماری زندگی کا  75 فیصد حصہ  علم حاصل کرنے،  سیکهنے اور سکهانے، فطرت کے قوانین کو کهوجنے اور  عظیم فطرت سے هم آهنگ هونے کی تگ و دو میں نہیں گزررهی تو پهر کیا هے؟؟؟
 یہی نا........ کہ  نکلا پہاڑ کهودا چوها.

هاں آخری بات کہ پہاڑ کهودنے کے بعد چوهے کا منظر عام پر آنا بهی زیادتی هوگی.......... کیونکہ یہ بهی تو ممکن هے کہ  معلوم نہیں کتنے چوهوں کے بهی احسانات شامل حال هو......


Sunday, 26 March 2017

The ugly truths of manual scavenging

The ugly truths of manual scavenging





Despite technological advancements and increasing sensitivity to human rights, manual scavenging continues in the country, and with it, heart-wrenching death.


Though the jury is out on the origins of this inhuman practice of manual scavenging, the fact remains that it persists to this day despite being prohibited under a clutch of laws.

Courtesy The Hindu

http://www.thehindu.com/news/national/the-ugly-truths-of-manual-scavenging/article17666855.ece?homepage=true



The spectre of eviction that haunts Assam’s Bengali Muslims

ISSUE OF IDENTITY SOCIETY

The spectre of eviction that haunts Assam’s Bengali Muslims
Suvojit Bagch

Assam’s Bengali Muslims guard with their lives yellowing documents that prove they are Indian. But it is not enough to keep at bay the constant spectre of eviction

A sudden gust of wind swept up a bunch of worn-out papers at Firoza Khatun’s makeshift house. As the papers flew about, it was a brittle, four-square-inch paper in a blue plastic folder that Khatun and her husband Hanif Ali seemed to care about the most. Firoza ran after the yellowing, leaf-like paper and, much like a child catching a sparrow, she carefully trapped it in her palms.

The tiny piece of paper is the original National Register of Citizens (NRC), 1951, document that was prepared on the basis of independent India’s first census. It has Hanif’s father Altaf Ali’s name written on it in blue ink. The document states that Ali’s ancestors migrated to Assam from erstwhile East Bengal before the Partition. The NRC is being updated again now, so Firoza and Hanif must guard this paper with dear life to establish that they are indeed Indian citizens.

Such ancient documents, often illegible, are possessed in prolific numbers by Assam’s Bangladeshi Muslim immigrant families. “We are obsessed with identity and with papers,” said Ali with a smile.

The anxiety to possess proof of identity has never been greater for this community. The updated NRC will include the descendants of all those who were included in the 1951 register. But a vast majority of these immigrants have been described as ‘doubtful citizens’, and before the 2016 elections in Assam, the Bharatiya Janata Party (BJP) had announced clearly that its key objective was to evict “doubtful citizens” from all government land and ensure the “complete sealing of the Indo-Bangladesh border.”

So, the yellowing piece of paper could not stop Ali’s family from being evicted last September from Deosursang village in Nagaon district. His family now lives in lean-tos in Chikunipathar, where a dozen families were huddled together in the winter cold when we visited early this year.

****

In rhino land

In Banderdubi village, also on the edge of Kaziranga National Park and adjacent to Deosursang, Bimala Khatun’s son, 22-year-old Fakhruddin, stepped out of his hut to see the dozen excavators that had roared into his village. The excavators, escorted by nearly 2,000 policemen and at least a dozen elephants, had arrived to demolish the 200-odd houses made of tin and bamboo. As Fakhruddin stepped out, a stray bullet hit him in the neck. “I was cooking when I heard he was shot. I reached the spot in about five minutes, but he died almost instantaneously,” said Sufiya, his wife. When Bimala Khatun heard about her son’s death, her first thoughts were “about our identity papers,” she said.

Unofficial sources say that about 10,000 people have been evicted from roughly two dozen villages across Assam over the last six months. However, last month, the Assam government officially pegged the figure at 3,500.


In the villages around Kaziranga, the official statement is that these villages fall inside the boundaries of Kaziranga National Park. But the families dispute this. According to Ali, in the mid-90s, around 100 families had been settled in Deosursang by the then Circle Officer. The families allege that the boundary of the national park has been arbitrarily pushed south by about 500 yards and fenced in to displace them. “The police said our village was in the animal corridor, but the adjacent village of Baghmari was not razed. Why are some villages being left and others destroyed,” asked Md. Nizamuddin, a 55-year-old small farmer. He claims it is because his is a Muslim village while Baghmari is an ethnically mixed village.

Banderdubi has seen another death. Anjuma Khatun, 19, was shot dead when “she stood between the bullet and the peasant leader Akhil Gogoi,” said Ashraful Hussain, 24, a social activist. Her death has already become legend in the region.

Gogoi is widely seen by the predominantly Muslim villagers as putting up the only resistance to the administration’s eviction efforts. Anjuma’s death has convinced the villagers of Banderdubi and of the chars (islands) and chaporis (banks) along the river that Gogoi could have stopped the eviction by contesting the elections.

Gogoi, 40, belongs to the Krishak Mukti Sangram Samiti and was mentored initially by Anna Hazare. But he refused to contest the polls, emerging instead as an opponent to the administration’s large-scale eviction plans. He was arrested soon after he staged an agitation in Banderdubi. While in prison, Chief Minister Sarbananda Sonowal continued with the winter evictions. Gogoi was incarcerated for nearly three months. Eventually, a notice was issued to the Assam government by the National Human Rights Commission, but the evictions continued. “People must follow the law, and the State machinery must ensure maintenance of law and order so that all sections of society feel secure,” the Chief Minister said in the Assembly.

Assam’s latest eviction drama has no simple solution, as its roots lie in pre-independence India. It was in 1911 that the British Census Commissioners noted the migration from “overpopulated East Bengal” to the “labour-short, land-abundant Assam,” as mentioned by Assam’s foremost historian Amalendu Guha.

A year later, the Sylhet Division was carved out of Bengal and attached to Assam province. But the growth of the Muslim population proved threatening. “It was then that an open clash of interests began to take place,” wrote Guha in Planter Raj to Swaraj—Freedom Struggle and Electoral Politics in Assam 1826-1947. Eventually a ‘Line System’ was adopted in 1920 to settle immigrants in ‘segregated areas’ with 85% Muslims.

A debate brewed within the Congress. In 1937, Jahawarlal Nehru argued that “from the point of view of developing Assam and making it wealthier… immigration (from East Bengal) is desirable.” It was challenged by the country’s first President, Rajendra Prasad, who believed in populating the Brahmaputra valley with “Hindus of Bihar than Muslims of Mymensingh.” After decades, the cut-off date to accept immigrants was marked as March 24, 1971, a couple of days before the start of the Liberation War in Bangladesh.

Soon after Independence, the Congress opted for a similar large-scale eviction of settlers. “The (Gopinath) Bordoloi government’s routine measures to evict thousands of immigrant squatters from grazing and forest reserves… looked like a counter-measure to curb the (Muslim) League,” wrote Guha. Bordoloi, however, “wisely decided to go slow with the policy and was able to keep the province (Nagaon) free from communal riots.”

This tradition to “go slow” continued until the BJP decided to reverse it now. Even though identifying individuals who arrived after March 24, 1971, is a complex exercise, large-scale eviction has started. A notification in January announced that “encroachment” on government land “shall be removed forthwith by the Deputy Commissioner”. It is this move that threatens to dispossess tens of thousands of people today.

****

Cops in the schools

From a distance, Fuhuratoli, a village in Darrang district, looked like a large, unkempt graveyard. As we got closer, the dust mounds got bigger; they were the remains of what were once tin-roofed huts. On the vacant lot, six or seven girls were plucking yellow flowers from the grass. Their school, Fuhuratoli Primary, had been taken over.

“The police are staying there,” said Anisha Khatun, a Class IV student. Two fractured platoons of about two dozen central paramilitary forces were stationed in the school and in the madrassa to prevent villagers from resettling in Fuhuratoli. Before the eviction, Fuhuratoli had a little over 200 families living on a verdant highland that was about two sq. km in size. The greenery had now disappeared. A strong stench permeated the air in the new settlement lying in the lowland next to Nao river, a distributary of the Brahmaputra, with its polythene shanties that offered no protection against the biting cold. The villagers defecated in holes made on the banks of the Nao. A child had died of diarrhoea and cold, dozens were sick.

Khorshed Mollah is in his 70s. He said that he had moved house three times; living on the banks of the erratic Brahmaputra forces you to do so.

“In 1995,” said Mollah, “I was on the edge of the river in Ballakheti when the river took a turn and ate up our village; that’s when we came here. Now, after 22 years, we are described as encroachers,” said Mollah. The vagaries of the river seem to have been overlooked. Surveys suggest that erosion has created hundreds of new villages in the chars and chaporis, turning settlers to refugees or foreigners, depending on the day’s politics.


This is a key problem. Some 4.27 lakh hectares (or 7.4%) of land has disappeared into the Brahmaputra since the 1950s, widening the river by around 15 km in some places. “The people who lose land to the river set up new villages in new places and are often identified as ‘illegal immigrants’ when they are actually victims of erosion,” said a senior bureaucrat.

The Assam government agreed to rehabilitate “erosion affected families” in an earlier notification but, curiously, added that the order will not extend to those affected by “other natural calamities or man-made disasters.”

****

The cut-off date

The man instrumental in fast-tracking evictions insists that the papers the evicted villagers possess are not authentic. Supreme Court lawyer Upamanyu Hazarika launched Prabajan Virodhi Manch (Forum Against Infiltration) in 2013. He said that their papers are an act of “forgery”.

Hazarika also heads the one-man commission appointed by the apex court to look into the issue. He said that all the people were ‘encroachers’ who did not have land rights. “Otherwise, they would have got immediate protection from the court,” he said. “These people came in through a porous border and should go back the same way.” His forum, he said, is not attached to the BJP or the Rashtriya Swayamsevak Sangh.

Their agendas appear to overlap but as far as Hazarika is concerned, even Bangladeshi Hindus must not be allowed into Assam. “Narendra Modi said that Assam would not take immigrants—so act on that pledge,” said Hazarika.

Vijay Kumar Gupta, a BJP general secretary in Assam, differed. “Any Hindu from Bangladesh or any other country is our citizen,” he said, but Bangladeshi Muslims are “foreigners”. He insisted that the Assam Accord’s 1971 cut-off date be respected. Interestingly, Bengali-origin Muslims also say that they accept this cut-off date.

Meanwhile, the evicted people have gotten together to create a platform demanding compensation and rehabilitation and have even managed to get some recompense. But the Rs. 5 lakh she got makes little sense to Sufiya, Fakhruddin’s wife. “They can take back the money and return my husband,” she said.

As for the others, they continue to cling to blue, purple and yellow files filled with brittle documents, even though they have provided little protection so far.

suvojit.bagchi@thehindu.co.in

Courtesy The Hindu






Thursday, 16 March 2017

مرد مومن د زمانہ کے حق میں رحمت اور مظلوموں کا نجات دہندہ ہوتا ہے۔ ایاز الشیخ

 مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے ۔ 
 مرد مومن د زمانہ کے حق میں رحمت  اور مظلوموں کا نجات دہندہ 
ہوتا ہے۔ ایاز الشیخ

حیدرآباد ۔ ''اقبال کے کلام میں مرد مومن کی صفات اور خصوصیات کو کافی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے اور ان صفات کا بار بار تذکر ہ اس صورت سے کیا گیا ہے۔ کہ اس کی شخصیت اور کردار کے تمام پہلو پوری وضاحت سے سامنے آجاتے ہیں ۔ یہ مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے اور تربیت اور استحکامِ خودی کے تینوں مراحل ضبط نفس، اطاعت الہی،اور نیابت الہی طے کرنے کے بعد اشرف المخلوقات اور خلیفتہ اللہ فی الارض ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے''۔ان خیالات کا اظہار معروف اسلامی اسکالر، جناب ایاز الشیخ، چیرمین امام غزالی ریسرچ فاونڈیشن  وریزیڈنٹ ایڈیٹر یو این این نے 'اقبال کا مرد مومن کون؟ '  کے موضوع پر ، کانفرنس ہال جامع مسجد عالیہ عابڈس میں محفل اقبال شناسی کی ٨٨٩  ویں نشست کو مخاطب کرتے ہوئے کیا۔علامہ اقبال کے منتخب اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل مقرر نے کہا کہ ا قبال کا مرد مومن حیات و کائنات کے قوانین کا اسیر نہیں بلکہ حیات و کائنات کو اسیر کرنے والا ہے۔ قرآن مجید نے انسانوں کو تسخیر کائنات کی تعلیم دی ہے اور مرد مومن عناصر فطرت کو قبضے میں لے کر ان کی باگ اپنی مرضی کے مطابق موڑتاہے۔ وہ وقت کا شکار نہیں بلکہ وقت اس کے قبضہ میں ہوتا ہے۔ کافرکا کمال صرف مادہ کی تسخیر ہے لیکن مردمومن مادی تسخیر کو اپنا مقصود قرار نہیں دیتا بلکہ اپنے باطن سے نئے جہانو ں کی تخلیق بھی کرتا ہے۔ وہ زمان و مکان کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے ۔ عرفانِ خودی کے باعث اسے وہ قوت حاصل ہو جاتی ہے جس سے حیات و کائنات کے اسرار و رموز اس پر منکشف ہوتے ہیں اور اس کی ذات جدت و انکشاف اور ایجاد و تسخیر کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ وہ اپنے عمل سے تجدید حیات کرتاہے۔ اس کی تخلیق دوسروں کے لئے شمع ہدایت بنتی ہے۔ایاز الشیخ نے اپنا پر مغز خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ا قبال جسے مستی کردار کہتے ہیں وہ دراصل عمل اور جدوجہد کا دوسر ا نام ہے ان کے ہاں پیہم عمل اور مسلسل جدوجہد کو اسی قدر اہمیت دی گئی ہے کہ مرد مومن کے لئے عمل سے ایک لمحہ کے لئے بھی مفر نہیں۔مردمومن کی ذات میں جمالی اور جلالی دونوں کیفیات بیک وقت موجود ہوتی ہیں ۔ بظاہر یہ کیفیات متضاد نظر آتی ہیں لیکن بباطن یہ ایک دوسرے سے جد ا نہیں اور مرد مومن کی زندگی ان دونوں صفات کی حامل ہوتی ہے ۔ وہ درویشی و سلطانی اور قاہری و دلبری کی صفات کا بیک وقت حامل ہوتا ہے۔ اس کی سیرت میں نرمی اور سختی کا امتزاج ہوتا ہے اور اس کے مضبوط و قوی جسم کے پہلو میں ایک دل درد آشنا ہوتاہے۔جوبے غرض ، بے لوث ، پاک اور نفسانیت سے خالی ہوتا ہے۔ اسی لئے مرد مومن د زمانہ کے حق میںرحمت  اور مظلوموں کا نجات دہندہ ہوتا ہے۔مرد مومن جرات مند ، بے خوف اور حق گو ہوتا ہے ۔ اسے نہ جابر و قاہر انسان خوفزدہ کر سکتے ہیں اور نہ موت اسے ڈرا سکتی ہے۔ وہ ایمان کی قوت سے حق و صداقت کا پرچم بلند کرتا ہے اور شر کی قوتوں کے مقابلہ میں پوری قوت کے ساتھ اس طرح ڈٹ جاتا ہے کہ انہیں پسپا ہونا پڑتا ہے۔ اور پھر معاشرہ اسی نصب العین کی جانب رجوع کرتا ہے۔ جو مرد مومن کا مقصود زندگی ہے۔ اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ مرد مومن اور سچے مسلمان کے لئے اسلام نے جو معیار مقرر کیا ہے بنیادی طور پر اقبال نے اسی کو اپنا یا ہے۔اگر ہم اس معیار کو اپنا لیں توہمارے ظاہر و باطن میں انقلاب برپا ہو جائیگا اور مظلوم انسانیت امن و سکون سے ہمکنار ہوگی۔
قبل ازیں نشست کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ محافل عالیہ کے روح روں جناب غلام یزدانی ایڈوکیٹ نے مقرر اور موضوع کا تعارف کرایا ۔ شہر حیدرآباد و اکناف سے محبان اقبال و علم و ادب کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔دعا پر نشت کا اختتام ہوا۔ اس نشست اور محافل عالیہ کے تمام پروگرامس کی ویڈیو یوٹیوب پر دستیاب ہیں۔ اسکا لنک ہے https://www.youtube.com/user/mahafilealiya










Saffron storm in Uttar Pradesh - Zoya Hasan

Saffron storm in Uttar Pradesh

Zoya Hasan

U.P. has been the epicentre of identity politics, but this election exposed the limits of the politics of social justice

The big verdict in the big State is out. It highlights several important trends, which though specific to Uttar Pradesh, have implications far beyond it. The spectacular political triumph of Prime Minister Narendra Modi and the Bharatiya Janata Party (BJP) is the strongest evidence yet of the tectonic shift in progress since the 2014 Lok Sabha election; to all intents and purposes, the BJP’s resurgence in U.P. consolidates the rightward shift in Indian politics and alters the balance of power to its advantage ahead of the 2019 general election.

Nationalisation of elections
At a broader level, the historic outcome represents the nationalisation of State elections which is a key element of the BJP’s strategy to establish its electoral dominance across the country. The similarity in the national and State election outcomes indicates the re-nationalisation of elections. What underpins nationalisation? Mr. Modi was front and centre in the campaign; thanks to him, the party won a massive majority in a State election without a local face. People voted for Mr. Modi in the State election as though they were voting in a general election. This knocked out the earlier trend of regionalisation when people voted in the general election as though they were voting in State elections.

Also, people voted for Mr. Modi even though he has not done much to deliver on the promises of development, and moreover has not done much for U.P. But the public dissatisfaction with the incumbent State government was enough to persuade voters to believe the Prime Minister’s promise of development rather than either of the two State-based alternatives on offer. Polarisation was actively fuelled by communal appeals, with Mr. Modi taking the lead in stoking the feeling of discrimination against Hindus, pushing in the process a shift towards majoritarian consolidation. The election campaign which started on the high note of development then began to traverse the proverbial ground of polarisation. Not a single Muslim was given a BJP ticket. This sent a clear message that the BJP would not ‘appease minorities’, and that Muslims would be shown their place. Muslims have indeed been shown their place in this election.

As in 2014, it was not overt communalism or straightforward development rhetoric; it was a heady cocktail of both elements couched within a discourse of ‘communalised development’. This mix was dressed up in the political language of ‘nationalism’ which appeals to large parts of U.P.’s electorate. The secular parties were unable to offer an effective counter-narrative to this discourse.

In a surcharged political climate, the critical issue is not the project of ‘development for all’, but the prospect of development for certain groups cleverly articulated in the rhetoric of discrimination against none. The odious communal reference to graveyards and crematoriums in Mr. Modi’s Fatehpur speech repeated by BJP president Amit Shah immediately afterwards and laced with ‘KASAB’ left no scope for misunderstanding which way the politics of development was going. The mordant discourse split U.P., which was once defined by cultural syncretism and Ganga-Jumni culture, along Hindu-Muslim lines.

Marginalising Muslims
In the event, many voters were willing to buy into the BJP’s charges of minority appeasement. Muslims, on the other hand, were expected to vote en masse for the Samajwadi Party (SP)-Congress alliance in order to check the BJP’s advance but it seems this didn’t quite happen because many Muslims reportedly voted for the Bahujan Samaj Party. Nonetheless, the prospect of Muslim consolidation behind the SP was used as a rallying cry for the polarisation of Hindu votes.

While the BJP leadership was propagating its mantra of ‘development for all’, it lost no opportunity to indulge in ‘community-oriented developmentalism’ of its own. It repeatedly attacked the SP government for discriminating between Hindus and Muslims even at the level of providing basic facilities like electricity. The SP government released detailed data of electricity provisions during Eid and Diwali festivals, but it certainly didn’t stop the BJP from continuing to make wild charges of discrimination and giving the impression that it is the only party to challenge the patronage system practised by the SP and Congress. Undeterred by facts, it went on to complain that Muslims were the only ones to benefit from the Kanya Vidya Dhan Yojana, under which the U.P. government provides assistance of ₹30,000 to each girl student who has passed the 12th board examinations with distinction. It is evident that post-truth is having a field day in U.P. A blithe disregard for facts characterised the political campaign of the BJP in this election.

U.P. has been the epicentre of identity politics for over two decades but this election exposed the limits of the politics of social justice. The OBC and Dalit movement, which started off as a political voice of the marginalised social groups giving them a sense of participation in political affairs, had been reduced to the politics of reservations with benefits cornered by particular segments of these castes which alienated sub-groups within the wider category. The BJP was quick to take advantage of the discontent of large social segments with old style identity politics. Turning the politics of social justice on its head, the Rashtriya Swayamsevak Sangh (RSS)/BJP crafted a broad-based identity politics on the ruins of the old political order which had outlived its utility for a critical mass of OBCs. It mobilised a new bloc of voters by showering attention on the most backward among them — the non-Yadav OBCs and non-Jatav Dalits — that blunted the politics of BSP and SP in one stroke. The terms of engagement were unmistakably driven by identity and motivated by resentment towards Yadav-Muslim domination under SP rule. The BJP’s idea of community politics gained new traction as a large number of Hindu voters saw it as a more capacious identity which aligns them to a larger narrative than the fragmentation inherent in caste politics.

The strategy of reverse social engineering that Mr. Shah scripted was clearly aimed at mobilising the most backward castes, notably non-Yadav OBCs and non-Jatav Dalits, to capture the heartland State. In pursuit of this agenda, he distributed tickets copiously to non-Yadav OBCs and to non-Jatavs in reserved seats. Mr. Modi’s assiduous wooing of non-Yadav OBCs and Dalits convinced large sections of them to desert the SP and BSP in the 2014 Lok Sabha election and again in the 2017 Assembly elections.

The power of propaganda
Finally, the stunning victory emphasises the importance of propaganda and messaging. No one can match up to the appeal and the energy of Mr. Modi when it comes to non-stop election campaigning, and the organisational capacity of the RSS when it comes to relentless propaganda and booth management executed in this election by 1.4 lakh booth samitis. Demonetisation is a good illustration of the power of propaganda. Voters in U.P. seem to connect to Mr. Modi’s political messaging and were more than willing to forgive the hardships inflicted on them by notebandi.

In the end, a fractured opposition too helped the BJP. In a three-cornered contest, the BJP had a strong advantage. The party’s vote share jumped from just 15% in 2012 to 39.6% in 2017, which was large enough to win more than a three-fourths majority against a divided opposition. The combined vote share of the BSP (22.2%) and the SP-Congress alliance (28.2%) adds up to over 50%. The Opposition’s only hope of taking on Mr. Modi and the ruling party is to unite on a common platform and ensure that the vote is not split since 50% of voters have not been swayed by BJP’s ideology of ‘communalised development’, which is an essential part of its growth strategy.

Zoya Hasan is Professor Emerita, Centre for Political Studies, Jawaharlal Nehru University and Distinguished Professor, Council for Social Development, New Delhi

Courtesy: The Hindu



Thursday, 9 March 2017

ہر چوتھی عورت گھر میں تشدد کا شکار ہوتی ہے ۔ راکیش کمار مالویہ

ہندوستان میں  ہر چوتھی عورت گھر میں تشدد کا شکار ہوتی ہے!

راکیش کمار مالویہ 

ہم خوب یوم خواتین منا لیں، لیکن سچ تو یہی ہے کہ ہندوستان میں خواتین نہ گھر سے باہر محفوظ ہیں ، نہ گھر میں. حال ہی میں قومی خاندان صحت سروے کے نتائج جاری کئے گئے ہیں. ان نتیجوں میں تمام معیار تو یہی کہانی پیش کر رہے ہیں. یہ سروے خود بھارت حکومت پورے ملک میں کرواتی ہے. پچھلا سروے (تیسرا) 10 سال پہلے 2006 میں آیا تھا، 2016 میں اس 17 ریاستوں کے نتائج ہی جاری کئے گئے تھے، اب یوپی کو چھوڑ کر تقریبا تمام ریاستوں کے نتائج آ گئے ہیں . اس سے پورے ملک کی تصویر پتہ چلتی ہے. اس سروے میں بہت ہی چونکانے والے اور آنکھیں کھول دینے والے نتائج سامنے ہیں . آئیے یوم خواتین کے موقع پر خواتین سے متعلق معیار پر غور کرتے ہیں . تشدد کی شکار ہمارے ملک میں خواتین کی پوجا کی جاتی ہے، پر اصل میں انہیں کتنا احترام مل پاتا ہے. سروے کے مطابق بھارت میں 28 فیصد خواتین ایسی ہیں جنہوں نے کبھی نہ کبھی اپنے شوہر کے ہاتھوں مار کھائی ہے. سوچئے، جب گھر میں ہمسفر کے رویہ یہ ہوگا تو باقی لوگ کیا احترام کریں گے. 10 سال پہلے جب یہ سروے کیا گیا تھا، تب 37 فیصد خواتین ایسی تھیں جنہیں شوہر نے کبھی نہ کبھی مارا پیٹا گیا. ان 10 سالوں میں بہت کچھ بدلا، ترقی کی شرح اور جی ڈی پی میں اضافہ ہوا، ڈیجیٹل اور سمارٹ سٹيذ کے دور میں چلے گئے، لیکن یہ تصویر کتنے ہولے ہولے بدل رہی ہے. یہی نہیں، حمل میں، جب حاملہ خواتین کو بھاری وزن نہ اٹھانے کا مشورہ دیا جاتا ہے اس وقت بھی وہ ظلم برداشت کرتی ہیں. سروے کے مطابق حمل کے دوران بھی 3.3 فیصد خواتین کو تشدد کا شکار ہونا پڑا ہے. کیا یہ اعداد و شمار معاشرے کے لئے شرمناک نہیں ؟ کام کرتی ہیں ، ہاتھ نہیں آتی مزدوری خواتین کام تو خوب کرتی ہیں، لیکن ان کے ہاتھ میں مزدوری نہیں آتی. سروے کے مطابق ایسی صرف 24 فیصد خواتین ہیں، جن کے ہاتھ میں براہ راست طور پر مزدوری نقد آ جاتی ہے، اور زیادہ تر مقدمات میں عورت شوہر یا باپ یا دوسرے شخص ہی اجرت ہڑپ جاتے ہیں . مزے کی بات یہ ہے 10 سال پہلے 28 فیصد خواتین کو اجرت ان کے ہاتھ میں مل جایا کرتی تھی، اب یہ چار فیصد تک کم ہو گئی ہے. اس سے پتہ چلتا ہے کہ اب بھی معاشرے میں خواتین کے لیبر کا کوئی مول نہیں ہے اور جو مول ہے بھی تو اس پر ان کا اپنا کوئی حق نہیں .

یہ ضرور ہے کہ اب اجرت اور پینشن سکیم کو براہ راست ہت گراہی کے اکاؤنٹس سے جوڑ کر اسے پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن یہ قدم عورتوں کو براہ راست فائدہ پہنچانے کی توقع بدعنوانی روکنے کی کوشش کے طور پر زیادہ ہے، اس سے اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ خواتین کو ان کی اجرت ان کے ہاتھ میں ہی ملے گی. سماج اور خاندان کے ڈھانچے میں کرنسی کا کنٹرول مرد کی طاقت کے ہی ہاتھوں میں ہے. سروے کا ایک نقطہ اس کی تصدیق بھی کرتا ہے. خاندان میں فیصلے میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے جواب میں 16 فیصد خواتین نے جواب دیا کہ ان کے خاندان کے فیصلوں میں کوئی شرکت نہیں ہوتی. سروے یہ بھی کہتا ہے کہ 53 فیصد خواتین کے پاس بینک میں اپنا کھاتا ہے. اگر اکاؤنٹس میں براہ راست اجرت جمع کرنے کے نظام کو مثالی طور پر لاگو کر بھی دیا تو باقی 47 فیصد خواتین کے اکاؤنٹ کھولے جانے اور بینکاری خدمات تک پہنچ بنائے جانے کی ایک طویل راستہ باقی ہے، یہ حالات تب ہیں جب گزشتہ سالوں میں حکومت نے بڑے پیمانے پر جن دھن اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے کام کیا. اس کے باوجود بینکنگ سیکٹر کی بڑھتی ہوئی مشکلات اور بینکاری خدمات کے لئے تمام طرح کی فیس وصول کرنے کے درمیان یہ نظام تیسری دنیا کی خواتین کے لئے کتنی مشکل ہوگی، سمجھا جا سکتا ہے.  باقی خواتین ظاہر طور پر ایسی عورتیں ہی ہوں گی جو غیر ہنر مند علاقے کے کاموں میں لگی ہوں گی. ایسے میں واقعی میں خواتین کو بااختیار بنانے کا راستہ ابھی بہت لمبا ہے. صحت کے معیار پر بھی تصویر اچھی نہیں صحت سے متعلق نتائج بھی خواتین کی کوئی بہت اچھی تصویر پیش نہیں کر رہے ہیں . ہمارے ملک میں 53 فیصد خواتین خون کی کمی، یعنی خون کی کمی کا شکار ہیں ، 50 فیصد حاملہ خواتین بھی اینيمك پائی گئی ہیں . صرف 51 فیصد خواتین کو حمل کے دوران چار لازمی صحت جاچو کی سہولت مل پاتی ہے. 30 فیصد خواتین ہی آئرن پھلك ایسڈ کی 100 گولیاں استعمال کرتی ہیں . صرف 36 فیصد خواتین کو ادارہ درد زہ کے بعد زچگی فائدہ کے تحت مالی امداد ملتی ہے. یہ سب نتیجہ ہی خواتین کے حق میں تو نہیں ہیں . یہی نہیں ، حیض کے دوران محفوظ ذرائع 57.6 فیصد خواتین نے ہی استعمال کیا ہے. سالوں – سال مہم اور تشہیر کے باوجود صرف 20 فیصد خواتین کو ایچ آئی وی یا ایڈز کے بارے میں کوئی معلومات ہے. 22.9 فیصد خواتین کو باڈی ماس انڈیکس معمول سے کم ہے اور 20 فیصد خواتین ہمارے ملک میں موٹاپے کا شکار ہیں.

بچوں کی شادی کا دکھ بچوں کی شادی کی حالت بھی ایسی ہی ہے. سروے کے مطابق سروے کے وقت 26.8 فیصد خواتین ہیں، جن کی 18 سال سے پہلے کی عمر میں ہی شادی ہو گئی. آبادی کے اعداد و شمار میں بھی ملک میں تقریبا ایک کروڑ 22 لاکھ ایسے بچے نکلتے ہیں، جن کے ‘بال’ شادی ہوئی ہے. ان میں تقریبا 15 سال سے لے کر 19 سال تک کی 7.9 فیصد خواتین سروے کے وقت حاملہ پائی گئیں . ذرا سوچئے، جب 15 سال کی عمر میں ہی کوئی لڑکی ماں بن جائے گی، تو اس ملک کی بنیاد کس طرح مضبوط ہو گی؟ حقیقت میں خواتین کے دن (یوم خواتین ) کی اصل اہمیت  تبھی ہوگی جب ہم ان اعداد و شمار کو ٹھیک کر پائیں . یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔ 

Read more mazameen.com/oped/column/%db%81%d9%86%d8%af%d9%88%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%d9%85%db%8c%da%ba-%db%81%d8%b1-%da%86%d9%88%d8%aa%da%be%db%8c-%d8%b9%d9%88%d8%b1%d8%aa-%da%af%da%be%d8%b1-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%aa%d8%b4%d8%af.html

Friday, 17 February 2017

عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں بشارالاسد کی ریاستی دہشت گردی

عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں بشارالاسد کی ریاستی دہشت گردی

اے۔اے۔سیّد
 امریکہ، روس اور بڑی طاقتوں کی شام میں جاری جنگ میں عام مسلمانوں کا قتلِ عام ہورہا ہے۔ معصوم لوگ لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں جن کی اشاعت بھی مشکل ہے۔عالم اسلام اور بین الاقوامی صورتِ حال پر گہری نظر رکھنے والے صحافی مسعود ابدالی نے شام کے عقوبت خانے کی ڈیلی میل لندن میں شائع ہونے والی جو تصاویر شیئر کی ہیں وہ رونگٹے کھڑے کردینے کے لیے کافی ہیں کہ کس طرح بڑے سے ہال میں لوگ برہنہ حالت میں خون آلود پڑے ہیں۔ شاید ان میں سے زیادہ تر مرہی گئے ہوں گے، اور جو زندہ بھی ہوں گے وہ اپنی موت کی دعا کررہے ہوں گے کہ انہیں زندگی کی اس تکلیف سے نجات مل سکے جوظالم و جابر حکمراں کے ظلم کے خلاف احتجاج کرنیپر مل رہی ہے۔ شام میں روزانہ کی بنیاد پر بچوں کو ماؤں، بیویوں کو شوہروں کے سامنے قربان کیا جارہا ہے۔ شام سسک رہا ہے اور رو رہا ہے اور بدقسمتی سے امتِ مسلمہ کے حکمرانوں کو کیا، عوام کو بھی ان مظلوموں کے آنسو پونچھنے کا شعور نہیں ہے۔ امت کا درد ہے کہ بڑھتا جارہا ہے لیکن کہیں سے مرہم نہیں مل رہا کہ اس درد اور تکلیف کو کم کیا جاسکے۔ مسلمانوں کے خلاف مغربی دہشت گردی ہے جو تسلسل سے جاری ہے۔ امریکہ اور روس مسلمانوں کو مسلمانوں کے ذریعے مل کر گن گن کر اور چن چن کر تہِ تیغ کررہے ہیں۔ روس کے ساتھ شام، ایران اور عراق جیسے ملک ہیں، جب کہ روس کے خلاف امریکہ کی قیادت میں برطانیہ، سعودی عرب، اسرائیل اور مغربی ممالک ہیں۔ ترکی کا کردار اس معاملے میں کچھ مختلف ہے اور وہ کردار مثبت بھی ہے اور اس میں امتِ مسلمہ کی ترجمانی بھی ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے دل میں باقی نام نہاد مسلم ممالک کے حکمرانوں کے برعکس درد بھی ہے۔ 
شام کی جنگ اب عالمی سیاست کے کھیل اور گریٹ گیم کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں امریکہ اور روس کے درمیان پراکسی وار بھی ہے اور امتِ مسلمہ کو رسوا اور تباہ کرنے کا امریکی ایجنڈا بھی۔ شام میں اس عرصے میں پانچ لاکھ سے زائد شہری ہلاک، بے شمار زخمی اور معذور ہوچکے ہیں، ساتھ ہی بیس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ شام معاشی اور معاشرتی طور پر مکمل تباہ ہوگیا ہے۔ 2011ء سے پہلے شام میں 60 فیصد لوگوں کا تعلق متوسط طبقے سے تھا جو شامی معاشرے کا بڑا حصہ تھا۔ ان میں ڈاکٹر،انجینئر، اساتذہ، چھوٹے تاجر، دیگر شعبوں میں خدمات انجام دینے والے ملازمین شامل تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2016ء کے آخر میں یہ طبقہ شامی معاشرے میں صرف 9.4 فیصد رہ گیا تھا اور2017ء ان کے لیے مزید المیوں کا سال بنتا جارہا ہے۔ حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق شام کی ایک جیل میں خفیہ طور پر 13 ہزار کے قریب لوگوں کو پھانسی دی گئی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ پھانسی پانے والوں میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ ایمنسٹی کی رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ صیدنایا نامی جیل میں ستمبر 2011ء سے دسمبر 2015ء تک ہر ہفتے اجتماعی پھانسی دی جاتی رہی ہے۔ ان مبینہ پھانسیوں کی منظوری شامی حکومت میں اعلیٰ سطح پر ملنے والی منظوری کے بعد دی گئی۔ اقوام متحدہ کے حقوقِ انسانی کے ماہرین نے ایک برس قبل عینی شاہدین اور دیگر شواہد کی مدد سے رپورٹ کیا تھا کہ شام میں ہزاروں افراد کو حراست میں لیا گیا اور دورانِ حراست بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں 84 افراد کے انٹرویو کیے ہیں جن میں جیل کے سابق محافظ، حراست میں لیے گئے افراد اور جیل کے عملے کے ارکان شامل تھے۔ رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا کہ دارالحکومت دمشق کے شمال میں واقع جیل میں ہفتے میں ایک بار، اور کئی مرتبہ تو ہفتے میں دو بار 20 سے 50 لوگوں کو پھانسی دی جاتی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حراست میں لیے جانے والے افراد کو پھانسی دینے سے پہلے دمشق کے ضلع القابونی میں واقع فوجی عدالت میں پیش کیا جاتا، جہاں ایک سے تین منٹ کی مختصر سماعت ہوتی تھی۔
فوجی عدالت کے سابق جج نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا ہے کہ ’’زیر حراست افراد سے پوچھا گیا کہ مبینہ جرائم میں وہ ملوث ہیں کہ نہیں؟ اور اس پر اگر جواب ’ہاں‘ کے علاوہ ’نہیں‘ بھی ہوتا تو ان کو مجرم قرار دے دیا جاتا تھا‘‘۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ زیر حراست افراد کو پھانسی والے دن ہی اس کے بارے میں آگاہ کیا جاتا تھا اور انہیں وہاں سے سویلین جیل میں منتقل کیا جاتا جہاں ایک سیل میں ان پر دو سے تین گھنٹے تشدد کیا جاتا تھا، اس کے بعد درمیانی شب میں ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انھیں جیل کے ایک دوسرے حصے میں منتقل کیا جاتا تھا، جہاں ایک کمرے میں ان کی گردن میں پھندا ڈالنے سے چند منٹ پہلے انہیں پھانسی دینے کے بارے میں بتایا جاتا، اور اس کے بعد لاشوں کو ٹرکوں کے ذریعے دمشق کے ایک فوجی ہسپتال میں بھیجا جاتا، جہاں کاغذی کارروائی کے بعد فوج کی زمین پر واقع قبرستان میں اجتماعی قبر میں دفنا دیا جاتا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عینی شاہدین کی مدد سے حاصل کی جانے والی معلومات کی بنیاد پر اندازہ لگایا ہے کہ پانچ برس کے دوران تقریباً 13 ہزار افراد کو پھانسی دی گئی۔
اسی طرح ایک اور تازہ ترین رپورٹ میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے’ہیومن رائٹس واچ‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ شام کی سرکاری فوج نے گزشتہ برس کے آخر میں حلب شہر پر قبضہ بحالی کی جنگ کے دوران باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا جس کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 17 نومبر سے 13 دسمبر 2016ء کے دوران بشارالاسد کی فوج جنگی ہیلی کاپٹروں کی مدد سے حلب کی شہری آبادی پر ’کلور بموں‘ سے بمباری کرتی رہی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے ایک ویڈیو رپورٹ میں شہریوں کے بیانات، تصاویر، سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے بلاگز اور دیگر معلومات کی روشنی میں بتایا ہے کہ روسی فوج کی جانب سے شامی شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا تاہم شامی فوج نے حلب میں بے دریغ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق حلب میں شامی فوج کے ’کلور‘ بم سے کیے گئے ایک حملے میں چار بچوں سمیت 9 شہری جاں بحق اور 200 زخمی ہوگئے تھے۔ تنظیم کے ایمرجنسی شعبے کے ڈپٹی ڈائریکٹر اولی سولفانگ نے بتایا کہ شامی فوج کی اگلی صفوں میں موجود فوجی اہلکار کیمیائی ہتھیاروں کا اس طرح استعمال کرتے جیسے وہ کارروائی کا محوری حصہ ہے۔
خیال رہے کہ شامی فوج پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام پہلی بار عائد نہیں کیا گیا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بار بار یہ دعویٰ کرتی آرہی ہیں کہ فوج شام میں جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب اور ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کررہی ہے۔ اس میں کلورگیس سے تیار کردہ بموں کا استعمال بھی شامل ہے۔اس سے قبل اقوام متحدہ اور کیمیائی اسلحہ کے استعمال کی پابندی کی ذمہ دار تنظیم نے اپنی رپورٹوں میں بتایا تھا کہ 2014ء اور 2015ء کے دوران شامی فوج تین بار کلور گیس کے ذریعے باغیوں کے زیرکنٹرول علاقوں پر حملے کرچکی ہے جب کہ داعش نے بھی رائی گیس کے ذریعے متعدد بار حملے کیے ہیں۔ عالمی قوانین اور بین الاقوامی معاہدوں میں کلور گیس کا استعمال سختی سے منع کیا گیا ہے۔ 2013ء میں شام بھی اس معاہدے کا حصہ بنا جب کلورگیس کو ہائیڈرو کلورک گیس میں تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا گیا، لیکن شاید مسلمانوں اور مسلم ممالک کے لیے بڑی طاقتوں نے کچھ الگ سے قوانین بنا رکھے ہیں جس کا محور و مرکز مسلمانوں کو کمزور اور رسوا کرنا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ دنیا اس وقت اگر دہشت گردی اور ظلم میں گھری ہوئی ہے تو اس کا اصل ذمہ دار امریکہ ہے، یہ صرف ہم نہیں کہتے بلکہ وہ تاریخی حقائق اور شواہد کہتے ہیں جن کو خود امریکی دانشور بیان کرتے ہیں۔ پروفیسر نوم چومسکی جو ممتاز مصنف اور امریکی دانشور ہیں وہ امریکہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’اگر عالمی قوانین نافذ کیے جائیں تو امریکہ دہشت گردوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر آتا ہے۔ امریکہ نے دوسرے ممالک کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے وار آن ٹیرر کا ڈھونگ 1980ء میں رونالڈ ریگن کے دورِ حکومت میں شروع کیا جو آج تک جاری ہے‘‘۔ عراق پر امریکی حملے پر ان کا کہنا تھا کہ ’’2003ء میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بناکر نہ صرف عراق کو تباہ کردیا گیا بلکہ دس لاکھ عراقی شہریوں کو بھی موت کی نیند سلا دیا گیا‘‘۔ وہ تسلسل کے ساتھ یہ کہتے رہے ہیں کہ ’’عالمی رائے عامہ کے مطابق امریکہ عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ کوئی دوسرا ملک اس سلسلے میں امریکہ کے قریب بھی نہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی دہشت گردی کی مہم واشنگٹن میں چلائی جارہی ہے۔ یہاں دنیا بھر میں انسان کُشی (ڈرون حملوں) کے منصوبے بنائے جاتے ہیں‘‘۔ نوم چومسکی کے مطابق انہوں نے اس سے زیادہ دہشت گردی کہیں نہیں دیکھی۔ ولیم بیلم نے اپنی کتاب ’’روگ اسٹیٹ‘‘ اور نوم چومسکی نے اپنی کتاب میں امریکی دہشت گردی اور مختلف ممالک میں مداخلت کی 1889ء سے 2003ء تک مکمل فہرست پیش کی ہے، جسے پڑھنے کے بعد نوم چومسکی کے یہ الفاظ کہ ’’امریکہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ملک ہے‘‘ بالکل درست معلوم ہوتے ہیں۔
امریکہ کیا سوچتا ہے اور کس فلسفے پر عمل پیرا ہے، اس کا اندازہ toward hell Marching” ” کے عنوان سے لکھی گئی کتاب میں اہم اور چونکا دینے والی حقیقتوں کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ اس کتاب کا ذیلی عنوان ہے”America & Iraq after Islam” جس میں کتاب کا مصنف مائیکل شوئر (جو 20 سال سے زیادہ عرصے تک سی آئی اے سے وابستہ رہا، 1996ء سے 1999ء تک وہ سی آئی اے کے بن لادن یونٹ المعروف ’’الیک اسٹیشن‘‘ کا سربراہ بھی رہا، یہ یونٹ انسدادِ دہشت گردی کے مرکز میں اسامہ بن لادن کا پتا چلانے اور اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے قائم کیا گیا تھا، اس کے بعد مائیکل شوئر نے اسی یونٹ کے چیف ایڈوائزر کے طور پر ستمبر 2001ء سے نومبر 2004ء تک فرائض انجام دیے) لکھتا ہے:
’’آج سے پانچ سو سال قبل اٹلی کے سیاسی مفکر میکاولی نے اپنے پڑھنے والوں کو یہ بات ہمیشہ کے لیے ذہن نشین کرلینے کو کہا تھا کہ کسی بھی قوم کو دشمن پر غلبہ حاصل کرلینے کے بعد اس سے کسی قسم کے درگزر اور اچھائی کا برتاؤ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس سے پورا انتقام اس طرح کے سبق آموز اقدامات سے لینا چاہیے کہ موجودہ نسل کو پوری طرح نیست و نابود کردیا جائے تاکہ دشمن کی آئندہ نسلیں بھی آپ پر حملہ آور ہونے سے پہلے کئی بار سوچیں کہ کہیں انہیں بھی اپنے سے پہلی نسل جیسے انجام سے دوچار نہ ہونا پڑے‘‘۔
غالباً آج کے امریکیوں کی حالتِ زارکے بارے میں اس سے اچھا اگرچہ ذرا سخت الفاظ میں بیان ممکن نہیں، جو خانہ جنگی کے زمانے کے ایک جرنیل فلپ ایچ شریڈین نے اپنی یادداشتوں میں تحریر کیا ہے کہ ’’کسی بھی اچھی جنگی حکمتِ عملی کے لیے دو باتیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ پہلی یہ کہ دشمن پر جس قدر ممکن ہوسکے بھاری ہاتھ ڈالو، اور جب ایک بار وہ تمہارے قابو میں آجائے تو اس کے ملک پر اتنے مصائب نازل کرو کہ وہاں کے عوام اپنے حکمرانوں سے یہ مطالبہ کرنے لگیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو وہ انہیں ان مصائب سے نجات دلائیں۔ وہاں کے لوگوں کے پاس سوائے ماتم کے اور کچھ نہ رہنے دو۔‘‘
یہ سوچ اور اس کے مطابق آج امریکہ اور مغرب کا عمل ہے کہ جس کے نتیجے میں امتِ مسلمہ میں موت کا رقص جاری ہے اور انہوں نے مسلم ممالک کے حکمرانوں کو غلام بنا کر رکھا ہے۔
جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ اور روس کے شام میں اپنے اپنے مفادات ہیں جس کے لیے وہ مسلم ممالک کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے ساتھ مل کر عراق اور افغانستان اور کئی اسلامی ممالک کو برباد کرکے شام کو بھی تباہ کررہے ہیں، وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مغرب بحیثیتِ مجموعی امتِ مسلمہ کا دشمن ہے اور تاریخی طور پر وہ اپنی دشمنی نبھا رہا ہے۔ اسلام کو دہشت گرد مذہب قرار دینا ڈونلڈ ٹرمپ کا کوئی جذباتی نعرہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک مکمل فریم ورک اور ایجنڈا موجود ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ امتِ مسلمہ یہ لڑائی کس طرح لڑے اور شام سمیت تمام اسلامی ممالک کا امن کس طرح بحال ہو؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کو اپنے لیے جینے کے بجائے امت کے لیے جینے کی سوچ پیدا کرنا ہوگی، امت کے درد کو محسوس کرنا ہوگا اور عالم اسلام کے حکمرانوں کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ غلامی کا طوق اتار کر پھینکیں۔ شام اور برما میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے اور عالم اسلام کے حکمرانوں نے امت کے مسائل پر خاموشی اختیار کررکھی ہے، مسلم حکمرانوں کو عالم اسلام کے لیے، ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے لیے اقوام متحدہ کے اندر اپنا حق مانگنا ہوگا، ورنہ اپنی الگ عالمی تنظیم بنائی جائے، حکمرانوں کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ غلامی چاہتے ہیں یا آزادی؟ مسلمانوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم، مشترکہ معاشی منڈی اور مشترکہ فوج بنانے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے لیے زندگی کا واحد راستہ اتحاد و یکجہتی ہے۔

Sunday, 29 January 2017

5,000 sacked for demanding higher wages

5,000 sacked for demanding higher wages: 
The human cost of Bangladesh's $27-billion garment industry

In December, the government responded to a peaceful strike by workers with use of force, legal action and arrests.









Supplanting India, Bangladesh is currently the second largest exporter of readymade garments in the world. This principal source of foreign earning brought in $27 billion in 2016, and the target is to swell that to $50 billion by 2021, the year the country turns 50. A billion dollars for each year of independence lends poetry to capitalism, but fails to account for the true, human cost of production in a country that is the byword for cheap labour. When the demands of workers for respect and higher wages took the shape of peaceful protests in December, the nationwide refusal to entertain these was indicative of the commonplace myopia of the industry having evolved into an endemic blindness about it.

On December 12, workers at various factories in Ashulia, an unplanned industrial zone that has mushroomed in what is considered greater Dhaka, went on strike for a fortnight. The strike action amounted to workers walking out of factories and refusing to work. On the ninth day, 84 factories availed themselves of the provisions of the Labour Act and, terming the actions of the workers illegal, stopped production while pursuing legal action against them. The lifeless structures resumed their soulless existence when they reopened on December 26, Boxing Day.

The resolution, if euphemism can stretch far enough for what happened to be called that, was a unanimous refusal to countenance a wage rise, and 59 factories dismissing up to 5,000 workers. The names of those made redundant were circulated among owners, to prevent them from seeking employment in the industry again, while their numbers were downplayed.

The labour minister was emphatic in his support of the stance taken by the factories, reaffirming that, like the Labour Act, serving the labourers did not fall within his remit. The factory owners and the government were complemented in their efforts by foreign voices espousing the virtues of free market capitalism about a global apparel market valued at over $3 trillion. Centuries ago, these brilliant minds were championing colonialism, to civilise the barbarians of the third world. Capitalism is their cause in the present day. Their deliberate ignorance of how much of that money reaches the workers in a country with one of the lowest minimum wages of the worldwide industry is a reminder of the central flaw of their argument: workers are chattel in a profit-maximising system that eschews egalitarianism for accumulation of wealth at the top. Being humane is a needless inconvenience, if not an outright weakness, in this environment.

In addition to demanding an end to harassment and oppression in the workplace – more widespread than the middle and upper classes of Bangladesh are willing to acknowledge – the workers wanted the minimum wage of Tk (Bangladeshi taka) 5,300 (approximately Rs 4,500) to be raised three-fold. Given that the current rate is less than one-fifth of the living wage – the minimum income required to meet one’s basic needs – and that inflation has held at over 5% since the last wage rise in 2013, this is not an unreasonable demand.

Big Garments and politics
The government responded by deploying the police, the elite Rapid Action Battalion and paramilitary law enforcers Border Guard Bangladesh during the strike, to bring the situation under control. Containment measures included the use of riot gear, batons and rubber bullets, and scores of arrests. Dozens of labour organisers were forced into hiding. Nazmul Huda, a journalist covering the strike, was accused of disseminating false news and arrested. He was linked to the ruling Awami League’s political opponent, the Bangladesh Nationalist Party, some of whose leaders were blamed for inciting the protests. The home minister warned people against conspiring against the industry, a shining symbol of Bangladesh’s heralded development, and in so doing, successfully branded legitimate concerns and protests as political subversion in a country that does not tolerate dissent. Media coverage switched from diligent reporting of the strike action, that came close to giving the workers a voice, to dedicated and nationalistic advocacy of the industry.

Big Garments is not close to governments past and present, it is the government. It has cut out the middleman and the need to lobby. Regardless of who is in power, three quarters of any Parliament benefit directly from it, and are involved with the industry. State response to labour unrest has, thus, always been unequivocally in favour of the owners.

The year 2016 solidified the normalisation of fundamentalism, and saw the worst single terror attack – when five militants murdered 20 hostages at the Holey Artisan Bakery in Dhaka on July 1 – but garment exports rose 9%. Earlier, 2015 saw the extremism tide rise with targeted killings of free thinkers, and the election of one of the most prominent garments businessmen, Annisul Huq, as mayor of Dhaka after controversial mayoral elections whose validity remain contentious.

The industry thrived during the Bangladesh Nationalist Party-Jamaat-e-Islami tenure (2001-2006), when state patronage of terrorist outfits was de rigueur, and the civil society-backed oppressive military regime that followed. It survived the carnage of 2013 when the Bangladesh Nationalist Party-Jamaat-e-Islami brazenly equated violence with politics, and killed and injured thousands of innocent citizens in the name of political protest in a country that is desensitised to death and destruction. That was also the year in which the collapse of the Rana Plaza building in the outskirts of Dhaka caused the worst industrial disaster in Bangladesh, killing 1,135 workers. Nevertheless, the industry has sustained its growth during the increasingly authoritarian rule of Awami League.

Workers undervalued
Resilience, women’s empowerment and development constitute the public face of Big Garments, vaunted by civil society. While it is true that the millions of workers, the majority of whom are women, have employment and a measure of financial security because of the industry, for the Bangladeshi economy to function, these people would have had to be put to work somehow. The duopoly of readymade garments and migrant labour have trapped the lower classes to lives of indentured servitude with an exceptionally low ceiling. Despite both industries being labour-intensive to the point of being entirely dependent on people, workers are grossly undervalued by the state and its citizens. Other countries have used the rag trade as a stepping stone to industrialisation and more sophisticated industries, but Bangladesh’s desperate goal to become a middle-income country by 2021 is married to this low-skilled industry, with neither the country nor its captains of industry inclined towards innovation or evolution.

There are conscientious owners who add value to their businesses by ensuring the social and economic welfare of their workers, and some who are philanthropic. However, their numbers are few, and their efforts are focused on their companies, without altering the conventions of the industry. The owners delusional enough to proclaim themselves activists plead the pressure put on them by brands and buyers threatening to take their business elsewhere, instead of standing up for the workers. There is truth to the disproportionality and abuse of power in the buyer-owner dynamic, but if the comparative powerlessness of owners is accepted as an incontrovertible truth, then it is equally indisputable that workers dare not even aspire to being powerless.

The majority of workers make the minimum wage. This was raised to Tk 1,672.5 in 2006, and to Tk 3,000 in 2010. On both occasions, labour protests demanding a tripling of the minimum wage preceded the reluctant increase that less than doubled it. The most recent raise, to the current Tk 5,300, came in the wake of the Rana Plaza tragedy. Prime Minister Sheikh Hasina’s denials in an interview with CNN’s Christiane Amanpour in the aftermath notwithstanding, Towhid Jung Murad, an Awami League member of Parliament, manufactured the authorisation for Sohel Rana, owner of the Rana Plaza and an Awami League cadre, to illegally build the eight-storeyed structure on land of questionable provenance. The commercial property was not purpose-built for factories, yet housed a few separate ones. This is not uncommon. They made clothes for several well-known high street brands from the United Stated and the United Kingdom, yet were not directly contracted to undertake the production by the said brands. Nor is this uncommon.

Big brands unconcerned
Therein lies the dirty little secret of the global apparel market: brands do not concern themselves with how or where their clothes are made, so long as they are made cheaply and delivered on time. When something goes wrong, as it catastrophically did at Rana Plaza, they plead ignorance and innocence, as they have done in continuing to neglect their commitments towards compensating the victims and survivors. The disaster did not ebb the strong growth of the industry in Bangladesh, despite the glaring administrative failures that led to it.

Bangladesh has over 5,000 factories that employ over five million people, and a history of deplorable practices, including oppression and appalling wages. This year will mark the fifth anniversary of the Tazreen factory fire that killed at least 117 and injured over 200, a precursor of the Rana Plaza disaster. Both were instances of corporate manslaughter on a large scale, whose culprits were not only specific locals and foreigners, but an entire obscurantist, exploitative industry.

The victims and survivors still await justice and compensation. Their fellow workers await dignity, and the right to unite and be heard in the land of the deaf. The success of the readymade garments export industry is the tale of a capitalist dystopia. That brands, buyers and factory owners celebrate this as axiomatic, but the rest of the country and, as an active participant in the global rag trade, the world should be outraged. Instead, they choose to be complicit.

Ikhtisad Ahmed is a columnist for the Dhaka Tribune and author of the socio-political short story collection Yours, Etcetera. His Twitter handle is @ikhtisad.

We welcome your comments at letters@scroll.in.

Credits: scroll.in

Why I joined protests at JFK against Trump's immigration order – and all Indian-Americans should

Why I joined protests at JFK against Trump's immigration order – and all Indian-Americans should

'If any Indian thinks they are superior to immigrants from Yemen, Iraq, or other Muslim countries, they are in for a rude awakening.'








This past week has been like one from an alternate reality: it started with the incredible Women’s March on January 21, when close to five million people, led by women, insisted on justice and equal rights for all in a series of protests across the world. And then, the assault of Trumpian executive orders began.

In just one week since he assumed office as US president on January 20, Donald Trump had reinstated the “global gag rule” that bans US-funded non-profits to advocate or counsel women about abortions, thereby denying safe access to pregnancy termination and birth control; revived the Keystone XL pipeline from Canada to the US and the Dakota Access Pipeline that was stopped after protests by native Americans, thus thwarting valiant efforts of indigenous peoples and environmental advocates; eliminated 25 grant programmes for organisations addressing violence against women and denied federal funding to sanctuary cities like New York and San Francisco that protect and shelter illegal immigrants.

Then came the much-feared Muslim ban – Trump’s latest executive order came on Friday and bars immigration from seven Muslim countries (Iraq, Syria, Iran, Libya, Somalia, Sudan and Yemen), although the list is likely to grow.

Growing clamour
On Friday night, I went to bed wondering how long it would take for these executive orders to be implemented – on Saturday morning, I had my answer. I woke up to the news that dozens of people from Muslim countries were already being detained at airports around the US. These were people who had green cards and valid visas, parents visiting their children and grandchildren settled in the US, a refugee family from Syria that was finally leaving the hell of a camp to start a new life, and even people who consider America home because they have lived here for many years and have lives, families and homes here. The implementation of policies rooted in bigotry, xenophobia and Islamophobia had begun.

I was one of the 2,000 protesters who spent a freezing Saturday at the Terminal 4 Arrivals at New York’s Kennedy International Airport, chanting: “Let them in!” and “Love not hate, makes America great!” and “No hate, no fear, immigrants are welcome here!”

There were similar protests in airports across the US, with a strong showing from elected officials denouncing the ban. Legal advocates and elected officials have tirelessly worked on behalf of the detainees, but so far, only one has been allowed to enter the country.

On Saturday evening, we celebrated a victory: the American Civil Liberties Union won a temporary stay on President Trump’s immigration order and at least for now, deportation of those who are legally permitted to enter the US will not be allowed. No doubt this will be challenged, and we will need to keep fighting.

Speak up
I am a Hindu American from India, an immigrant myself. My parents moved from Andhra Pradesh to England when I was a child to give us a better life. I grew up in both Chennai and London, and moved to the US as a young adult. I visit India regularly, and have been painfully aware of the Hindu nationalism that has taken power there with Narendra Modi’s election. This is a time in India when the civil rights of Muslim, Dalit, LGBT and other minority communities are in peril. Freedom of expression is under threat. I fear that the US is on that same path under Trump.

It is important for all immigrants, including Indian Americans, to speak up against these racist and Islamophobic laws and policies. Most of us left our homelands and came to this country seeking new opportunities, eager to build new lives.

The immigrants from these Muslim countries are no different from us. If we open our eyes and hearts, we will see ourselves in all immigrants, including those who are currently being cruelly detained, harassed and in many cases, denied entry. The fear is that these people might be terrorists, but so many of them are fleeing the very violence and terrorism they are suspected of.

I am a women’s rights activist and work daily with Muslim men and women who devote their lives to this cause. My Muslim colleagues tell me that their faith obligates them to work for the rights and empowerment of women and girls. Many of my colleagues and their families will be affected by this heartless and unconstitutional ban.

Policies rooted in racism and bigotry may target only one group today but can just as easily target another tomorrow. India may not be on the target list at the moment, but certainly could be in the future. Furthermore, such racist policies embolden bigots in the society and have already led to an increase in hate crimes towards all people of colour. A bigot sees no difference between Indians, Iraqis and Yemenis or Hindus, Muslims and Sikhs.

If any Indian thinks they are superior to immigrants from Yemen, Iraq, or other Muslim countries, they are in for a rude awakening. I truly believe that justice denied on the basis of religion or race shakes the very foundations of democracy and leads to justice being denied for all.

As a mother, as an immigrant, and as a Hindu who believes to my core that we are all one, Vasudhaiva Kutumbakam, I pledge to resist the Trump administration’s policies of hatred. And I ask all Indian Americans to resist with me.

Sunita Viswanath is a co-founder and board member at Sadhana: Coalition of Progressive Hindus.

We welcome your comments at letters@scroll.in.

Courtesy: Scroll.in

Wednesday, 25 January 2017

France prosecuting citizens for 'crimes of solidarity'

France prosecuting citizens for 'crimes of solidarity'
by: Kyle G Brown

French citizens are facing prosecution and even jail time for helping refugees and migrants.












Houssam El Assimi was arrested during a police raid on a Paris camp and was charged with 'violence against persons holding public authority' [Remi Mazet/Al Jazeera]

Paris, France - Trying to ward off the overnight cold with a blanket donated by volunteers, Muktar Ali was sleeping rough in the north of Paris when at about 4:30am, the police returned. He and several other Eritreans say they were pushed, prodded and kicked by police clearing the area.


"Police took everything I had - clothes, shoes, blanket - and threw it all away," said Ali, 33, who had fled forced conscription in Eritrea and was held captive by rebels in Libya before crossing the Mediterranean Sea to Europe. Now, he's among many refugees living on the streets of Paris, who have been subjected to displacement, detention and deportations.

Police raids, at least 30 since last June, and a cycle in which displaced people return to live in squalid camps, have angered residents and prompted them to form groups like Le Collectif La Chapelle Debout, which provide food and shelter that they say the government should be providing.

But recently, as a result of these actions, these activists have been finding themselves in criminal courts across France. 

Houssam El Assimi, of Chapelle Debout, was arrested during a police raid on a Paris camp last September. Charged with "violence against persons holding public authority," he faces up to three years in prison and €45,000 (over $48,000) in fines.

Last week, his trial was adjourned until May. In the meantime, he plans to file charges against the police for using excessive force during his arrest. 

He has been translating French and Arabic and helping migrants navigate the French immigration system and told Al Jazeera that he is being targeted because his group protests against the police and government policy.

El Assimi is one of several people pursued in the courts for protesting on behalf of migrants and asylum seekers or providing them with transport and shelter.

Under Article L622-1 of France's immigration law, anyone who "facilitates or attempts to facilitate the illegal entry, movement or residence of a foreigner in France shall be punished by imprisonment for five years and a fine of €30,000 (over $32,000)".

Crime of solidarity

Pierre Mannoni, a 45-year-old geography professor and father of two, was arrested at a highway toll booth while driving three injured Eritrean teenage girls to Nice for medical care. He was acquitted in court, thanks to another clause stipulating that one must benefit from the transaction - a clear reference to human trafficking. But the prosecution has appealed and called for a six-month prison term.

Often referred to as the "crime of solidarity", the law has been used to prosecute people who support  migrants and asylum seekers.

Rights group Gisti has documented a rise in the number of such cases going to court, and more than 100 NGOs, charities and labour unions signed a manifesto this month calling for an end to the criminalisation of humanitarian activity.

"What we're seeing is that all of the cases have one purpose," Claudia Charles, a legal expert at Gisti, told Al Jazeera. "That's to discourage any kind of support for the foreign population, be they migrants, Roma or asylum seekers."

Originally aimed at smugglers in 1945, the law was sometimes used under former President Nicolas Sarkozy's administration to prosecute those who helped immigrants.

In 2012, the new Socialist government vowed to turn the page. "Our law cannot punish those who, in good faith, want to give a helping hand," said Manuel Valls, then France's interior minister.

Human rights groups accuse the government of betraying its word and say an ever-widening range of laws are now being used to criminalise people for helping new arrivals, from the charge of assault to defamation and "insulting a public official."

"Since 2015, there's been a proliferation of cases aimed at intimidating or preventing citizens from expressing solidarity with migrants, refugees and Roma," says Marine De Hass, of the rights group, La Cimade. "It's not just article 622-1. A growing number of people are being prosecuted for helping or supporting, undocumented persons," De Hass told Al Jazeera.

Local Green councillor Jean-Luc Munro described a personal incident that took place as he was riding his bike in a Roma camp near Lille last April.

He said he was thrown off his bike after being told to stop by the police at a roadblock there, and was consequently charged with using his bicycle as a weapon to inflict "violence against a public official".

"There's been a real hardening against activists for a year and a half now," Munro told a local newspaper.

Having documented only a handful of cases against activists between 2012 and 2015, Gisti lists more than a dozen in 2016 alone, with several more going to court in the coming months.

The list is not exhaustive: both Charles and De Hass say there are probably more, unknown, cases.

Bruno Le Roux, the French interior minister, told Al Jazeera, however, that if no one profits from helping refugees and migrants, there is no "crime of solidarity". "So I can tell you that for all the cases being pursued, in court, they're cases where we believe there is a violation of the law." 

The ministry has not responded to repeated requests for an explanation as to why cases are being pursued in which no personal gain is apparent. Although the Nice courts concluded as much in Mannoni's trial, the prosecution appealed his acquittal.

"It's crazy that we have reached this stage," says Mannoni. "Where I've gone to trial for helping someone who is hurt. The government is criminalising human charity."

Criminalising charity

The government and the city of Paris have set up new reception centres, including one in mid-January, for women and children in Ivry-sur-Seine just south of Paris.

But where shortages persist in the capital, in border towns, and Calais where the "jungle" was dismantled, volunteers are taking matters into their own hands.

No longer able to ignore the refugees and migrants lining the country roads near the Italian border, Cedric Herrou began picking them up and hosting them at his farm in La Roya Valley, near Nice.

As the tents and wooden cabins he built were not enough, he brought travellers to an old SNCF rail building that had been occupied by activists and NGOs, and where Pierre-Alain Mannoni helped three Eritrean teens.

With reinforced security at the border, following last July's massacre in Nice, asylum seekers have had difficulty getting through, and arrive in the area hungry and exhausted. 

"I picked up kids who tried to cross the border 12 times," Herrou said at his trial earlier this month, where he was convicted of facilitating the entry, movement and residence of undocumented foreigners. "There were four deaths on the highway. My inaction and my silence would make me an accomplice, I do not want to be an accomplice."

Awaiting his sentence, Herrou was arrested again on January 18 on fresh charges.

His van has been confiscated and he says he'd been followed and is under surveillance. It has had little effect on the 37-year-old farmer, who smiles broadly in photos, surrounded by kids from Sudan and Eritrea.

"Whatever happens, I'll continue," he said before his second arrest. 

"It's astonishing that human smugglers continue to pass through, the real smugglers who get rich on the backs of others, while humanitarians are harassed in this way," Herrou's lawyer, Me Zia Oloumi, told Al Jazeera by phone.

"The authorities can't control the borders so they're putting pressure on people in the valley to discourage them from supporting migrants, by detaining people and putting them on trial."

The divisive issue

The humanitarian crisis on Europe's doorstep and resulting influx of refugees, migrants and asylum seekers, have divided the country, and few places encapsulate the dilemma better than La Roya Valley - a rugged, mountainous crossroads taken by asylum seekers bent on heading north, undetected. 

In December, a local rights group, Roya Citoyenne, filed a formal complaint, accusing the authorities of failing to honour their obligation to look after unaccompanied child refugees, saying on their website that "these minors are suffering intensely and risk death on the roads".

The next day, Eric Ciotti, president of Alpes-Maritimes Department, denounced "a handful of activists …blinded by a far-left ideology," for organising the "clandestine entry of foreigners across the French-Italian border".

Then, he assailed Herrou, whose rescue efforts and indifference to prosecution have made him a local hero and the bane of local police. 

"Who can say with certainty that of the hundreds of migrants that Mr Herrou has proudly brought across the border," Ciotti wrote, "there isn't hidden among them, a future terrorist?"

Similar divisions are playing out in the national arena, during the run-up to the presidential elections in April and May. 

Protests have erupted both in defence of migrant rights, but also, in some towns, against the opening of new shelters for asylum seekers.

While some candidates on the left say France should do more to welcome refugees and unaccompanied minors, the far right says the country is already doing too much. 

Despite taking just a fraction of the numbers being welcomed by Germany, conservative frontrunner Francois Fillon says France cannot afford to take in any more asylum seekers than it already is.

Those who resist the hard line on immigration feel they are being worn down in the courts.

"They're trying to ruin us financially because it costs a lot to prepare for trial," El Assimi said at the Paris high court. He estimates he's spent more than 5,000 euros (over $5,300) in legal costs so far.

"Their strategy is to exhaust us. And it's working." 

Source: Al Jazeera