Search This Blog

Thursday 16 March 2017

مرد مومن د زمانہ کے حق میں رحمت اور مظلوموں کا نجات دہندہ ہوتا ہے۔ ایاز الشیخ

 مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے ۔ 
 مرد مومن د زمانہ کے حق میں رحمت  اور مظلوموں کا نجات دہندہ 
ہوتا ہے۔ ایاز الشیخ

حیدرآباد ۔ ''اقبال کے کلام میں مرد مومن کی صفات اور خصوصیات کو کافی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے اور ان صفات کا بار بار تذکر ہ اس صورت سے کیا گیا ہے۔ کہ اس کی شخصیت اور کردار کے تمام پہلو پوری وضاحت سے سامنے آجاتے ہیں ۔ یہ مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے اور تربیت اور استحکامِ خودی کے تینوں مراحل ضبط نفس، اطاعت الہی،اور نیابت الہی طے کرنے کے بعد اشرف المخلوقات اور خلیفتہ اللہ فی الارض ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے''۔ان خیالات کا اظہار معروف اسلامی اسکالر، جناب ایاز الشیخ، چیرمین امام غزالی ریسرچ فاونڈیشن  وریزیڈنٹ ایڈیٹر یو این این نے 'اقبال کا مرد مومن کون؟ '  کے موضوع پر ، کانفرنس ہال جامع مسجد عالیہ عابڈس میں محفل اقبال شناسی کی ٨٨٩  ویں نشست کو مخاطب کرتے ہوئے کیا۔علامہ اقبال کے منتخب اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل مقرر نے کہا کہ ا قبال کا مرد مومن حیات و کائنات کے قوانین کا اسیر نہیں بلکہ حیات و کائنات کو اسیر کرنے والا ہے۔ قرآن مجید نے انسانوں کو تسخیر کائنات کی تعلیم دی ہے اور مرد مومن عناصر فطرت کو قبضے میں لے کر ان کی باگ اپنی مرضی کے مطابق موڑتاہے۔ وہ وقت کا شکار نہیں بلکہ وقت اس کے قبضہ میں ہوتا ہے۔ کافرکا کمال صرف مادہ کی تسخیر ہے لیکن مردمومن مادی تسخیر کو اپنا مقصود قرار نہیں دیتا بلکہ اپنے باطن سے نئے جہانو ں کی تخلیق بھی کرتا ہے۔ وہ زمان و مکان کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے ۔ عرفانِ خودی کے باعث اسے وہ قوت حاصل ہو جاتی ہے جس سے حیات و کائنات کے اسرار و رموز اس پر منکشف ہوتے ہیں اور اس کی ذات جدت و انکشاف اور ایجاد و تسخیر کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ وہ اپنے عمل سے تجدید حیات کرتاہے۔ اس کی تخلیق دوسروں کے لئے شمع ہدایت بنتی ہے۔ایاز الشیخ نے اپنا پر مغز خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ا قبال جسے مستی کردار کہتے ہیں وہ دراصل عمل اور جدوجہد کا دوسر ا نام ہے ان کے ہاں پیہم عمل اور مسلسل جدوجہد کو اسی قدر اہمیت دی گئی ہے کہ مرد مومن کے لئے عمل سے ایک لمحہ کے لئے بھی مفر نہیں۔مردمومن کی ذات میں جمالی اور جلالی دونوں کیفیات بیک وقت موجود ہوتی ہیں ۔ بظاہر یہ کیفیات متضاد نظر آتی ہیں لیکن بباطن یہ ایک دوسرے سے جد ا نہیں اور مرد مومن کی زندگی ان دونوں صفات کی حامل ہوتی ہے ۔ وہ درویشی و سلطانی اور قاہری و دلبری کی صفات کا بیک وقت حامل ہوتا ہے۔ اس کی سیرت میں نرمی اور سختی کا امتزاج ہوتا ہے اور اس کے مضبوط و قوی جسم کے پہلو میں ایک دل درد آشنا ہوتاہے۔جوبے غرض ، بے لوث ، پاک اور نفسانیت سے خالی ہوتا ہے۔ اسی لئے مرد مومن د زمانہ کے حق میںرحمت  اور مظلوموں کا نجات دہندہ ہوتا ہے۔مرد مومن جرات مند ، بے خوف اور حق گو ہوتا ہے ۔ اسے نہ جابر و قاہر انسان خوفزدہ کر سکتے ہیں اور نہ موت اسے ڈرا سکتی ہے۔ وہ ایمان کی قوت سے حق و صداقت کا پرچم بلند کرتا ہے اور شر کی قوتوں کے مقابلہ میں پوری قوت کے ساتھ اس طرح ڈٹ جاتا ہے کہ انہیں پسپا ہونا پڑتا ہے۔ اور پھر معاشرہ اسی نصب العین کی جانب رجوع کرتا ہے۔ جو مرد مومن کا مقصود زندگی ہے۔ اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ مرد مومن اور سچے مسلمان کے لئے اسلام نے جو معیار مقرر کیا ہے بنیادی طور پر اقبال نے اسی کو اپنا یا ہے۔اگر ہم اس معیار کو اپنا لیں توہمارے ظاہر و باطن میں انقلاب برپا ہو جائیگا اور مظلوم انسانیت امن و سکون سے ہمکنار ہوگی۔
قبل ازیں نشست کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ محافل عالیہ کے روح روں جناب غلام یزدانی ایڈوکیٹ نے مقرر اور موضوع کا تعارف کرایا ۔ شہر حیدرآباد و اکناف سے محبان اقبال و علم و ادب کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔دعا پر نشت کا اختتام ہوا۔ اس نشست اور محافل عالیہ کے تمام پروگرامس کی ویڈیو یوٹیوب پر دستیاب ہیں۔ اسکا لنک ہے https://www.youtube.com/user/mahafilealiya










No comments:

Post a Comment