Search This Blog

Thursday 9 March 2017

ہر چوتھی عورت گھر میں تشدد کا شکار ہوتی ہے ۔ راکیش کمار مالویہ

ہندوستان میں  ہر چوتھی عورت گھر میں تشدد کا شکار ہوتی ہے!

راکیش کمار مالویہ 

ہم خوب یوم خواتین منا لیں، لیکن سچ تو یہی ہے کہ ہندوستان میں خواتین نہ گھر سے باہر محفوظ ہیں ، نہ گھر میں. حال ہی میں قومی خاندان صحت سروے کے نتائج جاری کئے گئے ہیں. ان نتیجوں میں تمام معیار تو یہی کہانی پیش کر رہے ہیں. یہ سروے خود بھارت حکومت پورے ملک میں کرواتی ہے. پچھلا سروے (تیسرا) 10 سال پہلے 2006 میں آیا تھا، 2016 میں اس 17 ریاستوں کے نتائج ہی جاری کئے گئے تھے، اب یوپی کو چھوڑ کر تقریبا تمام ریاستوں کے نتائج آ گئے ہیں . اس سے پورے ملک کی تصویر پتہ چلتی ہے. اس سروے میں بہت ہی چونکانے والے اور آنکھیں کھول دینے والے نتائج سامنے ہیں . آئیے یوم خواتین کے موقع پر خواتین سے متعلق معیار پر غور کرتے ہیں . تشدد کی شکار ہمارے ملک میں خواتین کی پوجا کی جاتی ہے، پر اصل میں انہیں کتنا احترام مل پاتا ہے. سروے کے مطابق بھارت میں 28 فیصد خواتین ایسی ہیں جنہوں نے کبھی نہ کبھی اپنے شوہر کے ہاتھوں مار کھائی ہے. سوچئے، جب گھر میں ہمسفر کے رویہ یہ ہوگا تو باقی لوگ کیا احترام کریں گے. 10 سال پہلے جب یہ سروے کیا گیا تھا، تب 37 فیصد خواتین ایسی تھیں جنہیں شوہر نے کبھی نہ کبھی مارا پیٹا گیا. ان 10 سالوں میں بہت کچھ بدلا، ترقی کی شرح اور جی ڈی پی میں اضافہ ہوا، ڈیجیٹل اور سمارٹ سٹيذ کے دور میں چلے گئے، لیکن یہ تصویر کتنے ہولے ہولے بدل رہی ہے. یہی نہیں، حمل میں، جب حاملہ خواتین کو بھاری وزن نہ اٹھانے کا مشورہ دیا جاتا ہے اس وقت بھی وہ ظلم برداشت کرتی ہیں. سروے کے مطابق حمل کے دوران بھی 3.3 فیصد خواتین کو تشدد کا شکار ہونا پڑا ہے. کیا یہ اعداد و شمار معاشرے کے لئے شرمناک نہیں ؟ کام کرتی ہیں ، ہاتھ نہیں آتی مزدوری خواتین کام تو خوب کرتی ہیں، لیکن ان کے ہاتھ میں مزدوری نہیں آتی. سروے کے مطابق ایسی صرف 24 فیصد خواتین ہیں، جن کے ہاتھ میں براہ راست طور پر مزدوری نقد آ جاتی ہے، اور زیادہ تر مقدمات میں عورت شوہر یا باپ یا دوسرے شخص ہی اجرت ہڑپ جاتے ہیں . مزے کی بات یہ ہے 10 سال پہلے 28 فیصد خواتین کو اجرت ان کے ہاتھ میں مل جایا کرتی تھی، اب یہ چار فیصد تک کم ہو گئی ہے. اس سے پتہ چلتا ہے کہ اب بھی معاشرے میں خواتین کے لیبر کا کوئی مول نہیں ہے اور جو مول ہے بھی تو اس پر ان کا اپنا کوئی حق نہیں .

یہ ضرور ہے کہ اب اجرت اور پینشن سکیم کو براہ راست ہت گراہی کے اکاؤنٹس سے جوڑ کر اسے پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن یہ قدم عورتوں کو براہ راست فائدہ پہنچانے کی توقع بدعنوانی روکنے کی کوشش کے طور پر زیادہ ہے، اس سے اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ خواتین کو ان کی اجرت ان کے ہاتھ میں ہی ملے گی. سماج اور خاندان کے ڈھانچے میں کرنسی کا کنٹرول مرد کی طاقت کے ہی ہاتھوں میں ہے. سروے کا ایک نقطہ اس کی تصدیق بھی کرتا ہے. خاندان میں فیصلے میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے جواب میں 16 فیصد خواتین نے جواب دیا کہ ان کے خاندان کے فیصلوں میں کوئی شرکت نہیں ہوتی. سروے یہ بھی کہتا ہے کہ 53 فیصد خواتین کے پاس بینک میں اپنا کھاتا ہے. اگر اکاؤنٹس میں براہ راست اجرت جمع کرنے کے نظام کو مثالی طور پر لاگو کر بھی دیا تو باقی 47 فیصد خواتین کے اکاؤنٹ کھولے جانے اور بینکاری خدمات تک پہنچ بنائے جانے کی ایک طویل راستہ باقی ہے، یہ حالات تب ہیں جب گزشتہ سالوں میں حکومت نے بڑے پیمانے پر جن دھن اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے کام کیا. اس کے باوجود بینکنگ سیکٹر کی بڑھتی ہوئی مشکلات اور بینکاری خدمات کے لئے تمام طرح کی فیس وصول کرنے کے درمیان یہ نظام تیسری دنیا کی خواتین کے لئے کتنی مشکل ہوگی، سمجھا جا سکتا ہے.  باقی خواتین ظاہر طور پر ایسی عورتیں ہی ہوں گی جو غیر ہنر مند علاقے کے کاموں میں لگی ہوں گی. ایسے میں واقعی میں خواتین کو بااختیار بنانے کا راستہ ابھی بہت لمبا ہے. صحت کے معیار پر بھی تصویر اچھی نہیں صحت سے متعلق نتائج بھی خواتین کی کوئی بہت اچھی تصویر پیش نہیں کر رہے ہیں . ہمارے ملک میں 53 فیصد خواتین خون کی کمی، یعنی خون کی کمی کا شکار ہیں ، 50 فیصد حاملہ خواتین بھی اینيمك پائی گئی ہیں . صرف 51 فیصد خواتین کو حمل کے دوران چار لازمی صحت جاچو کی سہولت مل پاتی ہے. 30 فیصد خواتین ہی آئرن پھلك ایسڈ کی 100 گولیاں استعمال کرتی ہیں . صرف 36 فیصد خواتین کو ادارہ درد زہ کے بعد زچگی فائدہ کے تحت مالی امداد ملتی ہے. یہ سب نتیجہ ہی خواتین کے حق میں تو نہیں ہیں . یہی نہیں ، حیض کے دوران محفوظ ذرائع 57.6 فیصد خواتین نے ہی استعمال کیا ہے. سالوں – سال مہم اور تشہیر کے باوجود صرف 20 فیصد خواتین کو ایچ آئی وی یا ایڈز کے بارے میں کوئی معلومات ہے. 22.9 فیصد خواتین کو باڈی ماس انڈیکس معمول سے کم ہے اور 20 فیصد خواتین ہمارے ملک میں موٹاپے کا شکار ہیں.

بچوں کی شادی کا دکھ بچوں کی شادی کی حالت بھی ایسی ہی ہے. سروے کے مطابق سروے کے وقت 26.8 فیصد خواتین ہیں، جن کی 18 سال سے پہلے کی عمر میں ہی شادی ہو گئی. آبادی کے اعداد و شمار میں بھی ملک میں تقریبا ایک کروڑ 22 لاکھ ایسے بچے نکلتے ہیں، جن کے ‘بال’ شادی ہوئی ہے. ان میں تقریبا 15 سال سے لے کر 19 سال تک کی 7.9 فیصد خواتین سروے کے وقت حاملہ پائی گئیں . ذرا سوچئے، جب 15 سال کی عمر میں ہی کوئی لڑکی ماں بن جائے گی، تو اس ملک کی بنیاد کس طرح مضبوط ہو گی؟ حقیقت میں خواتین کے دن (یوم خواتین ) کی اصل اہمیت  تبھی ہوگی جب ہم ان اعداد و شمار کو ٹھیک کر پائیں . یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔ 

Read more mazameen.com/oped/column/%db%81%d9%86%d8%af%d9%88%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%d9%85%db%8c%da%ba-%db%81%d8%b1-%da%86%d9%88%d8%aa%da%be%db%8c-%d8%b9%d9%88%d8%b1%d8%aa-%da%af%da%be%d8%b1-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%aa%d8%b4%d8%af.html

No comments:

Post a Comment