معما
فرحی نعیم
’’پھر اماں کب جائو گی؟‘‘ شعیب ماں کے پاس بیٹھا بڑی عاجزی سے پوچھ رہا تھا۔ اُس کے اس طرح پوچھنے پر اماں کو بے ساختہ ہنسی آگئی۔
’’ارے تاب رکھ، چلی جائوں گی ایک دو دن میں۔‘‘
’’ایک دو دن میں کیوں اماں؟آج ہی چلی جائو‘‘۔
’’توبہ ہے، تمہاری بہن آجائے، اُس کے ساتھ ہی تو جائوں گی، اکیلی جاتی کیا اچھی لگوں گی میں!‘‘ اماں کو اس کے بے صبرے پن پر تائو آگیا۔
’’تو بلالائوں میں تہمینہ کو؟‘‘ وہ جلدی سے بولا۔
’’اگر آجائے تو بلا لائو۔‘‘ اماں نے جان چھڑائی، انہیں معلوم تھا کہ تہمینہ کس طرح بچوں میں گھری رہتی ہے۔ اسے تو ماں کے گھر آنے کی بھی فرصت بڑی مشکل سے ملتی تھی۔ اور پھر شعیب نے نہ جانے تہمینہ سے کیا کہا کہ وہ شام کو ہی چھوٹے بچے کو بغل میں دباکر آگئی اور آتے ہی اپنی مصروفیات کی کہانی سنانے بیٹھ گئی، ’’اماں کیا بتائوں سر کھجانے کی فرصت نہیں ہے۔ اس شعیب نے ایسی ہتھیلی پر سرسوں جمائی کہ مجھے آتے ہی بن پڑی۔ اب جلدی چلو مجھے بڑے کام ہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں جانتی ہوں، سارے شہر کے مسائل تم ہی کو تو حل کرنے ہیں۔‘‘ اماں نے جل کر کہا اور برقع اوڑھنے لگیں۔
پھر دونوں ساتھ کی گلی میں رہنے والے اکرم صاحب کے گھر چلی گئیں جن کی بیٹی راحیلہ کا رشتہ وہ شعیب کے لیے مانگ رہی تھیں۔ شعیب، راحیلہ کو کافی عرصہ سے پسند کرتا تھا اور اب وہ بڑی سنجیدگی سے اس سے شادی کرنے کا سوچنے لگا تھا۔ اور اماں نے جیسے ہی اس کی شادی کرنے کا ارادہ کیا اور اس سلسلے میں جب اس سے ذکر کیا تو جھٹ اس نے راحیلہ کا نام لے دیا۔ راحیلہ، اماں کی بھی دیکھی بھالی تھی، انہیں بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا! انہوں نے ہامی بھرلی۔ اب سارا مسئلہ وہاں جانے کا تھا۔ اماں تہمینہ کا انتظار کررہی تھیں اور تہمینہ کو فرصت نہ تھی، اسی طرح ایک ہفتہ گزر گیا تھا۔ دوسری طرف شعیب سے اب صبر نہیں ہورہا تھا، وہ دن رات اماں سے پوچھتا اور انہیں وہاں جانے کے لیے اکساتا۔ اور پھر زیادہ دن نہ گزرے کہ راحیلہ کے گھر سے مثبت جواب آگیا۔ اماں نے خوشی میں ساری گلی میں مٹھائی بانٹی۔
……٭……
’’مبارک ہو خالہ! میں ابھی گھر آیا تو امی نے مجھے مٹھائی دی کہ شعیب کی بات پکی ہوگئی ہے۔ یہ شعیب تو بڑا چھپا رستم نکلا۔ مجھ کو بھی کسی بات کی ہوا نہ لگنے دی۔ کہاں کی ہے آپ نے شعیب کی منگنی؟ کون ہے؟ کیسی ہے؟‘‘ کاظم نے آتے ہی پہلے تو شکایت کی پھر کئی سوال کر ڈالے۔
’’ارے تمہیں نہیں پتا!‘‘ اماں کو بھی حیرت ہوئی کہ شعیب اور کاظم تو بڑے گہرے دوست تھے۔ ایک محلہ، ایک اسکول… وہ تو بچپن سے ہی ایک دوسرے کے گھر ہر وقت آتے جاتے تھے۔ شعیب نے کاظم سے اس بات کا تذکرہ نہ کیا تھا، اس بات نے اماں کو حیرانی میں ڈال دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ اماں مزید کچھ کہتیں کہ شعیب بھی آگیا اور آتے ہی کاظم نے اس کو پکڑ لیا۔ پہلے تو اس کو خوب لتاڑا، پھر اس کو پکڑ کر وہیں صحن میں بچھے تخت پر بیٹھ کر اس سے پوچھنے لگا:
’’ارے یار تم بھی اسے جانتے ہو، اکرم چاچا کی بیٹی راحیلہ۔‘‘ شعیب مسکرا کر بولا اور کاظم کے تو چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔
’’کیا کہہ رہے ہو تم! تم نے اتنی بڑی بات مجھ سے چھپائی!‘‘ کاظم اس کے پیچھے چھپی کہانی کی تہہ تک یکدم ہی پہنچ گیا تھا۔
’’کچھ نہیں یار۔‘‘ شعیب کھسیا کر رہ گیا تھا۔ اگرچہ اس نے کاظم کو کچھ نہیں بتایا تھا لیکن وہ پھر بھی بہت کچھ جان گیا تھا۔ اور اسی طرح بہت سے دن گزر گئے۔ اماں راحیلہ کو بہو بنا کر لے آئیں۔ دن بڑے مطمئن گزر رہے تھے۔ اوپر تلے تین بچوں نے شعیب اور راحیلہ کی زندگی کو بہت مصروف کردیا تھا۔ شادی کو پانچ سال گزر گئے، شعیب گھر اور بچوں کی ذمہ داریوں میں الجھ گیا تھا، لیکن ان دونوں کی دوستی اسی طرح قائم تھی۔ کاظم کی بھی شادی اس دوران ہوچکی تھی۔
……٭……
’’یار بہت عرصہ ہوگیا، کوئی تفریحی پروگرام نہیں بنا‘‘۔ شعیب اور کاظم رات کے کھانے سے فارغ ہوکر گھر کے باہر بیٹھے تھے کہ باتوں کے درمیان شعیب نے کاظم سے کہا۔ ’’ہاں میں بھی پچھلے دنوں یہی سوچ رہا تھا۔ گھر، دفتر، اس کے جھمیلے، فرصت ہی نہیں ملتی۔ میں دوسرے دوستوں سے بات کرتا ہوں پھر کوئی پروگرام بناتے ہیں‘‘ کاظم نے جواب دیا۔ اور پھر اس نے پروگرام بنانے میں دیر نہیں لگائی۔ اس نے اپنے اور شعیب کے چار اور مشترکہ دوستوں کے ساتھ ساحلِ سمندر پر جانے کا پروگرام بنا لیا۔ چنانچہ سویرے ہی چھٹی کے دن سب اکٹھے ہوکر ساحل کی طرف روانہ ہوئے۔ سارے دوستوں نے مل کر خوب ہلا گلا کیا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد چائے کا دور چلا اور پھر سب نے واپسی کی ٹھانی۔ سامان وغیرہ باندھ کر شعیب اور کاظم نے ایک دفعہ اور پانی میں جانے کا پروگرام بنا لیا۔ دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کافی آگے بڑھ گئے تھے۔ پیچھے سے دوستوں نے آوازیں بھی لگائیں لیکن دونوں نے ہی ان سنی کردی۔ وہ لوگ پانی کی کشش میں بہت آگے بڑھ گئے تھے۔ پانی ان کی کمر تک پہنچ رہا تھا کہ اچانک ہی شعیب کا پیر پھسلا اور آناً فاناً وہ سمندر کی لہروں کی لپیٹ میں آگیا۔ کاظم نے اسے بچانے کی بڑی کوشش کی لیکن بے رحم موجوں نے شعیب کو دور اچھال دیا۔ کاظم بڑی مشکل سے واپس آیا۔ سارے دوست بے بسی سے سمندر کی طرف دیکھ رہے تھے، کسی کو بھی تیرنا نہیں آتا تھا جو آگے بڑھ کر شعیب کو بچانے کی کوشش کرتا۔ لہروں نے دو تین مرتبہ شعیب کو اچھالا، پھر اپنی آغوش میں لے لیا۔ سب جیسے سکتے میں آگئے تھے۔ کافی کوششوں کے بعد شعیب کی لاش ملی۔ کیا سے کیا ہوگیا تھا۔ آنے سے پہلے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شعیب ان کا پیارا دوست جو اپنے پیروں پر چل کر آیا ہے، کی واپسی کاندھوں پر ہوگی۔ راحیلہ کو تو جیسے سکتہ ہی ہوگیا تھا۔ وہ اپنے آپ سے، بچوں سے، ہر کسی سے جیسے بیگانہ ہوگئی تھی۔ شعیب کی اچانک اور ناگہانی موت سے اسے ناقابلِ برداشت صدمہ پہنچا تھا۔ تینوں بچے ابھی بہت چھوٹے تھے اور انہیں قدم قدم پر ماں کی ضرورت تھی۔ وقت اور حالات نے اُن سے اُن کا باپ تو چھین لیا تھا لیکن ساتھ ہی جیتے جی ماں بھی جیسے غافل ہوگئی تھی۔
کہتے ہیں وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔ آہستہ آہستہ شاید بچوں کے لیے وہ زندگی کی طرف واپس آنے لگی۔ ماں باپ کے بہت کہنے سننے پر راحیلہ نے پھر سے اپنے آپ کو دنیا کے کاموں کی طرف مائل کرنا شروع کیا تھا۔ عدت ختم ہونے کے بعد وہ اپنے میکہ آگئی تھی۔ ابھی شعیب کے انتقال کو سال بھی نہیں ہوا تھا کہ راحیلہ کے پیغام آنے لگے تھے۔ اس کی عمر ہی کیا تھی! صرف23 سال، اور اتنی کم عمری میں وہ شادی شدہ، تین بچوں کی ماں اور پھر بیوہ بھی ہوگئی تھی۔ وقت نے اس کے ساتھ بڑا سنگین مذاق کیا تھا۔ راحیلہ کی ماں اسے دوسری شادی پر آمادہ کرنے لگیں، لیکن اس نے سختی سے انکار کردیا تھا۔
’’امی مجھے شادی نہیں کرنی، کتنی دفعہ آپ سے کہوں!‘‘ وہ تنگ آچکی تھی۔ ’’کیا ایسے ہی زندگی گزرے گی؟ ابھی تمہارے سامنے ایک لمبی زندگی ہے، پھر تین بچے، اکیلے کیسے سنبھال پائو گی؟‘‘ امی آج پھر اسے لے کر بیٹھی تھیں۔
’’سب ہوجائے گا، اللہ مالک ہے۔‘‘
’’ارے کیسے ہوجائے گا! اور یہ اللہ ہی کا تو حکم ہے، دوسری شادی کی اجازت ہے۔ کوئی اللہ نے یہ تھوڑی کہا ہے کہ جوگ لے کر بیٹھ جائو۔ اللہ نے تو ہمارے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں۔ تم تو خوش نصیب ہو کہ تمہارے لیے پھر پیغام آرہے ہیں، ورنہ یہاں تو کنواریوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔‘‘ آخر اب کون آگیا جو آپ اتنا اصرار کررہی ہیں؟‘‘ راحیلہ چڑ کر بولی۔
’’کاظم کی ماں بہنیں آئی تھیں‘‘۔ امی بھی فوراً اصل بات پر آگئیں۔
’’کاظم کی ماں؟ لیکن کاظم کا تو کوئی بھائی نہیں ہے، وہ کس کا رشتہ لے کر آئیں؟‘‘
راحیلہ اچنبھے سے بولی۔
’’وہ کاظم کا پیغام لائی ہیں، وہ تم سے نکاح کرنا چاہتا ہے۔‘‘
’’لیکن کیوں؟ وہ تو شادی شدہ ہے، بال بچوں والا، اس کی بیوی بھی اچھی خاصی ہے، اسے کیا ضرورت ہے؟‘‘ راحیلہ حیران تھی۔
’’ہاں وہ تم سے دوسری شادی کرنا چاہتا ہے اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں۔ اچھا خاصا ہے، دیکھا بھالا بھی، اور تم بھی اسے اچھی طرح جانتی ہو۔ اس کی ماں بے حد اصرار کرکے گئی ہیں، اگلے ہفتے آئیں گی، بتائو میں کیا جواب دوں؟‘‘
امی اس سے پوچھ رہی تھیں۔
’’انکار‘‘ راحیلہ نے مضبوطی سے جواب دیا۔
لیکن اس دفعہ گھر والوں نے راحیلہ کی ایک نہ چلنے دی اور اُدھر کاظم کے گھر والوں کی طرف سے بے حد دبائو تھا۔ اسے بچوں کا واسطہ دے کر بالآخر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا گیا، اور یوں وہ کاظم کے گھر اس کی دوسری بیوی بن کر چلی آئی۔ کاظم اس کا بہت خیال رکھتا، اس کی اور بچوں کی ہر ضرورت پوری کرتا، اس نے بڑی چاہت سے راحیلہ کو اپنے گھر میں رکھا ہوا تھا۔ اگرچہ شعیب کا دکھ بھولنے والا تو نہیں تھا لیکن وہ آہستہ آہستہ گھر گرہستی میں لگ کر بہل چکی تھی، وہ کاظم کے ساتھ سمجھوتا کرچکی تھی۔ اس کا غم کسی حد تک کم ہوچکا تھا۔ وہ کاظم کے بھی دو بچوں کی ماں بن چکی تھی۔
آج کاظم بڑا خوش تھا، اس کی ترقی ہوئی تھی اور اس خوشی میں وہ راحیلہ اور بچوں کے لیے تحائف لایا تھا۔ اس نے راحیلہ کا ہاتھ پکڑ کر بڑا خوبصورت کنگن اسے پہنایا اور مسکراتے ہوئے کہا:
’’تم کو معلوم ہے راحیلہ میں تمہیں کب سے پسند کرتا ہوں؟‘‘
راحیلہ نے جواب میں اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’جب تمہاری شعیب سے شادی بھی نہیں ہوئی تھی اُس سے بھی پہلے۔‘‘
راحیلہ کی نظروں میں حیرانی دیکھ کر وہ مزید بولا: ’’اصل میں تم مجھے بہت پہلے ہی سے اچھی لگتی تھیں۔ اور میں تم سے شادی کا بھی خواہشمند تھا، لیکن کیاکرتا، بے روزگار تھا۔ مجھے کوئی ڈھنگ کی نوکری ہی نہیں مل رہی تھی اور میری امی نے مجھے یہ الٹی میٹم دیا ہوا تھا کہ جب تک نوکری سے نہ لگ جائو شادی کا نام بھی نہ لینا۔ کیونکہ اس وقت گھر کے حالات بھی ٹھیک نہ تھے۔ بہرحال پھر اچانک شعیب سے تمہاری منگنی کی اطلاع ملی۔ اگرچہ یہ میرے لیے بڑا شاک تھا لیکن کیا کرتا، شعیب میرا بڑا عزیز دوست تھا، اس نے بھی مجھے تمہارے متعلق کبھی کوئی بھنک نہ دی تھی اور نہ ہی میں نے کبھی اُسے بتایا تھا، اور یوں میں نے اپنے دل پر پتھر رکھ لیا اور خاموش رہا۔ لیکن میرے دل میں تمہاری محبت پلتی ہی رہی۔ تمہاری شادی ہوگئی، اور بعد میں نوکری ملنے کے بعد میں نے بھی شادی کرلی لیکن تمہیں پانے کا ارمان میرے دل میں پروان چڑھتا ہی رہا۔ لیکن پھر…‘‘ وہ رکا، اور دوبارہ گویا ہوا:’’ مجھے موقع مل گیا بلکہ قدرت نے خود ہی موقع فراہم کر دیا۔‘‘ ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی، نہ سمجھنے والی معنی خیزی اس کے چہرے پر احاطہ کیے ہوئے تھی۔
’’موقع؟ کیسا موقع؟‘‘ راحیلہ جو خاموشی سے یہ انکشافات سن رہی تھی ایک دم بری طرح چونکی تھی۔ دوسری طرف کاظم جو نہ جانے کس رو میں یہ سب کہتا چلا جارہا تھا راحیلہ کے ایک دم ٹوکنے پر بری طرح ٹھٹھک گیا اور فوراً ہی خاموش ہوگیا۔
’’بتائیں آپ کیا کہہ رہے تھے؟‘‘ راحیلہ نے ایک بار پھر اُس سے پوچھا، لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ وہ جیسے نیند میں تھا اور اب بیدار ہوچکا تھا۔
’’کچھ نہیں‘‘ کاظم نے غصہ سے اسے جھڑکا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ اور راحیلہ… اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ کچھ سمجھنا بھی نہیں چاہ رہی تھی۔ بہت سی باتیں جو شعیب کی موت پر لوگ کر رہے تھے… وہ چہ میگوئیاں اُس وقت وہ نہیں سمجھ پارہی تھی۔ وہ تمام گرہیں جو بڑی سختی سے لگی ہوئی تھیں اب شاید اُن کا سرا کہیں نظر آرہا تھا، لیکن… لیکن وہ انہیں سلجھانا نہیں چاہ رہی تھی… انہیں الجھا ہی چھوڑ دینا چاہتی تھی۔ وہ سارا دن اور اگلے دن بھی بے حد الجھی رہی۔ ہر وقت شعیب کا مسکراتا چہرہ اُس کی نظروں میں آتا، وہ سختی سے اُسے جھٹکتی، بچوں اور گھر میں لگی رہتی، ہر وقت کاموں میں گھری رہتی… اور پھر بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوگئی۔ لیکن یہ معمّا آج کئی برس گزرنے کے بعد بھی حل نہیں ہوسکا کہ اُس دن شعیب کا توازن واقعی قائم نہ رہ سکا جس کی وجہ سے وہ لہروں میں کھو گیا، یا اُسے لہروں کے حوالے کردیا گیا! پھر اسے بچانے کی کوشش بھی صرف سرسری ہی کی گئی! کیا واقعی وہ اتفاقی حادثہ تھا، یا اُسے اتفاقی حادثے کا رنگ دیا گیا تھا!
No comments:
Post a Comment