Search This Blog

Tuesday 8 January 2013

امریکا میں قتل عام

امریکا میں قتل عام



نگہت فرمان
کوئی بھی سماج جرائم پیشہ افراد سے مبرا نہیں ہوتا،جرائم کی نفسیات پر کام کرنے اور عمر بھر تحقیق کرنیوالے ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ مجرم کے جرم کا کوئی نہ کوئی نفسیاتی مسئلہ ضرور ہوتا ہے۔ وہ شدید احساس محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ بچپن کا کوئی حادثہ انھیں جرم پر انتقام پر اکساتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہذب سماج میں ریاست عوام کی نفسیاتی تربیت کا اہتمام بھی کرتی ہے۔

ان کی معاشی ضرورت اور بنیادی سامان زندگی کو مہیا رکھنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ وہ اپنی پوری کوشش کرتی ہے کہ ہر طرح کی محرومی کا سدباب کرے، احساس محرومی جرائم کی جڑ ہے اسی لیے جب ان کے یہاں کوئی قاتل پکڑا جائے تو وہ اس محرک پر غور کرتی ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بناء پر ایک شخص قاتل بن گیا، اور پھر صرف غور کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ ان محرکات کا سدباب بھی کیا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ قاتل کی نفسیاتی تربیت بھی کی جاتی ہے جب تک کہ وہ پھر سے ایک نارمل انسان بن جائے اور اس کے شر سے سماج محفوظ رہے۔اسی لیے وہاں جیل کو اصلاح گھر بنایا گیا ہے اور اس کے اثرات بھی نظر آتے ہیں۔

ویلی ڈیورانٹ کی کتاب زندگی میں خودکشی کے اسباب پر بات کی گئی ہے جس پر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے سرکردہ افراد سے سوالات کی صورت میں مکالمہ کیا گیا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر طرح کی سہولتوں، آسائشوں سے آراستہ افراد مجرم نہیں ہوتے ، ایک شخص ایک پوری کائنات کی طرح ہوتا ہے، لاکھ بھید چھپائے ہوئے، مغربی سماج میں تنہائی ایک بڑا روگ بن گئی ہے، انسان کی ضرورت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے خیالات کو کسی ایسے ہم راز سے شیئر کرے جس پر اسے اعتماد ہو۔
آپ سوال کرسکتے ہیں کہ فیس بک، ای میل اور دیگر بلاگز یہ کمی پوری کردیتے ہیں، آپ ہر طرح کا مکالمہ کرسکتے ہیں، یقینا آپ کی بات درست ہے۔ ایسا ہی ہے، لیکن انسان کو ایک گوشت پوست کا جیتا جاگتا وجود درکار ہوتا ہے جو اس کی ہر وقت دسترس میں ہو۔ مغرب کی بڑھتی ہوئی مصروفیات نے انسان کو مشین بنادیا ہے۔ نتیجہ تنہائی، اداسی اور بے یقینی ہے، سماجی ماہرین کا اصل موضوع اب یہ رہ گیا ہے کہ انسان کی تنہائی کو کیسے ختم کیا جائے اور اس کے اعتماد کو کیسے بحال کیا جائے؟

14 دسمبر کو امریکی ریاست کنیکٹیکٹ کے پرائمری اسکول میں 20 سالہ ایڈم لانز نے 26 افراد کو گولیاں برسا کر ہلاک کردیا۔ پولیس کی جوابی فائرنگ سے ایڈم لانز خود بھی ہلاک ہوگیا۔ یہ واقعہ ایک قصبے نیو ٹاؤن کے سینٹری ہک پرائمری اسکول میں پیش آیا۔ جہاں زیر تعلیم بچوں کی عمریں پانچ سے دس سال کے درمیان ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ایڈم لانز نے سب سے پہلے اپنی ماں کو قتل کیا جو اسی اسکول میں ٹیچر تھیں اور اس کے بعد اس نے دیگر جماعتوں میں جاکر بچوں کو قتل کیا۔ اٹھارہ بچے موقعے پر ہی اور دو نے اسپتال میں جاکر دم توڑ دیا۔ بلاشبہ یہ واقعہ انتہائی افسردہ کردینے والا ہے۔ ایڈم لانز نے سیاہ لباس پر بلٹ پروف جیکٹ پہنی ہوئی تھی اور اس کے پاس بہت سارے ہتھیار تھے۔

یاد رہے امریکا میں ہتھیاروں کے لیے کوئی لائسنس نہیں لینا پڑتا۔ حال ہی میں ایک قانون ضرور بنایا گیا ہے کہ جس شخص کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہو وہ کسی بھی جگہ سے اپنی پسند کا ہتھیار خرید سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکا میں تقریباً ہر شخص جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح ہے۔ رواں سال میں امریکا میں اجتماعی قتل عام کا یہ تیسرا بڑا واقعہ ہے۔ جولائی میں امریکی ریاست کولوراڈو کے شہر آرورا کے ایک سینما میں بارہ افراد کو قتل کردیا گیا تھا۔ جس وقت قاتل نے گولیاں برسائیں اس وقت لوگ فلم بیٹ مین دیکھ رہے تھے۔

صدر اوباما کے حریف مٹ رومنی نے اس موقعے پر اپنی انتخابی مہم روک دی تھی، گیس ماسک پہنے ہوئے ایک نوجوان نے پہلے سینما میں آنسو گیس پھینکی اور پھر فائرنگ شروع کردی۔ بعد میں پولیس نے نیورو سائنس کے ایک طالب علم جس کی عمر 24 سال تھی کو حراست میں لے لیا تھا۔ ایف بی آئی کے ذرایع نے مسلح نوجوان کا نام جیزہومز بتایا تھا جو ہومز یونیورسٹی آف کولوراڈو میں زیرتعلیم تھا اور پی ایچ ڈی کے پروگرام سے نکلنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ ملزم نے اپنے بال سرخ رنگے ہوئے تھے اور وہ خود کو بیٹ مین کا حریف جوکر کہہ رہا تھا۔ اس واقعے کے بعد امریکی سینما گھروں میں جہاں بیٹ مین کی نمائش ہورہی تھی حفاظتی اقدامات انتہائی سخت کردیے گئے تھے۔ فرانس کے شہر پیرس میں تو اس فلم کی نمائش تک منسوخ کردی گئی تھی۔
اگست 2012 میں ہی امریکی ریاست و سکونسن میں سکھوں کے گوردوارے پر ایک مسلح شخص نے فائرنگ کی تھی جس میں حملہ آور سمیت سات افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ جب کہ پولیس کا ایک افسر بھی اس واقعے میں شدید زخمی ہوگیا تھا، اس طرح کے واقعات بالخصوص امریکا میں عام سی بات ہیں۔ خاصے عرصے سے امریکا میں ہتھیاروں کی کھلے عام فروخت پر بحث جاری ہے۔ امریکا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آئینی طور پر ہر بالغ شہری اپنے پاس جدید ترین ہتھیار رکھ سکتا ہے۔ سیاسی طور پر بھی یہ مسئلہ دو بڑی جماعتوں ڈیموکریٹک جو ہتھیاروں پر کنٹرول کا حامی ہے اور ری پبلکن کی بڑی تعداد ڈیموکریٹ کی مخالف رہی ہے، اکثر امریکی شہروں میں گن شوز ہوتے رہتے ہیں جہاں خواتین وحضرات کی بہت بڑی تعداد آتی ہے۔

تقریباً ڈھائی سو سال قبل ہتھیار رکھنے کے آئینی حق کو اب ختم کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ جس کے سیاست پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ امریکا میں کئی ریاستوں میں قانون ہے کہ آپ اپنے دفاع میں گولی چلاسکتے ہیں اور اپنی پرائیویٹ حدود میں داخل ہونیوالے کسی بھی شخص کو گولی مار سکتے ہیں۔امریکا کے باسیوں نے اپنے گھروں کے باہر ایسی تنبیہی تختیاں لگائی ہوئی ہیں جن پر تحریر ہے کہ گھر میں بلااجازت داخل ہونے پر آپ کو گولی ماردی جائے گی۔ ایک ماہر عمرانیات کے مطابق امریکی ہتھیاروں سے عشق کرتے اور اپنے ہتھیاروں پر فخر کرتے ہیں۔ مشہور امریکی افسانہ نگار ارنسٹ ہمنگوے کے جتنے افسانے مشہور ہوئے اتنی ہی ان کی بندوقیں مشہور ہیں۔
ان کی ایک مشہور کتاب ’’ہمنگنویز گنز‘‘ اس کا ثبوت ہے۔اتنی لمبی تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ امریکا آئے روز پاکستانیوں کو خصوصاً دہشت گرد قرار دیتا رہتا ہے، پوری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ دہشت گرد کا لاحقہ لگانا اپنا فرض سمجھتا ہے، جرائم پیشہ افراد اور قاتل ہر سماج کا حصہ ہوتے ہیں۔ کوئی بھی سماج اس سے مبرا نہیں ہوتا۔ تیسری دنیا اور خصوصاً پاکستان گزشتہ تین دہائیوں سے دہشت گردی کے چیلنج کا سامنا کررہا ہے اور اپنی حتی المقدور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے کہ اس کا سدباب ہو۔ ہماری سرحدیں خطرات کی زد میں ہیں۔

ایسے میں پاکستان میں اندرونی و بیرونی دہشت گردی کے واقعات کو عام لوگوں سے جوڑنا اوراپنا ایک نقطہ نظر بنالینا سراسر زیادتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ دنیا میں بڑھتی ہوئی عالم گیر دہشت گردی کا سدباب کیا جائے اور اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق ختم کی جائے۔ عالم گیر امن کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب اپنے تعصب کو ختم کرکے دہشت گردی کو دہشت گردی سمجھیں اور اسے مسلمانوں اور بالخصوص پاکستان کے لیے کریہہ پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرنا بند کریں، انسانیت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گرد کو صرف دہشت گرد سمجھا جائے اور اسے اس کے مذہب و دین سے نہ جوڑا جائے۔
Courtesy Express News

No comments:

Post a Comment