ندامت
ارم ناصر
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کسی گائوں میں ایک یتیم بچہ فاخر رہتا تھا جس کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ وہ بہت غمگین اور اداس رہتا تھا۔ اسی محلے میں ایک نرم طبیعت کا دکاندار حشمت بھی دکان پر بیٹھتا تھا۔ وہ بہت انسان دوست اور شفیق تھا۔ جب فاخر کے لالچی چچا نے اس کو اس کے گھر سے نکال کر اس پر قبضہ کرنا چاہا تو حشمت نے بہت کوششوں سے فاخر کو چچا کے اس ظلم سے بچایا اور پھر فاخر کی تربیت اور دیکھ بھال اپنے ذمے لے لی۔ اس طرح فاخر حشمت کی دکان پر بھی آنے جانے اور دکانداری کرنے لگا۔ انسان پھر انسان ہے، شیطان اس کے ساتھ دشمنی پر کمربستہ رہتا ہے۔ ایک دن فاخر کو دکان پر بیٹھے بیٹھے حشمت کے پیسوں کو خود اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے خیال نے آگھیرا، اور اس نے اپنی پسند کی بہت سی چیزیں خرید لیں۔ حشمت کو اِس کا پتا چل گیا۔ اس نے سوچا کہ اگر فاخر کو پہلی ہی غلطی کرنے پر سمجھایا نہ گیا تو اس کی عادت خراب ہوسکتی ہے۔ اس نے فاخر سے کہا کہ تم نے امانت میں خیانت کی جو غلطی کی ہے اُس کی سزا یہ ہے کہ تم مجھے اپنی تنخواہ کے جمع شدہ پیسوں سے یہ رقم ادا کرو۔ لیکن فاخر کی جمع شدہ رقم اتنی نہیں تھی۔ حشمت نے اُس وقت کسی نرمی کا رویہ اختیار نہ کیا بلکہ فاخر سے کہا کہ مجھے صبح تک یہ رقم پوری کرکے دو۔ فاخر کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا اور وہ گردن جھکائے آنسو بہا رہا تھا۔ حشمت نے کہا: یہ مونگ پھلی لے کر جائو اور اسے گلی گلی بیچو اور مجھے وہ رقم ادا کرو جو تم نے دکان سے لیکر خرچ کی ہے۔ فاخر کو ایسا ہی کرنا پڑا۔ رات کی ٹھٹھرتی سردی میں اسے گلی گلی گھومنا پڑا تو اس کی عقل ٹھکانے آئی اور اس نے آئندہ بلا اجازت کسی کی کوئی چیز لینے سے توبہ کرلی۔ ادھر حشمت دکاندار نے فاخر کی تابعداری اور اپنی اصلاح کرنے پر خوش ہوکر اسے انعام سے نوازا دیکھا۔
دیکھا بچو! اپنی غلطی پر شرمسار ہونے کا کتنا اچھا انعام ملا۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کسی گائوں میں ایک یتیم بچہ فاخر رہتا تھا جس کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ وہ بہت غمگین اور اداس رہتا تھا۔ اسی محلے میں ایک نرم طبیعت کا دکاندار حشمت بھی دکان پر بیٹھتا تھا۔ وہ بہت انسان دوست اور شفیق تھا۔ جب فاخر کے لالچی چچا نے اس کو اس کے گھر سے نکال کر اس پر قبضہ کرنا چاہا تو حشمت نے بہت کوششوں سے فاخر کو چچا کے اس ظلم سے بچایا اور پھر فاخر کی تربیت اور دیکھ بھال اپنے ذمے لے لی۔ اس طرح فاخر حشمت کی دکان پر بھی آنے جانے اور دکانداری کرنے لگا۔ انسان پھر انسان ہے، شیطان اس کے ساتھ دشمنی پر کمربستہ رہتا ہے۔ ایک دن فاخر کو دکان پر بیٹھے بیٹھے حشمت کے پیسوں کو خود اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے خیال نے آگھیرا، اور اس نے اپنی پسند کی بہت سی چیزیں خرید لیں۔ حشمت کو اِس کا پتا چل گیا۔ اس نے سوچا کہ اگر فاخر کو پہلی ہی غلطی کرنے پر سمجھایا نہ گیا تو اس کی عادت خراب ہوسکتی ہے۔ اس نے فاخر سے کہا کہ تم نے امانت میں خیانت کی جو غلطی کی ہے اُس کی سزا یہ ہے کہ تم مجھے اپنی تنخواہ کے جمع شدہ پیسوں سے یہ رقم ادا کرو۔ لیکن فاخر کی جمع شدہ رقم اتنی نہیں تھی۔ حشمت نے اُس وقت کسی نرمی کا رویہ اختیار نہ کیا بلکہ فاخر سے کہا کہ مجھے صبح تک یہ رقم پوری کرکے دو۔ فاخر کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا اور وہ گردن جھکائے آنسو بہا رہا تھا۔ حشمت نے کہا: یہ مونگ پھلی لے کر جائو اور اسے گلی گلی بیچو اور مجھے وہ رقم ادا کرو جو تم نے دکان سے لیکر خرچ کی ہے۔ فاخر کو ایسا ہی کرنا پڑا۔ رات کی ٹھٹھرتی سردی میں اسے گلی گلی گھومنا پڑا تو اس کی عقل ٹھکانے آئی اور اس نے آئندہ بلا اجازت کسی کی کوئی چیز لینے سے توبہ کرلی۔ ادھر حشمت دکاندار نے فاخر کی تابعداری اور اپنی اصلاح کرنے پر خوش ہوکر اسے انعام سے نوازا دیکھا۔
دیکھا بچو! اپنی غلطی پر شرمسار ہونے کا کتنا اچھا انعام ملا۔
No comments:
Post a Comment