Search This Blog

Saturday, 26 January 2013

مالی : آپریشن کے نام پرمسلمانوں کاقتل عام

آپریشن کے نام پرمسلمانوں کاقتل عام

ڈاکٹر ساجد خاکوانی 

الی (افریقہ)میںیورپی فوجوں کی یلغار
اور ’گلوبل ویلج‘‘عالمی گاؤں کے نام پرسیکولرازم کی افواج نے دنیاکواپناباجگزاربنارکھاہے۔مشرق سے مغرب تک اپنے مرضی کے قوانین بناکر انہیں اقوام متحدہ کی بزورقوت آشیربادسے جہاں چاہاجب چاہا اپنی افواج اتاردیں اور مقامی آبادیوں پر،جنازوں پراور باراتوں پر انہیں دہشتگرد قراردے کر انسانیت کا خوب خوب کشت و خون کیا،لاشوں کے ڈھیرلگائے ،نسلوں اور فصلوںکو اجاڑا،شہروں کو ملبے کاڈھیربناڈالااور سال کے آخر پراپنے ہی پروردہ اداروں سے انسان دوستی کی مستند اسناد بھی حاصل کر لیں۔گویا’’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ سازکرے‘‘۔سیکولرازم کی یہ کذب بیانی اورجھوٹ کے داؤ پیچ کوئی نئے نہیں ہیں،جب تک دنیاپر غلامی مسلط رہی انسانوں کی شکاری سیکولریورپی افواج نے دنیابھر میں لوٹ ماراور قتل و غارت گری کابازار گرم کیے رکھا اور جب وقت نے تیزی سے آگے کو جست لگانی شروع کی تو نت نئے نعروں سے دنیاپر تہذیبی و معاشی غلامی کوجاری کیااورآزادی ،جمہوریت اوررائے عامہ کے نام پر غلامی کی نت نئی ہتھکڑیوںسے قوموں کو ان کی گردنوں تک طوق پہناکر جکڑ ڈالا۔ایشیائی ممالک میں ایک عرصے سے ظلم کی چکی چلانے کے بعد اب یہی مشق ستم افریقی ممالک میں بھی جاری ہے اورخودساختہ پیمانوں سے ہی جینوامعاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے اور انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے یورپی افواج 90%مسلمان آبادی کے افریقی ملک ’’مالی‘‘پرچڑھ دوڑی ہیں اور ہفتہ 19جنوری2013کے دن تک دوہزارفرانسیسی افواج ’’مالی‘‘کی سرزمین پر اتر چکے تھے جبکہ مزید کی آمد جاری ہے۔ان غیرملکی افواج کی سفری سہولیات کے لیے برطانیہ نے اپنے دوC17کارگوطیارے فرانس کو دیے ہیں،بیلجیم اورڈنمارک بھی اپنے جہازاسی مقصد کے لیے فرانس کو فرہم کررہے ہیںجبکہ امریکہ بھلاکیوں پیچھے رہے گاکہ مسلمانوں کے خلاف یہ کاروائی جوہورہی ہے توبرقی مواصلات کے تمام انتظامات اس ریاست نے اپنے ذمے لیے ہیں۔
’’جمہوریہ مالی‘‘سمندر سے محروم، افریقہ کاسوتواں بڑاملک ہے،براعظم افریقہ کے مغرب میں واقع اس ملک کی سرحدیں شمال میں الجرائر،مشرق میں نائجر،جنوب میں برکینا فاسواورآئیوری کوسٹ،جنوب مغرب میں گنی اورمغرب میں سینیگال اور موریطانیہ سے ملتی ہیں۔’’بملکو‘‘مرکزی دارالحکومت ہے۔22ستمبر1960ء کوفرانسیسی استعمار سے اس قوم نے آزادی حاصل کی۔گرم اور خشک آب و ہواکا یہ ملک زیادہ تر خشک سالی کے باعث غربت کاشکار رہتاہے حالانکہ اس سرزمین کے نیچے قدرت نے سونے ،یورینیم اور فاسفورس جیسے قیمتی خزانے دفن کررکھے ہیں۔ملک کے جنوبی علاقے میں دریائے نائجرکے کنارے کھیتی باڑی کی جاتی ہے لیکن قدیم اور روایتی طریقوںسے حاصل ہونے والی فصلیں ملکی ضروریات بھی پوری نہیں کرپاتیںماہی گیری کا پیشہ بھی اپنایاجاتاہے لیکن ظاہر ہے بہت محدودجس کی وجہ سمندر سے محرومی ہے۔آبادی میں 90%مسلمان صرف 1%عیسائی اور 9%متفرق مقامی قدیمی افریقی مذاہب ہیں۔فرانسیسی دوراقتدارمیں عیسائی مشنری نے یہاں کی غربت سے فائدہ اٹھانا چاہا لیکن ایمان بلالی کی مضبوط چٹان ٹوٹ نہ سکی،اس کی بڑی وجہ نظام تعلیم کا اسلامی بنیادوں پر استوارہوناہے اور ملک کی نوجوانوں کی اکثریت عرب ممالک کے مدارس سے بھی تعلیم حاصل کرنے سدھارجاتی ہے۔
’’مالی‘‘کے موجودہ مسائل شمالی مالی کے علاقے ’’ازواد‘‘سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ علاقہ ماضی میں ایک خودمختارریاست رہاہے لیکن اس کی یہ حیثیت تسلیم نہیں کی جاتی رہی۔’’ازواد‘‘کی تحریک آزادی کی طرف سے مالی کی افواج کے ساتھ لڑائی کے بعد6اپریل 2012میں ’’ازواد‘‘کی آزادی کاخودساختہ اعلان کردیاگیاتھا۔تحریک کے سیکریٹری جنرل نے کسی آئینی و قانونی حکومت بننے تک خودساختہ نوزائدہ مملکت’’ازواد‘‘کے انتظامی اختیارات اپنے پاس رکھے ۔26مئی 2012میں ازوارکی تحریک آزادی نے ’’جماعۃ التوحیدوالجہادفی غرب افریقہ‘‘کے ساتھ مل کر ’’ازواد‘‘کواسلامی ریاست بنانے کااعلان کردیا۔اس مملکت کو یورپ سمیت افریقہ کے کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔یہ سیکولرازم کا دورخاپن ہے،انڈونیشیامیں جب مشرقی تیمور نے اپنی آزادی کااعلان کیاتواقوام متحدہ اورامریکہ سمیت کل یورپی ممالک نے اسے تسلیم بھی کیااوراسے مکمل تحفظ بھی فراہم کیاصرف اس لیے کہ مشرقی تیمور میں عیسائیوں کی اکثریت تھی۔اب افریقہ میں ایک اسلامی ریاست اس سیکولرازم کے کارپردازوں کو برداشت نہیں ہے۔پورامغربی میڈیا سرتوڑ کوشش کررہاہے کہ ’’جماعۃ التوحیدوالجہادفی غرب افریقہ‘‘کاتعلق القائدہ سے ثابت کیاجائے تاکہ حسب سابق دنیای آنکھوں میں دھول جھونک کراس کے خلاف آپریشن کیاجاسکے۔لیکن اب تک کسی آزاد ذریعے سے اس تعلق کی تصدیق نہیں ہوسکی اور ایسے مواقع پر سیکولرازم کے انسانی حقوق اورآزادی رائے کے تمام سوتے خشک ہوجاتے ہیں کہ ’’جماعۃ التوحیدوالجہادفی غرب افریقہ‘‘کاموقف بھی دنیاکے سامنے رکھنے کا موقع فراہم یاجائے اور قوام متحدہ کا بے دست و پا ادارہ بھی سامراج و استعمارکاآلہ کاربن جاتاہے۔
دنیاکا میڈیااورپریس ’’جماعۃ التوحیدوالجہادفی غرب افریقہ‘‘کاچہرہ بری طرح مسخ کرکے پیش کررہاہے،اس تنظیم پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے کچھ یورپیوں کو یرغمال بنارکھاہے۔جب کہ یہ ایک عالمی حقیقت ہے کہ افریقہ کے ممالک دنیابھرکے جرائم کامرکزسمجھے جاتے ہیںاور خود یورپی جرائم پیشہ گروہوں نے اپنے مراکزافریقی ممالک میں قائم کررکھے ہیںجہاں سے پوری دنیا کی انسانی سمگلنگ سمیت کل جرائم کی نگرانی کی جاتی ہے،ان حالات میں افریقہ کے تمام حالات کا ذمہ دار ’’جماعۃ التوحیدوالجہادفی غرب افریقہ‘‘کوقراردینااور انہیں اپنی صفائی کا موقع دیے بغیر ان پر چڑھ دوڑنا کون سے اصول اور قانون کے موافق ہیں؟؟؟اگریورپیوں کوہی بچانا مقصدہے تو یہ پیمانہ اس وقت کیوں نہ اپنایاگیاجب بوسینیامیں یورپی مسلمانوں کو ہی مارا جارہا تھا،جب کہ سینکڑوں اجتماعی قبروں میں دفن یورپی مسلمانوں اس بات کا بین ثبوت ہے کہ سیکولرازم کی یلغار خالصتاًاسلام اور مسلمانوں کے ہی خلاف ہے اور کچھ بعید نہیں عراق اور کویت کی جنگ کی طرح یہ کھیل بھی یورپ اور امریکہ کے خفیہ اداروں نے مل کر کھیلاہو تاکہ یورپی افواج کی مداخلت کا جواز فراہم کر کے تو وہاں پر موجود اسلامی شعوررکھنے والوں کو تہہ تیغ کیاجاسکے۔افریقہ میں اسی شہراور اسی مقام پر اگر سیکولرفکرکے حامل اپنی تحریک چلاتے اور آزادی حاصل کرتے تو دنیابھرکے انسانی حقوق جاگ اٹھتے ،دنیابھرکا میڈیاان کی قیادت کے انٹرویوزنشرکررہاہوتااور سرمایادارانہ نظام کے مالیاتی ادارے سیکولرازم کی پرورش کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتے لیکن اب چونکہ مسلمان بنیاد پرست اس مقصدکو لے کر آگے بڑھ رہے رہیں تو انسانی حقوق،جمہوریت اور آزادی رائے کے سارے پیمانے بدل بدل گئے ہیں۔
فرانس چونکہ ایک زمانے تک مالی کی سرزمین پر حکومت کرتارہاہے اس لیے ان سخت ترحالات میں مالی کی حکومت کو مجبورکیاگیاکہ وہ آزادی کی تحریک دبانے کے لیے بیرونی فوجی امداد کی درخواست کرے۔اس درخواست کے نتیجے میں12اکتوبر2012کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے جس میں مسلمانوں کی کوئی مستقل نمائندگی نہیں ہے،فرانس کی طرف سے پیش کی گئی قراردادکو متفقہ طورپر منظورکر لیاگویا اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کہ افواج دوسرے ملکوں میں داخل نہیں ہواکریں گی ،کی مخالفت کردی۔ابتداً پنتالیس دن کاوقت دیاگیا لیکن بعد میں20دسمبر2012کی قراردادمیں ان بیرونی افواج کو ایک سال کا وقت دیاگیا کہ وہ وہاں سے راسخ العقیدہ مسلمانوں کا صفایاکردیں۔فرانسیسی افواج نے اس کاروائی کو ’’اپریشن سرول‘‘(Operation Serval)کانام دیا ہے جس کے تحت مالی کی ریاست میں فتح پر فتح حاصل کرتے ہوئے مسلمان آزادی پسندوں کا قلع قمع کرنے میں مالی کی افواج کی مدد کی جائے گی۔
افغانستان میں سیکولرافواج کا جم غفیر جس طرح پسپائی کے گڑھے کی طرف سرعت سے گرتاچلاجارہاہے ،ضرورت تھی کہ اس سے سبق حاصل کرلیاجاتالیکن دریاؤں میں پانی کی بجائے جن انسانوں کا خون بہہ رہاہے ،کوئی تو ان کا بھی خالق و مالک ہے،کہیں تو ان کی چیخیں اور آہیں بھی پہنچتی ہیں،ایک طرف سودی نظم معیشیت تو دوسری طرف جبرواکراہ اور ظلم و تشددوقتل وغارت گری اور زبان سے انسانیت انسانیت کا راگ،آخر کاتب تقدیر کب تک برداشت کرے گا۔ایمان کی قوت سے ٹکراکر USSRجس طرح اپنا وجود کھو بیٹھاہے توموجودہ بچی کھچی سیکولرافواج بھی اسی تاریخ کو اپنے اوپر دہراتے ہوئے ضرور دیکھیں گی اور بہت جلد سیکولرازم کے دورخے پن سے انسانیت کو آزادی میسرآئے گی اور بنی آدم اپنے سچے خداکے حضورسربسجود ہوگی کہ ہرچیز اپنی اصل کی طرف ہی پلٹائی جاتی ہے۔

Friday, 25 January 2013

ندامت

ندامت

ارم ناصر
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کسی گائوں میں ایک یتیم بچہ فاخر رہتا تھا جس کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ وہ بہت غمگین اور اداس رہتا تھا۔ اسی محلے میں ایک نرم طبیعت کا دکاندار حشمت بھی دکان پر بیٹھتا تھا۔ وہ بہت انسان دوست اور شفیق تھا۔ جب فاخر کے لالچی چچا نے اس کو اس کے گھر سے نکال کر اس پر قبضہ کرنا چاہا تو حشمت نے بہت کوششوں سے فاخر کو چچا کے اس ظلم سے بچایا اور پھر فاخر کی تربیت اور دیکھ بھال اپنے ذمے لے لی۔ اس طرح فاخر حشمت کی دکان پر بھی آنے جانے اور دکانداری کرنے لگا۔ انسان پھر انسان ہے، شیطان اس کے ساتھ دشمنی پر کمربستہ رہتا ہے۔ ایک دن فاخر کو دکان پر بیٹھے بیٹھے حشمت کے پیسوں کو خود اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے خیال نے آگھیرا، اور اس نے اپنی پسند کی بہت سی چیزیں خرید لیں۔ حشمت کو اِس کا پتا چل گیا۔ اس نے سوچا کہ اگر فاخر کو پہلی ہی غلطی کرنے پر سمجھایا نہ گیا تو اس کی عادت خراب ہوسکتی ہے۔ اس نے فاخر سے کہا کہ تم نے امانت میں خیانت کی جو غلطی کی ہے اُس کی سزا یہ ہے کہ تم مجھے اپنی تنخواہ کے جمع شدہ پیسوں سے یہ رقم ادا کرو۔ لیکن فاخر کی جمع شدہ رقم اتنی نہیں تھی۔ حشمت نے اُس وقت کسی نرمی کا رویہ اختیار نہ کیا بلکہ فاخر سے کہا کہ مجھے صبح تک یہ رقم پوری کرکے دو۔ فاخر کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا اور وہ گردن جھکائے آنسو بہا رہا تھا۔ حشمت نے کہا: یہ مونگ پھلی لے کر جائو اور اسے گلی گلی بیچو اور مجھے وہ رقم ادا کرو جو تم نے دکان سے لیکر خرچ کی ہے۔ فاخر کو ایسا ہی کرنا پڑا۔ رات کی ٹھٹھرتی سردی میں اسے گلی گلی گھومنا پڑا تو اس کی عقل ٹھکانے آئی اور اس نے آئندہ بلا اجازت کسی کی کوئی چیز لینے سے توبہ کرلی۔ ادھر حشمت دکاندار نے فاخر کی تابعداری اور اپنی اصلاح کرنے پر خوش ہوکر اسے انعام سے نوازا دیکھا۔
دیکھا بچو! اپنی غلطی پر شرمسار ہونے کا کتنا اچھا انعام ملا۔

معما

معما

فرحی نعیم
’’پھر اماں کب جائو گی؟‘‘ شعیب ماں کے پاس بیٹھا بڑی عاجزی سے پوچھ رہا تھا۔ اُس کے اس طرح پوچھنے پر اماں کو بے ساختہ ہنسی آگئی۔
’’ارے تاب رکھ، چلی جائوں گی ایک دو دن میں۔‘‘
’’ایک دو دن میں کیوں اماں؟آج ہی چلی جائو‘‘۔
’’توبہ ہے، تمہاری بہن آجائے، اُس کے ساتھ ہی تو جائوں گی، اکیلی جاتی کیا اچھی لگوں گی میں!‘‘ اماں کو اس کے بے صبرے پن پر تائو آگیا۔
’’تو بلالائوں میں تہمینہ کو؟‘‘ وہ جلدی سے بولا۔
’’اگر آجائے تو بلا لائو۔‘‘ اماں نے جان چھڑائی، انہیں معلوم تھا کہ تہمینہ کس طرح بچوں میں گھری رہتی ہے۔ اسے تو ماں کے گھر آنے کی بھی فرصت بڑی مشکل سے ملتی تھی۔ اور پھر شعیب نے نہ جانے تہمینہ سے کیا کہا کہ وہ شام کو ہی چھوٹے بچے کو بغل میں دباکر آگئی اور آتے ہی اپنی مصروفیات کی کہانی سنانے بیٹھ گئی، ’’اماں کیا بتائوں سر کھجانے کی فرصت نہیں ہے۔ اس شعیب نے ایسی ہتھیلی پر سرسوں جمائی کہ مجھے آتے ہی بن پڑی۔ اب جلدی چلو مجھے بڑے کام ہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں جانتی ہوں، سارے شہر کے مسائل تم ہی کو تو حل کرنے ہیں۔‘‘ اماں نے جل کر کہا اور برقع اوڑھنے لگیں۔
پھر دونوں ساتھ کی گلی میں رہنے والے اکرم صاحب کے گھر چلی گئیں جن کی بیٹی راحیلہ کا رشتہ وہ شعیب کے لیے مانگ رہی تھیں۔ شعیب، راحیلہ کو کافی عرصہ سے پسند کرتا تھا اور اب وہ بڑی سنجیدگی سے اس سے شادی کرنے کا سوچنے لگا تھا۔ اور اماں نے جیسے ہی اس کی شادی کرنے کا ارادہ کیا اور اس سلسلے میں جب اس سے ذکر کیا تو جھٹ اس نے راحیلہ کا نام لے دیا۔ راحیلہ، اماں کی بھی دیکھی بھالی تھی، انہیں بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا! انہوں نے ہامی بھرلی۔ اب سارا مسئلہ وہاں جانے کا تھا۔ اماں تہمینہ کا انتظار کررہی تھیں اور تہمینہ کو فرصت نہ تھی، اسی طرح ایک ہفتہ گزر گیا تھا۔ دوسری طرف شعیب سے اب صبر نہیں ہورہا تھا، وہ دن رات اماں سے پوچھتا اور انہیں وہاں جانے کے لیے اکساتا۔ اور پھر زیادہ دن نہ گزرے کہ راحیلہ کے گھر سے مثبت جواب آگیا۔ اماں نے خوشی میں ساری گلی میں مٹھائی بانٹی۔
……٭……
’’مبارک ہو خالہ! میں ابھی گھر آیا تو امی نے مجھے مٹھائی دی کہ شعیب کی بات پکی ہوگئی ہے۔ یہ شعیب تو بڑا چھپا رستم نکلا۔ مجھ کو بھی کسی بات کی ہوا نہ لگنے دی۔ کہاں کی ہے آپ نے شعیب کی منگنی؟ کون ہے؟ کیسی ہے؟‘‘ کاظم نے آتے ہی پہلے تو شکایت کی پھر کئی سوال کر ڈالے۔
’’ارے تمہیں نہیں پتا!‘‘ اماں کو بھی حیرت ہوئی کہ شعیب اور کاظم تو بڑے گہرے دوست تھے۔ ایک محلہ، ایک اسکول… وہ تو بچپن سے ہی ایک دوسرے کے گھر ہر وقت آتے جاتے تھے۔ شعیب نے کاظم سے اس بات کا تذکرہ نہ کیا تھا، اس بات نے اماں کو حیرانی میں ڈال دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ اماں مزید کچھ کہتیں کہ شعیب بھی آگیا اور آتے ہی کاظم نے اس کو پکڑ لیا۔ پہلے تو اس کو خوب لتاڑا، پھر اس کو پکڑ کر وہیں صحن میں بچھے تخت پر بیٹھ کر اس سے پوچھنے لگا:
’’ارے یار تم بھی اسے جانتے ہو، اکرم چاچا کی بیٹی راحیلہ۔‘‘ شعیب مسکرا کر بولا اور کاظم کے تو چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔
’’کیا کہہ رہے ہو تم! تم نے اتنی بڑی بات مجھ سے چھپائی!‘‘ کاظم اس کے پیچھے چھپی کہانی کی تہہ تک یکدم ہی پہنچ گیا تھا۔
’’کچھ نہیں یار۔‘‘ شعیب کھسیا کر رہ گیا تھا۔ اگرچہ اس نے کاظم کو کچھ نہیں بتایا تھا لیکن وہ پھر بھی بہت کچھ جان گیا تھا۔ اور اسی طرح بہت سے دن گزر گئے۔ اماں راحیلہ کو بہو بنا کر لے آئیں۔ دن بڑے مطمئن گزر رہے تھے۔ اوپر تلے تین بچوں نے شعیب اور راحیلہ کی زندگی کو بہت مصروف کردیا تھا۔ شادی کو پانچ سال گزر گئے، شعیب گھر اور بچوں کی ذمہ داریوں میں الجھ گیا تھا، لیکن ان دونوں کی دوستی اسی طرح قائم تھی۔ کاظم کی بھی شادی اس دوران ہوچکی تھی۔
……٭……
’’یار بہت عرصہ ہوگیا، کوئی تفریحی پروگرام نہیں بنا‘‘۔ شعیب اور کاظم رات کے کھانے سے فارغ ہوکر گھر کے باہر بیٹھے تھے کہ باتوں کے درمیان شعیب نے کاظم سے کہا۔ ’’ہاں میں بھی پچھلے دنوں یہی سوچ رہا تھا۔ گھر، دفتر، اس کے جھمیلے، فرصت ہی نہیں ملتی۔ میں دوسرے دوستوں سے بات کرتا ہوں پھر کوئی پروگرام بناتے ہیں‘‘ کاظم نے جواب دیا۔ اور پھر اس نے پروگرام بنانے میں دیر نہیں لگائی۔ اس نے اپنے اور شعیب کے چار اور مشترکہ دوستوں کے ساتھ ساحلِ سمندر پر جانے کا پروگرام بنا لیا۔ چنانچہ سویرے ہی چھٹی کے دن سب اکٹھے ہوکر ساحل کی طرف روانہ ہوئے۔ سارے دوستوں نے مل کر خوب ہلا گلا کیا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد چائے کا دور چلا اور پھر سب نے واپسی کی ٹھانی۔ سامان وغیرہ باندھ کر شعیب اور کاظم نے ایک دفعہ اور پانی میں جانے کا پروگرام بنا لیا۔ دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کافی آگے بڑھ گئے تھے۔ پیچھے سے دوستوں نے آوازیں بھی لگائیں لیکن دونوں نے ہی ان سنی کردی۔ وہ لوگ پانی کی کشش میں بہت آگے بڑھ گئے تھے۔ پانی ان کی کمر تک پہنچ رہا تھا کہ اچانک ہی شعیب کا پیر پھسلا اور آناً فاناً وہ سمندر کی لہروں کی لپیٹ میں آگیا۔ کاظم نے اسے بچانے کی بڑی کوشش کی لیکن بے رحم موجوں نے شعیب کو دور اچھال دیا۔ کاظم بڑی مشکل سے واپس آیا۔ سارے دوست بے بسی سے سمندر کی طرف دیکھ رہے تھے، کسی کو بھی تیرنا نہیں آتا تھا جو آگے بڑھ کر شعیب کو بچانے کی کوشش کرتا۔ لہروں نے دو تین مرتبہ شعیب کو اچھالا، پھر اپنی آغوش میں لے لیا۔ سب جیسے سکتے میں آگئے تھے۔ کافی کوششوں کے بعد شعیب کی لاش ملی۔ کیا سے کیا ہوگیا تھا۔ آنے سے پہلے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شعیب ان کا پیارا دوست جو اپنے پیروں پر چل کر آیا ہے، کی واپسی کاندھوں پر ہوگی۔ راحیلہ کو تو جیسے سکتہ ہی ہوگیا تھا۔ وہ اپنے آپ سے، بچوں سے، ہر کسی سے جیسے بیگانہ ہوگئی تھی۔ شعیب کی اچانک اور ناگہانی موت سے اسے ناقابلِ برداشت صدمہ پہنچا تھا۔ تینوں بچے ابھی بہت چھوٹے تھے اور انہیں قدم قدم پر ماں کی ضرورت تھی۔ وقت اور حالات نے اُن سے اُن کا باپ تو چھین لیا تھا لیکن ساتھ ہی جیتے جی ماں بھی جیسے غافل ہوگئی تھی۔
کہتے ہیں وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔ آہستہ آہستہ شاید بچوں کے لیے وہ زندگی کی طرف واپس آنے لگی۔ ماں باپ کے بہت کہنے سننے پر راحیلہ نے پھر سے اپنے آپ کو دنیا کے کاموں کی طرف مائل کرنا شروع کیا تھا۔ عدت ختم ہونے کے بعد وہ اپنے میکہ آگئی تھی۔ ابھی شعیب کے انتقال کو سال بھی نہیں ہوا تھا کہ راحیلہ کے پیغام آنے لگے تھے۔ اس کی عمر ہی کیا تھی! صرف23 سال، اور اتنی کم عمری میں وہ شادی شدہ، تین بچوں کی ماں اور پھر بیوہ بھی ہوگئی تھی۔ وقت نے اس کے ساتھ بڑا سنگین مذاق کیا تھا۔ راحیلہ کی ماں اسے دوسری شادی پر آمادہ کرنے لگیں، لیکن اس نے سختی سے انکار کردیا تھا۔
’’امی مجھے شادی نہیں کرنی، کتنی دفعہ آپ سے کہوں!‘‘ وہ تنگ آچکی تھی۔ ’’کیا ایسے ہی زندگی گزرے گی؟ ابھی تمہارے سامنے ایک لمبی زندگی ہے، پھر تین بچے، اکیلے کیسے سنبھال پائو گی؟‘‘ امی آج پھر اسے لے کر بیٹھی تھیں۔
’’سب ہوجائے گا، اللہ مالک ہے۔‘‘
’’ارے کیسے ہوجائے گا! اور یہ اللہ ہی کا تو حکم ہے، دوسری شادی کی اجازت ہے۔ کوئی اللہ نے یہ تھوڑی کہا ہے کہ جوگ لے کر بیٹھ جائو۔ اللہ نے تو ہمارے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں۔ تم تو خوش نصیب ہو کہ تمہارے لیے پھر پیغام آرہے ہیں، ورنہ یہاں تو کنواریوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔‘‘ آخر اب کون آگیا جو آپ اتنا اصرار کررہی ہیں؟‘‘ راحیلہ چڑ کر بولی۔
’’کاظم کی ماں بہنیں آئی تھیں‘‘۔ امی بھی فوراً اصل بات پر آگئیں۔
’’کاظم کی ماں؟ لیکن کاظم کا تو کوئی بھائی نہیں ہے، وہ کس کا رشتہ لے کر آئیں؟‘‘
راحیلہ اچنبھے سے بولی۔
’’وہ کاظم کا پیغام لائی ہیں، وہ تم سے نکاح کرنا چاہتا ہے۔‘‘
’’لیکن کیوں؟ وہ تو شادی شدہ ہے، بال بچوں والا، اس کی بیوی بھی اچھی خاصی ہے، اسے کیا ضرورت ہے؟‘‘ راحیلہ حیران تھی۔
’’ہاں وہ تم سے دوسری شادی کرنا چاہتا ہے اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں۔ اچھا خاصا ہے، دیکھا بھالا بھی، اور تم بھی اسے اچھی طرح جانتی ہو۔ اس کی ماں بے حد اصرار کرکے گئی ہیں، اگلے ہفتے آئیں گی، بتائو میں کیا جواب دوں؟‘‘
امی اس سے پوچھ رہی تھیں۔
’’انکار‘‘ راحیلہ نے مضبوطی سے جواب دیا۔
لیکن اس دفعہ گھر والوں نے راحیلہ کی ایک نہ چلنے دی اور اُدھر کاظم کے گھر والوں کی طرف سے بے حد دبائو تھا۔ اسے بچوں کا واسطہ دے کر بالآخر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا گیا، اور یوں وہ کاظم کے گھر اس کی دوسری بیوی بن کر چلی آئی۔ کاظم اس کا بہت خیال رکھتا، اس کی اور بچوں کی ہر ضرورت پوری کرتا، اس نے بڑی چاہت سے راحیلہ کو اپنے گھر میں رکھا ہوا تھا۔ اگرچہ شعیب کا دکھ بھولنے والا تو نہیں تھا لیکن وہ آہستہ آہستہ گھر گرہستی میں لگ کر بہل چکی تھی، وہ کاظم کے ساتھ سمجھوتا کرچکی تھی۔ اس کا غم کسی حد تک کم ہوچکا تھا۔ وہ کاظم کے بھی دو بچوں کی ماں بن چکی تھی۔
آج کاظم بڑا خوش تھا، اس کی ترقی ہوئی تھی اور اس خوشی میں وہ راحیلہ اور بچوں کے لیے تحائف لایا تھا۔ اس نے راحیلہ کا ہاتھ پکڑ کر بڑا خوبصورت کنگن اسے پہنایا اور مسکراتے ہوئے کہا:
’’تم کو معلوم ہے راحیلہ میں تمہیں کب سے پسند کرتا ہوں؟‘‘
راحیلہ نے جواب میں اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’جب تمہاری شعیب سے شادی بھی نہیں ہوئی تھی اُس سے بھی پہلے۔‘‘
راحیلہ کی نظروں میں حیرانی دیکھ کر وہ مزید بولا: ’’اصل میں تم مجھے بہت پہلے ہی سے اچھی لگتی تھیں۔ اور میں تم سے شادی کا بھی خواہشمند تھا، لیکن کیاکرتا، بے روزگار تھا۔ مجھے کوئی ڈھنگ کی نوکری ہی نہیں مل رہی تھی اور میری امی نے مجھے یہ الٹی میٹم دیا ہوا تھا کہ جب تک نوکری سے نہ لگ جائو شادی کا نام بھی نہ لینا۔ کیونکہ اس وقت گھر کے حالات بھی ٹھیک نہ تھے۔ بہرحال پھر اچانک شعیب سے تمہاری منگنی کی اطلاع ملی۔ اگرچہ یہ میرے لیے بڑا شاک تھا لیکن کیا کرتا، شعیب میرا بڑا عزیز دوست تھا، اس نے بھی مجھے تمہارے متعلق کبھی کوئی بھنک نہ دی تھی اور نہ ہی میں نے کبھی اُسے بتایا تھا، اور یوں میں نے اپنے دل پر پتھر رکھ لیا اور خاموش رہا۔ لیکن میرے دل میں تمہاری محبت پلتی ہی رہی۔ تمہاری شادی ہوگئی، اور بعد میں نوکری ملنے کے بعد میں نے بھی شادی کرلی لیکن تمہیں پانے کا ارمان میرے دل میں پروان چڑھتا ہی رہا۔ لیکن پھر…‘‘ وہ رکا، اور دوبارہ گویا ہوا:’’ مجھے موقع مل گیا بلکہ قدرت نے خود ہی موقع فراہم کر دیا۔‘‘ ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی، نہ سمجھنے والی معنی خیزی اس کے چہرے پر احاطہ کیے ہوئے تھی۔
’’موقع؟ کیسا موقع؟‘‘ راحیلہ جو خاموشی سے یہ انکشافات سن رہی تھی ایک دم بری طرح چونکی تھی۔ دوسری طرف کاظم جو نہ جانے کس رو میں یہ سب کہتا چلا جارہا تھا راحیلہ کے ایک دم ٹوکنے پر بری طرح ٹھٹھک گیا اور فوراً ہی خاموش ہوگیا۔
’’بتائیں آپ کیا کہہ رہے تھے؟‘‘ راحیلہ نے ایک بار پھر اُس سے پوچھا، لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ وہ جیسے نیند میں تھا اور اب بیدار ہوچکا تھا۔
’’کچھ نہیں‘‘ کاظم نے غصہ سے اسے جھڑکا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ اور راحیلہ… اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ کچھ سمجھنا بھی نہیں چاہ رہی تھی۔ بہت سی باتیں جو شعیب کی موت پر لوگ کر رہے تھے… وہ چہ میگوئیاں اُس وقت وہ نہیں سمجھ پارہی تھی۔ وہ تمام گرہیں جو بڑی سختی سے لگی ہوئی تھیں اب شاید اُن کا سرا کہیں نظر آرہا تھا، لیکن… لیکن وہ انہیں سلجھانا نہیں چاہ رہی تھی… انہیں الجھا ہی چھوڑ دینا چاہتی تھی۔ وہ سارا دن اور اگلے دن بھی بے حد الجھی رہی۔ ہر وقت شعیب کا مسکراتا چہرہ اُس کی نظروں میں آتا، وہ سختی سے اُسے جھٹکتی، بچوں اور گھر میں لگی رہتی، ہر وقت کاموں میں گھری رہتی… اور پھر بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوگئی۔ لیکن یہ معمّا آج کئی برس گزرنے کے بعد بھی حل نہیں ہوسکا کہ اُس دن شعیب کا توازن واقعی قائم نہ رہ سکا جس کی وجہ سے وہ لہروں میں کھو گیا، یا اُسے لہروں کے حوالے کردیا گیا! پھر اسے بچانے کی کوشش بھی صرف سرسری ہی کی گئی! کیا واقعی وہ اتفاقی حادثہ تھا، یا اُسے اتفاقی حادثے کا رنگ دیا گیا تھا!

سری لنکا

سری لنکا

محمد جاوید بروہی
بحر ہند کا موتی کہلانے ولاا ملک سری لنکا براعظم ایشیا میں واقع ہے اس کے مشرق میں خلیج بنگال مغرب میں خلیج منار شمال میں آ بنائے پالک اور جنوب میں بحر ہند ہے انگریزوں کے دور حکومت میں اسے ’’مشرق کا موتی‘‘ کہا جاتا تھا اس کا رقبہ 65610 مربع کلو میٹر ہے۔ موجودہ دارالحکومت سری جے وردنا پورا کوٹ ہے۔ کولمبو کو دارالحکومت کا درجہ اٹھارہویں صدی میں برطانوی قبضے کے بعد ملا 1978ء میں کولمبو کو کمرشل دارالحکومت قرار دیا گیا سری لنکا کا سرکاری نام ڈیمو کریٹک شوسلسٹ جمہوریہ سری لنکا ہے۔ یہاں نظام حکومت جمہوری ہے۔ یہاں سربراہ مملکت صدر اور سربراہ حکومت وزیر اعظم کہلاتا ہے سری لنکا کی وزیراعظم مسز بندرانائکے جن کا اصل نام Mayosri تھا دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں سری لنکا کے پرانے نام پتروبانی، سالائیو، سرالزیپ اور سیلون تھے کولمبو سری لنکا کا سب سے بڑا شہر ہے اس کی آبادی 2 ملین سے زیادہ ہے اس کا شمار جنوب ایشیائی ممالک میں سیاحت کے لحاظ سے تین بڑے شہروں میں ہوتا ہے یہ سری لنکا کے موجودہ دارالحکومت سے متصل ہے سری لنکا کا شہر کینڈی ہاتھی دانت کے مندروں کے لیے مشہور ہے سری لنکا نے 1948ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی 1950ء کے اجد اس کا نام سری لنکا رکھا گیا یہاں اکثریت کا مذہب بدھ مت ہے سنہالی یہاں کی سرکاری زبان ہے اس کے علاوہ تامل اور انگریزی بھی بولی جاتی ہے یہاں شرح خواندگی 92 فی صد ہے جو دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کی آبادی تقریباً دو کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں کی کرنسی سری لنکن روپیہ کہلاتی ہے۔ شہر یہاں کا قومی جانور ہے سری لنکا دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں جنگلی ہاتھیوں کا وسعی سروے کیا گیا ہے سری لنکا کا سب سے قدیم عجائب گھر کولمبو میں ہے جس کا نام نیشنل میوزیم ہے جو 1877ء میں قائم ہوا تھا۔
سری لنکا میں قومی دن 22 مئی کو منایا جاتا ہے

KIRNEIN


کرنیں

عبدالرحمن نعیم
شیخ سعدیؒ کا نام و شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے وہ بہت بڑے بزرگ تھے۔ انہوں نے زندگی کا بڑا حصہ علم کے حوصل اور دنیا کی سیاحت میں گزارا اور ان کی باتوں میں حکمت و دانائی کے گوہر بھرے پڑے ہیں جس میں سے چند قیمتی اور سنہرے اقوال ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
(1) آہستہ مگر… مسلسل چلنا کامیابی کی ضمانت ہے۔
(2) اگر چڑیاں بھی اتحاد کر لیں تو شیر کی کھال اتار سکتی ہیں۔
(3) عقلمند اس وقت تک نہیں بولتا جب تک خاموشی نہیں ہو جاتی۔
(4) رزق کی کمی اور زیادتی دونوں برائی کی طرف لے جاتی ہیں۔
(5) دوست وہ ہے جو دوست کا ہاتھ پریشانی اور تنگی میں پکڑتا ہے۔
(6) جو کوئی اپنی محنت سے روٹی کھاتا ہے اسے حاتم طائی کا احسان نہیں اٹھانا پڑتا۔
(7) جو بچپن میں ادب نہیں سیکھتا بڑی عمر میں اس سے بھلائی کی کوئی امید نہیں ہے۔
(8) دشمن سے ہمیشہ بچو اور اس دوست سے بھی جو منہ پر تمہاری تعریف کرے۔
(9) زندگی کی درازی کا راز صبر میں ہے۔

MILADUNNABI AUR HAMARI ZINDAGI - Munsif Editorial


JASHNE MILADUNNABI S.A.W. - Etemaad Editorial


KI MOHMMED S.A.W. SE WAFA TU NE TO HUM TEREY HAIN - Monisa Bushra Abidi


Wednesday, 9 January 2013

The muezzin’s last call at Babri Masjid: Krishna Jha

The muezzin’s last call at Babri Masjid: Krishna Jha and Dhirendra K Jha

 
This guest post by KRISHNA JHA and DHIRENDRA K JHA is an excerpt from their book, Ayodhya: The Dark Night, about the original Ayodhya conspiracy of 22 December 1949
Published December 2011 by HarperCollins India;Rs 499; Pages 232
Published December 2011 by HarperCollins India; Rs 499; Pages 232
The sound of a thud reverberated through the medieval precincts of the Babri Masjid like that of a powerful drum and jolted Muhammad Ismael, the muezzin, out of his deep slumber. He sat up, confused and scared, since the course of events outside the mosque for the last couple of weeks had not been very reassuring. For a few moments, the muezzin waited, standing still in a dark corner of the mosque, studying the shadows the way a child stares at the box-front illustration of a jigsaw puzzle before trying to join the pieces together.
Never before had he seen such a dark cloud hovering over the mosque. He had not felt as frightened even in 1934, when the masjid was attacked and its domes damaged severely, one of them even developing a large hole. The mosque had then been rebuilt and renovated by the government. That time, it had been a mad crowd, enraged by rumours of the slaughter of a cow in the village of Shahjahanpur near Ayodhya on the occasion of Bakr-Id. This time, though the intruders were not as large in number, they looked much more ominous than the crowd fifteen years ago.
As the trespassers walked towards the mosque, the muezzin – short, stout and dark-complexioned, wearing his usual long kurta and a lungi – jumped out of the darkness. Before the adversaries could discover his presence, he dashed straight towards Abhiram Das, the vairagi who was holding the idol in his hands and leading the group of intruders. He grabbed Abhiram Das from behind and almost snatched the idol from him. But the sadhu quickly freed himself and, together with his friends, retaliated fiercely. Heavy blows began raining from all directions. Soon, the muezzin realized that he was no match for the men and that he alone would not be able to stop them.
Muhammad Ismael then faded back into the darkness as unobtrusively as he had entered. Quietly, he managed to reach the outer courtyard and began running. He ran out of the mosque and kept running without thinking where he was going. Though he stumbled and hurt himself even more, the muezzin was unable to feel the pain that was seeping in through the bruises. Soon, he was soaked in blood that dripped at every move he made. He was too stunned to think of anything but the past, and simply did not know what to do, how to save the masjid, where to run. There was a time when he used to think that the vairagis who had tried to capture the graveyard and who had participated in the navah paath and kirtan thereafter had based their vision on a tragic misreading of history, and that good sense would prevail once the distrust between Hindus and Muslims – which had been heightened during Partition – got healed. That was what he thought during the entire build-up outside the Babri Masjid ever since the beginning of the navah paath on 22 November, and that was why he never really believed the rumour that the real purpose of the entire show in and around the Ramachabutara was to capture the mosque.
Muhammad Ismael had always had cordial relations with the priests of the Ramachabutara. The animosity that history had bequeathed them had never come in the way of their day-to-day interactions and the mutual help they extended to each other. Bhaskar Das – who was a junior priest of the small temple at the Ramachabutara in those days and who later became the mahant of the Nirmohi Akhara – also confirmed this.
Before 22 December 1949, my guru Mahant Baldev Das had assigned my duty at the chabutara. I used to keep my essential clothes and utensils with me there. In the night and during afternoon, I used to sleep inside the Babri Masjid. The muezzin had asked me to remove my belongings during the time of namaz, and the rest of the time the mosque used to be our home.
While the chabutara used to get offerings, enough for the sustenance of the priest there, the muezzin usually always faced a crisis as the contribution from his community for his upkeep was highly irregular. Often, vairagis, particularly the priest at the chabutara, would feed the muezzin. It was like a single community living inside a religious complex. Communalists on both sides differentiated between the two, but, for the muezzin they were all one.
But it was not so once the vairagis entered the mosque that night. The trust that he had placed in them, he now tended to think, had never been anything but his foolish assumption. It had never been there at all. In a moment, the smokescreen of the benevolence of the vairagis had vanished. The muezzin seemed to have experienced an awakening in the middle of that cold night. His new, revised way of thinking told him that the men who had entered the Babri Masjid in the cover of darkness holding the idol of Rama Lalla had no mistaken vision of history. Indeed, these men had no vision of any kind; what they had done was a crime of the first order, and what they were trying to accomplish was simply disastrous.
Despite his waning strength, Muhammad Ismael trudged along for over two hours and stopped only at Paharganj Ghosiana, a village of Ghosi Muslims – a Muslim sub-caste of traditional cattle-rearers – in the outskirts of Faizabad. The residents of this village, in fact, were the first to awaken to the fact that the Babri Masjid had been breached when a frantic ‘Ismael Saheb’ came knocking on their doors at around 2 a.m. on 23 December 1949. Abdur Rahim, a regular at the mosque before it was defiled, had this to say:
They might have killed Ismael saheb. But he somehow managed to flee from the Babri Masjid. He reached our village around 2 a.m. He was badly injured and completely shaken by the developments. Some villagers got up, gave him food and warm clothes. Later, he began working as a muezzin in the village mosque, and sincerely performed his role of cleaning the mosque and sounding azan for prayer five times a day until his death in the early 1980s.
In Paharganj Ghosiana, Muhammad Ismael lived like a hermit. He could neither forget the horror of that night, nor overcome the shock that broke his heart. He was among the few witnesses to one of the most crucial moments in independent India’s history, and the first victim to resist the act. Spending the rest of his life in anonymity, he appeared immersed deep in his own thoughts, mumbling, though rarely, mostly about ‘those days’. Life for the trusting muezzin could never be the same.
(Krishna Jha is a Delhi-based freelance journalist and biographer of SA Dange, one of the founding fathers of the Indian communist movement. Dhirendra K Jha is a political journalist with Open magazine in Delhi.)

courtesy: http://kafila.org/2013/01/07/the-muezzins-last-call-at-babri-masjid-krishna-jha-and-dhirendra-k-jha/

Tuesday, 8 January 2013

امریکا میں قتل عام

امریکا میں قتل عام



نگہت فرمان
کوئی بھی سماج جرائم پیشہ افراد سے مبرا نہیں ہوتا،جرائم کی نفسیات پر کام کرنے اور عمر بھر تحقیق کرنیوالے ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ مجرم کے جرم کا کوئی نہ کوئی نفسیاتی مسئلہ ضرور ہوتا ہے۔ وہ شدید احساس محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ بچپن کا کوئی حادثہ انھیں جرم پر انتقام پر اکساتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہذب سماج میں ریاست عوام کی نفسیاتی تربیت کا اہتمام بھی کرتی ہے۔

ان کی معاشی ضرورت اور بنیادی سامان زندگی کو مہیا رکھنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ وہ اپنی پوری کوشش کرتی ہے کہ ہر طرح کی محرومی کا سدباب کرے، احساس محرومی جرائم کی جڑ ہے اسی لیے جب ان کے یہاں کوئی قاتل پکڑا جائے تو وہ اس محرک پر غور کرتی ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بناء پر ایک شخص قاتل بن گیا، اور پھر صرف غور کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ ان محرکات کا سدباب بھی کیا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ قاتل کی نفسیاتی تربیت بھی کی جاتی ہے جب تک کہ وہ پھر سے ایک نارمل انسان بن جائے اور اس کے شر سے سماج محفوظ رہے۔اسی لیے وہاں جیل کو اصلاح گھر بنایا گیا ہے اور اس کے اثرات بھی نظر آتے ہیں۔

ویلی ڈیورانٹ کی کتاب زندگی میں خودکشی کے اسباب پر بات کی گئی ہے جس پر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے سرکردہ افراد سے سوالات کی صورت میں مکالمہ کیا گیا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر طرح کی سہولتوں، آسائشوں سے آراستہ افراد مجرم نہیں ہوتے ، ایک شخص ایک پوری کائنات کی طرح ہوتا ہے، لاکھ بھید چھپائے ہوئے، مغربی سماج میں تنہائی ایک بڑا روگ بن گئی ہے، انسان کی ضرورت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے خیالات کو کسی ایسے ہم راز سے شیئر کرے جس پر اسے اعتماد ہو۔
آپ سوال کرسکتے ہیں کہ فیس بک، ای میل اور دیگر بلاگز یہ کمی پوری کردیتے ہیں، آپ ہر طرح کا مکالمہ کرسکتے ہیں، یقینا آپ کی بات درست ہے۔ ایسا ہی ہے، لیکن انسان کو ایک گوشت پوست کا جیتا جاگتا وجود درکار ہوتا ہے جو اس کی ہر وقت دسترس میں ہو۔ مغرب کی بڑھتی ہوئی مصروفیات نے انسان کو مشین بنادیا ہے۔ نتیجہ تنہائی، اداسی اور بے یقینی ہے، سماجی ماہرین کا اصل موضوع اب یہ رہ گیا ہے کہ انسان کی تنہائی کو کیسے ختم کیا جائے اور اس کے اعتماد کو کیسے بحال کیا جائے؟

14 دسمبر کو امریکی ریاست کنیکٹیکٹ کے پرائمری اسکول میں 20 سالہ ایڈم لانز نے 26 افراد کو گولیاں برسا کر ہلاک کردیا۔ پولیس کی جوابی فائرنگ سے ایڈم لانز خود بھی ہلاک ہوگیا۔ یہ واقعہ ایک قصبے نیو ٹاؤن کے سینٹری ہک پرائمری اسکول میں پیش آیا۔ جہاں زیر تعلیم بچوں کی عمریں پانچ سے دس سال کے درمیان ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ایڈم لانز نے سب سے پہلے اپنی ماں کو قتل کیا جو اسی اسکول میں ٹیچر تھیں اور اس کے بعد اس نے دیگر جماعتوں میں جاکر بچوں کو قتل کیا۔ اٹھارہ بچے موقعے پر ہی اور دو نے اسپتال میں جاکر دم توڑ دیا۔ بلاشبہ یہ واقعہ انتہائی افسردہ کردینے والا ہے۔ ایڈم لانز نے سیاہ لباس پر بلٹ پروف جیکٹ پہنی ہوئی تھی اور اس کے پاس بہت سارے ہتھیار تھے۔

یاد رہے امریکا میں ہتھیاروں کے لیے کوئی لائسنس نہیں لینا پڑتا۔ حال ہی میں ایک قانون ضرور بنایا گیا ہے کہ جس شخص کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہو وہ کسی بھی جگہ سے اپنی پسند کا ہتھیار خرید سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکا میں تقریباً ہر شخص جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح ہے۔ رواں سال میں امریکا میں اجتماعی قتل عام کا یہ تیسرا بڑا واقعہ ہے۔ جولائی میں امریکی ریاست کولوراڈو کے شہر آرورا کے ایک سینما میں بارہ افراد کو قتل کردیا گیا تھا۔ جس وقت قاتل نے گولیاں برسائیں اس وقت لوگ فلم بیٹ مین دیکھ رہے تھے۔

صدر اوباما کے حریف مٹ رومنی نے اس موقعے پر اپنی انتخابی مہم روک دی تھی، گیس ماسک پہنے ہوئے ایک نوجوان نے پہلے سینما میں آنسو گیس پھینکی اور پھر فائرنگ شروع کردی۔ بعد میں پولیس نے نیورو سائنس کے ایک طالب علم جس کی عمر 24 سال تھی کو حراست میں لے لیا تھا۔ ایف بی آئی کے ذرایع نے مسلح نوجوان کا نام جیزہومز بتایا تھا جو ہومز یونیورسٹی آف کولوراڈو میں زیرتعلیم تھا اور پی ایچ ڈی کے پروگرام سے نکلنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ ملزم نے اپنے بال سرخ رنگے ہوئے تھے اور وہ خود کو بیٹ مین کا حریف جوکر کہہ رہا تھا۔ اس واقعے کے بعد امریکی سینما گھروں میں جہاں بیٹ مین کی نمائش ہورہی تھی حفاظتی اقدامات انتہائی سخت کردیے گئے تھے۔ فرانس کے شہر پیرس میں تو اس فلم کی نمائش تک منسوخ کردی گئی تھی۔
اگست 2012 میں ہی امریکی ریاست و سکونسن میں سکھوں کے گوردوارے پر ایک مسلح شخص نے فائرنگ کی تھی جس میں حملہ آور سمیت سات افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ جب کہ پولیس کا ایک افسر بھی اس واقعے میں شدید زخمی ہوگیا تھا، اس طرح کے واقعات بالخصوص امریکا میں عام سی بات ہیں۔ خاصے عرصے سے امریکا میں ہتھیاروں کی کھلے عام فروخت پر بحث جاری ہے۔ امریکا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آئینی طور پر ہر بالغ شہری اپنے پاس جدید ترین ہتھیار رکھ سکتا ہے۔ سیاسی طور پر بھی یہ مسئلہ دو بڑی جماعتوں ڈیموکریٹک جو ہتھیاروں پر کنٹرول کا حامی ہے اور ری پبلکن کی بڑی تعداد ڈیموکریٹ کی مخالف رہی ہے، اکثر امریکی شہروں میں گن شوز ہوتے رہتے ہیں جہاں خواتین وحضرات کی بہت بڑی تعداد آتی ہے۔

تقریباً ڈھائی سو سال قبل ہتھیار رکھنے کے آئینی حق کو اب ختم کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ جس کے سیاست پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ امریکا میں کئی ریاستوں میں قانون ہے کہ آپ اپنے دفاع میں گولی چلاسکتے ہیں اور اپنی پرائیویٹ حدود میں داخل ہونیوالے کسی بھی شخص کو گولی مار سکتے ہیں۔امریکا کے باسیوں نے اپنے گھروں کے باہر ایسی تنبیہی تختیاں لگائی ہوئی ہیں جن پر تحریر ہے کہ گھر میں بلااجازت داخل ہونے پر آپ کو گولی ماردی جائے گی۔ ایک ماہر عمرانیات کے مطابق امریکی ہتھیاروں سے عشق کرتے اور اپنے ہتھیاروں پر فخر کرتے ہیں۔ مشہور امریکی افسانہ نگار ارنسٹ ہمنگوے کے جتنے افسانے مشہور ہوئے اتنی ہی ان کی بندوقیں مشہور ہیں۔
ان کی ایک مشہور کتاب ’’ہمنگنویز گنز‘‘ اس کا ثبوت ہے۔اتنی لمبی تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ امریکا آئے روز پاکستانیوں کو خصوصاً دہشت گرد قرار دیتا رہتا ہے، پوری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ دہشت گرد کا لاحقہ لگانا اپنا فرض سمجھتا ہے، جرائم پیشہ افراد اور قاتل ہر سماج کا حصہ ہوتے ہیں۔ کوئی بھی سماج اس سے مبرا نہیں ہوتا۔ تیسری دنیا اور خصوصاً پاکستان گزشتہ تین دہائیوں سے دہشت گردی کے چیلنج کا سامنا کررہا ہے اور اپنی حتی المقدور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے کہ اس کا سدباب ہو۔ ہماری سرحدیں خطرات کی زد میں ہیں۔

ایسے میں پاکستان میں اندرونی و بیرونی دہشت گردی کے واقعات کو عام لوگوں سے جوڑنا اوراپنا ایک نقطہ نظر بنالینا سراسر زیادتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ دنیا میں بڑھتی ہوئی عالم گیر دہشت گردی کا سدباب کیا جائے اور اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق ختم کی جائے۔ عالم گیر امن کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب اپنے تعصب کو ختم کرکے دہشت گردی کو دہشت گردی سمجھیں اور اسے مسلمانوں اور بالخصوص پاکستان کے لیے کریہہ پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرنا بند کریں، انسانیت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گرد کو صرف دہشت گرد سمجھا جائے اور اسے اس کے مذہب و دین سے نہ جوڑا جائے۔
Courtesy Express News