Search This Blog

Wednesday 19 April 2017

طیب اردگان کی کامیابی : خدا جانے کتنی دعاؤں کا اثر ہے!

طیب اردگان کی کامیابی : خدا جانے کتنی دعاؤں کا اثر ہے!
مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری
ترکی کی سرزمین سے ہر مسلمان کوایک گہرا تعلق اور خصوصی دلچسپی ہے ،اسلامی تاریخ کی یادیں اس سرزمین سے وابستہ ہیں ۔اس لحاظ سے وہاں پیش آنے والے حالات وواقعات پردنیا کے مسلمان بالخصوص نظر رکھتے ہیں ،اچھی خبروں سے خوش ہوتے ہیں کامیابی اور ترقی کی اطلاعات سے مسرت محسوس کرتے ہیں ،اور مسلمانوں کے عروج وسربلندی سے عالمِ اسلام کے لئے فالِ نیک لیتے ہیں۔چناں چہ گزشتہ دنوں ترکی میں صدارتی نظام میں ترمیم کے مقصدسے ریفرنڈم ہوا،جس میں ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان کامیاب ہوگئے ،اردگان کی یہ کامیابی بہت بڑی کامیابی ہے ،اس کی وجہ سے ان شاء اللہ ایک نئے دور کو آگے بڑھنے اور کامیابی کے ساتھ سفر طے کرنے میں بڑی مدد ملے گی ،حیرت انگیز طور پر اس کامیابی کا اثر پوری دنیا میں محسوس کیا گیا اور مسلمانوں میں ایک خوشی ومسرت کی لہر دوڑگئی ۔خود ترکی باشندوں نے اس کامیابی پر صرف ظاہری خوشیوں کا مظاہرہ نہیں کیابلکہ وہ فرطِ جذبات میں اللہ تعالی کے حضور سجدہ ریز ہوگئے،اللہ اکبر کی صداؤں سے ترکی گونج اٹھا اورلوگوں کو اس فتح وکامیابی سے ایک حوصلہ ملا ۔
ترکی میں ریفرنڈم ہو ،کامیابی رجب طیب اردگان کو حاصل ہو اور دنیا کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں میں خوشی ومسرت پائی جانے لگے ،یقیناًیہ ایک حیرت انگیز بات ہے ،اگردنیا کے دیگر مسلمان طیب اردگان کی کامیابی پر خوشی محسوس کررہے ہیں اور اس کو ایک عظیم فتح سمجھ رہے ہیں تو اس کی ایک وجہ ہے ۔وجہ یہ ہے کہ ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایک طویل دور تک عظمتِ اسلام کا نشان رہنے والی اس سرزمین پر ایسی تیز وتند آندھیاں بھی آئیں کہ آمریت وجابریت کے علم برداروں نے الحاد ودہریت کی جڑوں کو مضبوط کیا ،اوربغاوت اور دین بے زاری کا ماحول پیداکرنے میں اسلام دشمنوں نے کو ئی کسر نہیں چھوڑی ،لیکن سخت ترین حالات ،آزمائش وامتحان کے کٹھن زمانہ میں بھی اس سرزمین پر ایمان کی خاموش محنتیں ہوتی رہیں،ایمان کی چنگاریاں بجھی نہیں تھیں ،اور حفاظتِ اسلام کی تڑپ رگ وپے میں باقی تھی،جانوں کا نذرانہ پیش کرکے نسلوں کے ایمان واسلام کا بیڑااٹھانے والے ترکی کے ایمان پسندوں نے بڑی قربانیاں دیں۔حالات ومشکلا ت سے گزر کر ترکی پھر اب ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہاں کے مسلمانوں کی بڑی تعداد پھر سے حرارتِ ایمانی سے سرشار ہورہے ہیں ،اس انقلاب کو برپاکرنے میں خاموش اور دور اندیش محنتیں اور کوششیں رہی ہیں ۔اور وہاں کے علماء ومفکرین اور مصلحین کی غیر معمولی جدوجہد رہی ،افراد کو تیار کرنے اور ان کے ذہن ودل کو اسلامی سانچے میں ڈھال کر تربیت دینے میں بڑی کوشش کی گئی تب جاکر آج آنکھوں کو یہ دلکش نظارے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
اسلامی انقلاب کے زیر اثر تربیت والوں میں ایک ’’رجب طیب اردگان ‘‘ بھی ہیں۔جو اس وقت ملتِ اسلامیہ کے ایک عظیم رہبر ورہنما اور قائد کی حیثیت سے پہنچانے جارہے ہیں ،وہ جہاں اپنے ملک کی ترقی ،نیک نامی ،اپنی لوگوں کی کامیابی ،ان کی عزت ،فلاح کی جدوجہدکرتے ہوئے دلوں پر حکمرانی کرنے والے بے مثال قائد بن گئے جنہیں ترکی کے لوگ دل وجان سے چاہتے ہیں اور ایک اشارہ پر انقلاب برپا کرنے لئے تیار ہوجاتے ہیں ،وہیں انہیں ہر مسلمان سے محبت ہے ،وہ ہر مسلمان کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھتے ہیں ،خنجر کسی پر چلے ،حالات کاکوئی بھی شکار ہو،دنیا کے کسی بھی خطے اور گوشے میں مسلمان ظلم وستم میں مبتلا سب سے پہلے اپنے درد وکرب کا اظہار کرنے والے اور مظلوم انسانوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرنے والے ایک مثالی قائد کی حیثیت سے اردگان نے اپنی پہنچان بنائی ہے۔اور یہ کوئی بناوٹ یا ظاہری ڈھونگ نہیں بلکہ ان کی انسانیت دوستی ،اورمظلوموں کی حمایت کا ثبوت ملکِ شام ،فلسطین ،برما وغیر ہ ہیں۔نیک دل اور معتدل مزاج ادرگان اس وقت دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے مسیحا وخیر خواہ سمجھے جاتے ہیں ،ان کے کتنے ویڈیواور تصاویر ہیں جنہیں آپ دیکھ سکتے ہیں جس میں وہ شام کے بے قصور انسانوں پر ہونے والے مظالم کو بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں ،فلسطینیوں کی حمایت میں سب سے پہلے رہنے والے اور وہاں کے انسانوں کو امن وامان دلانے کے لئے فکر مند رہنے والے اردگان ہیں،اپنی سرزمین کوانہوں نے مظلوم انسانوں کے لئے پناہ گاہ بنائی ،ان کو آباد کیا ،ان کے لئے سہولیتیں فراہم کی۔ابھی چند دن پہلے جب قاتل بشار الاسد نے زہریلی گیس کے ذریعہ حملہ کیااور بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتارا،جس میں بڑی تعداد میں معصوم بچے بھی تھے۔ صدر طیب اردگان سے کیمیائی حملوں کا شکار بننے والے 9ماہ کے جڑواں بچوں کے باپ عبد الحمید الیوسف نے ملاقات کی اور اپنے دکھ اور درد کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ:’’ہمیں امید ہے کہ دنیا ہمارے دکھ کو سمجھے گی،میرے بچے بہت خوبصورت تھے ،لیکن وہ پہلے بچے نہیں تھے جو اسد کے ظلم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں،ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ ہم کتنے صابر ہیں،اس جاری جنگ میں نہ ہم پہلے نشانہ بننے والے ہیں اور نہ آخری نشانہ ہیں ،چھ سال سے ہم اپنے بچوں کے لاشے اٹھارہے ہیں۔‘‘اس نوجوان نے فرطِ جذبات میں صدر طیب اردغان کی تسلی،تعزیت اوراظہارِ ہمدردری پر پیشانی کا بوسہ دیتے ہوئے کہاکہ:’’وہ اس کی آخری امید ہیں۔‘‘مظلوموں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کے لئے ان کا یہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ:سوئزرلینڈ کے شہر ڈیوس میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں اسرائیل کے صدر شمعون پیرز نے اپنی تقریرمیں کہاتھاکہ اسرائیل کو غزہ میں کئے گئے قتل عام پر کوئی شرمندگی نہیں ۔اگر ضرورت پڑی تو مستقبل میں بھی وہ اس طرح کے اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔اسرائیلی صدر کی وحشیانہ اقدام اور درندگی کے اعلان پر مشتمل اس متکبرانہ تقریر کا جواب دینے کے لئے اجلاس میں رجب طیب اردگان نے منتظمین سے وقت مانگا ۔منتظمین کے انکار پر وہ اجلاس سے یہ کہتے ہوئے واک آؤٹ کرگئے کہ وہ اس اجلاس میں آئندہ کبھی شریک نہیں ہوں گے ،چوں کہ اجلاس کے منتظمین کا رویہ مظلوم مسلمانوں کے خلاف اور ظالم اسرائیل کے حق میں جانب دارانہ ہے۔‘‘اس کے علاوہ بھی اردگان نے دنیا کے ہر علاقہ میں ہونے والے ظلم وتشدد کے خلاف کہا ہے اور مسلمان جہاں کہیں کا بھی ہو ،ان کے ساتھ برابر ہمدردی کا اظہار کیا اور جو کچھ وہ اور ان کی حکومت کرسکتی ہے اس کے کرنے سے بالکل بھی گریز نہیں کیا ،ظالموں کے خلاف صدائے احتجاج بلندکی ،مظلوموں کے لئے اپنے دروازے کھول دئیے ،خداجانے کتنوں کوانہوں نے سہارادیا،بے ٹھکانوں کو آباد کیا،بلکتے انسانوں کے آنسوؤں کو صاف کیا ،یتیم بچوں کو سینے سے لگایا،عورتوں کو عزت واکرام کے ساتھ زندگی گزارنے کا حوصلہ دیا۔اس وقت ترکی کی سرزمین شام کے مظلوم مسلمانوں کا دوسرا ٹھکا نہ ہے۔اردگان نے حکومت کا نظام سنبھال کر اپنی انفرادیت بھی بتائی ،لوگوں کے دلوں کو بھی جیتا ،مسائل ومشکلات کو بھی حل کیا،مغرب زدہ ذہنوں کو اسلام کی طرف لانے اور اسلامی فکر کو پروان چڑھانے کا عظیم کارنامہ بڑی حکمت،دوراندیشی کے ساتھ انجام دیااور دینے میں لگے ہوئے ہیں۔اردگان کی قیادت پر تبصرہ کرتے ہوئے عالم اسلام کے معروف قلم کار ومصنف مفتی ابولبابہ شاہ منصور لکھتے ہیں:’’عظیم ترک قائدرجب طیب اردگان کی قیادت وسیادت نے نہ صرف ترکی میں اسلامی تحریک کو منظم ومستحکم کیا ،بلکہ پورے عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک کے عوام کے اسلامی رجحان ومیلان کے لئے حوصلہ افزاترغیبی مثال پیش کی ہے۔اب ان ممالک کے عوام اورمخلص قائدین کے لئے انسانی فلاح وبہبود کا نمونہ امریکا،برطانیہ،فرانس اور روس وغیرہ نہیں رہے ۔ان کی نگاہیں ترکی پر ٹکی ہوئی ہیں۔اس وقت ہر ملک کے باشعور اور خوش حالی چاہنے والے افراد رجب طیب ارگان کی سی سحر انگیز اور کایاپلٹ قیادت کے طلب گار ہیں۔‘‘
اگر آج صدر رجب طیب اردگان نے ایک تاریخی کامیابی حاصل کی ہے تو جہاں اس میں ان کے خلوص ،درد وتڑپ ،ملنساری و معتدل مزاجی اورعوامی خدمات ومقبولیت کا دخل ہے ،وہیں اردگان کے لئے خدا جانے کتنی ماؤں،کتنے بچوں ،کتنے بوڑھوں،کتنے جوانوں ،کتنی عورتوں کی صبح وشام کی دعاؤں کا اثر ہوگا ،جن کے دلوں کو اردگان نے جیت لیا اور جنہیں ظلم وستم سے نجات دلاکر امن واطمینان کی زندگی گزارنے کے لئے اپنی سرزمین پر رہائش فراہم کی اور ظالموں کے چنگل سے نکالنے کے لئے ہرممکن تگ ودو کی۔محبت بانٹنے والے، ہر ایک کو ہنستا مسکراتا دیکھنے والے اورظلم کا نشانہ بنے دیکھ کر بے قرار وبے اختیار ہوجانے والے اردگان دعاؤں کے حصار میں ہے اور وہ بھی مظلوم انسانوں کی دعائیں ان کے لئے عظیم تمناؤں کے ساتھ ہیں ،اور بے شمار مسلمانوں کی دعائیں ہیں جو ان کی ترقی ،نیک نامی ،سلامتی کے لئے ہر وقت نکلتی ہیں کیوں کہ اس وقت ملتِ اسلامیہ کو ایسے ہی قائدین اور حکمرانوں کی ضرورت ہے۔خدا اردگان کو سلامت رکھے،اور پاکیزہ عزائم وبلند ارادوں میں کامیاب کرے۔آمین

یہی نا........ کہ نکلا پہاڑ کهودا چوها

یہی نا........ کہ  نکلا پہاڑ کهودا چوها
عزیزخان بڑیچ

 .جی هاں وہ معجزہ تم هی تهے کہ جس کو زمین پر  رونما هوجانے کی خاطر  کروڑوں اور اربوں  مرد و زن پیدائش کے عمل میں مشغول رهے.......
کیوں؟
تاکہ آخرکار  ڈرامائی اور معجزانہ طور پر سلسلہ آپ پر منتہج هو......
آپ ذرا اپنی  8 نسلیں پیچهے کی طرف دیکهے تو آپ دیکهه لوگے کہ اس دوران  250  مرد و زن  جمع هوجاتے ہیں جنکی برمحل مجامعت پر آپکی هستی کا دارومدار هے..

آپ  20 نسلیں پیچهے کی طرف سفر کریں تو دیکهوگے کہ  1048576  افراد فقط آپکی خاطر پیدائیش کے عمل میں مصروف ہیں.....

اگر آپ  25 نسلیں پیچهے تک دوڑے  تو  مرد و زن کا اک ٹهاٹیں مارتا هوا سمندر  یعنی   33 کروڑ  55 لاکهه 44 هزار 432  افراد کو صرف تمہاری پیدائیش کی خاطر تگ و دو  میں مصروف پاوگے......

اور پهر اس سے مزید پانچ نسلیں  یعنی  اگر آپ اپنے 30 نسلوں کا خاکہ بنانے کی کوشش کروگے تو  آپ یہ دیکهه کر حیران رہ جاوگے کہ صرف تیس نسلوں تک کا وہ سلسلہ جسکی آخری کڑی تم پر آکر سستانے لگی هے کی بطون میں ایک ارب سے بهی زیادہ یعنی   1073741824 خوابیدہ  مرد اور عورتوں کا صرف آپکو  زمین پر اتارنے کے ارمان، تگ و دو، خواهشات اور کاوشیں  لئے  آپکی شکل میں زمین پر رقصاں ہیں........ صرف اور صرف آپکی شکل میں......... یعنی اک تم  اور  اک ارب سے زیادہ لوگوں کے آپ پر احسانات.....

اور.....اور..... اور جب آپ تهوڑی سی همت کرکے  اپنی نسل کے  64 ویں  کڑی پر پہنچ جائے  تو اتنے لوگوں کا احسان کہ آپکے لئے تصور کرنا محال هوجائے..........
یعنی  ان لوگوں کی تعداد جن کے میل ملاپ کی بدولت آپ نے  عدم وجود سے هستی میں قدم رکها  اندازاا   1000000000000000000  اتنی بنتی هے  اور یہ تعداد ان لوگوں کی تعداد سے سینکڑوں گنا زیادہ هے جو کسی بهی وقت اس کرہ ارض پر موجود رهے............
یہ بات ذہین نشین رهے  کہ ان افراد میں  بهائی ، بہین، چچا ، پهوپهی ، خالہ  غرض کوئی بهی شامل نہیں سوائے  ماں اور باپ کے.........

کیا سمجهے؟؟؟؟؟ 
یہی نا......  کہ ان لاتعداد انسانوں کو مجهے اس دهرتی پر اتارنے کیلئے  کی خواهشات، ارمانوں، محنت اور احسانات کا نتیجہ یہ هرگز نہیں هوسکتا کہ..............  تم سارا دن کمانے اور پیسہ بنانے میں صرف اس لیئے صرف کردو  کہ پهر بیٹه کر آرام سے کهایا جائے اور راتوں کو سکون کی نیند سویا جائے... اور بس....

اگر هماری زندگی کا  75 فیصد حصہ  علم حاصل کرنے،  سیکهنے اور سکهانے، فطرت کے قوانین کو کهوجنے اور  عظیم فطرت سے هم آهنگ هونے کی تگ و دو میں نہیں گزررهی تو پهر کیا هے؟؟؟
 یہی نا........ کہ  نکلا پہاڑ کهودا چوها.

هاں آخری بات کہ پہاڑ کهودنے کے بعد چوهے کا منظر عام پر آنا بهی زیادتی هوگی.......... کیونکہ یہ بهی تو ممکن هے کہ  معلوم نہیں کتنے چوهوں کے بهی احسانات شامل حال هو......


Sunday 26 March 2017

The ugly truths of manual scavenging

The ugly truths of manual scavenging





Despite technological advancements and increasing sensitivity to human rights, manual scavenging continues in the country, and with it, heart-wrenching death.


Though the jury is out on the origins of this inhuman practice of manual scavenging, the fact remains that it persists to this day despite being prohibited under a clutch of laws.

Courtesy The Hindu

http://www.thehindu.com/news/national/the-ugly-truths-of-manual-scavenging/article17666855.ece?homepage=true



The spectre of eviction that haunts Assam’s Bengali Muslims

ISSUE OF IDENTITY SOCIETY

The spectre of eviction that haunts Assam’s Bengali Muslims
Suvojit Bagch

Assam’s Bengali Muslims guard with their lives yellowing documents that prove they are Indian. But it is not enough to keep at bay the constant spectre of eviction

A sudden gust of wind swept up a bunch of worn-out papers at Firoza Khatun’s makeshift house. As the papers flew about, it was a brittle, four-square-inch paper in a blue plastic folder that Khatun and her husband Hanif Ali seemed to care about the most. Firoza ran after the yellowing, leaf-like paper and, much like a child catching a sparrow, she carefully trapped it in her palms.

The tiny piece of paper is the original National Register of Citizens (NRC), 1951, document that was prepared on the basis of independent India’s first census. It has Hanif’s father Altaf Ali’s name written on it in blue ink. The document states that Ali’s ancestors migrated to Assam from erstwhile East Bengal before the Partition. The NRC is being updated again now, so Firoza and Hanif must guard this paper with dear life to establish that they are indeed Indian citizens.

Such ancient documents, often illegible, are possessed in prolific numbers by Assam’s Bangladeshi Muslim immigrant families. “We are obsessed with identity and with papers,” said Ali with a smile.

The anxiety to possess proof of identity has never been greater for this community. The updated NRC will include the descendants of all those who were included in the 1951 register. But a vast majority of these immigrants have been described as ‘doubtful citizens’, and before the 2016 elections in Assam, the Bharatiya Janata Party (BJP) had announced clearly that its key objective was to evict “doubtful citizens” from all government land and ensure the “complete sealing of the Indo-Bangladesh border.”

So, the yellowing piece of paper could not stop Ali’s family from being evicted last September from Deosursang village in Nagaon district. His family now lives in lean-tos in Chikunipathar, where a dozen families were huddled together in the winter cold when we visited early this year.

****

In rhino land

In Banderdubi village, also on the edge of Kaziranga National Park and adjacent to Deosursang, Bimala Khatun’s son, 22-year-old Fakhruddin, stepped out of his hut to see the dozen excavators that had roared into his village. The excavators, escorted by nearly 2,000 policemen and at least a dozen elephants, had arrived to demolish the 200-odd houses made of tin and bamboo. As Fakhruddin stepped out, a stray bullet hit him in the neck. “I was cooking when I heard he was shot. I reached the spot in about five minutes, but he died almost instantaneously,” said Sufiya, his wife. When Bimala Khatun heard about her son’s death, her first thoughts were “about our identity papers,” she said.

Unofficial sources say that about 10,000 people have been evicted from roughly two dozen villages across Assam over the last six months. However, last month, the Assam government officially pegged the figure at 3,500.


In the villages around Kaziranga, the official statement is that these villages fall inside the boundaries of Kaziranga National Park. But the families dispute this. According to Ali, in the mid-90s, around 100 families had been settled in Deosursang by the then Circle Officer. The families allege that the boundary of the national park has been arbitrarily pushed south by about 500 yards and fenced in to displace them. “The police said our village was in the animal corridor, but the adjacent village of Baghmari was not razed. Why are some villages being left and others destroyed,” asked Md. Nizamuddin, a 55-year-old small farmer. He claims it is because his is a Muslim village while Baghmari is an ethnically mixed village.

Banderdubi has seen another death. Anjuma Khatun, 19, was shot dead when “she stood between the bullet and the peasant leader Akhil Gogoi,” said Ashraful Hussain, 24, a social activist. Her death has already become legend in the region.

Gogoi is widely seen by the predominantly Muslim villagers as putting up the only resistance to the administration’s eviction efforts. Anjuma’s death has convinced the villagers of Banderdubi and of the chars (islands) and chaporis (banks) along the river that Gogoi could have stopped the eviction by contesting the elections.

Gogoi, 40, belongs to the Krishak Mukti Sangram Samiti and was mentored initially by Anna Hazare. But he refused to contest the polls, emerging instead as an opponent to the administration’s large-scale eviction plans. He was arrested soon after he staged an agitation in Banderdubi. While in prison, Chief Minister Sarbananda Sonowal continued with the winter evictions. Gogoi was incarcerated for nearly three months. Eventually, a notice was issued to the Assam government by the National Human Rights Commission, but the evictions continued. “People must follow the law, and the State machinery must ensure maintenance of law and order so that all sections of society feel secure,” the Chief Minister said in the Assembly.

Assam’s latest eviction drama has no simple solution, as its roots lie in pre-independence India. It was in 1911 that the British Census Commissioners noted the migration from “overpopulated East Bengal” to the “labour-short, land-abundant Assam,” as mentioned by Assam’s foremost historian Amalendu Guha.

A year later, the Sylhet Division was carved out of Bengal and attached to Assam province. But the growth of the Muslim population proved threatening. “It was then that an open clash of interests began to take place,” wrote Guha in Planter Raj to Swaraj—Freedom Struggle and Electoral Politics in Assam 1826-1947. Eventually a ‘Line System’ was adopted in 1920 to settle immigrants in ‘segregated areas’ with 85% Muslims.

A debate brewed within the Congress. In 1937, Jahawarlal Nehru argued that “from the point of view of developing Assam and making it wealthier… immigration (from East Bengal) is desirable.” It was challenged by the country’s first President, Rajendra Prasad, who believed in populating the Brahmaputra valley with “Hindus of Bihar than Muslims of Mymensingh.” After decades, the cut-off date to accept immigrants was marked as March 24, 1971, a couple of days before the start of the Liberation War in Bangladesh.

Soon after Independence, the Congress opted for a similar large-scale eviction of settlers. “The (Gopinath) Bordoloi government’s routine measures to evict thousands of immigrant squatters from grazing and forest reserves… looked like a counter-measure to curb the (Muslim) League,” wrote Guha. Bordoloi, however, “wisely decided to go slow with the policy and was able to keep the province (Nagaon) free from communal riots.”

This tradition to “go slow” continued until the BJP decided to reverse it now. Even though identifying individuals who arrived after March 24, 1971, is a complex exercise, large-scale eviction has started. A notification in January announced that “encroachment” on government land “shall be removed forthwith by the Deputy Commissioner”. It is this move that threatens to dispossess tens of thousands of people today.

****

Cops in the schools

From a distance, Fuhuratoli, a village in Darrang district, looked like a large, unkempt graveyard. As we got closer, the dust mounds got bigger; they were the remains of what were once tin-roofed huts. On the vacant lot, six or seven girls were plucking yellow flowers from the grass. Their school, Fuhuratoli Primary, had been taken over.

“The police are staying there,” said Anisha Khatun, a Class IV student. Two fractured platoons of about two dozen central paramilitary forces were stationed in the school and in the madrassa to prevent villagers from resettling in Fuhuratoli. Before the eviction, Fuhuratoli had a little over 200 families living on a verdant highland that was about two sq. km in size. The greenery had now disappeared. A strong stench permeated the air in the new settlement lying in the lowland next to Nao river, a distributary of the Brahmaputra, with its polythene shanties that offered no protection against the biting cold. The villagers defecated in holes made on the banks of the Nao. A child had died of diarrhoea and cold, dozens were sick.

Khorshed Mollah is in his 70s. He said that he had moved house three times; living on the banks of the erratic Brahmaputra forces you to do so.

“In 1995,” said Mollah, “I was on the edge of the river in Ballakheti when the river took a turn and ate up our village; that’s when we came here. Now, after 22 years, we are described as encroachers,” said Mollah. The vagaries of the river seem to have been overlooked. Surveys suggest that erosion has created hundreds of new villages in the chars and chaporis, turning settlers to refugees or foreigners, depending on the day’s politics.


This is a key problem. Some 4.27 lakh hectares (or 7.4%) of land has disappeared into the Brahmaputra since the 1950s, widening the river by around 15 km in some places. “The people who lose land to the river set up new villages in new places and are often identified as ‘illegal immigrants’ when they are actually victims of erosion,” said a senior bureaucrat.

The Assam government agreed to rehabilitate “erosion affected families” in an earlier notification but, curiously, added that the order will not extend to those affected by “other natural calamities or man-made disasters.”

****

The cut-off date

The man instrumental in fast-tracking evictions insists that the papers the evicted villagers possess are not authentic. Supreme Court lawyer Upamanyu Hazarika launched Prabajan Virodhi Manch (Forum Against Infiltration) in 2013. He said that their papers are an act of “forgery”.

Hazarika also heads the one-man commission appointed by the apex court to look into the issue. He said that all the people were ‘encroachers’ who did not have land rights. “Otherwise, they would have got immediate protection from the court,” he said. “These people came in through a porous border and should go back the same way.” His forum, he said, is not attached to the BJP or the Rashtriya Swayamsevak Sangh.

Their agendas appear to overlap but as far as Hazarika is concerned, even Bangladeshi Hindus must not be allowed into Assam. “Narendra Modi said that Assam would not take immigrants—so act on that pledge,” said Hazarika.

Vijay Kumar Gupta, a BJP general secretary in Assam, differed. “Any Hindu from Bangladesh or any other country is our citizen,” he said, but Bangladeshi Muslims are “foreigners”. He insisted that the Assam Accord’s 1971 cut-off date be respected. Interestingly, Bengali-origin Muslims also say that they accept this cut-off date.

Meanwhile, the evicted people have gotten together to create a platform demanding compensation and rehabilitation and have even managed to get some recompense. But the Rs. 5 lakh she got makes little sense to Sufiya, Fakhruddin’s wife. “They can take back the money and return my husband,” she said.

As for the others, they continue to cling to blue, purple and yellow files filled with brittle documents, even though they have provided little protection so far.

suvojit.bagchi@thehindu.co.in

Courtesy The Hindu






Thursday 16 March 2017

مرد مومن د زمانہ کے حق میں رحمت اور مظلوموں کا نجات دہندہ ہوتا ہے۔ ایاز الشیخ

 مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے ۔ 
 مرد مومن د زمانہ کے حق میں رحمت  اور مظلوموں کا نجات دہندہ 
ہوتا ہے۔ ایاز الشیخ

حیدرآباد ۔ ''اقبال کے کلام میں مرد مومن کی صفات اور خصوصیات کو کافی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے اور ان صفات کا بار بار تذکر ہ اس صورت سے کیا گیا ہے۔ کہ اس کی شخصیت اور کردار کے تمام پہلو پوری وضاحت سے سامنے آجاتے ہیں ۔ یہ مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے اور تربیت اور استحکامِ خودی کے تینوں مراحل ضبط نفس، اطاعت الہی،اور نیابت الہی طے کرنے کے بعد اشرف المخلوقات اور خلیفتہ اللہ فی الارض ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے''۔ان خیالات کا اظہار معروف اسلامی اسکالر، جناب ایاز الشیخ، چیرمین امام غزالی ریسرچ فاونڈیشن  وریزیڈنٹ ایڈیٹر یو این این نے 'اقبال کا مرد مومن کون؟ '  کے موضوع پر ، کانفرنس ہال جامع مسجد عالیہ عابڈس میں محفل اقبال شناسی کی ٨٨٩  ویں نشست کو مخاطب کرتے ہوئے کیا۔علامہ اقبال کے منتخب اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل مقرر نے کہا کہ ا قبال کا مرد مومن حیات و کائنات کے قوانین کا اسیر نہیں بلکہ حیات و کائنات کو اسیر کرنے والا ہے۔ قرآن مجید نے انسانوں کو تسخیر کائنات کی تعلیم دی ہے اور مرد مومن عناصر فطرت کو قبضے میں لے کر ان کی باگ اپنی مرضی کے مطابق موڑتاہے۔ وہ وقت کا شکار نہیں بلکہ وقت اس کے قبضہ میں ہوتا ہے۔ کافرکا کمال صرف مادہ کی تسخیر ہے لیکن مردمومن مادی تسخیر کو اپنا مقصود قرار نہیں دیتا بلکہ اپنے باطن سے نئے جہانو ں کی تخلیق بھی کرتا ہے۔ وہ زمان و مکان کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے ۔ عرفانِ خودی کے باعث اسے وہ قوت حاصل ہو جاتی ہے جس سے حیات و کائنات کے اسرار و رموز اس پر منکشف ہوتے ہیں اور اس کی ذات جدت و انکشاف اور ایجاد و تسخیر کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ وہ اپنے عمل سے تجدید حیات کرتاہے۔ اس کی تخلیق دوسروں کے لئے شمع ہدایت بنتی ہے۔ایاز الشیخ نے اپنا پر مغز خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ا قبال جسے مستی کردار کہتے ہیں وہ دراصل عمل اور جدوجہد کا دوسر ا نام ہے ان کے ہاں پیہم عمل اور مسلسل جدوجہد کو اسی قدر اہمیت دی گئی ہے کہ مرد مومن کے لئے عمل سے ایک لمحہ کے لئے بھی مفر نہیں۔مردمومن کی ذات میں جمالی اور جلالی دونوں کیفیات بیک وقت موجود ہوتی ہیں ۔ بظاہر یہ کیفیات متضاد نظر آتی ہیں لیکن بباطن یہ ایک دوسرے سے جد ا نہیں اور مرد مومن کی زندگی ان دونوں صفات کی حامل ہوتی ہے ۔ وہ درویشی و سلطانی اور قاہری و دلبری کی صفات کا بیک وقت حامل ہوتا ہے۔ اس کی سیرت میں نرمی اور سختی کا امتزاج ہوتا ہے اور اس کے مضبوط و قوی جسم کے پہلو میں ایک دل درد آشنا ہوتاہے۔جوبے غرض ، بے لوث ، پاک اور نفسانیت سے خالی ہوتا ہے۔ اسی لئے مرد مومن د زمانہ کے حق میںرحمت  اور مظلوموں کا نجات دہندہ ہوتا ہے۔مرد مومن جرات مند ، بے خوف اور حق گو ہوتا ہے ۔ اسے نہ جابر و قاہر انسان خوفزدہ کر سکتے ہیں اور نہ موت اسے ڈرا سکتی ہے۔ وہ ایمان کی قوت سے حق و صداقت کا پرچم بلند کرتا ہے اور شر کی قوتوں کے مقابلہ میں پوری قوت کے ساتھ اس طرح ڈٹ جاتا ہے کہ انہیں پسپا ہونا پڑتا ہے۔ اور پھر معاشرہ اسی نصب العین کی جانب رجوع کرتا ہے۔ جو مرد مومن کا مقصود زندگی ہے۔ اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ مرد مومن اور سچے مسلمان کے لئے اسلام نے جو معیار مقرر کیا ہے بنیادی طور پر اقبال نے اسی کو اپنا یا ہے۔اگر ہم اس معیار کو اپنا لیں توہمارے ظاہر و باطن میں انقلاب برپا ہو جائیگا اور مظلوم انسانیت امن و سکون سے ہمکنار ہوگی۔
قبل ازیں نشست کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ محافل عالیہ کے روح روں جناب غلام یزدانی ایڈوکیٹ نے مقرر اور موضوع کا تعارف کرایا ۔ شہر حیدرآباد و اکناف سے محبان اقبال و علم و ادب کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔دعا پر نشت کا اختتام ہوا۔ اس نشست اور محافل عالیہ کے تمام پروگرامس کی ویڈیو یوٹیوب پر دستیاب ہیں۔ اسکا لنک ہے https://www.youtube.com/user/mahafilealiya










Saffron storm in Uttar Pradesh - Zoya Hasan

Saffron storm in Uttar Pradesh

Zoya Hasan

U.P. has been the epicentre of identity politics, but this election exposed the limits of the politics of social justice

The big verdict in the big State is out. It highlights several important trends, which though specific to Uttar Pradesh, have implications far beyond it. The spectacular political triumph of Prime Minister Narendra Modi and the Bharatiya Janata Party (BJP) is the strongest evidence yet of the tectonic shift in progress since the 2014 Lok Sabha election; to all intents and purposes, the BJP’s resurgence in U.P. consolidates the rightward shift in Indian politics and alters the balance of power to its advantage ahead of the 2019 general election.

Nationalisation of elections
At a broader level, the historic outcome represents the nationalisation of State elections which is a key element of the BJP’s strategy to establish its electoral dominance across the country. The similarity in the national and State election outcomes indicates the re-nationalisation of elections. What underpins nationalisation? Mr. Modi was front and centre in the campaign; thanks to him, the party won a massive majority in a State election without a local face. People voted for Mr. Modi in the State election as though they were voting in a general election. This knocked out the earlier trend of regionalisation when people voted in the general election as though they were voting in State elections.

Also, people voted for Mr. Modi even though he has not done much to deliver on the promises of development, and moreover has not done much for U.P. But the public dissatisfaction with the incumbent State government was enough to persuade voters to believe the Prime Minister’s promise of development rather than either of the two State-based alternatives on offer. Polarisation was actively fuelled by communal appeals, with Mr. Modi taking the lead in stoking the feeling of discrimination against Hindus, pushing in the process a shift towards majoritarian consolidation. The election campaign which started on the high note of development then began to traverse the proverbial ground of polarisation. Not a single Muslim was given a BJP ticket. This sent a clear message that the BJP would not ‘appease minorities’, and that Muslims would be shown their place. Muslims have indeed been shown their place in this election.

As in 2014, it was not overt communalism or straightforward development rhetoric; it was a heady cocktail of both elements couched within a discourse of ‘communalised development’. This mix was dressed up in the political language of ‘nationalism’ which appeals to large parts of U.P.’s electorate. The secular parties were unable to offer an effective counter-narrative to this discourse.

In a surcharged political climate, the critical issue is not the project of ‘development for all’, but the prospect of development for certain groups cleverly articulated in the rhetoric of discrimination against none. The odious communal reference to graveyards and crematoriums in Mr. Modi’s Fatehpur speech repeated by BJP president Amit Shah immediately afterwards and laced with ‘KASAB’ left no scope for misunderstanding which way the politics of development was going. The mordant discourse split U.P., which was once defined by cultural syncretism and Ganga-Jumni culture, along Hindu-Muslim lines.

Marginalising Muslims
In the event, many voters were willing to buy into the BJP’s charges of minority appeasement. Muslims, on the other hand, were expected to vote en masse for the Samajwadi Party (SP)-Congress alliance in order to check the BJP’s advance but it seems this didn’t quite happen because many Muslims reportedly voted for the Bahujan Samaj Party. Nonetheless, the prospect of Muslim consolidation behind the SP was used as a rallying cry for the polarisation of Hindu votes.

While the BJP leadership was propagating its mantra of ‘development for all’, it lost no opportunity to indulge in ‘community-oriented developmentalism’ of its own. It repeatedly attacked the SP government for discriminating between Hindus and Muslims even at the level of providing basic facilities like electricity. The SP government released detailed data of electricity provisions during Eid and Diwali festivals, but it certainly didn’t stop the BJP from continuing to make wild charges of discrimination and giving the impression that it is the only party to challenge the patronage system practised by the SP and Congress. Undeterred by facts, it went on to complain that Muslims were the only ones to benefit from the Kanya Vidya Dhan Yojana, under which the U.P. government provides assistance of ₹30,000 to each girl student who has passed the 12th board examinations with distinction. It is evident that post-truth is having a field day in U.P. A blithe disregard for facts characterised the political campaign of the BJP in this election.

U.P. has been the epicentre of identity politics for over two decades but this election exposed the limits of the politics of social justice. The OBC and Dalit movement, which started off as a political voice of the marginalised social groups giving them a sense of participation in political affairs, had been reduced to the politics of reservations with benefits cornered by particular segments of these castes which alienated sub-groups within the wider category. The BJP was quick to take advantage of the discontent of large social segments with old style identity politics. Turning the politics of social justice on its head, the Rashtriya Swayamsevak Sangh (RSS)/BJP crafted a broad-based identity politics on the ruins of the old political order which had outlived its utility for a critical mass of OBCs. It mobilised a new bloc of voters by showering attention on the most backward among them — the non-Yadav OBCs and non-Jatav Dalits — that blunted the politics of BSP and SP in one stroke. The terms of engagement were unmistakably driven by identity and motivated by resentment towards Yadav-Muslim domination under SP rule. The BJP’s idea of community politics gained new traction as a large number of Hindu voters saw it as a more capacious identity which aligns them to a larger narrative than the fragmentation inherent in caste politics.

The strategy of reverse social engineering that Mr. Shah scripted was clearly aimed at mobilising the most backward castes, notably non-Yadav OBCs and non-Jatav Dalits, to capture the heartland State. In pursuit of this agenda, he distributed tickets copiously to non-Yadav OBCs and to non-Jatavs in reserved seats. Mr. Modi’s assiduous wooing of non-Yadav OBCs and Dalits convinced large sections of them to desert the SP and BSP in the 2014 Lok Sabha election and again in the 2017 Assembly elections.

The power of propaganda
Finally, the stunning victory emphasises the importance of propaganda and messaging. No one can match up to the appeal and the energy of Mr. Modi when it comes to non-stop election campaigning, and the organisational capacity of the RSS when it comes to relentless propaganda and booth management executed in this election by 1.4 lakh booth samitis. Demonetisation is a good illustration of the power of propaganda. Voters in U.P. seem to connect to Mr. Modi’s political messaging and were more than willing to forgive the hardships inflicted on them by notebandi.

In the end, a fractured opposition too helped the BJP. In a three-cornered contest, the BJP had a strong advantage. The party’s vote share jumped from just 15% in 2012 to 39.6% in 2017, which was large enough to win more than a three-fourths majority against a divided opposition. The combined vote share of the BSP (22.2%) and the SP-Congress alliance (28.2%) adds up to over 50%. The Opposition’s only hope of taking on Mr. Modi and the ruling party is to unite on a common platform and ensure that the vote is not split since 50% of voters have not been swayed by BJP’s ideology of ‘communalised development’, which is an essential part of its growth strategy.

Zoya Hasan is Professor Emerita, Centre for Political Studies, Jawaharlal Nehru University and Distinguished Professor, Council for Social Development, New Delhi

Courtesy: The Hindu



Thursday 9 March 2017

ہر چوتھی عورت گھر میں تشدد کا شکار ہوتی ہے ۔ راکیش کمار مالویہ

ہندوستان میں  ہر چوتھی عورت گھر میں تشدد کا شکار ہوتی ہے!

راکیش کمار مالویہ 

ہم خوب یوم خواتین منا لیں، لیکن سچ تو یہی ہے کہ ہندوستان میں خواتین نہ گھر سے باہر محفوظ ہیں ، نہ گھر میں. حال ہی میں قومی خاندان صحت سروے کے نتائج جاری کئے گئے ہیں. ان نتیجوں میں تمام معیار تو یہی کہانی پیش کر رہے ہیں. یہ سروے خود بھارت حکومت پورے ملک میں کرواتی ہے. پچھلا سروے (تیسرا) 10 سال پہلے 2006 میں آیا تھا، 2016 میں اس 17 ریاستوں کے نتائج ہی جاری کئے گئے تھے، اب یوپی کو چھوڑ کر تقریبا تمام ریاستوں کے نتائج آ گئے ہیں . اس سے پورے ملک کی تصویر پتہ چلتی ہے. اس سروے میں بہت ہی چونکانے والے اور آنکھیں کھول دینے والے نتائج سامنے ہیں . آئیے یوم خواتین کے موقع پر خواتین سے متعلق معیار پر غور کرتے ہیں . تشدد کی شکار ہمارے ملک میں خواتین کی پوجا کی جاتی ہے، پر اصل میں انہیں کتنا احترام مل پاتا ہے. سروے کے مطابق بھارت میں 28 فیصد خواتین ایسی ہیں جنہوں نے کبھی نہ کبھی اپنے شوہر کے ہاتھوں مار کھائی ہے. سوچئے، جب گھر میں ہمسفر کے رویہ یہ ہوگا تو باقی لوگ کیا احترام کریں گے. 10 سال پہلے جب یہ سروے کیا گیا تھا، تب 37 فیصد خواتین ایسی تھیں جنہیں شوہر نے کبھی نہ کبھی مارا پیٹا گیا. ان 10 سالوں میں بہت کچھ بدلا، ترقی کی شرح اور جی ڈی پی میں اضافہ ہوا، ڈیجیٹل اور سمارٹ سٹيذ کے دور میں چلے گئے، لیکن یہ تصویر کتنے ہولے ہولے بدل رہی ہے. یہی نہیں، حمل میں، جب حاملہ خواتین کو بھاری وزن نہ اٹھانے کا مشورہ دیا جاتا ہے اس وقت بھی وہ ظلم برداشت کرتی ہیں. سروے کے مطابق حمل کے دوران بھی 3.3 فیصد خواتین کو تشدد کا شکار ہونا پڑا ہے. کیا یہ اعداد و شمار معاشرے کے لئے شرمناک نہیں ؟ کام کرتی ہیں ، ہاتھ نہیں آتی مزدوری خواتین کام تو خوب کرتی ہیں، لیکن ان کے ہاتھ میں مزدوری نہیں آتی. سروے کے مطابق ایسی صرف 24 فیصد خواتین ہیں، جن کے ہاتھ میں براہ راست طور پر مزدوری نقد آ جاتی ہے، اور زیادہ تر مقدمات میں عورت شوہر یا باپ یا دوسرے شخص ہی اجرت ہڑپ جاتے ہیں . مزے کی بات یہ ہے 10 سال پہلے 28 فیصد خواتین کو اجرت ان کے ہاتھ میں مل جایا کرتی تھی، اب یہ چار فیصد تک کم ہو گئی ہے. اس سے پتہ چلتا ہے کہ اب بھی معاشرے میں خواتین کے لیبر کا کوئی مول نہیں ہے اور جو مول ہے بھی تو اس پر ان کا اپنا کوئی حق نہیں .

یہ ضرور ہے کہ اب اجرت اور پینشن سکیم کو براہ راست ہت گراہی کے اکاؤنٹس سے جوڑ کر اسے پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن یہ قدم عورتوں کو براہ راست فائدہ پہنچانے کی توقع بدعنوانی روکنے کی کوشش کے طور پر زیادہ ہے، اس سے اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ خواتین کو ان کی اجرت ان کے ہاتھ میں ہی ملے گی. سماج اور خاندان کے ڈھانچے میں کرنسی کا کنٹرول مرد کی طاقت کے ہی ہاتھوں میں ہے. سروے کا ایک نقطہ اس کی تصدیق بھی کرتا ہے. خاندان میں فیصلے میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے جواب میں 16 فیصد خواتین نے جواب دیا کہ ان کے خاندان کے فیصلوں میں کوئی شرکت نہیں ہوتی. سروے یہ بھی کہتا ہے کہ 53 فیصد خواتین کے پاس بینک میں اپنا کھاتا ہے. اگر اکاؤنٹس میں براہ راست اجرت جمع کرنے کے نظام کو مثالی طور پر لاگو کر بھی دیا تو باقی 47 فیصد خواتین کے اکاؤنٹ کھولے جانے اور بینکاری خدمات تک پہنچ بنائے جانے کی ایک طویل راستہ باقی ہے، یہ حالات تب ہیں جب گزشتہ سالوں میں حکومت نے بڑے پیمانے پر جن دھن اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے کام کیا. اس کے باوجود بینکنگ سیکٹر کی بڑھتی ہوئی مشکلات اور بینکاری خدمات کے لئے تمام طرح کی فیس وصول کرنے کے درمیان یہ نظام تیسری دنیا کی خواتین کے لئے کتنی مشکل ہوگی، سمجھا جا سکتا ہے.  باقی خواتین ظاہر طور پر ایسی عورتیں ہی ہوں گی جو غیر ہنر مند علاقے کے کاموں میں لگی ہوں گی. ایسے میں واقعی میں خواتین کو بااختیار بنانے کا راستہ ابھی بہت لمبا ہے. صحت کے معیار پر بھی تصویر اچھی نہیں صحت سے متعلق نتائج بھی خواتین کی کوئی بہت اچھی تصویر پیش نہیں کر رہے ہیں . ہمارے ملک میں 53 فیصد خواتین خون کی کمی، یعنی خون کی کمی کا شکار ہیں ، 50 فیصد حاملہ خواتین بھی اینيمك پائی گئی ہیں . صرف 51 فیصد خواتین کو حمل کے دوران چار لازمی صحت جاچو کی سہولت مل پاتی ہے. 30 فیصد خواتین ہی آئرن پھلك ایسڈ کی 100 گولیاں استعمال کرتی ہیں . صرف 36 فیصد خواتین کو ادارہ درد زہ کے بعد زچگی فائدہ کے تحت مالی امداد ملتی ہے. یہ سب نتیجہ ہی خواتین کے حق میں تو نہیں ہیں . یہی نہیں ، حیض کے دوران محفوظ ذرائع 57.6 فیصد خواتین نے ہی استعمال کیا ہے. سالوں – سال مہم اور تشہیر کے باوجود صرف 20 فیصد خواتین کو ایچ آئی وی یا ایڈز کے بارے میں کوئی معلومات ہے. 22.9 فیصد خواتین کو باڈی ماس انڈیکس معمول سے کم ہے اور 20 فیصد خواتین ہمارے ملک میں موٹاپے کا شکار ہیں.

بچوں کی شادی کا دکھ بچوں کی شادی کی حالت بھی ایسی ہی ہے. سروے کے مطابق سروے کے وقت 26.8 فیصد خواتین ہیں، جن کی 18 سال سے پہلے کی عمر میں ہی شادی ہو گئی. آبادی کے اعداد و شمار میں بھی ملک میں تقریبا ایک کروڑ 22 لاکھ ایسے بچے نکلتے ہیں، جن کے ‘بال’ شادی ہوئی ہے. ان میں تقریبا 15 سال سے لے کر 19 سال تک کی 7.9 فیصد خواتین سروے کے وقت حاملہ پائی گئیں . ذرا سوچئے، جب 15 سال کی عمر میں ہی کوئی لڑکی ماں بن جائے گی، تو اس ملک کی بنیاد کس طرح مضبوط ہو گی؟ حقیقت میں خواتین کے دن (یوم خواتین ) کی اصل اہمیت  تبھی ہوگی جب ہم ان اعداد و شمار کو ٹھیک کر پائیں . یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔ 

Read more mazameen.com/oped/column/%db%81%d9%86%d8%af%d9%88%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%d9%85%db%8c%da%ba-%db%81%d8%b1-%da%86%d9%88%d8%aa%da%be%db%8c-%d8%b9%d9%88%d8%b1%d8%aa-%da%af%da%be%d8%b1-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%aa%d8%b4%d8%af.html