طیب اردگان کی کامیابی : خدا جانے کتنی دعاؤں کا اثر ہے!
مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری
مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری
ترکی کی سرزمین سے ہر مسلمان کوایک گہرا تعلق اور خصوصی دلچسپی ہے ،اسلامی تاریخ کی یادیں اس سرزمین سے وابستہ ہیں ۔اس لحاظ سے وہاں پیش آنے والے حالات وواقعات پردنیا کے مسلمان بالخصوص نظر رکھتے ہیں ،اچھی خبروں سے خوش ہوتے ہیں کامیابی اور ترقی کی اطلاعات سے مسرت محسوس کرتے ہیں ،اور مسلمانوں کے عروج وسربلندی سے عالمِ اسلام کے لئے فالِ نیک لیتے ہیں۔چناں چہ گزشتہ دنوں ترکی میں صدارتی نظام میں ترمیم کے مقصدسے ریفرنڈم ہوا،جس میں ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان کامیاب ہوگئے ،اردگان کی یہ کامیابی بہت بڑی کامیابی ہے ،اس کی وجہ سے ان شاء اللہ ایک نئے دور کو آگے بڑھنے اور کامیابی کے ساتھ سفر طے کرنے میں بڑی مدد ملے گی ،حیرت انگیز طور پر اس کامیابی کا اثر پوری دنیا میں محسوس کیا گیا اور مسلمانوں میں ایک خوشی ومسرت کی لہر دوڑگئی ۔خود ترکی باشندوں نے اس کامیابی پر صرف ظاہری خوشیوں کا مظاہرہ نہیں کیابلکہ وہ فرطِ جذبات میں اللہ تعالی کے حضور سجدہ ریز ہوگئے،اللہ اکبر کی صداؤں سے ترکی گونج اٹھا اورلوگوں کو اس فتح وکامیابی سے ایک حوصلہ ملا ۔
ترکی میں ریفرنڈم ہو ،کامیابی رجب طیب اردگان کو حاصل ہو اور دنیا کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں میں خوشی ومسرت پائی جانے لگے ،یقیناًیہ ایک حیرت انگیز بات ہے ،اگردنیا کے دیگر مسلمان طیب اردگان کی کامیابی پر خوشی محسوس کررہے ہیں اور اس کو ایک عظیم فتح سمجھ رہے ہیں تو اس کی ایک وجہ ہے ۔وجہ یہ ہے کہ ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایک طویل دور تک عظمتِ اسلام کا نشان رہنے والی اس سرزمین پر ایسی تیز وتند آندھیاں بھی آئیں کہ آمریت وجابریت کے علم برداروں نے الحاد ودہریت کی جڑوں کو مضبوط کیا ،اوربغاوت اور دین بے زاری کا ماحول پیداکرنے میں اسلام دشمنوں نے کو ئی کسر نہیں چھوڑی ،لیکن سخت ترین حالات ،آزمائش وامتحان کے کٹھن زمانہ میں بھی اس سرزمین پر ایمان کی خاموش محنتیں ہوتی رہیں،ایمان کی چنگاریاں بجھی نہیں تھیں ،اور حفاظتِ اسلام کی تڑپ رگ وپے میں باقی تھی،جانوں کا نذرانہ پیش کرکے نسلوں کے ایمان واسلام کا بیڑااٹھانے والے ترکی کے ایمان پسندوں نے بڑی قربانیاں دیں۔حالات ومشکلا ت سے گزر کر ترکی پھر اب ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہاں کے مسلمانوں کی بڑی تعداد پھر سے حرارتِ ایمانی سے سرشار ہورہے ہیں ،اس انقلاب کو برپاکرنے میں خاموش اور دور اندیش محنتیں اور کوششیں رہی ہیں ۔اور وہاں کے علماء ومفکرین اور مصلحین کی غیر معمولی جدوجہد رہی ،افراد کو تیار کرنے اور ان کے ذہن ودل کو اسلامی سانچے میں ڈھال کر تربیت دینے میں بڑی کوشش کی گئی تب جاکر آج آنکھوں کو یہ دلکش نظارے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
اسلامی انقلاب کے زیر اثر تربیت والوں میں ایک ’’رجب طیب اردگان ‘‘ بھی ہیں۔جو اس وقت ملتِ اسلامیہ کے ایک عظیم رہبر ورہنما اور قائد کی حیثیت سے پہنچانے جارہے ہیں ،وہ جہاں اپنے ملک کی ترقی ،نیک نامی ،اپنی لوگوں کی کامیابی ،ان کی عزت ،فلاح کی جدوجہدکرتے ہوئے دلوں پر حکمرانی کرنے والے بے مثال قائد بن گئے جنہیں ترکی کے لوگ دل وجان سے چاہتے ہیں اور ایک اشارہ پر انقلاب برپا کرنے لئے تیار ہوجاتے ہیں ،وہیں انہیں ہر مسلمان سے محبت ہے ،وہ ہر مسلمان کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھتے ہیں ،خنجر کسی پر چلے ،حالات کاکوئی بھی شکار ہو،دنیا کے کسی بھی خطے اور گوشے میں مسلمان ظلم وستم میں مبتلا سب سے پہلے اپنے درد وکرب کا اظہار کرنے والے اور مظلوم انسانوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرنے والے ایک مثالی قائد کی حیثیت سے اردگان نے اپنی پہنچان بنائی ہے۔اور یہ کوئی بناوٹ یا ظاہری ڈھونگ نہیں بلکہ ان کی انسانیت دوستی ،اورمظلوموں کی حمایت کا ثبوت ملکِ شام ،فلسطین ،برما وغیر ہ ہیں۔نیک دل اور معتدل مزاج ادرگان اس وقت دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے مسیحا وخیر خواہ سمجھے جاتے ہیں ،ان کے کتنے ویڈیواور تصاویر ہیں جنہیں آپ دیکھ سکتے ہیں جس میں وہ شام کے بے قصور انسانوں پر ہونے والے مظالم کو بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں ،فلسطینیوں کی حمایت میں سب سے پہلے رہنے والے اور وہاں کے انسانوں کو امن وامان دلانے کے لئے فکر مند رہنے والے اردگان ہیں،اپنی سرزمین کوانہوں نے مظلوم انسانوں کے لئے پناہ گاہ بنائی ،ان کو آباد کیا ،ان کے لئے سہولیتیں فراہم کی۔ابھی چند دن پہلے جب قاتل بشار الاسد نے زہریلی گیس کے ذریعہ حملہ کیااور بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتارا،جس میں بڑی تعداد میں معصوم بچے بھی تھے۔ صدر طیب اردگان سے کیمیائی حملوں کا شکار بننے والے 9ماہ کے جڑواں بچوں کے باپ عبد الحمید الیوسف نے ملاقات کی اور اپنے دکھ اور درد کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ:’’ہمیں امید ہے کہ دنیا ہمارے دکھ کو سمجھے گی،میرے بچے بہت خوبصورت تھے ،لیکن وہ پہلے بچے نہیں تھے جو اسد کے ظلم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں،ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ ہم کتنے صابر ہیں،اس جاری جنگ میں نہ ہم پہلے نشانہ بننے والے ہیں اور نہ آخری نشانہ ہیں ،چھ سال سے ہم اپنے بچوں کے لاشے اٹھارہے ہیں۔‘‘اس نوجوان نے فرطِ جذبات میں صدر طیب اردغان کی تسلی،تعزیت اوراظہارِ ہمدردری پر پیشانی کا بوسہ دیتے ہوئے کہاکہ:’’وہ اس کی آخری امید ہیں۔‘‘مظلوموں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کے لئے ان کا یہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ:سوئزرلینڈ کے شہر ڈیوس میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں اسرائیل کے صدر شمعون پیرز نے اپنی تقریرمیں کہاتھاکہ اسرائیل کو غزہ میں کئے گئے قتل عام پر کوئی شرمندگی نہیں ۔اگر ضرورت پڑی تو مستقبل میں بھی وہ اس طرح کے اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔اسرائیلی صدر کی وحشیانہ اقدام اور درندگی کے اعلان پر مشتمل اس متکبرانہ تقریر کا جواب دینے کے لئے اجلاس میں رجب طیب اردگان نے منتظمین سے وقت مانگا ۔منتظمین کے انکار پر وہ اجلاس سے یہ کہتے ہوئے واک آؤٹ کرگئے کہ وہ اس اجلاس میں آئندہ کبھی شریک نہیں ہوں گے ،چوں کہ اجلاس کے منتظمین کا رویہ مظلوم مسلمانوں کے خلاف اور ظالم اسرائیل کے حق میں جانب دارانہ ہے۔‘‘اس کے علاوہ بھی اردگان نے دنیا کے ہر علاقہ میں ہونے والے ظلم وتشدد کے خلاف کہا ہے اور مسلمان جہاں کہیں کا بھی ہو ،ان کے ساتھ برابر ہمدردی کا اظہار کیا اور جو کچھ وہ اور ان کی حکومت کرسکتی ہے اس کے کرنے سے بالکل بھی گریز نہیں کیا ،ظالموں کے خلاف صدائے احتجاج بلندکی ،مظلوموں کے لئے اپنے دروازے کھول دئیے ،خداجانے کتنوں کوانہوں نے سہارادیا،بے ٹھکانوں کو آباد کیا،بلکتے انسانوں کے آنسوؤں کو صاف کیا ،یتیم بچوں کو سینے سے لگایا،عورتوں کو عزت واکرام کے ساتھ زندگی گزارنے کا حوصلہ دیا۔اس وقت ترکی کی سرزمین شام کے مظلوم مسلمانوں کا دوسرا ٹھکا نہ ہے۔اردگان نے حکومت کا نظام سنبھال کر اپنی انفرادیت بھی بتائی ،لوگوں کے دلوں کو بھی جیتا ،مسائل ومشکلات کو بھی حل کیا،مغرب زدہ ذہنوں کو اسلام کی طرف لانے اور اسلامی فکر کو پروان چڑھانے کا عظیم کارنامہ بڑی حکمت،دوراندیشی کے ساتھ انجام دیااور دینے میں لگے ہوئے ہیں۔اردگان کی قیادت پر تبصرہ کرتے ہوئے عالم اسلام کے معروف قلم کار ومصنف مفتی ابولبابہ شاہ منصور لکھتے ہیں:’’عظیم ترک قائدرجب طیب اردگان کی قیادت وسیادت نے نہ صرف ترکی میں اسلامی تحریک کو منظم ومستحکم کیا ،بلکہ پورے عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک کے عوام کے اسلامی رجحان ومیلان کے لئے حوصلہ افزاترغیبی مثال پیش کی ہے۔اب ان ممالک کے عوام اورمخلص قائدین کے لئے انسانی فلاح وبہبود کا نمونہ امریکا،برطانیہ،فرانس اور روس وغیرہ نہیں رہے ۔ان کی نگاہیں ترکی پر ٹکی ہوئی ہیں۔اس وقت ہر ملک کے باشعور اور خوش حالی چاہنے والے افراد رجب طیب ارگان کی سی سحر انگیز اور کایاپلٹ قیادت کے طلب گار ہیں۔‘‘
اگر آج صدر رجب طیب اردگان نے ایک تاریخی کامیابی حاصل کی ہے تو جہاں اس میں ان کے خلوص ،درد وتڑپ ،ملنساری و معتدل مزاجی اورعوامی خدمات ومقبولیت کا دخل ہے ،وہیں اردگان کے لئے خدا جانے کتنی ماؤں،کتنے بچوں ،کتنے بوڑھوں،کتنے جوانوں ،کتنی عورتوں کی صبح وشام کی دعاؤں کا اثر ہوگا ،جن کے دلوں کو اردگان نے جیت لیا اور جنہیں ظلم وستم سے نجات دلاکر امن واطمینان کی زندگی گزارنے کے لئے اپنی سرزمین پر رہائش فراہم کی اور ظالموں کے چنگل سے نکالنے کے لئے ہرممکن تگ ودو کی۔محبت بانٹنے والے، ہر ایک کو ہنستا مسکراتا دیکھنے والے اورظلم کا نشانہ بنے دیکھ کر بے قرار وبے اختیار ہوجانے والے اردگان دعاؤں کے حصار میں ہے اور وہ بھی مظلوم انسانوں کی دعائیں ان کے لئے عظیم تمناؤں کے ساتھ ہیں ،اور بے شمار مسلمانوں کی دعائیں ہیں جو ان کی ترقی ،نیک نامی ،سلامتی کے لئے ہر وقت نکلتی ہیں کیوں کہ اس وقت ملتِ اسلامیہ کو ایسے ہی قائدین اور حکمرانوں کی ضرورت ہے۔خدا اردگان کو سلامت رکھے،اور پاکیزہ عزائم وبلند ارادوں میں کامیاب کرے۔آمین
ترکی میں ریفرنڈم ہو ،کامیابی رجب طیب اردگان کو حاصل ہو اور دنیا کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں میں خوشی ومسرت پائی جانے لگے ،یقیناًیہ ایک حیرت انگیز بات ہے ،اگردنیا کے دیگر مسلمان طیب اردگان کی کامیابی پر خوشی محسوس کررہے ہیں اور اس کو ایک عظیم فتح سمجھ رہے ہیں تو اس کی ایک وجہ ہے ۔وجہ یہ ہے کہ ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایک طویل دور تک عظمتِ اسلام کا نشان رہنے والی اس سرزمین پر ایسی تیز وتند آندھیاں بھی آئیں کہ آمریت وجابریت کے علم برداروں نے الحاد ودہریت کی جڑوں کو مضبوط کیا ،اوربغاوت اور دین بے زاری کا ماحول پیداکرنے میں اسلام دشمنوں نے کو ئی کسر نہیں چھوڑی ،لیکن سخت ترین حالات ،آزمائش وامتحان کے کٹھن زمانہ میں بھی اس سرزمین پر ایمان کی خاموش محنتیں ہوتی رہیں،ایمان کی چنگاریاں بجھی نہیں تھیں ،اور حفاظتِ اسلام کی تڑپ رگ وپے میں باقی تھی،جانوں کا نذرانہ پیش کرکے نسلوں کے ایمان واسلام کا بیڑااٹھانے والے ترکی کے ایمان پسندوں نے بڑی قربانیاں دیں۔حالات ومشکلا ت سے گزر کر ترکی پھر اب ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہاں کے مسلمانوں کی بڑی تعداد پھر سے حرارتِ ایمانی سے سرشار ہورہے ہیں ،اس انقلاب کو برپاکرنے میں خاموش اور دور اندیش محنتیں اور کوششیں رہی ہیں ۔اور وہاں کے علماء ومفکرین اور مصلحین کی غیر معمولی جدوجہد رہی ،افراد کو تیار کرنے اور ان کے ذہن ودل کو اسلامی سانچے میں ڈھال کر تربیت دینے میں بڑی کوشش کی گئی تب جاکر آج آنکھوں کو یہ دلکش نظارے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
اسلامی انقلاب کے زیر اثر تربیت والوں میں ایک ’’رجب طیب اردگان ‘‘ بھی ہیں۔جو اس وقت ملتِ اسلامیہ کے ایک عظیم رہبر ورہنما اور قائد کی حیثیت سے پہنچانے جارہے ہیں ،وہ جہاں اپنے ملک کی ترقی ،نیک نامی ،اپنی لوگوں کی کامیابی ،ان کی عزت ،فلاح کی جدوجہدکرتے ہوئے دلوں پر حکمرانی کرنے والے بے مثال قائد بن گئے جنہیں ترکی کے لوگ دل وجان سے چاہتے ہیں اور ایک اشارہ پر انقلاب برپا کرنے لئے تیار ہوجاتے ہیں ،وہیں انہیں ہر مسلمان سے محبت ہے ،وہ ہر مسلمان کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھتے ہیں ،خنجر کسی پر چلے ،حالات کاکوئی بھی شکار ہو،دنیا کے کسی بھی خطے اور گوشے میں مسلمان ظلم وستم میں مبتلا سب سے پہلے اپنے درد وکرب کا اظہار کرنے والے اور مظلوم انسانوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرنے والے ایک مثالی قائد کی حیثیت سے اردگان نے اپنی پہنچان بنائی ہے۔اور یہ کوئی بناوٹ یا ظاہری ڈھونگ نہیں بلکہ ان کی انسانیت دوستی ،اورمظلوموں کی حمایت کا ثبوت ملکِ شام ،فلسطین ،برما وغیر ہ ہیں۔نیک دل اور معتدل مزاج ادرگان اس وقت دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے مسیحا وخیر خواہ سمجھے جاتے ہیں ،ان کے کتنے ویڈیواور تصاویر ہیں جنہیں آپ دیکھ سکتے ہیں جس میں وہ شام کے بے قصور انسانوں پر ہونے والے مظالم کو بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں ،فلسطینیوں کی حمایت میں سب سے پہلے رہنے والے اور وہاں کے انسانوں کو امن وامان دلانے کے لئے فکر مند رہنے والے اردگان ہیں،اپنی سرزمین کوانہوں نے مظلوم انسانوں کے لئے پناہ گاہ بنائی ،ان کو آباد کیا ،ان کے لئے سہولیتیں فراہم کی۔ابھی چند دن پہلے جب قاتل بشار الاسد نے زہریلی گیس کے ذریعہ حملہ کیااور بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتارا،جس میں بڑی تعداد میں معصوم بچے بھی تھے۔ صدر طیب اردگان سے کیمیائی حملوں کا شکار بننے والے 9ماہ کے جڑواں بچوں کے باپ عبد الحمید الیوسف نے ملاقات کی اور اپنے دکھ اور درد کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ:’’ہمیں امید ہے کہ دنیا ہمارے دکھ کو سمجھے گی،میرے بچے بہت خوبصورت تھے ،لیکن وہ پہلے بچے نہیں تھے جو اسد کے ظلم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں،ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ ہم کتنے صابر ہیں،اس جاری جنگ میں نہ ہم پہلے نشانہ بننے والے ہیں اور نہ آخری نشانہ ہیں ،چھ سال سے ہم اپنے بچوں کے لاشے اٹھارہے ہیں۔‘‘اس نوجوان نے فرطِ جذبات میں صدر طیب اردغان کی تسلی،تعزیت اوراظہارِ ہمدردری پر پیشانی کا بوسہ دیتے ہوئے کہاکہ:’’وہ اس کی آخری امید ہیں۔‘‘مظلوموں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کے لئے ان کا یہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ:سوئزرلینڈ کے شہر ڈیوس میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں اسرائیل کے صدر شمعون پیرز نے اپنی تقریرمیں کہاتھاکہ اسرائیل کو غزہ میں کئے گئے قتل عام پر کوئی شرمندگی نہیں ۔اگر ضرورت پڑی تو مستقبل میں بھی وہ اس طرح کے اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔اسرائیلی صدر کی وحشیانہ اقدام اور درندگی کے اعلان پر مشتمل اس متکبرانہ تقریر کا جواب دینے کے لئے اجلاس میں رجب طیب اردگان نے منتظمین سے وقت مانگا ۔منتظمین کے انکار پر وہ اجلاس سے یہ کہتے ہوئے واک آؤٹ کرگئے کہ وہ اس اجلاس میں آئندہ کبھی شریک نہیں ہوں گے ،چوں کہ اجلاس کے منتظمین کا رویہ مظلوم مسلمانوں کے خلاف اور ظالم اسرائیل کے حق میں جانب دارانہ ہے۔‘‘اس کے علاوہ بھی اردگان نے دنیا کے ہر علاقہ میں ہونے والے ظلم وتشدد کے خلاف کہا ہے اور مسلمان جہاں کہیں کا بھی ہو ،ان کے ساتھ برابر ہمدردی کا اظہار کیا اور جو کچھ وہ اور ان کی حکومت کرسکتی ہے اس کے کرنے سے بالکل بھی گریز نہیں کیا ،ظالموں کے خلاف صدائے احتجاج بلندکی ،مظلوموں کے لئے اپنے دروازے کھول دئیے ،خداجانے کتنوں کوانہوں نے سہارادیا،بے ٹھکانوں کو آباد کیا،بلکتے انسانوں کے آنسوؤں کو صاف کیا ،یتیم بچوں کو سینے سے لگایا،عورتوں کو عزت واکرام کے ساتھ زندگی گزارنے کا حوصلہ دیا۔اس وقت ترکی کی سرزمین شام کے مظلوم مسلمانوں کا دوسرا ٹھکا نہ ہے۔اردگان نے حکومت کا نظام سنبھال کر اپنی انفرادیت بھی بتائی ،لوگوں کے دلوں کو بھی جیتا ،مسائل ومشکلات کو بھی حل کیا،مغرب زدہ ذہنوں کو اسلام کی طرف لانے اور اسلامی فکر کو پروان چڑھانے کا عظیم کارنامہ بڑی حکمت،دوراندیشی کے ساتھ انجام دیااور دینے میں لگے ہوئے ہیں۔اردگان کی قیادت پر تبصرہ کرتے ہوئے عالم اسلام کے معروف قلم کار ومصنف مفتی ابولبابہ شاہ منصور لکھتے ہیں:’’عظیم ترک قائدرجب طیب اردگان کی قیادت وسیادت نے نہ صرف ترکی میں اسلامی تحریک کو منظم ومستحکم کیا ،بلکہ پورے عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک کے عوام کے اسلامی رجحان ومیلان کے لئے حوصلہ افزاترغیبی مثال پیش کی ہے۔اب ان ممالک کے عوام اورمخلص قائدین کے لئے انسانی فلاح وبہبود کا نمونہ امریکا،برطانیہ،فرانس اور روس وغیرہ نہیں رہے ۔ان کی نگاہیں ترکی پر ٹکی ہوئی ہیں۔اس وقت ہر ملک کے باشعور اور خوش حالی چاہنے والے افراد رجب طیب ارگان کی سی سحر انگیز اور کایاپلٹ قیادت کے طلب گار ہیں۔‘‘
اگر آج صدر رجب طیب اردگان نے ایک تاریخی کامیابی حاصل کی ہے تو جہاں اس میں ان کے خلوص ،درد وتڑپ ،ملنساری و معتدل مزاجی اورعوامی خدمات ومقبولیت کا دخل ہے ،وہیں اردگان کے لئے خدا جانے کتنی ماؤں،کتنے بچوں ،کتنے بوڑھوں،کتنے جوانوں ،کتنی عورتوں کی صبح وشام کی دعاؤں کا اثر ہوگا ،جن کے دلوں کو اردگان نے جیت لیا اور جنہیں ظلم وستم سے نجات دلاکر امن واطمینان کی زندگی گزارنے کے لئے اپنی سرزمین پر رہائش فراہم کی اور ظالموں کے چنگل سے نکالنے کے لئے ہرممکن تگ ودو کی۔محبت بانٹنے والے، ہر ایک کو ہنستا مسکراتا دیکھنے والے اورظلم کا نشانہ بنے دیکھ کر بے قرار وبے اختیار ہوجانے والے اردگان دعاؤں کے حصار میں ہے اور وہ بھی مظلوم انسانوں کی دعائیں ان کے لئے عظیم تمناؤں کے ساتھ ہیں ،اور بے شمار مسلمانوں کی دعائیں ہیں جو ان کی ترقی ،نیک نامی ،سلامتی کے لئے ہر وقت نکلتی ہیں کیوں کہ اس وقت ملتِ اسلامیہ کو ایسے ہی قائدین اور حکمرانوں کی ضرورت ہے۔خدا اردگان کو سلامت رکھے،اور پاکیزہ عزائم وبلند ارادوں میں کامیاب کرے۔آمین