ہلاکو کا رحم
…غزالہ عزیز …
ٹامس پنگ ایک امریکی فوجی ہیں۔ 9-11 کے وقت وہ بائیس سال کے تھے۔ جب انہوں نے اس واقعہ کو ٹی وی پر دیکھا اس کی وڈیو رپورٹ کے ذریعے جو اس دن کے خوفناک مناظر کی منظر کشی کررہی تھی۔ انہوں نے جارج بش جونیر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ملبے کے اوپر کھڑے ہو کر اعلان کرتے سنا کہ وہ اس حملے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ انہوں نے جذبات کی شدت محسوس کی اور جارج بش کی معاونت کا فیصلہ کرتے ہوئے امریکی فوج میں بھرتی ہوگئے۔ یوں وہ 2004ء میں تربیت کے بعد عراق بھیج دیے گئے۔
عراق میں تعیناتی کے پانچویں روز ہی انہیں بغداد میں باقاعدہ حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حملے میں ان کی ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگی اور وہ معذور ہوگئے۔ عراق واپس آکر انہوں نے وہیل چیئر پر عراق جنگ کے خلاف مہم میں حصہ لیا انہوں نے عراق میں زخمی ہونے والے فوجیوں اور ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کی طرف سے جارج بش اور اس کے نائب صدر ڈک چینی کو خط لکھے جس میں ان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے لکھا کہ ’’عراق جنگ اخلاقی طور پر دفاعی نقطہ نظر سے اور معیشت کے اعتبار سے ایک ناکام جنگ تھی اور یہ جنگ آپ دونوں نے شروع کی تھی۔ اب آپ دونوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا چاہیے۔ میرا وقت آگیا ہے اور یقینا آپ کا بھی آئے گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو بھی جواب دہی کرنی ہوگی لیکن اس سے کہیں زیادہ میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں میں اتنی اخلاقی جرأت آئے کہ آپ خود اس بات کا احساس کریں کہ آپ نے میرے ساتھ اور ان تمام لوگوں کے ساتھ جو ہلاک اور زخمی ہوئے کیا کیا‘‘؟
دونوں ٹانگوں سے محروم ٹامس کا اب کیا حال ہے؟ اس کا جواب ٹامس نہیں دے سکتے کیونکہ انہیں بولنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ ٹامس کی بیوی کہتی ہیں کہ دماغ کو کم آکسیجن ملنے کے باعث زبان اور ہاتھ وغیرہ ہلانے کی صلاحیت پر بھی بڑا برا اثر پڑا ہے۔ ٹامس کھانا بھی نہیں کھا سکتے انہیں ٹیوب کے ذریعہ غذا دی جاتی ہے اور ان کی جلد اُتر رہی ہے اور گوشت اور ہڈیاں نظر آرہی ہیں۔ اس کی بیوی کا کہنا ہے کہ ٹامس زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ خود اس کے لیے یہ سب دیکھنا ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ دو ماہ پہلے ٹامس نے کہہ دیا تھا کہ اپریل کے آخر میں وہ ٹیوب سے غذا نہ لے کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردے گا۔
ٹامس کے ساتھ کیا ہوا مغربی میڈیا نے اس کی کوئی خبر نہیں دی۔ کیونکہ اس کی باتیں ان کے لیے باعث شرم تھیں کہ اس کے شرمناک کرتوت سامنے لاتی ہیں لیکن یہ صرف ایک ٹامس کی کہانی ہے اور نہ ہی کسی ایک ٹامس کے خیالات ہیں۔ ٹامس کی کوشیش ایک لحاظ سے کامیابی سے ہمکنار ہوئیں عراق پر حملہ غلطی تسلیم کرلیا گیا لیکن کیا اس غلطی کا ازالہ محض اعتراف کرنے سے ہوسکے گا جب کہ عراق پر حملے کے پہلے ہفتے میں ہی عراق پر 6 ہزار سے زائد کروز میزائل اور بم برسا دیے گے تھے۔ کتنے بے گناہوں کے چیتھڑے اڑائے گے اور کتنوں کو زندگی بھر کے لیے معذور بنا دیا گیا۔
افغانستان میں انتہائی خطرناک بارود بارش کی طرح برسایا اور اسے کارپٹ بمباری کا نام دیا۔ جس سے افغانستان کی سرزمین تباہ وبرباد ہوئی۔ مقامی باشندوں کی صحت پر انتہائی مضر اور تباہ کن اثرات پڑے۔ ویسے ہی جیسے آج بھی جاپانی شہروں ہیرو شیما اور ناگاساکی میں پیدا ہونے والے بچوں پر ایٹمی حملوں کے مضر اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ افغانستان پر برسائے جانے والے بموں میں یورینیم کی تابکاری موجود تھی جس سے پھیپڑوں اور خون کے کینسر کے علاوہ اپاہج بچوں کی پیدائش شروع ہوجاتی ہے۔ یہ ہی یورینیم امریکا نے یوگوسلاویہ میں استعمال کیا، ویت نام میں استعمال کیا۔ ویت نام کی جنگ کے دوران امریکا نے آزادی کے پروانوں کو آڑ فراہم کرنے والے جنگل کو تباہ کرنے کے لیے ’’ایجنٹ اورینج‘‘ نامی مضر صحت مادہ استعمال کیا۔ جس کے ہزاروں گیلن جنگلات پر اسپرے کیے۔ جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے، ڈیڑھ لاکھ کے قریب بچے پیدائشی نقانص کا شکار ہوئے۔ اس کے تباہ کن اثرات اب تک متاثرہ علاقے میں موجود ہیں۔ یہ امریکی امداد کے طریقے ہیں۔ جس میں ایک طرف نسل انسانی کی تباہی اور ہنستی بستی بستیوں کی ویرانی ہے تو دوسری طرف US ایڈ کے غلغلے… ٹی وی پر اشتہارات کے علاوہ موبائیل پیغام کے ذریعے ہر ایک کو یاد دہانی کرائی جارہی ہے جی ہاں… امریکی حکومت کیسی رحیم وکریم اور غریب پرور ہے۔
ہلاکو خان سے کسی نے پوچھا تم کو کبھی کسی پر رحم بھی آیا ہے؟ کافی دیر سوچ کر بولا ہاں ایک عورت پر آیا تھا؟ کب اور کیسے؟ پوچھنے والے نے حیرانی کے عالم میں پوچھا۔
وہ عورت مدد کے لیے آواز دے رہی تھی اس کا بچہ پانی کے تالاب میں غوطے کھا رہا تھا۔ میں فوراً مدد کے لیے پہنچ گیا اپنا نیزہ جھکا کر بچے کو پرو لیا اور عورت کی گود میں ڈال دیا۔ بچہ تو مرگیا ہوگا یہ کیا رحم؟؟
’’بچہ تو نیزہ لگتے ہی مرگیا تھا لیکن مجھے خوشی تھی کہ ماںکو بچے کی نعش تو مل گئی‘‘
لیکن آج کا ہلاکو ماں کو بچوں کے ساتھ ہی ڈورن مارتا ہے کہ یہ اس کے رحم کا اندا زہے۔
ٹامس پنگ ایک امریکی فوجی ہیں۔ 9-11 کے وقت وہ بائیس سال کے تھے۔ جب انہوں نے اس واقعہ کو ٹی وی پر دیکھا اس کی وڈیو رپورٹ کے ذریعے جو اس دن کے خوفناک مناظر کی منظر کشی کررہی تھی۔ انہوں نے جارج بش جونیر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ملبے کے اوپر کھڑے ہو کر اعلان کرتے سنا کہ وہ اس حملے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ انہوں نے جذبات کی شدت محسوس کی اور جارج بش کی معاونت کا فیصلہ کرتے ہوئے امریکی فوج میں بھرتی ہوگئے۔ یوں وہ 2004ء میں تربیت کے بعد عراق بھیج دیے گئے۔
عراق میں تعیناتی کے پانچویں روز ہی انہیں بغداد میں باقاعدہ حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حملے میں ان کی ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگی اور وہ معذور ہوگئے۔ عراق واپس آکر انہوں نے وہیل چیئر پر عراق جنگ کے خلاف مہم میں حصہ لیا انہوں نے عراق میں زخمی ہونے والے فوجیوں اور ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کی طرف سے جارج بش اور اس کے نائب صدر ڈک چینی کو خط لکھے جس میں ان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے لکھا کہ ’’عراق جنگ اخلاقی طور پر دفاعی نقطہ نظر سے اور معیشت کے اعتبار سے ایک ناکام جنگ تھی اور یہ جنگ آپ دونوں نے شروع کی تھی۔ اب آپ دونوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا چاہیے۔ میرا وقت آگیا ہے اور یقینا آپ کا بھی آئے گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو بھی جواب دہی کرنی ہوگی لیکن اس سے کہیں زیادہ میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں میں اتنی اخلاقی جرأت آئے کہ آپ خود اس بات کا احساس کریں کہ آپ نے میرے ساتھ اور ان تمام لوگوں کے ساتھ جو ہلاک اور زخمی ہوئے کیا کیا‘‘؟
دونوں ٹانگوں سے محروم ٹامس کا اب کیا حال ہے؟ اس کا جواب ٹامس نہیں دے سکتے کیونکہ انہیں بولنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ ٹامس کی بیوی کہتی ہیں کہ دماغ کو کم آکسیجن ملنے کے باعث زبان اور ہاتھ وغیرہ ہلانے کی صلاحیت پر بھی بڑا برا اثر پڑا ہے۔ ٹامس کھانا بھی نہیں کھا سکتے انہیں ٹیوب کے ذریعہ غذا دی جاتی ہے اور ان کی جلد اُتر رہی ہے اور گوشت اور ہڈیاں نظر آرہی ہیں۔ اس کی بیوی کا کہنا ہے کہ ٹامس زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ خود اس کے لیے یہ سب دیکھنا ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ دو ماہ پہلے ٹامس نے کہہ دیا تھا کہ اپریل کے آخر میں وہ ٹیوب سے غذا نہ لے کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردے گا۔
ٹامس کے ساتھ کیا ہوا مغربی میڈیا نے اس کی کوئی خبر نہیں دی۔ کیونکہ اس کی باتیں ان کے لیے باعث شرم تھیں کہ اس کے شرمناک کرتوت سامنے لاتی ہیں لیکن یہ صرف ایک ٹامس کی کہانی ہے اور نہ ہی کسی ایک ٹامس کے خیالات ہیں۔ ٹامس کی کوشیش ایک لحاظ سے کامیابی سے ہمکنار ہوئیں عراق پر حملہ غلطی تسلیم کرلیا گیا لیکن کیا اس غلطی کا ازالہ محض اعتراف کرنے سے ہوسکے گا جب کہ عراق پر حملے کے پہلے ہفتے میں ہی عراق پر 6 ہزار سے زائد کروز میزائل اور بم برسا دیے گے تھے۔ کتنے بے گناہوں کے چیتھڑے اڑائے گے اور کتنوں کو زندگی بھر کے لیے معذور بنا دیا گیا۔
افغانستان میں انتہائی خطرناک بارود بارش کی طرح برسایا اور اسے کارپٹ بمباری کا نام دیا۔ جس سے افغانستان کی سرزمین تباہ وبرباد ہوئی۔ مقامی باشندوں کی صحت پر انتہائی مضر اور تباہ کن اثرات پڑے۔ ویسے ہی جیسے آج بھی جاپانی شہروں ہیرو شیما اور ناگاساکی میں پیدا ہونے والے بچوں پر ایٹمی حملوں کے مضر اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ افغانستان پر برسائے جانے والے بموں میں یورینیم کی تابکاری موجود تھی جس سے پھیپڑوں اور خون کے کینسر کے علاوہ اپاہج بچوں کی پیدائش شروع ہوجاتی ہے۔ یہ ہی یورینیم امریکا نے یوگوسلاویہ میں استعمال کیا، ویت نام میں استعمال کیا۔ ویت نام کی جنگ کے دوران امریکا نے آزادی کے پروانوں کو آڑ فراہم کرنے والے جنگل کو تباہ کرنے کے لیے ’’ایجنٹ اورینج‘‘ نامی مضر صحت مادہ استعمال کیا۔ جس کے ہزاروں گیلن جنگلات پر اسپرے کیے۔ جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے، ڈیڑھ لاکھ کے قریب بچے پیدائشی نقانص کا شکار ہوئے۔ اس کے تباہ کن اثرات اب تک متاثرہ علاقے میں موجود ہیں۔ یہ امریکی امداد کے طریقے ہیں۔ جس میں ایک طرف نسل انسانی کی تباہی اور ہنستی بستی بستیوں کی ویرانی ہے تو دوسری طرف US ایڈ کے غلغلے… ٹی وی پر اشتہارات کے علاوہ موبائیل پیغام کے ذریعے ہر ایک کو یاد دہانی کرائی جارہی ہے جی ہاں… امریکی حکومت کیسی رحیم وکریم اور غریب پرور ہے۔
ہلاکو خان سے کسی نے پوچھا تم کو کبھی کسی پر رحم بھی آیا ہے؟ کافی دیر سوچ کر بولا ہاں ایک عورت پر آیا تھا؟ کب اور کیسے؟ پوچھنے والے نے حیرانی کے عالم میں پوچھا۔
وہ عورت مدد کے لیے آواز دے رہی تھی اس کا بچہ پانی کے تالاب میں غوطے کھا رہا تھا۔ میں فوراً مدد کے لیے پہنچ گیا اپنا نیزہ جھکا کر بچے کو پرو لیا اور عورت کی گود میں ڈال دیا۔ بچہ تو مرگیا ہوگا یہ کیا رحم؟؟
’’بچہ تو نیزہ لگتے ہی مرگیا تھا لیکن مجھے خوشی تھی کہ ماںکو بچے کی نعش تو مل گئی‘‘
لیکن آج کا ہلاکو ماں کو بچوں کے ساتھ ہی ڈورن مارتا ہے کہ یہ اس کے رحم کا اندا زہے۔
No comments:
Post a Comment