Search This Blog

Saturday 27 July 2013

چچا سام اور دنیاءے اسلام Uncle sam and Islamic World


 چچا سام اور دنیائے اسلام



فتح ملک 
چا سام کو دنیائے اسلام میں جمہوری عمل کا تسلسل اور استحکام سخت ناپسند ہے۔ چنانچہ وہ ہمیشہ عوام کی اجتماعی رائے سے منتخب ہو کر اقتدار میں آنے والی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ کر، اپنی لے پالک اور فرمانبردار آمریت کو مسندِ اقتدار پر لا بٹھاتا ہے۔ دُور کیوں جائیں، خود پاکستان میں پہلے وزیراعظم کی شہادت کے بعد اقتدار کی باگ ڈور برطانوی ہند کی تربیت یافتہ افسر شاہی کو تھما دی گئی تھی۔ اسی پر بس نہیں، ساتھ ہی عوام و خواص کی سیاسی اور فکری تربیت کی خاطر یہ نظریہ بھی ایجاد کر دیا گیا تھا کہ ترقی پذیر ممالک میں عوامی جمہوریت کی بجائے ”مہربان آمریت“ کو رواج دینے کی ضرورت ہے۔ کچھ ایسی ہی سناونی آج کے مصر میں سلطانی¿ جمہور کے فروغ و استحکام کی خاطر سرگرم عمل عوام کو سنائی گئی ہے۔ مصر عرب دنیا کا اہم ترین تہذیبی اور سیاسی مرکز ہے۔ یہ گویا عرب دنیا کا زندہ و بیدار دل ہے۔ یہاں سلطانی¿ جمہور کی اجتماعی تمناﺅں کی سرسبزی و شادابی سے گرد و پیش کے تمام عرب ممالک میں عوام کی بیداری کے زیر لب نغمات کی لے بلند ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جنرل ابو الفتح اسیسی نے امریکی تائید و حمایت سے مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مُرسی کی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ جمایا تو سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ نے باغی فوجی جرنیل کو بذاتِ خود مبارکباد دی، اردن کے شاہ عبداللہ ثانی نے بنفسِ نفیس مصر آ کر فوجی بغاوت کی حمایت فرمائی اور متحدہ امارات نے سعودی عرب کی مانند دل کھول کر مالی امداد کی پیشکش کی۔ متحدہ عرب امارات نے تو ساتھ ہی ساتھ 69 اسلام پسندوں کی گرفتاری کی نوید بھی سُنائی۔
امریکی صدر اوباما اور اس کی تابع فرمان مصری افسر شاہی کے دباﺅ میں آ کر بھی صدر محمد مُرسی کی نظریاتی استقامت منزلزل نہ ہوئی۔ فوجی بغاوت سے فقط چند ماہ پیشتر امریکی صدر نے اپنے اوول آفس میں صدر مُرسی کے امور خارجہ کے مشیر ایسام الحداد سے ملاقات کے دوران سابق صدر حسنی مبارک کے وزیر خارجہ امر موسیٰ اور اقوام متحدہ کے سابق سفارتکار محمد البرادی کو کابینہ میں شامل کرنے پر زور دیا تھا مگر صدر مُرسی نے صدر اوباما کا یہ مشور سُنا اَن سُنا کر دیا۔ ہرچند مُرسی نے نام نہاد وسیع البنیاد حکومت کے اس تصور کو اپنانے سے انکار کر دیا تھا مگر اس کے ردعمل میں جنرل اسیسی نے امریکی تابعداری کا حق ادا کرتے ہوئے صدر مُرسی کو مستعفی ہونے کا ”مشورہ“ دے ڈالا جسے مُرسی نے ماننے سے صاف انکار کر دیا ”نہیں! میں اپنا گلا کٹوا سکتا ہوں، استعفیٰ نہیں دے سکتا!“ محمد مُرسی کے اس حرفِ انکار (اقبال : نعرہ¿ لا پیشِ نمروداں بِزَن) نے مصر میں ایک ایسے سیاسی بحران کو جنم دیا ہے جس کا جلد یا بدیر سارے عالم عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لینا ناگزیر ہے۔ اس حرفِ انکار کی گونج سُنتے ہی مصر کی سلفی جماعت النور بھی اپنے چھوٹے موٹے اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر صدر مُرسی کی حمایت میں میدان میں نکل آئی ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اسلامی جمہوریت پر فوجی آمریت کی ترجیح کا راز ہی یہ ہے۔
مغربی دنیا اسلامی جمہوریت (پولیٹیکل اسلام) کی راہیں مسدود کر دینے کی اس بار بار دہرائی گئی حکمتِ عملی کی کامیابی پر بے شک خوشی کے شادیانے بجائے اور اسرائیل کی در پردہ حلیف ہمسایہ ریاستیں اس جشن مسرت میں بے شک شریک ہوں مگر یہ ہرگز نہ بھولیں کہ یہ خوشی انتہائی عارضی خوشی ہے۔ بات یہ ہے کہ محمد مُرسی دنیائے اسلام میں امر موسیٰ اور محمد البرادی کے سے طالع آزما اور ابن الوقت سیاستدانوں کے قبیلے سے تعلق نہیں رکھتے۔ وہ اخوان المسلمون کی آفاقی مگر عہد در عہد نیا رنگ و آہنگ اختیار کرتی ہوئی آئیڈیالوجی کے عصری ترجمان ہیں۔ آج سے پچاسی سال پہلے، 1928ءمیں مصر کے شہر اسماعیلیہ میں حسن البنا نے اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی تھی۔ اوّل اوّل یہ اسلامی تنظیم آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرتی رہی مگر بعد ازاں اپنی پُرامن حکمتِ عملی پر نظرثانی پر مجبور کر دی گئی۔
اندازِ نظر اور طرزِ عمل میں یہ تبدیلی اس وقت کے صدر سادات کی اسرائیل نواز پالیسی کا ردعمل تھی۔ کیمپ ڈیوڈ کے خفیہ معاہدے کے نتیجے میں جب صدر سادات نے 1977ءمیں اسرائیل کے ساتھ امن کا معاہدہ کیا تو اس اصلاحی سیاسی تنظیم نے بھی اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لازم سمجھی۔ اس تبدیلی نے ہی ایمن الظواہری کے سے رہنماﺅں کو جنم دیا تھا۔ صدر مُرسی، اُن کے رفقائے کار اور پیروکار اخوان المسلمون کے اُس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو خود کو اُمت الوسط قرار دیکر پُرامن جمہوری جدوجہد سے اسلامی جمہوریت کا قیام اور استحکام چاہتے ہیں۔ افسوس کہ آج پھر باغی جرنیل نے پُرامن اسلامی جمہوریت کی راہیں بند کر کے عوام کو ایک بار پھر اس سوال کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ Can Egypt have democracy? انگریزی کا یہ جملہ میرا نہیں نیویارک ٹائمز کے عملہ¿ ادارت کے ایک رُکن Carol Giacomo کا ہے۔ موصوف نے اس عنوان کے ساتھ اپنے مختصر مضمون میں درست لکھا ہے کہ :
"The Obama administration has used tortuous rhetoric to avoid calling a coup a coup, or even condemning it. So have many lawmakers and analysts who say the surest way to protect American interests in the Egypt- Isreal peace treaty, the Suze Canal and Egypt's coopertion in countering terrorism is to work with the army, Egypt's most powerful institution." (July 15, 2013)
 سچ ہے کہ امریکہ جمہوریت پر اس شبِ خون کو فوجی بغاوت کہنے اور اس کی مذمت کرنے سے گریزاں ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس باب میں امریکہ کا سب سے قومی محرکِ عمل عرب دنیا میں اسرائیل کی بقا اور بالادستی کی تمنا ہے۔ چنانچہ امریکہ اس فوجی بغاوت کو جمہوریت کا خوشنما لباس پہنانے میں مصروف ہے (یاد کیجئے اقبال : دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب/ تُو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری) ۔ مجھے یقین ہے کہ آج کی عرب دنیا اسرائیل کے دیوِ استبداد کو ہر رنگ اور ہر لباس میں پہچاننے لگی ہے اور اسے اخوان المسلمون کے محمد مُرسی اور خیرات الشاطر کے سے رہنما بھی میسر آ گئے ہیں۔ خیرات الشاطر نے 1966ءمیں سیّد قطب کی مصر کے زنداں میں سزائے موت کا حوالہ دیتے ہوئے صدر مُرسی کے اس عہد کو برحق قرار دیا ہے کہ وہ اپنے اور اسلامی جمہوریت کے حامیوں کے ساتھ کھلے میدان میں جدوجہد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کریں گے۔ یہ بات بہت معنی خیز ہے کہ آج اگر ایک طرف مصر کے مسلمان لاکھوں کی تعداد میں فوجی بغاوت کی مذمت میں نعرہ زن ہیں تو دوسری جانب مصر میں سرگرم عمل انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مصر کی ”سول سوسائٹی“ خاموش ہے۔ کیا اسلام کے نام لیوا سیاستدانوں کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں؟ اس سوال کے جواب میں نکلتا ہوں تو مجھے الاہرام ریسرچ سنٹر کی ایک پرانی رپورٹ یاد آتی ہے جس میں امریکہ اور سرائیل کی اُس مشترکہ منصوبہ بندی کو بے نقاب کیا گیا ہے جس میں عربوں میں سائنس و حکمت کا تمام تر سرمایہ برباد کر دینے کی مساعی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق عراق کے خلاف مسلح امریکی جارحیت کے آغاز میں ہی 70 عراقی سائنسدانوں کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ آج عراق کی مانند شام کی دانش گاہوں اور علمی ترقی کے آثار و امکانات کو مٹایا جا رہا ہے۔ ان عصری حقائق پر غور کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ مسلمانوں کی دشمن طاقتیں اسلام پسندی اور ترقی پسندی ہر دو کے خلاف صف آرا ہیں۔ صدام حسین کے عراق میں بعث پارٹی کی حکومت تھی اور بشار الاسد کے شام میں بعث پارٹی کی حکومت ہے۔ بعث پارٹی ایک سوشلسٹ پارٹی ہے جو 1940ءمیں قائم کی گئی تھی۔ کاش ہم اس حقیقت پر غور کرنے کیلئے وقت نکال سکیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک کو دنیائے اسلام میں نہ تو اسلامی جمہوریت کا فروغ و استحکام گوارا ہے اور نہ ہی سوشلسٹ آمریت کا!

No comments:

Post a Comment