Search This Blog

Saturday, 27 July 2013

مصر میں فوجی مداخلت کے پس پردہ سازشیں

مصر میں فوجی مداخلت کے پس پردہ سازشیں

جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ

٭امریکی صدر باراک اوبامہ نے مصر میں فوجی کارروائی کو ”سازش نہیں بلکہ انقلاب“ قرار دیا ہے جبکہ جنرل فتح نے فوجی مداخلت کو ” عوامی خواہشات کے احترام میں ملکی مستقبل کیلئے کامیاب سیاسی و نظریاتی جدوجہد“ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ ( اس کا موازنہ پاکستان کی مسلح افواج کے اٹھائے جانیوالے عہد نامے سے بآسانی کیا جاسکتا ہے جس میں درج ہے کہ: ”آئین پاکستان کو ہر حال میں مقدم رکھوں گا جو عوام کی خواہشوںکا ترجمان ہے۔“ اس فرض کی ادائیگی کیلئے آرمی چیف کاغیر سیاسی ہونا ضروری ہے لیکن آرمی چیف اگر غیرسیاسی ہوگاتو وہ آئین کی پاسداری کس طرح کریگا؟ یہی سبب ہے کہ آئین کی پاسداری میںجنرل فتح سیاسی بن گیا اور سیاسی بساط الٹ کے رکھ دی۔
٭مصر میں رونما ہونیوالے حالات نے تمام عرب دنیا کے اسلام پسند عناصر کو مصر کی جانب راغب کیا ہے کیونکہ الاخوان کا تعلق اسلام کے مکتب فکر‘ سلسلہءقادریہ سے ہے جو سوڈان‘ لیبیا‘ صومالیہ‘ تیونس‘ الجیریا‘ عراق‘ اردن‘ شام‘ یمن‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش اور انڈونیشیا تک پھیلا ہوا ہے۔
٭آرمی نے اس امید پریہ جوا کھیلا تھاکہ وہ جلد ملک کی صورتحال پر قابو پا لے گی لیکن تیس (30)سیاسی جماعتوں کی صدر مرسی کے ساتھ یکجہتی اور مکمل تائید نے حالات کو گمبھیر بنا دیا ہے اس طرح ”مصر ایک تاریخی جال میں پھنس چکاہے۔اسکی مثال نوآبادیاتی دور کی پہیلی کی طرح ہے جس نے مصر سے پاکستان تک کے ممالک کیلئے سیاسی اسلام کے خواب کی امیدوں کو روشن کردیا ہے۔“ پیٹر پروفام (Peter Profam, The Independent)
٭صدر مرسی کے حامیوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ ”ہم مزاحمت جاری رکھیں گے۔ ہم آزاد انقلابی ہیں اور ہم اپنا سفر جاری رکھیں گے۔“
انکے مد مقابل اب فوج ہے جو ملک کی حکمران ہے۔یہ وہی فوج ہے جو حسنی مبارک کی رخصتی کے بعد اقتدار میں آئی تھی اوراٹھارہ ماہ تک اپنے ہی شہریوں کو قتل کرتی رہی۔اقتدار کی کشمکش اب شروع ہو چکی ہے۔
فوجی مداخلت نے خطرناک شکل اختیار کر لی ہے جس کے سبب مصر سے لے کر ترکی‘ پاکستان اور بنگلہ دیش تک اسلام پسند اور آزاد/سیکولر طبقات کے مابین سیاسی و نظریاتی تصادم کی راہ ہموار ہو چکی ہے۔ پاکستان میں عوام نے ایسے تصادم کو ووٹ کی طاقت سے ناکام بنایا اور اب وہی طاقتیں ’ یعنی عدلیہ ‘ آرمی اور روشن خیال‘ سیکولر اور اسلام پسند ‘ملک میں سیاسی توازن قائم کرنے کیلئے کوشاں ہیں جو ماضی میں حالات کی خرابی کا باعث بنتی رہی ہیں ۔
مغربی میڈیا اس بات کو سچ ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ مصر میں ”سیاسی اسلام“ کا تجربہ ناکام ہو چکا ہے حالانکہ اس نظام کو اپنی افادیت منوانے کیلئے مناسب وقت ہی نہیں دیا گیا۔اور اگر مصر میں یہ تجربہ ناکام ہو گیا تو اس کا الزام مصر میں فوجی مداخلت کی ذمہ دار قوتوں یعنی امریکہ‘ یورپی یونین اور مشرق وسطی میں طاقت کا کھیل کھیلنے والی قوتوں کے سرہے ‘ جنہوں نے ”عوامی خواہشات کے آئینہ دارآئین کو مقدم رکھنے“ کے بجائے فوج کو مداخلت پر اکسایا ہے۔
الاخوان کی محاذ آرائی کی ایک طویل داستان ہے جو1954 ءمیں صدر ناصر کے دور میں شروع ہوئی اور 1970 ءتک رہی ۔اسکے بعد تین دہائیوں تک صدر حسنی مبارک کے مظالم کا شکار رہنے کے بعد2012 ءکے انتخابات میں اسے کامیابی نصیب ہوئی۔اب انہیں جنرل فتح کا سامنا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ”جہاں جمال ناصر جیسی طلسماتی شخصیت کامیاب نہیں ہو سکی وہاں جنرل فتح کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟
 مصری عوام عرصہ دراز سے سیاسی اسلام کا خواب دیکھ رہے ہیں جسے ختم کرنا جنرل فتح کے بس کی بات نہیں“۔ وقت الاخوان کے ساتھ ہے اور افغانی طالبان کی طرح وہ بھی پرسکون ہیں اور اپنے مقصدسے مخلص ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ غیر ملکی آقاﺅں کے مفادات کی نگران فوج کیخلاف انکی پرامن مزاحمت ضرور کامیاب ہوگی اور وہ دن رات اس ورد میں مصروف ہیں ۔ ”حسبی اللہ و نعم الوکیل“ ....

چچا سام اور دنیاءے اسلام Uncle sam and Islamic World


 چچا سام اور دنیائے اسلام



فتح ملک 
چا سام کو دنیائے اسلام میں جمہوری عمل کا تسلسل اور استحکام سخت ناپسند ہے۔ چنانچہ وہ ہمیشہ عوام کی اجتماعی رائے سے منتخب ہو کر اقتدار میں آنے والی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ کر، اپنی لے پالک اور فرمانبردار آمریت کو مسندِ اقتدار پر لا بٹھاتا ہے۔ دُور کیوں جائیں، خود پاکستان میں پہلے وزیراعظم کی شہادت کے بعد اقتدار کی باگ ڈور برطانوی ہند کی تربیت یافتہ افسر شاہی کو تھما دی گئی تھی۔ اسی پر بس نہیں، ساتھ ہی عوام و خواص کی سیاسی اور فکری تربیت کی خاطر یہ نظریہ بھی ایجاد کر دیا گیا تھا کہ ترقی پذیر ممالک میں عوامی جمہوریت کی بجائے ”مہربان آمریت“ کو رواج دینے کی ضرورت ہے۔ کچھ ایسی ہی سناونی آج کے مصر میں سلطانی¿ جمہور کے فروغ و استحکام کی خاطر سرگرم عمل عوام کو سنائی گئی ہے۔ مصر عرب دنیا کا اہم ترین تہذیبی اور سیاسی مرکز ہے۔ یہ گویا عرب دنیا کا زندہ و بیدار دل ہے۔ یہاں سلطانی¿ جمہور کی اجتماعی تمناﺅں کی سرسبزی و شادابی سے گرد و پیش کے تمام عرب ممالک میں عوام کی بیداری کے زیر لب نغمات کی لے بلند ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جنرل ابو الفتح اسیسی نے امریکی تائید و حمایت سے مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مُرسی کی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ جمایا تو سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ نے باغی فوجی جرنیل کو بذاتِ خود مبارکباد دی، اردن کے شاہ عبداللہ ثانی نے بنفسِ نفیس مصر آ کر فوجی بغاوت کی حمایت فرمائی اور متحدہ امارات نے سعودی عرب کی مانند دل کھول کر مالی امداد کی پیشکش کی۔ متحدہ عرب امارات نے تو ساتھ ہی ساتھ 69 اسلام پسندوں کی گرفتاری کی نوید بھی سُنائی۔
امریکی صدر اوباما اور اس کی تابع فرمان مصری افسر شاہی کے دباﺅ میں آ کر بھی صدر محمد مُرسی کی نظریاتی استقامت منزلزل نہ ہوئی۔ فوجی بغاوت سے فقط چند ماہ پیشتر امریکی صدر نے اپنے اوول آفس میں صدر مُرسی کے امور خارجہ کے مشیر ایسام الحداد سے ملاقات کے دوران سابق صدر حسنی مبارک کے وزیر خارجہ امر موسیٰ اور اقوام متحدہ کے سابق سفارتکار محمد البرادی کو کابینہ میں شامل کرنے پر زور دیا تھا مگر صدر مُرسی نے صدر اوباما کا یہ مشور سُنا اَن سُنا کر دیا۔ ہرچند مُرسی نے نام نہاد وسیع البنیاد حکومت کے اس تصور کو اپنانے سے انکار کر دیا تھا مگر اس کے ردعمل میں جنرل اسیسی نے امریکی تابعداری کا حق ادا کرتے ہوئے صدر مُرسی کو مستعفی ہونے کا ”مشورہ“ دے ڈالا جسے مُرسی نے ماننے سے صاف انکار کر دیا ”نہیں! میں اپنا گلا کٹوا سکتا ہوں، استعفیٰ نہیں دے سکتا!“ محمد مُرسی کے اس حرفِ انکار (اقبال : نعرہ¿ لا پیشِ نمروداں بِزَن) نے مصر میں ایک ایسے سیاسی بحران کو جنم دیا ہے جس کا جلد یا بدیر سارے عالم عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لینا ناگزیر ہے۔ اس حرفِ انکار کی گونج سُنتے ہی مصر کی سلفی جماعت النور بھی اپنے چھوٹے موٹے اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر صدر مُرسی کی حمایت میں میدان میں نکل آئی ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اسلامی جمہوریت پر فوجی آمریت کی ترجیح کا راز ہی یہ ہے۔
مغربی دنیا اسلامی جمہوریت (پولیٹیکل اسلام) کی راہیں مسدود کر دینے کی اس بار بار دہرائی گئی حکمتِ عملی کی کامیابی پر بے شک خوشی کے شادیانے بجائے اور اسرائیل کی در پردہ حلیف ہمسایہ ریاستیں اس جشن مسرت میں بے شک شریک ہوں مگر یہ ہرگز نہ بھولیں کہ یہ خوشی انتہائی عارضی خوشی ہے۔ بات یہ ہے کہ محمد مُرسی دنیائے اسلام میں امر موسیٰ اور محمد البرادی کے سے طالع آزما اور ابن الوقت سیاستدانوں کے قبیلے سے تعلق نہیں رکھتے۔ وہ اخوان المسلمون کی آفاقی مگر عہد در عہد نیا رنگ و آہنگ اختیار کرتی ہوئی آئیڈیالوجی کے عصری ترجمان ہیں۔ آج سے پچاسی سال پہلے، 1928ءمیں مصر کے شہر اسماعیلیہ میں حسن البنا نے اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی تھی۔ اوّل اوّل یہ اسلامی تنظیم آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرتی رہی مگر بعد ازاں اپنی پُرامن حکمتِ عملی پر نظرثانی پر مجبور کر دی گئی۔
اندازِ نظر اور طرزِ عمل میں یہ تبدیلی اس وقت کے صدر سادات کی اسرائیل نواز پالیسی کا ردعمل تھی۔ کیمپ ڈیوڈ کے خفیہ معاہدے کے نتیجے میں جب صدر سادات نے 1977ءمیں اسرائیل کے ساتھ امن کا معاہدہ کیا تو اس اصلاحی سیاسی تنظیم نے بھی اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لازم سمجھی۔ اس تبدیلی نے ہی ایمن الظواہری کے سے رہنماﺅں کو جنم دیا تھا۔ صدر مُرسی، اُن کے رفقائے کار اور پیروکار اخوان المسلمون کے اُس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو خود کو اُمت الوسط قرار دیکر پُرامن جمہوری جدوجہد سے اسلامی جمہوریت کا قیام اور استحکام چاہتے ہیں۔ افسوس کہ آج پھر باغی جرنیل نے پُرامن اسلامی جمہوریت کی راہیں بند کر کے عوام کو ایک بار پھر اس سوال کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ Can Egypt have democracy? انگریزی کا یہ جملہ میرا نہیں نیویارک ٹائمز کے عملہ¿ ادارت کے ایک رُکن Carol Giacomo کا ہے۔ موصوف نے اس عنوان کے ساتھ اپنے مختصر مضمون میں درست لکھا ہے کہ :
"The Obama administration has used tortuous rhetoric to avoid calling a coup a coup, or even condemning it. So have many lawmakers and analysts who say the surest way to protect American interests in the Egypt- Isreal peace treaty, the Suze Canal and Egypt's coopertion in countering terrorism is to work with the army, Egypt's most powerful institution." (July 15, 2013)
 سچ ہے کہ امریکہ جمہوریت پر اس شبِ خون کو فوجی بغاوت کہنے اور اس کی مذمت کرنے سے گریزاں ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس باب میں امریکہ کا سب سے قومی محرکِ عمل عرب دنیا میں اسرائیل کی بقا اور بالادستی کی تمنا ہے۔ چنانچہ امریکہ اس فوجی بغاوت کو جمہوریت کا خوشنما لباس پہنانے میں مصروف ہے (یاد کیجئے اقبال : دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب/ تُو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری) ۔ مجھے یقین ہے کہ آج کی عرب دنیا اسرائیل کے دیوِ استبداد کو ہر رنگ اور ہر لباس میں پہچاننے لگی ہے اور اسے اخوان المسلمون کے محمد مُرسی اور خیرات الشاطر کے سے رہنما بھی میسر آ گئے ہیں۔ خیرات الشاطر نے 1966ءمیں سیّد قطب کی مصر کے زنداں میں سزائے موت کا حوالہ دیتے ہوئے صدر مُرسی کے اس عہد کو برحق قرار دیا ہے کہ وہ اپنے اور اسلامی جمہوریت کے حامیوں کے ساتھ کھلے میدان میں جدوجہد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کریں گے۔ یہ بات بہت معنی خیز ہے کہ آج اگر ایک طرف مصر کے مسلمان لاکھوں کی تعداد میں فوجی بغاوت کی مذمت میں نعرہ زن ہیں تو دوسری جانب مصر میں سرگرم عمل انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مصر کی ”سول سوسائٹی“ خاموش ہے۔ کیا اسلام کے نام لیوا سیاستدانوں کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں؟ اس سوال کے جواب میں نکلتا ہوں تو مجھے الاہرام ریسرچ سنٹر کی ایک پرانی رپورٹ یاد آتی ہے جس میں امریکہ اور سرائیل کی اُس مشترکہ منصوبہ بندی کو بے نقاب کیا گیا ہے جس میں عربوں میں سائنس و حکمت کا تمام تر سرمایہ برباد کر دینے کی مساعی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق عراق کے خلاف مسلح امریکی جارحیت کے آغاز میں ہی 70 عراقی سائنسدانوں کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ آج عراق کی مانند شام کی دانش گاہوں اور علمی ترقی کے آثار و امکانات کو مٹایا جا رہا ہے۔ ان عصری حقائق پر غور کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ مسلمانوں کی دشمن طاقتیں اسلام پسندی اور ترقی پسندی ہر دو کے خلاف صف آرا ہیں۔ صدام حسین کے عراق میں بعث پارٹی کی حکومت تھی اور بشار الاسد کے شام میں بعث پارٹی کی حکومت ہے۔ بعث پارٹی ایک سوشلسٹ پارٹی ہے جو 1940ءمیں قائم کی گئی تھی۔ کاش ہم اس حقیقت پر غور کرنے کیلئے وقت نکال سکیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک کو دنیائے اسلام میں نہ تو اسلامی جمہوریت کا فروغ و استحکام گوارا ہے اور نہ ہی سوشلسٹ آمریت کا!

Fazaye Badr paida kar فضائے بدر پیدا کر


Friday, 26 July 2013

مصر میں جمہوریت پر شب خون

مصر میں جمہوریت پر شب خون

…عالمگیر آفریدی…
مصر میں تاریخ نے ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرایاہے ۔ عوام کے نام نہاد مطالبے پر مصر ی مسلح افواج کے سربراہ جنرل عبد الفتاح السیسی نے لبرل اور سیکولر طبقات کے مغربی پرودہ راہنما محمد البرادی کو اپنے دائیں جانب اور مصر کے مذہبی عناصر کی نمائندگی کے دعوے دار جامعہ الازہر کے شیخ ڈاکٹر احمد الطیب کو اپنے بائیں پہلو میں بٹھا کر ایک مختصر پریس کانفرنس میں نہ صرف مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کی برطرفی کااعلامیہ پڑھ کر سنایا بلکہ مصری آئین کو معطل کرکے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عدلی منصور کی سربراہی میں عبوری حکومت کے قیام کا اعلان بھی کیا ۔ فوج نے محمد مرسی حکومت کے خاتمے کا ارادہ تو بہت پہلے کرلیا تھا لیکن وہ کسی ایسے موقع کی تاک میں تھی جب اقتدار پر قبضے کے لیے اس کے پاس مناسب جواز دستیاب ہو اور حکومت پر قابض ہونے کے بعد اس کے خلاف اندرونی اور بیرونی دنیا میں کم سے کم انگلیاں اٹھائی جا سکیں۔ فوج کا اسلام پسندوں پر مشتمل مصری حکومت کے خلاف پیمانہ صبر چند دن پہلے اس وقت لبریز ہوگیاتھا جب محمد البرادی جیسے سیکولر اور مغرب نواز امریکی ایجنٹوں کی سرپرستی میں دو ڈھائی لاکھ لبرل اور سیکولر عناصر نے التحریر اسکوائر میں جمع ہو کر صدر مرسی کی حکومت کے خلاف احتجاج شروع کیا ۔ یہ احتجاج چونکہ مصری حکومت کے خاتمے کی غرض سے ایک منظم منصوبے اور ساز ش کے تحت شروع کیا گیا تھا اس لیے مظاہرین نے حکومت کی صبر اور برداشت پر مبنی پالیسی کو حکومت کی کمزوری پر محلول کر کے جہاں جاری احتجاج میں تشدد کا پہلو شامل کیا وہاں بعض ،ظاہرین نے اخوان المسلمین کے ہیڈ کوارٹر پر حملے اوروہاں جلائو گھیرائو سمیت اخوان سے و ابستہ راہنما ئوں اور کارکنان پر قاتلانہ حملے بھی کیے گئے ۔ ان حملوں میں اخوان کے دو درجن سے زائد راہنما اور کارکنان جاں بحق کیے جا چکے ہیں۔ ان ہی حالات کو جواز بنا کر اقتدار پر قبضے سے محض 24گھنٹے قبل مصری افواج کے سربراہ جنرل الفتاح السیسی نے اپنے ایک نشری بیان میں حکومت کو جاری احتجاج ختم کرانے اور مظاہرین کے مطالبات ماننے کے لیے 48گھنٹے کا الٹی میٹم دیا تھا جس پر صدر مرسی نے سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے فوج کے اس بیان اور الٹی میٹم کو غیرآئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے نہ صرف مسترد کر دیا تھا بلکہ فوج کے حکومت کے خلاف کسی بھی ممکنہ اقدام کی سخت مزاحمت کا اعلان بھی کیا تھا ۔ صدر مرسی حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کا لب و لہجہ اور احتجاج کا طریقہ واردات دیکھ کر یہ بات واضح نظر آرہی تھی کہ نہ صرف دال میں کچھ کالا ہے بلکہ ان اندیشوں کو بھی واضح طور پر محسوس کیا جا رہا تھا کہ یہ احتجاج آگے جا کر کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے ۔ ایسے میں جب فوج کے سربراہ نے حکومت کو 48گھنٹے کا الٹی میٹم دے ڈالا تھا تو تب پھر ہر کسی کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ مرسی حکومت اب دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں کی مہمان ہے ۔بعد میں وہی ہوا کہ فوج نے اپنے 48گھنٹوں کے الٹی میٹم کی لاج رکھنا بھی ضروری نہیں سمجھا اور اگلے ہی دن یعنی 24گھنٹے بعد فوج کے چند پیادوں نے سرکاری ٹی وی اور ایوان صدر کا گھیرائو کرتے ہوئے بھاری مینڈیٹ کی حامل ایک جمہوری حکومت کو اسی طرح چلتا کر دیا جس طرح کہ عموماً تیسری دنیا بالخصوص مصر اور پاکستا ن جیسے ممالک میں ہوتا آیا ہے ۔مرسی حکومت پر فوج کے سربراہ نے وہی گھسے پٹے روایتی الزامات لگائے ہیں جو اس طرح کے آئین شکن اور جمہوریت کش اقدامات کے بعد فوجی ڈکٹیٹر ز منتخب جمہوری حکومتوں کے خلاف لگاتے آئے ہیں ۔ گو مصری افواج کے پاس صدر مرسی جیسے دیانتدار ، اہل ، باصلاحیت اور باہمت قائد کے خلاف چارج شیٹ بنانے کے لیے کوئی قابل ذکر مواد دستیاب نہیں تھا لیکن مرسی حکومت کی معزولی کے لیے کیا صدر مرسی کا یہ ایک قصورکم تھا کہ وہ اسلام کے اصولوں یعنی سماجی انصاف اور جمہوریت پر مبنی معاشرے کے قیام کے علمبردار تھے ۔ وہ فلسطینیوں کو ان کے جائز بنیادی حقوق دینے اور ایک آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے پشتیبان اور خواہشمند تھے ۔ وہ مصری معاشرے کو زنا ، شراب خوری او ر سودجیسی غیر اسلامی قباحتوں سے پاک کر کے ایک فلاحی اسلامی معاشرے کے قیام کے راستے پر گامزن تھے ۔ حیرت ہے کہ پاکستان کے بعض نام نہاد جمہوریت پسند دانشور مصر میں جمہوریت کے خلاف فوج کشی پر دکھلاوے کے ٹسوے تو بہا رہے ہیں لیکن یہی دانشور ایک ہی سانس میں مصر میں جمہوریت لپیٹے جانے کی ذمہ داری اقتدار کے بھوکے فوجی جرنیلوں اور ان سے بھی بڑھ کر عالمی صیہونی اور یہودی سازشوں کے سرخیلوں پر عائد کرنے کی بجائے اس جمہوریت کشی کاملبہ نوزائیدہ مرسی حکومت اور ان کے خلاف نام نہاد اور بے بنیاد الزامامت کو قرار دے کر اپنی دورنگی اور منافقت کا کھلا اظہار کررہے ہیں ۔ دانشوروں کایہ مفاد پرست اور مغرب سے مرعوب طبقہ ایک جانب صدر مرسی پر بے حکمتی اور غیر لچکداری کی بھپتی کستے ہوئے، کہتے ہیں کہ فوجی الٹی میٹم کے بعد جمہوریت بچانے کے لیے صدر مرسی کو اپنے اقتدار کی قربانی دے کرمستعفی ہوجانا چاہیے تھا ۔دوسری جانب یہ ٹولہ میاں نواز شریف پر جنرل مشرف کے خلاف نہ ڈٹنے اور جان کی امان کا معاہدہ کرنے کی بھپتیاں کسنے سے بھی دریغ نہیں کرتا جب کہ تیسری جانب یہی ٹولہ ذوالفقار علی بھٹو کی فوجی آمر کے خلاف نہ جھکنے اور جمہوریت کی خاطر پھانسی چڑھنے پر نہ صرف واہ واہ کرتا ہوا نظر آتا ہے بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کے جانشینوں اور سیاسی وارثوںنے اپنے کرتوتوں سے جمہوریت کی مٹی جس طرح پلید کی ہے لبرل فاشسٹوں کا یہ دانشور طبقہ ان وارداتو ںکو بھی بالعموم اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے مہمل الفاظ کے گورکھ دھندے میں گول کر جاتا ہے ۔ صدر مرسی کے پاس اپنی منتخب جمہوری و آئینی حکومت بچانے کے لیے سوائے مزاحمت کے اور کوئی آپشن تھا ہی نہیں ۔ ہاں ایک آپشن ان کے پاس ضرور موجود تھا کہ وہ امریکی اور اسرائیلی گٹھ جوڑ کے خلاف ہتھیار ڈال کر اپنی آئینی حکومت سے دستبردار ہوجاتے جس کا سیدھا سادھا مطلب یہی اخذ کیا جاتا کہ وہ لڑے بغیر ہی دشمن کی قید میں چلے گئے کسی جنرل یحی ٰ خان جیسے ” سپوت” کے لیے تو ایسے کسی راستے کا انتخاب یقیناآسان ہوتا لیکن قربانیوں اور شجاعتوں کی امین اخوان المسلمون کے کسی تربیت یافتہ راہنما کے لیے ایسے تاریک راستے کا چنائو نا ممکن تھا۔در اصل صدر مرسی اور اخوان سے بہتر یہ بات اور کون جان سکتا ہے کہ اگر بالفرض وہ ملک وقوم اور جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں اقتدار سے علیحدہ ہو بھی جاتے تو تب بھی بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت مرسی حکومت کے جانے اور اخوان کے گھیرائو کا فیصلہ وہیں ہو چکا تھا جہاں بالعموم ایسے فیصلے ہوتے ہیں ۔ محمد مرسی جس واضح ایجنڈے اور رفتار کے ساتھ ترکی ، ایران اور فلسطین کے ساتھ اپنے دو طرفہ تعلقات استوار اور مستحکم کر رہے تھے اور غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملے کے خلاف مصر نے تاریخ میں پہلی دفعہ جس طرح کھل کر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کر کے فلسطینیوں کو باب الفتح کے سرحدی راستے کے ذریعے جس بڑے پیمانے پر غذائی امداد بہم پہنچائی دراصل یہی وہ جرائم تھے جو صدر مرسی اور ان کی حکومت کے خاتمے کا اصل سبب ہیں باقی محض باتیں اور فسانے یا پھر یکطرفہ اور من گھڑت الزمات ہیں۔ اس بغاوت میں فوج کے پیچھے امریکی ہاتھ کا اندازہ جہاں عبور ی حکومت کے سیٹ اپ اور فوج کی جانب سے جمہوریت کی بحالی کا کوئی ٹائم فریم نہ دینے کے اقدامات سے لگایا جا سکتا ہے وہاں آئین میںمن مانی ترامیم جیسے اعلانات بھی اس جانب واضح اشارہ کرتے ہیں۔ حرف آخر یہ کہ فوج کا اقتدار پر قبضہ اگر ایک جانب مصری معاشرے اور بالخصوص اخوان المسلمون کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش کا پیش خیمہ بن سکتا ہے تو دوسری طرف اس شب خون اور بغاوت کے بحیثیت مجموعی مشرق وسطیٰ خاص کر فلسطین اور شام کی صورتحال پر بھی انتہائی گہرے اور منفی اثرات مرتب ہونے کے امکانات کو رد کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔

ہلاکو کا رحم Halakum ka Rahem

ہلاکو کا رحم

…غزالہ عزیز …
ٹامس پنگ ایک امریکی فوجی ہیں۔ 9-11 کے وقت وہ بائیس سال کے تھے۔ جب انہوں نے اس واقعہ کو ٹی وی پر دیکھا اس کی وڈیو رپورٹ کے ذریعے جو اس دن کے خوفناک مناظر کی منظر کشی کررہی تھی۔ انہوں نے جارج بش جونیر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ملبے کے اوپر کھڑے ہو کر اعلان کرتے سنا کہ وہ اس حملے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ انہوں نے جذبات کی شدت محسوس کی اور جارج بش کی معاونت کا فیصلہ کرتے ہوئے امریکی فوج میں بھرتی ہوگئے۔ یوں وہ 2004ء میں تربیت کے بعد عراق بھیج دیے گئے۔
عراق میں تعیناتی کے پانچویں روز ہی انہیں بغداد میں باقاعدہ حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حملے میں ان کی ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگی اور وہ معذور ہوگئے۔ عراق واپس آکر انہوں نے وہیل چیئر پر عراق جنگ کے خلاف مہم میں حصہ لیا انہوں نے عراق میں زخمی ہونے والے فوجیوں اور ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کی طرف سے جارج بش اور اس کے نائب صدر ڈک چینی کو خط لکھے جس میں ان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے لکھا کہ ’’عراق جنگ اخلاقی طور پر دفاعی نقطہ نظر سے اور معیشت کے اعتبار سے ایک ناکام جنگ تھی اور یہ جنگ آپ دونوں نے شروع کی تھی۔ اب آپ دونوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا چاہیے۔ میرا وقت آگیا ہے اور یقینا آپ کا بھی آئے گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو بھی جواب دہی کرنی ہوگی لیکن اس سے کہیں زیادہ میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں میں اتنی اخلاقی جرأت آئے کہ آپ خود اس بات کا احساس کریں کہ آپ نے میرے ساتھ اور ان تمام لوگوں کے ساتھ جو ہلاک اور زخمی ہوئے کیا کیا‘‘؟

دونوں ٹانگوں سے محروم ٹامس کا اب کیا حال ہے؟ اس کا جواب ٹامس نہیں دے سکتے کیونکہ انہیں بولنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ ٹامس کی بیوی کہتی ہیں کہ دماغ کو کم آکسیجن ملنے کے باعث زبان اور ہاتھ وغیرہ ہلانے کی صلاحیت پر بھی بڑا برا اثر پڑا ہے۔ ٹامس کھانا بھی نہیں کھا سکتے انہیں ٹیوب کے ذریعہ غذا دی جاتی ہے اور ان کی جلد اُتر رہی ہے اور گوشت اور ہڈیاں نظر آرہی ہیں۔ اس کی بیوی کا کہنا ہے کہ ٹامس زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ خود اس کے لیے یہ سب دیکھنا ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ دو ماہ پہلے ٹامس نے کہہ دیا تھا کہ اپریل کے آخر میں وہ ٹیوب سے غذا نہ لے کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردے گا۔
ٹامس کے ساتھ کیا ہوا مغربی میڈیا نے اس کی کوئی خبر نہیں دی۔ کیونکہ اس کی باتیں ان کے لیے باعث شرم تھیں کہ اس کے شرمناک کرتوت سامنے لاتی ہیں لیکن یہ صرف ایک ٹامس کی کہانی ہے اور نہ ہی کسی ایک ٹامس کے خیالات ہیں۔ ٹامس کی کوشیش ایک لحاظ سے کامیابی سے ہمکنار ہوئیں عراق پر حملہ غلطی تسلیم کرلیا گیا لیکن کیا اس غلطی کا ازالہ محض اعتراف کرنے سے ہوسکے گا جب کہ عراق پر حملے کے پہلے ہفتے میں ہی عراق پر 6 ہزار سے زائد کروز میزائل اور بم برسا دیے گے تھے۔ کتنے بے گناہوں کے چیتھڑے اڑائے گے اور کتنوں کو زندگی بھر کے لیے معذور بنا دیا گیا۔
افغانستان میں انتہائی خطرناک بارود بارش کی طرح برسایا اور اسے کارپٹ بمباری کا نام دیا۔ جس سے افغانستان کی سرزمین تباہ وبرباد ہوئی۔ مقامی باشندوں کی صحت پر انتہائی مضر اور تباہ کن اثرات پڑے۔ ویسے ہی جیسے آج بھی جاپانی شہروں ہیرو شیما اور ناگاساکی میں پیدا ہونے والے بچوں پر ایٹمی حملوں کے مضر اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ افغانستان پر برسائے جانے والے بموں میں یورینیم کی تابکاری موجود تھی جس سے پھیپڑوں اور خون کے کینسر کے علاوہ اپاہج بچوں کی پیدائش شروع ہوجاتی ہے۔ یہ ہی یورینیم امریکا نے یوگوسلاویہ میں استعمال کیا، ویت نام میں استعمال کیا۔ ویت نام کی جنگ کے دوران امریکا نے آزادی کے پروانوں کو آڑ فراہم کرنے والے جنگل کو تباہ کرنے کے لیے ’’ایجنٹ اورینج‘‘ نامی مضر صحت مادہ استعمال کیا۔ جس کے ہزاروں گیلن جنگلات پر اسپرے کیے۔ جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے، ڈیڑھ لاکھ کے قریب بچے پیدائشی نقانص کا شکار ہوئے۔ اس کے تباہ کن اثرات اب تک متاثرہ علاقے میں موجود ہیں۔ یہ امریکی امداد کے طریقے ہیں۔ جس میں ایک طرف نسل انسانی کی تباہی اور ہنستی بستی بستیوں کی ویرانی ہے تو دوسری طرف US ایڈ کے غلغلے… ٹی وی پر اشتہارات کے علاوہ موبائیل پیغام کے ذریعے ہر ایک کو یاد دہانی کرائی جارہی ہے جی ہاں… امریکی حکومت کیسی رحیم وکریم اور غریب پرور ہے۔
ہلاکو خان سے کسی نے پوچھا تم کو کبھی کسی پر رحم بھی آیا ہے؟ کافی دیر سوچ کر بولا ہاں ایک عورت پر آیا تھا؟ کب اور کیسے؟ پوچھنے والے نے حیرانی کے عالم میں پوچھا۔
وہ عورت مدد کے لیے آواز دے رہی تھی اس کا بچہ پانی کے تالاب میں غوطے کھا رہا تھا۔ میں فوراً مدد کے لیے پہنچ گیا اپنا نیزہ جھکا کر بچے کو پرو لیا اور عورت کی گود میں ڈال دیا۔ بچہ تو مرگیا ہوگا یہ کیا رحم؟؟
’’بچہ تو نیزہ لگتے ہی مرگیا تھا لیکن مجھے خوشی تھی کہ ماںکو بچے کی نعش تو مل گئی‘‘
لیکن آج کا ہلاکو ماں کو بچوں کے ساتھ ہی ڈورن مارتا ہے کہ یہ اس کے رحم کا اندا زہے۔

Monday, 22 July 2013

BJP Ka Inteqam بھاجپا کا انتقام

بھاجپا کا انتقام
بدلے کی بھا ؤنا میںپریوار ہے شرربار


پہلے بودھ گیاسیریل بم دھماکے اوراب مڈے میل میں زہر دے کر 30معصوم بچوںکا قتل ناحق، یہ ہے نتیش کمار کو بھاجپا سے ناطہ توڑنے کی سزا ۔حالیہ دنوں میں یہ بہار حکومت کو بدنام کر نے کی یہ دوسری زہر ناک سازش ہے۔30بچوں کی دردناک موت کو ئی ایسا معمولی حادثہ نہیںہے کہ جسے اخبارو ںمیں پڑھ کر چھوڑدیا جائے یا ٹیلی ویژن پر دیکھ کر چینل تبدیل کر دیا جائے، یہ سانحہ اتنا عظیم ہے کہ اس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے اتناکم ہے۔ تصور کیجیے ان ماں باپ کی حالت غیر کا جنہوں نے صبح سویرے اپنے نونہالوں کو نہلا دھلا کر اور صاف ستھرے کپڑے پہنا کر اسکول روانہ کیا ہو اور پھر انھیں دوپہر کو اطلاع ملے کہ ’’ان کیچراغ گل‘‘ہو گئے…ان پر کیا قیامت ٹوٹی ہو گی اورانہوں نے جیتے جی اس حادثے کو کس طرح برداشت کیا ہوگا…؟؟ فرقہ پرست سنگھ پریوار کو اس کی کیا پر واہ جسے گجرات میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل پر آج بھی کو ئی افسوس نہیں ۔اس کے نیتاؤں کی نظر میں توسارے انسا ن ’’کتے ‘‘ہیں جب کہ سیکولر خیا ل کے لوگ خصوصی طور اس کے یہاں معافی کے قابل نہیں ۔نتیش کمار کی پوری جماعت چونکہ سیکولر زم کی بنیادو ںپر قایم ہے، یہی وجہ ہے کہ جب بی جے پی نے اپنی انتخابی کمیٹی کا صدر ایک متنازعہ شخص کو مقرر کیا جسے صحیح معنوں میں انسان کہنا ’’لفظ انسانیت‘‘ کی تو ہین ہے تو نتیش این ڈی اے کا  اس کا دامن چھوڑدیا۔اسی کی پاداش میں بی جے پی ان کی دشمن بن گئی بلکہ اس کی ریاست میں موت کا کاروبار کر نے لگی۔
بہار میں مرنے والے معصوم بچوں کی اموات پرحسب دستور ابھی کمیشن قایم ہوں گے ۔اس اندوہناک حادثے کی تحقیقات ہوں گی اور اس میں کتنی مدت درکار ہوگی اس کا کو ئی اندازہ نہیں ۔ ابھی بہار حکومت متاثرین سے ان کے بچوںکیغیر طبعی موت خریدیتے ہو ئے لاکھوں روپے معاوضہ دے گی۔ ابھی تو اس پر سیاسی کھیل رچا جائے گا ۔اپوزیشن اسمبلی میں ہنگامہ کر ے گی ۔کمیشن پر اعتراض ہوں گے۔ریاست میں بند اور مظاہروں کا دور چلے گا اور ان ہنگاموں میں مجرم افراد صاف بچ نکلیں گے۔تھوڑے دنوں بعد لوگ یہ بھی  بھول جا ئیں گے کہ بہار میں کو ئی قیامت بھی برپا ہو ئی تھی۔
ہمارے عہد کا المیہ یہی ہے کہ مجرم سامنے ہوتے ہو ئے بھی کسی میں اس پر ہاتھ ڈالنے کی جسارت نہیں ہوتی اور اگر کبھی ہوبھی جاتی ہے تو مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے سے پہلے ہی شرپسندی بر پا کر نے کے لیے چھوڑدیا جاتا۔
بہار کے وزیر تعلیم پی ۔کے شاہی سے جب اسمبلی میں اس اندوہناک حادثے کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے ببانگ دہل کہا کہ جن اسکولوں میںیہ حادثے پیش آئے ہیں ان میں ایک اسکول کی پرنسپل مینا کماری کے شوہر کے تعلقات فرقہ پرست جماعت کے ایک بڑے لیڈر سے ہیںاور اسی کی دکان سے مڈ ڈے میل کاسامان خریدا جاتا ہے۔ اس لیے اس معاملے میں گہری سازش کی بو آتی ہے۔انہوں نے مزید کہایہ محض اتفاق نہیں کہ اس غم ا نگیز حادثے کے بعد مینا کماری کے خاندان کے تمام افراد غائب ہیں۔پی۔ کے شاہی کے اس بیان کی گوایوان میں مخالفت ہو ئی اورانہیں جھوٹاا ور فریبی بھی کہا گیا مگر … حقیقت یہ ہی کہ یہ ایک زہر ناک سازش ہے اور بی جے پی اس کے پس پشت ہے جسے نتیش سے ایک ایک پائی کا حساب چکاناباقی ہے۔
بی جے پی کی مثال سانپ کی مانندہے جو ہمیشہ بے خبری میں اور پیچھے سے وار کر تا ہے ۔اس بزدل درندے میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ پھن اٹھا ئے ہو ئے سامنے سے وار کر ے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے شاعر نے کہا ہے  ؎
مرد میداں ہو تو سینے پر وار کرو
پیچھے سے وار کرکے بھاگتے کیوں ہو؟
مگربی جے پی‘ ہمیشہ کی بزدل جماعت‘ پیچھے سے ہی وار کر ے گی ۔یہودی خصلت جماعت موت کے ڈر سے سینے پر وار نہیں کر ے گی ۔بھلا خدارا بتائیے کیا کسی جمہوری ملک میں مسجدوں اور مذہبی مقامات کو گر ا کر اور فرقہ وارانہ فسادات کر وا اور منافرتوں اک بازار گرم کر کے ہی دھرم کے تقاضے پورے کیے جاتے ہیں؟کیا اپنا غلط مقصدحاصل کر نے کے لیے معصوموں کی بلی چڑھانا جائز ہے؟اس طرح کے اور بھی سوالات ہیں جو یہ ملک اوراس کا ہر باشندہ فرقہ پرست جماعت بی جے پی سے پوچھنا چاہتا ہے مگر یہ ناگی خصلت کے لوگ سامنے آکر جواب نہیں دیں گے۔خفیہ طور پر پولیس کے ساتھ مل کر کہیں فساد کر ادیں گے۔محض انتقام گیری کی رومیں بہہ کر 30بچوں کی درناک موت سے جو راج نیتی کا کاروبار چلائے اس جماعت کا مستقبل تاریک ہو نے کیا دورائے ہو سکتی ہیں ؟مجھے رہ رہ کران کی معصوم اورپھول چہروں کی یاد آرہی ہیں اوراس سے زیادہ ان کے ماں باپ پر ترس آرہا ہے جن کے کلیجوں کا سکون چھن گیا ہوگا ۔یہ سب اپنے لخت جگروNews/Featureں کی ابدی جدائی پر بلک رہے ہوں گے ۔دہا ئیاں دے رہے ہوں گے ‘رو رہے ہوں گے، سینہ پیٹ رہے ہوں گے…یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ بہار حکومت مجرموں کی تلاش اور ان کے خلاف سخت کارروا ئی کر نے کے بجائے متاثرین کے زخموں پر لاکھ روپر کی ایکس گریشیا  معاوضوں کے مرہم رکھ رہی ہے۔بھلا کیا لاکھ روپے میں مرنے والے بچے واپس آسکتے ہیں ؟یا کسی مارکیٹ سے خریدے جاسکتے ہیں؟۔۔۔۔مگر کیا کیا جائے جب سیاسی لوگوں کے یہاںیہی دستور زندگی ٹھہرا  اور یہی سیاسی نظام کا اوڑھنا بچھونا بنا ہو تو کیا کہئے
   imranakifkhan@gmail.com
crtsy: Kashmir Uzma Srinagar

Saturday, 20 July 2013

IN SEARCH OF THE TRUE MEANING OF RAMADAN

In search of the true meaning of Ramadan


Tariq A. Al-Maeena


How does Ramadan in this country appear to a female expatriate who is a first-time visitor from a Nordic country and who had no inkling of what the essence of Ramadan was until she set foot on this soil?  Layla, a Finnish national and the author of the blog Blue Abaya, shares her story:

"Most non-Muslims know this month as the time when Muslims abstain from food and drink during the daylight hours.  Before I came to Saudi Arabia, admittedly, just like most non-Muslims living in Western countries, I was pretty ignorant about Ramadan. I knew that this was the month when Muslims fasted from sunrise to sunset, but that was pretty much it. I had heard people saying 'them Mohammedans can eat only at night and need to fast only part of the day because they couldn't handle a week in a row' and other such nonsense. I remember wondering, what was the real reason behind the Muslim fast, but never bothered to find out the answer. That is, until I came to the  Kingdom.

"During my first Ramadan here, I became very curious to find out more about this month as it all suddenly became much more of a reality to me. To my surprise, as Ramadan drew closer, my expat friends grew grumpier. 'I hate Ramadan!' 'Everything is closed, nobody is working' 'Muslims skip work and leave all the work for us to do' 'Whatever you do, don't stay in Saudi Arabia for Ramadan, it's just crazy.' 'They will arrest you if they see you drinking water during the day', etc, etc, etc. I did not hear a single positive comment about Ramadan. So naturally, I was somewhat wary of what Ramadan would bring and started to dread the beginning of it along with all the other expats.

"So Ramadan rolled along and the entire hospital where I worked turned upside down. Patients ate at the strangest hours, visitors came and went in the middle of the night, the working hours of Muslims were cut, some Muslim employees would disappear in the middle of shifts, medicine regimes had to be changed and fasting patients could not even be administered intravenous medicines during daytime. It was all very confusing.

"Despite all the weird schedule changes, I could not help noticing other changes too. There was a remarkable sense of unity, cheerfulness and a feeling of high spirits among my Muslim colleagues. The patients, if possible, became even more welcoming, friendly, and hospitable. There was a sense of elation in the air that I could not quite put my finger on, but it made me even more curious.

"One day I watched all the ward clerks praying together with some nurses and doctors in the staff room where I was doing charting. I finally mustered up the confidence to ask about Ramadan, despite the fact that they were all Saudi males and I felt a little intimidated to approach them on this matter. I remember simply asking: 'Why do you fast during Ramadan?'

"I was blown away by the reply. Looking back, the way one of the men explained it to me in such a nice and respectable way was commendable, despite my seemingly super ignorant question.

"He said: 'We fast to remember all those people who cannot eat and drink daily. We fast to feel their suffering, to remind ourselves of how blessed we are to have food and water.  We fast to feel those same pangs of hunger that our poor sisters and brothers feel daily around the world. We fast to become more generous, to practice self-discipline and to strive to become better Muslims and people.'

"His words had a profound impact on me. Somehow I had failed to see the true meaning of the fast. I started to look at it from an entirely different perspective. I came to realize that in reality, Ramadan is so much more than just abstaining from food and drink during the daylight hours. Basically, Muslims are supposed to abstain from all harmful acts as much as possible and concentrate on becoming better Muslims. Everyone can set their own goals for Ramadan according to their life situation and abilities. While one person struggles to quit smoking, another might set as a goal to read the entire Qur'an during Ramadan. Some might plan to pray extra prayers every day, donate to charity or memorize a new Surah from the Qur'an.

"So I learned from my Muslim colleagues that Ramadan is also about remembering our Creator, reading the Qur'an, which was sent down during the month of Ramadan, doing good deeds (out of a sincere wish to do them, not by habit or force), being kind to others, giving out Dawah (teaching, not preaching to non-Muslims about Islam) and remembering the poor and the less fortunate. Ramadan is about being humble, modest and abstaining not only from food, but from extravagances, over-consuming, spending, and wasting food, money and resources.

"Sadly, what I see today is very disturbing in that many people in Saudi Arabia are doing the exact opposite. The true purpose has been long lost and forgotten. I see people stocking up on food and spending on groceries like crazy, and cooking and baking like there is no tomorrow. Women are spending their days in the kitchen instead of focusing on their religion; some out of their own will or perhaps out of learned habit and routine and some because of demands from their husbands and even peer pressure.

"When the time comes for iftar, people indulge in extravagant meals and then lay around all evening snacking on deep fried, highly sweetened and unhealthy foods, watching Arabic soap operas on TV, gossiping with friends and staying up all night. Many go to shopping malls which are now open until the early morning hours for mindless shopping. Some even force their kids to stay up late or wake them in the middle of the night so that the parents don't have to get up early with them! The next day they sleep until the evening until it all starts over again at sunset.

"The Prophet Muhammad (peace be upon him) taught Muslims by example to break the fast with simply dates and water and to eat a light meal later and to pray Taraweeh prayers, then go to sleep as one normally would, get up early for night prayers and suhoor (breakfast) and go about the day working and doing things that one would normally do.

"Let's not forget the true meaning of Ramadan, its purpose, and all the blessings of this month. Break those unhealthy and binding routines and habits. Layla."


– The author can be reached at talmaeena@aol.com. Follow him on Twitter @talmaeena

British Muezzin: Channel 4 has given Muslims a “fantastic opportunity”

British Muezzin: Channel 4 has given Muslims a “fantastic opportunity” 

 “I think that we will give British viewers a good perspective of Islam, full of peace and tranquility,” says Hassan Rasool, the British Muezzin who is performing the call to prayer for Channel 4 throughout Ramadan

 London, Asharq Al-Awsat—The London-based British television network Channel 4 announced at the beginning of July that it would be broadcasting the Islamic call to prayer, or adhan, every morning of the Muslim holy month of Ramadan.

Now in its second week—which has coincided with temperatures of over 30 degrees Celsius in parts of England—British Muslims, who number some 2.7 million, are abstaining from food, water, smoking and sexual intercourse during daylight hours.
“Nearly five per cent of the country will actively engage in Ramadan this month,” Ralph Lee, head of factual programming at Channel 4, wrote in Radio Times when he announced the decision.
Hassan Rasool is a South African-born singer–songwriter, and is “considered to be one of the UK’s best muezzins,” according to Lee’s article. As such, Channel 4 selected him to perform the call to prayer live on television. He told Asharq Al-Awsat that he was “very happy with the project, as I think that, in Britain, we need to see positive programs on the official channels.
“We always see negative images about Islam and Muslims on the television screen, especially after the killing of the soldier Lee Rigby in Woolwich at the hands of extremists. With the call to prayer being broadcast, I think that we will give British viewers a good perspective of Islam, full of peace and tranquility.”
Likewise, Ralph Lee wrote in the Radio Times earlier in the month that the series of broadcasts would be in stark contrast to “the way most Muslims are represented on television—nearly always appearing in contexts related to extremism or terrorism.”
Rasool affirmed that it was a “fantastic opportunity” for the non-Muslim population of Britain to get an insight into the spiritual aspect of the religion that is often overlooked, and to hear “the sweet, soothing sound of the call to prayer,” as he told Arise News.
While he normally performs the call to prayer in various different locations, the musician said that “in Ramadan, I do the call to prayer for all the prayers at a mosque where I live in Harrow.”
Rasool also told Asharq Al-Awsat about his own music. “My songs tend to be in the soul genre, or Bob Dylan songs. I have released a number of songs already,” he said.
This is something the Muezzin—the individual who conducts the adhan—wanted to transpose to the network’s coverage of the event, which takes place five times a day. “I wanted to reflect my personality. I am someone who loves people; I smile at strangers and help those in need. Honestly, when I agreed with the channel, one of the most important things was that I could be myself.”
A Channel 4 spokesman also told Asharq Al-Awsat that “the decision is part of the channel’s policy to meet the tastes and interests of a culturally diverse society, and to provide space for different views and opinions. The programs designed for the month of Ramadan will provide a look at how Muslims integrate fasting into their daily life in Britain.”
“The call to prayer takes place at all the mosques across Britain. We will broadcast it at three in the morning, and although we do not expect a large number of the general public will watch it, we hope that Muslims and others interested in Islam will follow the channel to watch the call to prayer and the Ramadan Reflections program.”

Debate: Egypt's military didn't have to intervene

Written by :

Debate: Egypt’s military didn’t have to intervene

When asked whether I support Egypt’s military intervention, my reply is that the statement issued by the Armed Forces’ General Command and which was read by Gen. Abdel-Fattah El-Sisi, Minister of Defense and commander of the Supreme Council of the Armed Forces (SCAF), on Wednesday night did not mention the Muslim Brotherhood. Indeed, the statement did not explicitly stipulate the ouster of legitimate president Mohamed Mursi at all. Yet, different clauses of the statement suggested the surprise decision that the constitution would be suspended temporarily and that the head of the Supreme Court would assume the duties of the President of the Republic until new presidential elections could be held. According to all this, I suggest that a more apt question is: Doesn’t the ouster of a freely-elected president by the military constitute a coup d’etat?
The direct answer to this question, in ordinary circumstances, is an unequivocal yes. Army Commander and Minister of Defense Abdel-Fattah El-Sisi suspended the constitution, which he swore to uphold when he assumed his post. This, in the first place, represents an invalidation of any claimed legitimacy, and in fact even curtails the legitimacy of El-Sisi himself. It was also noticeable that the statement was issued by the General Command, not (SCAF) that was only represented by the Commander of the Marine Forces and two other members out of a total of 17. This, however, prompted many to believe some news reports that were leaked about a large number of senior leaders being dissatisfied with El-Sisi’s decision, most prominently commanders of the Second and the Third Field Armies. This is apart from the fact that—as far as the chain of command goes—Sisi should report directly to the Commander-in-Chief and President of the Republic, Dr. Mohamed Mursi. Military traditions and customs in all military apparatus across the globe stipulate that orders flow downwards, otherwise what we are looking at is a coup.
However, this opinion is strongly objected to by the millions of people who took to streets on June 30 to demand Mursi’s ouster. These millions believe that they, by flocking to Egypt’s squares and streets to reject Mursi, have become the rightful owners of decision-making and legitimacy, and thus have the right to oust and appoint whoever they want. However, no matter how much they want to believe this, we must look at things clearly and impartially.
I also understand the stance adopted by millions of other Egyptians who uphold President Mursi’s legitimacy, and who now are taking to the streets of Egypt to protest. The objective of these millions is to let the opponents of constitutional legitimacy see that Mursi also has millions of supporters, and this number could get bigger. This was manifested in the huge number of people took to streets earlier this week to demand Mursi’s return. These crowds were not limited to the Brotherhood or their supporters alone, and they were joined by a large number of Egyptians who want to stop the military from burying Egypt’s new democracy alive.
President Mohamed Mursi was the first freely-elected civilian president in the history of modern Egypt since the end of the monarchist era and the declaration of the republic on June 18, 1953. He came after four military rulers. The first one was Gen. Muhammad Naguib, head of the Revolution Command Council (RCC), and he was appointed by the said council that continued to rule the country unilaterally throughout the transitional period (1952 – 1957). On Nov 14, 1954, the same council overthrew president Naguib and installed Major Gamal Abdel Nasser in his place. Later on, Nasser renewed his term by means of nominal referendum—in which voting was limited to either yes or no—and he won with 99 percent of the votes. When Nasser died in 1970, he was succeeded by Anwar Sadat (Nasser’s colleague in the Free Officers Movement) after he won by 97 percent in a referendum similar to the ones held by Nasser. Sadat became the third Egyptian president and remained in his post until he was assassinated on October 6, 1981. Then came lieutenant general Hosni Mubarak who ruled the country for nearly 30 years with five nominal referendums as well. Mubarak was the only candidate in his first four referendums, yet in his fifth and last one, he allowed other candidates to stand. Nevertheless, he unsurprisingly emerged triumphant, winning a fifth successive term in office until the January 25 revolution forced him to step down and hand over power to SCAF.
Recently, on June 30, 2012, Dr. Mohamed Mursi assumed the presidency after winning a majority of 52 percent of the votes in the runoff election against General Ahmed Shafiq who was being backed by numerous powers both inside and outside the country. This included army commanders, either out of desire to return the old Mubarak regime to power or simply to keep the presidency out of the hands of the Islamists.
Mursi’s priorities included completing and accelerating the construction of the institutions and pillars for a civil modern democratic state by drawing up a new constitution and electing a legislative council. Yet, the Supreme Court ordered the dissolution of the parliament that was elected by 32 million people in a free and transparent manner. Then, the counter-revolutionary forces, together with their allies from leftist and liberal parties, were united in rejecting the constitution. This is despite the fact that the constitution was drafted by the Constituent Assembly, a body that incorporated 100 members who were carefully selected according to parliamentary rules established and approved under the auspices of SCAF in April 2012. In fact, this constitution was the best that Egypt has ever seen. Yet, they launched a campaign to void the constitution although the people had approved it by a majority of 67 percent in a referendum.
The counter-revolutionary forces, along with allies from leftist and liberal parties, all hindered Mursi’s efforts, refusing to cooperate with him, fabricating crises, and encouraging protests and sit-ins. As a result, production halted, and unemployment rates and debts soared. Furthermore, the police authority’s negative stance under his rule caused a lack of security to prevail in the country. As a result, neither his restless efforts nor his shuttle diplomacy across the world succeeded in attracting investors to Egypt. Besides this, fraternal Arab states declined to fulfill their promises of helping Egypt, something that eventually impacted the economy, devalued the Egyptian pound, and brought more suffering for the people.
To sum up, Egypt’s military didn’t have to intervene, and their intervention can only be described as a military coup.
M. Fareed El-Shayyal

M. Fareed El-Shayyal

http://www.aawsat.net/2013/07/article55310452

Keya ab Indonesia aur Malysia ki bari hai????

کیا اب انڈونیشیا اور ملائیشیا کی باری ہے؟

…مسعود انور…

برما میں اراکانی مسلمانوں پر ابتلاء ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہی۔ یہ کوئی ایک دو دن کی بات نہیں ہے۔ برسوں سے ان کی منظم نسل کشی کی جارہی ہے مگر دنیا بھر کے مسلمان ہیں کہ ان کے کان پر جوں بھی نہیں رینگ رہی۔ برما کی سرکاری افواج اور بدھ بھکشوؤں پر مشتمل مجرم ان لاچار مسلمانوں کا شکار یوں کھیل رہے ہیںجیسے بھیڑیے بھیڑوں کا کرتے ہیں۔ یہ مسلمان ان بھیڑوں کے مقابلے میں مزید لاچار اس لیے ہیں کہ بھیڑوں کو تو بھیڑیوں سے مقابلے کا حق پھر بھی حاصل ہے۔ اگر یہ مسلمان اپنا تحفظ کرنے کی کوشش کریں تو برما کا قانون حرکت میں آجاتا ہے اور جیل و پھانسی کو کوٹھری ان کا مقدر ٹھیرتی ہے۔

نہ تو دنیا کی کسی سول سوسائٹی کو یہ بے چارے روہنگیا مسلمان نظر آتے ہیں اور نہ ہی کسی جمہوریت کے چمپئن کو برما کے ڈکٹیٹر کی یہ خوں ریزی نظر آتی ہے۔ مزید افسوس تو اس بات کا ہے کہ برما کے ہمسایہ ممالک بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ملائیشیا بھی اس ظلم و خوں ریزی پر آنکھ بند کیے بیٹھے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برما کے مسلمان کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں جن کی خبر نہ تو ہمسایہ ممالک تک پہنچ رہی ہے اور نہ دنیا میں کسی اور مسلمان ملک تک۔ اتنا اہم معاملہ ہے اور دنیا کا ایک بھی ملک اس کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کے لیے نہ تو تیار ہے اور نہ ہی دنیا کا مین اسٹریم میڈیا اس کو کوریج دینے پر راضی ہے۔ جتنے روہنگیا مسلمان برمی فوج اور بھکشوؤںکے استبداد کا شکار ہوئے ہیں، اتنی بڑی تعداد میں اگر کوئی جانور بھی خوں ریزی کا شکار ہوتا چاہے وجہ قدرتی ہی کیوں نہ ہوتی تو اب تک پوری دنیا میں بھونچال آچکا ہوتا۔ مگر شاباش ہے حضرت انسان پر کہ اپنے ہی بھائی بندوں کا شکار اسے محبوب ہے اور مزید شاباش ہے پوری دنیا کے لوگوں پر کہ اس پر یوں دم سادھے ہوئے ہیں کہ لگتا ہے کچھ ہوا ہی نہیں۔

اس وقت تا بہ خاک کاشغر مسلمان مجموعی طور پر ابتلاء و آزمائش کا شکار ہیں۔ چاہے یورپ ہو یا امریکا، آسٹریلیا ہو یا روس اور چاہے یہ خود مسلم ممالک ہی کیوں نہ ہوں، اس وقت ایک ایسی آزمائش سے گزر رہے ہیںجس کی مثال اس سے قبل کہیں نہیں ملتی۔ ایسے میں مشرق بعید کے چند ممالک ایسے بچے ہیںجہاں پر فی الحال مسلمان امن، چین اور سکون سے رہ رہے ہیں۔ ان میں ملائیشیا اور انڈونیشیا بھی شامل ہیں۔ ان ممالک کو بدامنی کے سمندر میں امن و سکون کے جزیرے قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ان ممالک کا سکون بھی گیا۔اس اندیشے کی وجہ مجھے اپنی ای میل میں ملنے والی وہ تصویر ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے بنگلہ دیشی اور انڈونیشین پر مشتمل ایک تنظیم تشکیل دے لی ہے جو روہنگیا کے مسلمانوں کا دفاع کرے گی۔ اس تصویر میں فوجی لباس پہنے سیکڑوں افراد کو اسلحہ اٹھائے فوجی ٹریننگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اسی تصویر کے کیپشن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس نئی تنظیم نے اپنی پہلی کارروائی میں سترہ برمی فوجیوں کو موت کی نیند سلادیا اور تین بھکشوؤں کو ان کے جرم کی پاداش میں ذبح کردیا۔تصویر میں جنگی تربیت پانے والوں کے اس کیمپ کا مقام نہیں بتایا گیا ہے مگر جس طرح سکون و اطمینان کے ساتھ یہ تربیت جاری ہے اس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ برما کے علاوہ کوئی اور مقام ہے ۔ شائد بنگلہ دیش یا پھر انڈونیشیا کا کوئی علاقہ۔

بادی النظر میں یہ ایک مسلمان بلکہ ایک انسان کے لیے بھی خوش خبری ہے۔ چلیے کوئی تو سلسلہ پیدا ہوا کہ روہنگیا کے مسلمانوں کے دفاع کی کوئی سبیل نکلی۔ کوئی تو اٹھا جس نے ان لاچار مسلمانوں کو دلاسہ دیا کہ تم اکیلے نہیں ہو۔ اب اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا اور اس دنیامیں جینے کا یہی طریقہ ہے کہ اگر کتے کو پتھر کھینچ کے نہ مارا جائے تو وہ انسان پر حملہ کردیتا ہے۔ اگر سب کچھ ایسا ہی ہوتا تو میں بھی یقینا خوش ہوتا مگر بدقسمتی سے ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔

طالبان اور پھر اس کے بعد تحریک طالبان پاکستان کی پیدائش کے خدو خال پر غور کیجئے۔ ان کی کارروائیوں کو دیکھیے۔ ان کو کس نے جنم دیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ بے نظیر بھٹو اب اس دنیا میں نہیں رہیں اور نصیر اللہ بابر بھی اب اس دار فانی کو چھوڑ چکے مگر ابھی بھی بہت سارے ایسے لوگ موجود ہیں جو طالبان کی پیدائش میں شریک عمل تھے۔وہ اس کی تاریخ اور جغرافیہ سب بتا سکتے ہیں۔ ان طالبان کو خاص طور سے تحریک طالبان پاکستان کو اب تک کون پال پوس رہا ہے اور کون ان کو کروڑوں روپے ماہانہ نقد فراہم کرتا ہے کہ یہ اپنی ملیشیا کی تنخواہیں بروقت ادا کرسکیں۔ ان کو لامحدود اسلحہ و بارودکی سپلائی کہاں سے جاری ہے۔ اس میں سے کچھ بھی خفیہ نہیں ہے۔ ہاں لوگ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ سی آئی ا ے کی پیداوار ہیں اور ان کو    ی خفیہ ایجنسی      کا تعاون بھی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک اس پورے خطہ میں ایک مرتبہ بھی بھارتی مفادات کو نشانہ نہیں بنایا گیا اور ان کا نشانہ صرف اور صرف مسلمان اور مساجد ہیں یا پاکستانی افواج ۔

اب مذکورہ تصویر کو دیکھنے کے بعد پھر ذہن میں سوال ابھر رہا ہے کہ اس نئی تنظیم کو انفرا اسٹرکچر کی فراہمی کے لیے زمین کہاں سے ملی، نئی فوجی وردیاں، اسلحہ و اخراجات پورا کرنے کے لیے رقوم کہاں سے ملیں۔ اس کا ذریعہ یقینا وہی ہے جو تحریک طالبان پاکستان کا ہے۔ یعنی بین الاقوامی بینکار جو اس دنیا پر ایک بین الاقوامی شیطانی حکومت یعنی ون ورلڈ کے قیام کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ اب سازش کی کڑیاں کچھ جڑنی شروع ہوئی ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر مسلم امہ سمیت پوری دنیا کیوں سوتی رہی۔ان روہنگیا مسلمانوں اور پوری دنیا میں غم و غصہ کا وہ لاوا پھٹ چکا ہے کہ اب وہ کچھ بھی کرنے پر تیار ہیں اور پھر یہ تو دام ہم رنگ زمیں ہے۔ اس طرح ان بین الاقوامی بینکاروں کی جنگی مشین کو انسانی کندھا بہ آسانی مل گیا ہے۔ باقی کام تو انتہائی سادہ سا مکینیکی عمل ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کا امن تباہ کرنے کے اگلے مرحلے میں بنگلہ دیش، انڈونیشیا ور ملائیشیا کو تہہ وبالا کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ تحریک طالبان پاکستان کی تاریخ ہے کہ یہ عملا پیراسائیٹ ہیں جو اپنے ہی میزبان کو جس سے یہ غذا حاصل کرتے ہیں، اسی کو موت کی نیند سلادیتے ہیں۔ اب ہم آسانی سے نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی دادرسی تو کیا ہوگی مگر اب مشرق بعید کے ممالک کا امن و سکون بھی گیا اور وہ بھی اب ایک نیا پاکستان، شام و عراق بننے جارہے ہیں۔اس فوجی ملیشیا کو انسانی ایندھن کی فراہمی کے لیے دنیا اسی طرح سوتی رہے گی، برمی افواج اسی طرح ظلم و ستم کرتی رہیں گی اور شروع شروع میں ان برمی افواج کو اس نئی تحریک طالبان سے ہزیمت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ مگر نتیجہ کیا نکلے گا۔ وہی جس کا میں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے یعنی اراکان کے روہنگیا مسلمانوں کے مسائل تو کیا حل ہوں گے ، دیگر ممالک میں طالبان کا یہ سرطان سی آئی اے اور را کی مدد سے پھیل چکا ہوگا۔

اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔

Wednesday, 17 July 2013

Facebook Launches Islamic Hijri Calendar for Muslim Events

Facebook Launches Islamic Hijri Calendar for Muslim Events

17 July 2013

Social networking site Facebook has launched the Islamic Hijri calendar as a new feature for birthdays.

The calendar will be available as an option alongside the Gregorian version. The Hijri calendar is based on twelve lunar months and is 11 days shorter than the Gregorian year.

It will be offered first in Saudi Arabia before being rolled out to other countries with Islamic populations.

Facebook’s Middle East and Africa head Jonathan Labin said the new tool would allow Saudi users to better facilitate their social communications with friends and family.

People who use Facebook in Saudi Arabia will be notified about the Hijri calendar option by means of '€˜megaphone’, giving more information about the feature and offering the option to add their birthday to the '€˜about me’ section. The information can be hidden or made visible in accordance with personal preference.

"We believe this feature will gain great momentum in the weeks and months ahead, and as we test the response in Saudi Arabia, we are confident that rolling out in other countries across the Islamic world will become eminent," he said.

Facebook has 1.1 billion users worldwide and launched its regional Middle East and Africa operation in Dubai last year to boost its presence in the region.

Sources:

Courtney Trenwith, "Facebook launches Islamic calendar" Arabian Business July 17, 2013

"Islamic Hijri calendar now available on facebook" albawaba July 16, 2013

"Facebook launches new features for Islamic Hijri calendar" Telecompaper July 16, 2013

MURSI KE KHILAF UAE NE PANI KI TARAH PAISA BAHAYA

CRTSY: MUNSIF HYDERABAD

Covert Plot Behind Morsi Ouster Financed By Saudi Arabia and UAE

A Saudi activist has described the removal Egypt’s president as a clandestine plot to re-establish the ousted Mubarak regime’s figures which afforded by Saudi Arabia and UAE.
Reports say Mujtahid bin Hareth bin Hammaam, who is an active critic of the Al Saud royal family, has posted messages on Twitter, bringing up the issue of Saudi king confidence over the inability of Morsi supporters to gain the control after his removal.
Mujtahid stated in his Tweets that the domination of army over the fabricated population gathered in June 30th and the detention of Mursi ruling party senior members as well as the closure of TV channels affiliated to Muslim Brotherhood would provide the ground to guarantee the victory of designed coup against Morsi.
But the symptom of division among army officials caused the coup contributors to apply another scheme dubbed ‘B’, Mujtahed added.
According to new scheme, thousands of security forces affiliated to ex-regime of Mubarak set to arrange assaults against both the opponents as well as supporters of ousted Morsi. These forces were supposed to expand such clashes across the country, Mujtahid’s Tweets noted.
‘The main reason behind such overall clashes was to persuade people that the country is slapped by general insecurity and the military forces could only calm the situation,’ the Saudi activist added.
According to Mujtahid’s Tweets, the financial charges of the coup were afforded by Saudi Arabia and UAE.
The ex-figures of Mubarak regime were supposed to regain their post after coup, the activist noted.
Egypt has been the scene of rallies and clashes between thousands of supporters and opponents of the ousted president as political turmoil escalates in the North African country.
Morsi was unseated on July 3, and the Chief Justice of Egypt’s Supreme Constitutional Court, Adli Mansour, was sworn in as interim president of Egypt on July 4.
Morsi is reportedly being held "preventively” by the military. Senior army officials say he might face formal charges over accusations made by his opponents.

Source: AL Alam
http://globemuslims.com/en/news/502/covert-plot-behind-morsi-ouster-financed-by-saudi-arabia-and-uae