دل کے جا نور کو ذبح کریں قربان ہیں گر اللہ پر پھر ہمیں کا ہے کا ڈر؟ عبدالبصیر توحیدی
ایک طرف عبدیت و بندگی اور کامل خود سپردگی کی یہ حسین تصویریں ہیں جو اس عظیم پیغمبر صلعم کی زندگی میں نمایاں ہیں تو دوسری طرف انکار و اعراض اور غفلت و مدہوشی کی شرمناک تصویریں ہیں جو آج ہم پیش کر رہے ہیں۔ در اصل قربانی کا مقصد یہی نہیں کہ انسان کی ذات پر عائد ہونے والی قربانی کو جانور کی ذات پر منتقل یا محدود کر دیا جائے۔ بے شک جانور کو ذبح کرنے سے قربانی کا ظاہری روپ تو مکمل ہو گیا لیکن اس کا حقیقی اور باطنی روپ سامنے نہیں آیا۔ جس طرح روزہ رکھنے کا اصل مقصد ظاہری حواس سے نکل کر باطنی حواس میں داخل ہونا ہے ،اسی طرح قربانی کا اصل مقصد صرف جانور کے حلقوم پر چھری پھیر دینا ہر گز نہیں بلکہ جانور کے گلے پر چھری چلانے کی بعد قربانی دینے والے شخص پر فوراََ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے دل کو ٹٹولے ، اپنے ضمیر کو دستک دے کہ کیا اس نے اپنی نفسیاتی خواہش سستے جذبات اور خود غرضانہ عادات کے گلے پر بھی چھری رکھ دی ہے یا نہیں ؟ اگر صرف جانور کے گلے پر چھری رکھی ہے اور اپنے مفادات کو صاف بچا لیا تو جان لے کہ اللہ تعالیٰ تک قربانی کا گوشت اور خون نہیں بلکہ صرف تقویٰ پہنچتا ہے۔گوشت ہم کھا لیں گے ، کچھ غرباء کھانے کو لے جائیں گے ، کھالیں بھی کوئی جماعت ، ادارہ یا دارالعلوم والے لے جائیںگے لیکن اللہ تک کچھ نہیں پہنچے گا۔ اگر توجہ اور رجوع الی اللہ ، خشوع و خضوع ، بارِ گاہِ رب میں حضوری کا شعور و اِدراک ، انابت اور محبت الٰہی کی روح موجود نہیںہے۔ تقویٰ سے بے نیاز افراد خواہ وہ مسندِ اقتدار پر فائز ہوں یا محکومی اور مغلوبیت کی زندگی بسر کر رہے ہوں، اگر اپنی نا جائز خواہشات اور حد سے بڑھتی ہوئی ہوس پر چھری نہیں پھیر تے ، تجارت میں ، ملازمت میں ، پیشہ ورانہ مشاغل میں ، نا جائز اور حرام کو حلال بنانے میں ہیں تو وہ اچھی طرح جان لیں کہ ان کے اس ظاہری عمل کی بارگاہِ الٰہی میں کوئی حیثیت نہیں۔ اگر وہ اپنی ریاکاری ، منافقت ، دھوکہ دہی ، جھوٹ اور خود غرضی کو ذبح نہیں کرتے اور جانور پہ جانور قربان کئے جارہے ہیں تو جان لیں کہ وہ راہِ حیات میں خسارہ اُٹھانے والے مسافر ہیں۔ اس کے برعکس جس نے فدائیت کے جذبے سے ایک جانور لیا اور اس کو ذبح کرنے کے لئے چلا اور اس کا دل کہہ رہا تھا : یا بارالٰہا ! میں جانور کو نہیں خود اپنے آپ کو اور اپنی تمام خواہشات کو آپ کے حوالے کر رہا ہوں ، جانور کو مقرر طریقے پر ذبح کیا اور اس کی زبان سے نکلا : خُدایا ! یہ میری اپنی جان کا ہدیہ ہے جو میں آپ کی بارگاہ میں پیش کر رہا ہوں اس کو قبول فرما ۔ قربانی کے دوران اگر اس کا دل پگھلتا رہا ، اس کی آنکھیں آنسوں بہاتی رہیں ، قربانی اس کے اندر نرمی پیدا کرکے ہر قسم کے بُرے جذبات کو نکالتی رہی ، کبر ، عداوت ، انتقام اور خود نمائی کے جذبات کو اللہ کے لئے قربان کرتا رہا ، تقویٰ کا تجربہ کرتا رہا ، اپنی اصلاح کی فکر میں لگ گیا ، حوصلے اور تمنائیں دُنیاوی چیزوں کے بجائے اُخروی چیزوں میں لگانے کی فکر میں لگا رہا ، اس نے گویا قربانی کا تقویٰ اللہ کو بھیجا تو یہ وہ قربانی ہے جس کے ذریعے اس کا ایمان و عملِ صالح اس کو اُن نفسیاتی پیچیدگیوں سے صاف و پاک کردیتا ہے جو کسی معاملے میں حق کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ اس طرح اس کا ایمان اس کو خُدائی راستہ پر چلا تارہتا ہے۔اس کے بعد خُدائے بر تر اس کا ہاتھ تھام لیتا ہے اور کبھی بھی اس کواپنے سے الگ نہیں کرتا۔ اس کی رہنمائی بھی کرتا ہے اور اس کی مدد بھی۔اللہ کی منشاء اور پیغام کو ذہن نشین کریں تو آج سے ملت اسلامیہ کی تاریخ کا نیا باب شروع ہوجائے گا۔ لیل و نہار تبدیل ہو جائیں گے ۔ ملت اسلامیہ کو وہی سر فرازیاں نصیب ہوں گی جو کبھی ہمارے بزرگ و آباء کو حاصل تھیں ۔غورطلب بات ہے کہ سورج ہمارے سروں پرچمک رہاہے،اور اس شان سے پورے عالم میں اپنی روشن کرنیں بکھیررہاہے۔ کیا ہم جانتے ہیں کہ اس کی شان وشوکت اوراس کی تابناکیوں کارازکیاہے؟اس کاراز صرف یہ ہے کہ وہ اپنے مالک وآقا کے بنائے ہوئے نظام اورضابطے کاپا بندہے۔ اس کے آقانے اس کے لئے جودائرہ متعین کردیاہے،وہ اسی دائرے میںگردش کررہاہے۔ اس کے طلوع وغروب کے لئے جواوقات مقررکردئے گئے ہیں،انہیں اوقات میںوہ طلوع وغروب ہوتاہے۔ اگرآج وہ اپنے محورکوچھوڑدے یااپنے دائرے سے باہرآجائے، خدانے اس کے لئے جوضابطہ بنایاہے،اگر وہ اس سے آزاد ہوجائے تودیکھتے ہی دیکھتے سورج کے بجائے راکھ کاڈھیر ہوجائے۔ لہٰذا ہمیں اللہ کی راہ میں کو ئی بھی قربانی پیش کر تے قربا نی کی اصل مقصدیت اوراپنی حیثیت اورمنصب کویادرکھناچاہیے۔ یہی قر بانی کاپیغام ہے جو ملت اسلامیہ کوہرعیدالاضحی پر ربانی انقلاب کو اپنے اندر سرایت کرنے کی ہدایت دیتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قربانی کی اصل روح اور اسکے منشاء کو کو سمجھنے اور اپنی شریعت پر ثابت قدم رہنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ (آمین)
|
Search This Blog
Friday, 2 November 2012
DIL KE JANWAR KO ZUBAH KAREIN
Labels:
SELECTED ARTICLES
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment