سوڈان پر اسرائیلی حملہ
مسعود انور
عید سے قبل سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں ایک فیکٹری کو دھماکے سے اڑادیا گیا۔ خود سوڈان اور بین الاقوامی میڈیا، دونوں کو اس امر کابھرپور یقین ہے کہ یہ کارروائی اسرائیل کی تھی۔ پاکستانیوں کو اس کی خبر اس لیے نہ ہوسکی کہ کنٹرولڈ کارپوریٹ میڈیا نے اس اہم خبر کو down play کیا۔جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے، اس نے نہ تو اس الزام کی تردید کی ہے اور نہ ہی اس کارروائی کا کریڈٹ لیا ہے۔ وہ اس پر no comments کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ اس پر پوری دنیا میں پھر سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اسرائیل کی ایران پر کارروائی سے قبل کی ریہرسل تھی اور کچھ کا کہنا ہے کہ اس حملے سے ایران کے دوستوں کو سبق سکھانا مقصود تھا۔
یہ 24 اکتوبر کی رات تھی کہ خرطوم میں واقع اس فیکٹری میں اچانک دھماکے سے آگ بھڑک اٹھی۔ اس فیکٹری کے بارے میں اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ یہ فیکٹری واقع تو سوڈان میں ہے مگر اصلا یہ ایرانی کنٹرول میں ہے اور یہاں پر شہاب میزائیل تیار کیے جاتے ہیں۔ اس فیکٹری کا اسرائیل سے فاصلہ تقریبا ایک ہزار میل یا انیس سو کلومیٹر کا تھا۔ تقریبا اتنا ہی فاصلہ اسرائیل کا ایران سے ہے۔ اسرائیل اور سوڈان کے درمیان بحیرہ احمر بھی پڑتا ہے اور مصر و سعودی عرب کے ممالک بھی آتے ہیں۔ ابھی تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ اسرائیل نے حملہ کرنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا۔ کیا یہ اس کی فضائیہ کی کارروائی تھی۔؟ اگر یہ فضائیہ کی کارروائی تھی تو کم از کم چار F-16 یا F-15 طیاروں نے اس میں حصہ لیا ہوگا۔ ان طیاروں کو فضاء میںہی ایندھن بھی فراہم کیا گیا ہوگا اور ان طیاروں نے اسرائیل سے سوڈان تک کا یکطرفہ فاصلہ ڈھائی گھنٹے میں طے کیا ہوگا۔ ماہرین کا ایک دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس میں ڈرون طیارے استعمال کیے گئے ہوں گے۔ اس میں ایندھن کا مسئلہ پیش نہیں آتا۔
جہاں تک سوڈان کا تعلق ہے۔ وہ دفاعی لحاظ سے ایک کمزور ترین ملک ہے جہاں پررات میں اس کی کمزور فضائیہ کو کسی قسم کے آپریشن کی سہولت ہی دستیاب نہیں ہے۔ اس طرح رات میں سوڈان بے دانت کا شیر ہوتا ہے۔
جہاں تک اس کی حکومت کا تعلق ہے۔ اس کو اس امر کا یقین ہے کہ یہ کارروائی اسرائیل کی تھی۔ اسی لیے پورے سوڈان میں اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔اتوار کو عرب پارلیمنٹ نے بھی اسرائیل کے خلاف ایک مذمتی قراردار رسمی طور پر منظور کی ہے۔اگر یہ کارروائی اسرائیل کی ہے، جیسا کہ خود عرب ممالک اور سوڈان کو بھی اس کا یقین ہے اور پورا مغربی میڈیا یہی رپورٹ کررہا ہے ، تو پھر سعودی عرب اور مصر کی فضائی حدود سے ہی گزر کر اسرائیلی طیارے یا ڈرون اپنے ہدف تک کیسے پہنچے اور واپس آئے۔ان عرب ممالک کی جانب سے اس کی مذمت ایسے ہی ہے جیسا پاکستان واقعہ ایبٹ آباد پر یا ڈرون حملوں پر امریکا سے کرتا رہا ہے۔
ابھی تک پاکستانی و بین الاقوامی میڈیا بھی اسرائیل و امریکا کی فوجی مشقوں کی خبروں کو down play کررہا ہے۔ امریکا و اسرائیل کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقوں کا آغاز 21اکتوبر کو اسرائیل میں ہوا ہے۔گو کہ اس میں ڈیڑھ ہزار امریکی اہلکار اور دس ہزار اسرائیلی فوجی حصہ لیں گے مگر شرکت کے لیے ساڑھے تین ہزار امریکی فضائیہ کے اہلکار حصہ لینے اسرائیل پہنچے ہیں۔
اس وقت امریکا کے ملٹری چیف مارٹن ڈیمپسی اسرائیل میں موجود ہیں اور اسرائیل کے صدارتی دفتر کے ایک پریس ریلیز کے مطابق انہوں نے پیر کو اسرائیلی صدر شمعون پیریزسے ملاقات بھی کی جس میں دیگر امور کے علاوہ ایران کا موضوع سرفہرست تھا۔ دوسری جانب اسرائیل کے وزیر خارجہ ایہود باراک اچانک پیر کو لندن پہنچے جہاں پر انہوں نے برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ ولیم ہیگ اور دیگر سینئر افسران سے طویل ملاقاتیں کیں۔
برطانیہ کے اخبار ڈیلی میل کے مطابق گزشتہ ماہ برطانوی خفیہ ایجنسی MI 6 کے سربراہ بھی اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں۔ برطانوی اخبار کے مطابق انہوں نے نیتن یاہو کو ایران پر مجوزہ اسرائیلی حملے کی بابت متنبہ کیا تھا۔
اس وقت امریکا اپنی تاریخ کے بدترین سمندری طوفان سے نبرد آزما ہے۔ دنیا کسی اکتوبر سرپرائز کے خدشے میں بھی مبتلا ہے۔ ایسے میںسوڈان پر حملہ کسی بڑی کارروائی سے قبل دنیا کا ردعمل جانچنے کا ایک طریقہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس سے اسرائیل کو ان حکومتوں، جن کی فضائی حدود سے اس کے طیاروں کو گزرنا ہے، کے رویہ کا بھی اندازہ ہوگیا ہے اور ایک طویل سفر و حملے کی ریہرسیل بھی ہوگئی۔ رہ گئے عوام ، تو ان کو پتا ہی نہیں کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ ان کو تو جانوروں کی قیمتوں، ان کی خوبصورتی میں میڈیا نے لگایا ہوا تھا۔ جو وقت بچ جاتا ہے، اس میں ملالہ کی سانسیں گن لی جاتی ہیں یا پھر فیشن شوز ہیں۔
دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔
No comments:
Post a Comment