Search This Blog

Sunday 7 October 2012

WAH RE AZADIYE IZHAR

واہ رے آزادیٔ اظہار
قلم کے بعداب فلم کے فتنے

ایک طرف امریکہ میںنو گیارہ سانحہ کی گیارہویں برسی کے موقع پر ریلیز کی جانے والی اشتعال انگیزفلم شہ سرخیوں میں ہے جس میں اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں دریدہ د ہنی کی گئی ہے کہ عالم اسلام میں فلم ساز ، کا سٹ اور امریکہ کی شدید مذمت مسلسل کی جا رہی ہے ۔ مصر کی سب سے بڑی دینی یو نیورسٹی جامعہ الازہرنے’محمد الرسول اللہؐ کے ٹرائل کا عالمی دن‘ کے نام سے تیار کی گئی فلم کو مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے اور فرقہ واریت پھیلانے کی سازش قرار دیتے ہوئے فلم پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ جامعہ الازہر کا کہنا ہے کہ یہ فلم کینہ پرور اور بیمار ذہنیت کے لوگوں کی اسلام دشمنی اور تعصب کا ایک واضح ثبوت ہے۔ مسلما ن چا ہے کتنے ہی گئے گزرے ہو ں وہ آزادی ٔاظہار کی آڑ میں اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند وبرتر شان میں گستاخانہ حرکات کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ادھر عوامی جمہوریہ مصر کے مفتی اعظم ڈاکٹر علی جمعہ نے اپنے ایک بیان میں نو گیارہ کی برسی کے موقع پرامریکی قبطیوں کی جانب سے گستاخانہ فلم ریلیز کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام دشمن عناصر اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیںجب کہ آزادیٔ اظہار الگ چیز ہے اور مقدس ہستیوں کی توہین بالکل الگ معاملہ ہے۔ اسلام سمیت دنیا کا کوئی مذہب مخالف مذہب کی شخصیات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی کوئی مذہب ایسی شرمناک حرکات کو آزادیٔ اظہار تسلیم کرتا ہے۔ یہ انسانی حقوق اور آزادی کا اظہار نہیں بلکہ عالمی انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہے۔ مٹھی بھر شر پسند عناصر اربوں مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کی مکروہ کوشش کر یں تو اس سے مذ ہبی رواداری ، بقائے باہم اور افہام و تفہیم کی صحت مند سوچ کو دھچکہ پہنچنا ظاہر سی با ت ہے۔ شیخ علی جمعہ نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور آزادی کے عالمی  علمبرداروںسے برحق مطالبہ کیا کہ وہ شر پسندوں کے ہاتھوں اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کی جانے والی گستاخیوں کانہ صرف سلسلہ بند کروائیںبلکہ اخلاق باختہ گستاخانہ فلم کے تمام کرداروں کے خلاف عالمی قوانین کے تحت کارروائی بھی کی جائے۔ درایں اثناء مصری محکمہ اوقاف و مذہبی امور نے بھی امریکی قبطیوں کی گستاخانہ فلم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلم امریکہ میں موجود قبطی شرپسندوں کی گندی ذہنیت کی عکاسی کر رہی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والاشان میں ایسی گستاخی ناقابل معافی سنگین جرم ہے۔ خیال رہے کہ امریکہ میں گذشتہ روزنوگیارہ کی گیارہویں برسی کے موقع پر مصری نژاد قبطیوں کی جانب سے ایک گستاخانہ فلم کے نہ صرف کچھ اجزاء دکھائے گئے تھے بلکہ اس کے ساتھ پوری فلم نشر کرنے کابھی اعلان بھی کیا گیا تھا۔’مسلما ن کی معصومیت‘ کے عنوان سے ریلیز کردہ اس فلم میں اسلام کو نوگیارہ کے واقعات کانہ صرف موجب بلکہ مسلمانوں کو اس کا ذمہ داربھی قراردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ فلم میں مصرمیں برپا ہونے والے انقلاب کو بھی منفی پینٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ فلم مشہورگستاخ رسول امریکی پادری ٹیری جونزکی مدد سے تیار کی گئی ہے جس نے علی اعلان اس فلم کو پردہ سیمیں پرنما ئش کااعلان کیا تھا، تاہم عالمی دباؤ اور عالم اسلام کی جانب سے ممکنہ طورپر شدید رد عمل کے خوف سے امریکی انتظامیہ نے فی الحال مکمل فلم نشر کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ البتہ فلم کے کچھ مناظر یو ٹیو ب پر دیدہ ودانستہ طور لائے گئے ۔
  امریکی پادریوں اور قبطیوں کی اسلام مخالف فلم کے ردعمل میں نہ صرف عالم اسلام میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے بلکہ خود مصر اور دوسرے ممالک میں موجود قبطیوں کی نمائندہ تنظیموں نے بھی فلم پر پابندی کا مطالبہ کیا ۔مصری اخبار ’الیوم السابع‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی پادری ٹیری جونز کی جانب سے گستاخانہ فلم نشر کرنے کے اعلان کے فوری بعد مصر اور دنیا بھرکی 120 قبطی تنظیموں نے گستاخانہ فلم کی مذمت کی اورامریکی انتظامیہ سے اسے نشر کرنے سے روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔امریکی اور مصری قبطیوں کی جانب سے جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں گستاخانہ فلم کی تیاری سے وہ مکمل طورپرلا علم تھے۔ وہ اس طرح کی گھٹیا کاموں کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ ہمیں جیسے ہی اس آ تشیں فلم کے بارے میںپتہ چلا ہے تو ہم نے فوری طور پر امریکی انتظامیہ سے فلم کی تشہیر اور اس کی پیشکش روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ وہ کسی بھی مذہب اور اس کی برگزیدہ شخصیات کی شان میں توہین کی حمایت نہیں کرتے، چاہے یہ توہین ان کے ہم مذہب اور ہم خیال لوگوں کی جانب سے ہی کیوں نہ کی گئی ہو۔ مصری میڈیا کو قبطیوں کی جانب سے موصولہ مذمتی بیان پر امریکہ کے صفوت حنا، ابراہیم شفیق، کینیڈا کے سامی عبدالمسیح، فرانس کے شنودہ توفیق، آسٹریلیا کے میرنا صدیق جیسے اہم قبطی رہنماؤں کے دستخط ثبت ہیں۔
ہندوستانی فلم ہدایت کارہ دیپا مہتہ نے10 ستمبر 2012کو کہا کہ سلمان رشدی کی کتاب ’مڈ نائٹس چلڈرن‘ پر مبنی ان کی فلم شاید ہندوستان میں ریلیز نہ ہو سکے۔اپنی ہی کمیونٹی میں ترچھی نگاہ سے دیکھی جانے والی دیپا مہتہ نے روزنامہ ’دی ہندوستان ٹائمز‘ کو بتایا کہ ان کی فلم ہندوستان پر ہی مبنی ہے لیکن ابھی تک ملک میں کوئی ڈسٹری بیوٹر نہیں مل سکا ہے۔اس کے باوجود نہ جانے کس خوش فہمی کے تحت ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بڑے افسوس کی بات ہوگی اگر چند سیاستدانوں نے ہندوستانی قوم کو اس فلم کے بارے میں خود فیصلہ نہ کرنے دیا۔‘کینیڈا میں ٹورنٹو فلم فیسٹیول میں اس فلم کو نمائش کیلئے پیش کیا جا چکا ہے۔دیپا مہتہ نے اخبار کو بتایا کہ سلمان رشدی ’اکثر کہتے رہے ہیں کہ ان کی کتاب ہندوستان کے لئے’ محبت بھرے خطوط‘ پر مبنی ہے اور فلم میں وہی محبت جھلکتی ہے۔‘اخبار نے اس جانب اشارہ بھی کیا ہے کہ چونکہ سلمان رشدی کی کتاب ’مڈ نائٹس چلڈرن‘ میں ہندوستان کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی پر نکتہ چینی کی گئی ہے شاید اسی لئے ڈسٹری بیوٹر کا ملنا مشکل ہو۔ہندوستان میں اس وقت حکمراں جماعت کانگریس پارٹی کی حکومت ہے جو گاندھی خاندان کے زیر اثر ہے اور شاید کوئی بھی ڈسٹری بیوٹر اس سے تعلقات خراب کرنا نہ چاہے۔ ویسے فلم ساز دیپا مہتہ اور سلمان رشدی دونوں ہی ہندوستان میں متنازعہ شخصیات ہیں۔ سلمان رشدی کی کتاب ’سٹینک ورسز‘ پر ہندوستان میں اب بھی پابندی عائد ہے۔ان کے خلاف ہندوستان میں مسلم تنظمیں مظاہرے بھی وقتاًفوقتاً کرتی رہی ہیں اور وہ گزشتہ جے پور ادبی فیسٹیول میں اسی لئے نہیں آئے تھے۔دیپا مہتہ نے اس سے پہلے خواتین کی ہم جنس پرستی پر مبنی فلم ’واٹر‘ بنائی تھی جس کی شوٹنگ ہندوؤں کے مقدم شہر بنارس میں ہونی تھی لیکن ہندو تنظیموں نے اس کی اجازت نہیں دی تھی۔بعد میں انہوں نے فلم کی شوٹنگ سری لنکا میں کی۔ سلمان رشدی کی کتاب پر مبنی فلم بھی انہوں نے سری لنکا میں ہی شوٹ کی ہے۔
جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے ‘انڈین پریس کونسل کے صدر اور سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجونے حال ہی میںآزادیٔ اظہار رائے کا قانونی پہلوپیش کرکے5 نکات کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے جس میںسب سے پہلی بات تو یہ کہ ہر جمہوری نظام میں اظہار کی آزادی کا حق اہم ہے۔ جمہوریت کی ترقی کے لئے لکھنے، بولنے اور کسی معاملہ یا نکتہ نظر کے با رے میںاپنی نا اتفاقی یا اختلاف رائے ظاہر کرنے کی آزادی ضروری ہے۔ اس کے بغیر خیالات کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ عبوریت کے اس دور میں ترقی یافتہ ملک ہندوستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک میں دیگرایجادات کے علاوہ جدید خیالات کوبھی آزما رہے ہیں اور یہ ان کیلئے بہت اہم ہے لیکن چونکہ انسان ایک معاشرتی مخلوق ہے، اس لئے اسے یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ اس کی خودمختاری سے معاشرتی تانے بانے کو کسی طرح کی نقصان پہنچے۔چنا نچہ ہندوستانی آئین کی دفعہ 19 (1) (ا) کی طرف سے جہاں ملک کے باشندوں کو اظہار کی آزادی فراہم کی گئی ہے، وہیں 19 (2) میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ دفعہ 19 (1) (ا) کی طرف سے فراہم کئے گئے اظہار کے حق پر ریاست، عوامی نظام، شرافت اور اخلاقیات کے مفاد میں پابندی بھی عائد جا سکتے ہیں۔ عوامی مفاد اظہار کی آزادی کا ایک لازمی عنصر ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان دونوں کے درمیان توازن قائم کرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے لیکن یہ توازن کس مرحلے پر جا کر قائم کیا جائے ؟یہ ایک اہم سوال ضرور ہے۔ دوسرا نکتہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ توازن کس مرحلے پر قائم کیا جائے؟ اس سلسلہ میں غور کرتے وقت کسی غیر مرئی اور تصواراتی اجحانات اور خیالات کی بجائے مخصوص تاریخی حوالوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ ’دی سیٹینک ورسز‘ میں سلمان رشدی نے اسلام اور پیغمبراسلام ؐکے بارے میں کچھ قابل اعتراض باتیں کہی تھیں۔ انہو ں نے کفر بک کر مغرب میں پذیرائی پا ئی تو پا ئی مگر خودان کی زندگی موت سے بدتر ہو کر رہ گئی ۔ ممکن ہے کہ اس طرح کی سنسنی خیزی کے ذریعے رشدی نے لاکھوں ڈالر بھلے ہی کما لئے ہوں لیکن اس سے مسلمانوں کے جذبات کوشدید نقصان پہنچا ہے۔بقول کاٹجوکچھ لوگ رشدی کو اس لئے’ عظیم‘ مصنف سمجھتے ہیں کیونکہ اس نے بو کرایوارڈ جیتا ہے۔ اس سلسلے میں میں یہ ماننا پڑے گا کہ ادب اور فن کے انعام اکثر پرُاسرار ہوتے ہیں یا ایک قسم کی ذہنی رشوت۔ ابھی تک تقریبا ًسو ادیبوں کو ادب کا نوبل انعام دیا جا چکا ہے لیکن ان میں سے اسی سے اکثرادیبوں کے نام بھی کسی کو یاد نہیں ہوں گے جب کہ کئی دیگر عظیم ادیبوں کو یہ انعام نہیں دیا گیا۔ اس لئے میرا ووٹ ہے کہ بو کر ایوارڈ جیتنے سے مزید کچھ ثابت نہیں ہوتا۔تیسری بات یہ کہ یہ افسوس ناک امر ہے کہ جے پور ادب تقریب رُشدی واقعہ کی وجہ سے تذکرے اور بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے اور اس وجہ سے ہندوستان اور دنیا کے دیگر ادیبوں پرخاطر خواہ تذکرہ نہیں ہو سکا جب کہ امیدکی جارہی تھی کہ اس ادب تقریب میں کبیر، پریم چند، شرت چندر، منٹو، قاضی نذرالاسلام، غالب، فیض جیسے ہندوستانی اور ڈیکنس، برنارڈ شا، اپٹن سنک لئیر، والٹ وٹمین، وک تومر ہیوگو، فلابیر، بالجاک، گیٹے، شلر، ٹالسٹائے، دستوایوسکی ، گورکی جیسے غیر ملکی ادیبوں پر خوب تبادلۂ خیالات ہوگا لیکن اس کی بجائے پوری توجہ سلمان رشدی واقعہ پر ہی مرکوز رہی۔ اس موضوع پر کافی ہائے توبہ مچائی گئی کہ اظہار کی آزادی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔وزیر اعظم نے حال ہی میں کہا تھا کہ ملک کے 42 فیصد بچوں کا اچھی پرورش سے محروم ہونا قومی شرم ہے۔ گزشتہ 15برسوں میں ملک میں ڈھائی لاکھ کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ بے روزگاری کا مسئلہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ غربت اورناداری کا بول بالا ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے،تعلیم، صحت، رہائش جیسی بنیادی ضروریات کا بحران ہے، وہیں دوسری طرف ملک میں ایسے 49 ارب پتی بھی ہیں جن کی املاک ڈالروں میں ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان کی خلیج نہایت عمیق ہو گئی ہے۔ کیا ادب کو ان مسائل کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہئے ؟کیا ہم محض رُشدی کی اظہار کی آزادی کے بارے میں ہی بات کرتے رہیں گے؟ ہندوستانی عوام الناس کے لئے آزادی کا مطلب ہے بھوک، ناخواندگی، بے روزگاری اور تمام طرح کی لعنت سے آزادی، رُشدی کی گھٹیا کتابیں پڑھنا نہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ اس قسم کی تنازعہ کی لہریں پیدا کرنے والی تمام کتابیں غیر معیاری ہوتی ہیں بلکہ وول لئیر، روسو، تھامس پین جیسے ادیبوں کی تخلیقات نے اپنے زمانہ میں سرگرم مداخلت کی تھی لیکن ’مڈنائٹس چلڈرن‘ اور ‘دی سیٹینک ورسز‘ جیسی کتابوں کی معاشرتی مطابقت بھلا کیاکی جاسکتی ہے؟  پہلے بھی کہا جا چکا ہے کہ بعض ہندوستانی آج بھی نو آبادیاتی احساس کے شکار ہیں۔‘واضح رہے کہ نو آبادیات کا مفہوم عم طور پر ماضی میں برطانوی آقاو ں کی برتری تسلیم کرتے ہوئے احساس کمتری کے ساتھ خود کو غلامانہ ذلت کا پابند تسلیم کرنا سمجھا جاتا ہے۔ بہر کیف سپریم کورٹ کے سابق جسٹس کے بقول ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ لندن یا نیویارک میں بیٹھ کر لکھنے والا ہر مصنف’ عظیم‘ ہے جب کہ ہندوستان میں اور خاص طور پر علاقائی زبانوں میں لکھنے والا ہر مصنف ان کے مقابلے میں محض ثانوی حیثیت کا درجہ رکھتا ہے۔چوتھی بات یہ کہ ہندوستان کثیر المذاہب اور کثیر العقائد یعنی تکثیریت پر مبنی ’متنوع‘ ملک ہے۔یہاں بڑے پیمانے پر غیر ملکی اور خاص طور پر شمال مغربی خطوں سے ہندوستان آئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ ہندوستان میں ذات، مذہب، زبان اور نسلوں کی تنوع کی وجہ سے ہمارے لئے واحد کارگر طریقہ سیکولرازم اور دیانتداری سے تمام مذاہب کے تھیں احترام ر ہا ہے جسے ہمارے آئین نے بھی تسلیم کیا ہے۔مذہب عقیدے کا موضوع ہے، منطقی دلیل یا جرح وتعدیل کا نہیں۔ چونکہ ہندوستان میں مذہب آج بھی لوگوں کی زندگی میں ایک اہم مقام رکھتا ہے، اس لئے یہ خیال رکھا جانا چاہئے کہ آزادیٔ اظہار کے نام پر کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے جب کہ رشدی کی کتاب نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو شدیدٹھیس پہنچائی ہے۔ ایسے میں یہ قابل غور ہے کہ جے پور میں اسے اتنی اہمیت دئے جانے کے پس پردہ وجہ کیا تھی؟
  آخری بات یہ کہ ہندوستان عبوری دور سے گزر رہا ہے۔ وہ جاگیردارانہ نظام سے جدید صنعتی معاشرہ بننے کی طرف گامزن ہے۔ یوروپ کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ملک کیلئے اس قسم کا عبوری دور نہایت آزمائشی اور چیلنج سے بھرپور ہوتا ہے۔ ہندوستان بہت مشکل سے اور متعددقربانیاں دینے کے بعد جاگیردارانہ نظام کے تاریک زمانہ سے باہر نکل سکا ہے۔ کیا اسے دوبارہ پیچھے دھکیل دیا جانا چاہئے؟میری واضح منشاء اوررائے یہ ہے کہ اظہار کی آزادی کا مقصد منطقی اور سائنسی نظریات کی تشہیر ہونا چاہئے، کسی مذہب کی توہین یا مذ ہبی شخصیات کی تذ لیل کرنا نہیں کیونکہ اسی طرح ہم عبوریت کی اس حالت کا اچھی طرح سامنا کر سکیں گے۔ملک کاامن پسند طبقہ یہ سمجھنے سے قاصرہے کہ سلمان رشدی کے خلاف جسٹس کاٹجو کے مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں آ خر کیوں قانون و انتظام کے حامی اس قدر خاموش اور غافل کیو ں رہے یہا ں تک کہ دیپا مہتہ نے فلم تک بنا ڈالی

No comments:

Post a Comment