Search This Blog

Saturday, 27 October 2012

عیدالاضحی۔۔۔۔ایثار پیشہ بننے کا درس

عیدالاضحی۔۔۔۔ایثار پیشہ بننے کا درس


آج عیدالاضحی تزک واحتشام اور مذہبی جوش وخروش سے منائی جارہی ہے ۔ ہرسُو خوشیوں اور مسرتوں کے شادیانے بج رہے ہیں۔ عیدگاہوں، مساجد،زیارت گاہوں اور خانقاہوں میں مسلمان اللہ کے حضور سجدہ ریز ہیں ۔قربانی کا فریضہ قریہ قریہ بستی بستی انجام دیا جارہا ہے۔بچے اور بچیاں اس روح پرور اور مسرت آگیں سماں کی کچھ زیادہ ہی شان بڑھاتے ہیں ۔ یہ سب مسلم معاشرے کی روایات کا حصہ ہے۔ عیدالاضحی کی خوشی کا مومنانہ زندگی میں کیا مفہوم اور مطلب ہے ، اس پر اگرچہ ائمہ اور خطباء روشنی ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے لیکن بہت کم اس دن کی مقصدیت پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے ۔ اس بناء پراگر یہ کہاجائے کہ عیدین محض روایت پرستی کا ایک بے ہنگم اعادہ بن کر رہ چکی ہیںتو مبالغہ نہ ہوگا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ عیدالفطر یا عیدالاضحی کلمہ خوانوں کے سامنے ایمان اور اعمال صالح کے لئے ایک خدائی ماڈل پیش کرتی ہیں ۔ بلاشبہ دُنیا کی مختلف اقوام میں تہواروں کا رواج ہے ۔ان مواقع پر قومیں جشن مناتی ہیں ، خوشی کا اظہار کرنے کے لئے وہ ناچ نغمے اورہمچو قسم کی اچھی بُری سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہوجاتے ہیں ۔اکثر وبیشتر یہ تہوار کسی مذہبی شخصیت ، قومی قائد ،فصل کٹائی ، موسم کی تبدیلی ،توہم پرستانہ خرافات یا کسی تاریخی واقعہ کی یاد میں منائے جاتے ہیں ، ان کا اثربھی صرف ظاہر داری تک محدود ہوتاہے ۔ اس کے برعکس اسلام عیدین کے حوالے سے خوشیوں اور شادیانوں کو ایک روحانی معنویت سے جوڑتی ہیں ۔گو اس روز خوش لباس ہونا ، اچھے اچھے پکوانوں سے لطف اندوز ہونا، دوست احباب اور عزیز واقارب سے محبت اور مؤدت کا سلوک کرنا ،حتیٰ کہ شرعی حدود کے دائرے میں صالحیت پر اُبھارنے والے ترانوں وغیرہ کی اجازت ہے ۔ اس سلسلے میں بعض شرائط بھی ہیں جن کو نظرانداز کرنا گویا عید کی خوشیوں کو خوداپنے ہاتھوں بے روح اور پژمردہ بنانے کامترادف ہے ۔ عید الفطر ایک روز ہ دار کو خداخوفی اور ضبط نفس کے قواعدوضوابط پرپورا اُترنے کے حوالے سے خدائی انعام ہے جبکہ عیدالاضحی ایک ایمان والے انسان کواللہ کی خوشنودی کے لئے قربانی اور ایثار کرنے پر اُبھارتاہے ۔ یہ اسے ذہنی، روحانی اور نفسیاتی طورآمادہ کرتی ہے کہ وہ رب کریم کو خوش کرنے کے لئے اپنے نفس کو آلودگیوں سے اس قدرپاک وصاف کرے کہ اگر اسے اپنی عزیزترین شئے بھی اللہ کی راہ میں قربانی کرنے کا حکم دیا جائے تو بلا چوں وچرا تیار ہو ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام ، جن کو مسلمانوں سمیت عیسائی اور یہودی بھی ایک اولوالعزم پیغمبر کے طور تسلیم کرتے ہیں ، نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار ، اپنی قوم ، اپنے وطن حتیٰ کہ اپنی اہلیہ اور معصوم فرزند تک کو بے آب وگیا صحرا میں تن تنہا چھوڑا اور آخر پر جب آپ ؑ کو یہ حکم خداوندی ہوا کہ اپنے لاڈلے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اب اللہ کی رضا کیلئے ذبح کرنے پر عمل درآمدکریں تو بغیر کسی ادنیٰ تامل کے آپ ؑنے یہ قربانی بھی پیش کرڈالی تو اللہ کی رحمت یکبارجوش میں آگئی اور آسانی کا معاملہ فرماکر ذبیح اللہ ؑ کامتبادل خود ہی خلیل اللہ ؑ کوفراہم کیا۔ چشم فلک نے دیکھ لیا کہ ایک پیغمبر کس طرح حُب الٰہی کودنیا ہر چیز پر اوّلین ترجیح دیتاہے ۔ اس کڑی آزمائش پرپورااُترنے کے بعد آج تک مسلمان اسی اسوۂ حسنہ کی تقلید میں عیدالاضحی کی خوشیاں مناتے ہیں ۔بہرحال عیدقربان کی خوشیاں منانے کا اصل بھید اس وقت تک نہیں کھل سکتا جب تک یہی خدا پرستانہ جذبہ ایک کلمہ گو کے رگ وپے میں پیوست نہ ہو جس کا اظہار حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کیا ۔بلاشبہ یہ بات تاقیامِ قیامت بعید از امکان وقیاس ہے کہ کوئی انسان اس قدر حُب الٰہی میں غرق ہو جس طرح اللہ کے یہ دوپیغمبرانِ عظام تھے ،باایں ہمہ ان کی یاد میں خوشیاں منانے کا حق ہمیں اسی صورت میں پہنچتاہے جب انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہم میںاتنا شعور وادراک پیدا ہو کہ کم از کم انسانیت کی خدمت ، دین دکھیوں کی دلجوئی ،یتیموں کی کفالت ، ناداروں کی اعانت ، معذوروں اور زمانے کے ستم رسیدہ لوگوں کے ساتھ اُنسیت اور سب سے بڑھ کر اپنے انسانی فرائض کی انجام دہی کے لئے ایثار ومحبت کا جذبہ ہمارے وجودِ خاکی میں پیوست ہوجائے ۔ عید قربان انہی اوصاف کی رونقیں ہماری زندگیوں میں بھرنے کے لئے ہر سال ذی الحجہ کے ایام میں ہمارے ضمیروں پر دستک دیتی ہے کہ آیا ہم محض اللہ کی خاطر ایثار پیشہ بننے کے لئے رضامند ہیں یا نہیں ۔کتنے خوش قسمت وہ صاحب ِ ایمان ہیںجو عیدالاضحی کی ان اعلیٰ وارفع انسان دوستانہ شرائط پر پورا اُترنے کے سبب حقیقی خوشیاں منانے کے اہل ٹھہرتے ہیں۔

courtesy: Kashmir Times Srinagar

No comments:

Post a Comment