ایک تجویز اور اس کے پس پردہ سوچ
محمد صبغت اللہ ندوی
گزشتہ دنوں ہر یانہ میں جاٹ برادری کی ایک کھاپ پنچایت ہوئی تھی، اس میں دیگر باتوں کے سوا ایک اہم مسئلہ یہ اٹھایا گیا کہ خواتین کے ساتھ زیادتی، بے راہ روی اور گھر سے فرار ہوکر شادی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سرکاری طور پر ملک میں شادی کی عمر سولہ برس کردی جائے۔ آل انڈیا جاٹ مہاسبھا کے ریاستی صدر اوم پرکاش مان کا کہنا ہے کہ ملک میں پہلے ایسا ہی ہوتا تھا، وہ مرکزی حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ شادی کی عمر کم کرکے سولہ برس کردی جائے جوفی الحال قانونی طور پر لڑکیوں کے لیے اٹھارہ برس اور لڑکوں کے لیے ۲۱ برس مقرر ہے۔ ایک کھاپ پنچایت نے جہاں مذکورہ تجویز پیش کی ہے، دوسری کھاپ پنچایتوں نے اسے مسترد کردیا ہے۔ ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اوم پرکاش چوٹالہ بھی اس تجویز کے حق میں ہیں اور اس سلسلے میں ریاست کے گورنر جگناتھ پہاڑیا کو ایک میمورنڈم بھی پیش کیا گیا ہے۔
یوں تو کھاپ پنچایتیں اپنے عجیب وغریب فیصلے کے لیے ہمیشہ سے بدنام رہی ہیں اور ان پر اکثر تنازعات کھڑے کیے جاتے رہے ہیں۔ ملک کا آزاد خیال میڈیا تو پہلی فرصت میں کھاپ پنچایتوں کے فیصلوں کی مخالف کرتا ہے اور اکثر وبیشتر وہ ان فیصلوں کے لیے طالبانی یا تغلقی فرمان جیسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ کوئی بھی ان فیصلوں کے پس منظر یا ان کے پیچھے سوچ پر ٹھنڈے دماغ سے غور نہیں کرتا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ کھاپ پنچایتوں کے فیصلے صحیح ہوتے ہیں اور بلاوجہ ان کی مخالفت اور ان پر تنقیدکی جاتی ہے۔ ان کا فیصلہ غلط ہوسکتا ہے، ان کا اندازہ بھی غلط ہوسکتا ہے، لیکن ان کی سوچ غلط نہیں ہوسکتی اور وہ سوچ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی کہ وہ سماجی برائیوں کی اصلاح چاہتی ہیں، لیکن اصلاح کا طریقہ اور انداز یا تو خطرناک یا مضحکہ خیز ہوتا ہے، تاہم سوچ مثبت ہوتی ہے۔ اس طرح کے فیصلوں کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ وہ چاہتے ہیں کہ سماج میں جو بُرائیاں پنپ رہی ہیں یا پھیل رہی ہیں، جن سے معاشرہ خراب ہورہا ہے، ان کی عزت پر بھی آنچ آرہی ہے۔ چونکہ کھاپ پنچایتوں کے فیصلوں کی مخالفت کرنے والے عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا امر واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، لیکن اگر وہی واقعہ ان کے ساتھ پیش آئے اور وہ اپنے آپ کو کھاپ پنچایتیں کرنے والوں کی جگہ پر رکھ کر دیکھیں اور پھر اپنے ضمیر سے پوچھیں تو شاید ان کی رائے بھی وہی ہوگی جو کھاپ پنچایتیں کرنے والوں کی ہوتی ہے۔ کوئی بھی اس پہلو سے نہیں سوچتا، اس لیے صرف کھاپ پنچایتیں ہی بدنام ہورہی ہیں۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کس طرح ہو، یہ بات تو سب ہی مانتے ہیں کہ ملک میں سماجی بُرائیوں کا دائرہ بڑھتا جارہا ہے۔ شادی کے بغیر ساتھ رہنا، ہم جنسی کی شادی، کرائے کی کوکھ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ نوجوانوں کے ذریعے خواتین کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات جیسے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جس ہریانہ میں جاٹ برادری کی طرف سے شادی کی عمر کم کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے، وہاں پچھلے ماہ خواتین کے ساتھ زیادتی کے ۱۳ واقعات پیش آئے۔ ۹ اکتوبر کے ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ریاست میں اس معاملے پر کافی ہنگامہ ہورہا ہے۔ آخر حکومت غیر اخلاقی حرکات کو کب تک قانونی مدد فراہم کرتی رہے گی۔ ایسی حرکتوں کی حوصلہ افزائی یا قانون سازی کے ذریعے تحفظ فراہم کرکے سماجی بُرائیوں کے مسائل کو کم نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ اور بڑھیں گے اور ہم دیکھ بھی رہے ہیں۔ مغربی تہذیب کی نقل ہندوستان میں وہ تباہی مچارہی ہے جس کے بارے میں ہم ایک دو دہائی قبل تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ انسان اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں رہا۔ بچہ بالغ ہونے کے بعد ازروئے قانون سارے فیصلے خود کرنے لگتا ہے، جن ماں باپ نے اس کی پرورش کرکے اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا اہل بنایا، اب ان کے فیصلوں میں ماں باپ کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ زور زبردستی کرنے پر دوہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو والدین اپنے پیروں پر کھڑے ہیں تو وہ نافرمانی کرنے والے اپنے لخت جگر کو گھر سے نکال دیتے ہیں اور جائیداد سے بے دخل کردیتے ہیں اور اگر والدین اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہیں وہ یا تو اپنے بچوں کی من مانی برداشت کرتے رہتے ہیں یا ناراضی مول لینے کی صورت میں اپنی بقیہ زندگی گزارنے کے لیے بوڑھوں کے آشرم میں پہنچ جاتے ہیں، یہ صورت حال صرف سماجی بُرائیوں کی دین ہوتی ہے۔
ہر یانہ کی کھاپ پنچایت نے شادی کی عمر کے سلسلے میں جو تجویز پیش کی ہے، وہ ملک کے لیے نئی نہیں ہے، پہلے بھی کسی نہ کسی پس منظر میں یہ مسئلہ اٹھایا جاتا رہا ہے اور اس پر بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ عدالتوں کی طرف سے بھی کئی فیصلے ایسے آئے ہیں جن میں قانونی طور پر مقرر شادی کی عمر کو یا تو کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے یا کم عمری کی شادی کے جواز کے لیے کسی نہ کسی بہانے کوئی گنجائش نکال لی گئی ہے۔ ایسا ہی ایک فیصلہ گزشتہ دنوں آیا تھا جب عدالت نے اٹھارہ برس سے کم ایک مسلم لڑکی کی غیر مسلم لڑکے کے ساتھ شادی کو یہ کہہ کر جواز فراہم کیا گیا تھا کہ مسلم پرسنل لا میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے، جب کہ حقیقت یہ تھی کہ وہ اسلامی شادی تھی ہی نہیں، پھر اس پر شرعی قوانین کا اطلاق کیسے ہوگا؟ بہرحال ہریانہ کی جاٹ برادری کی کھاپ پنچایت یا آل انڈیا جاٹ مہا سبھا کے ریاستی صدر اوم پرکاش مان نے شادی کی عمر کم کرنے کی جو ضرورت محسوس کی ہے اور اس کی تجویز پیش کی ہے، دیر سے ہی سہی اس پہلو سے لوگ سوچنے لگے ہیں، اگر ایسے لوگوں کے سامنے اسلام کی ابدی تعلیمات اور ہردور کے تقاضوں اور ضروریات سے ہم آہنگ شرعی قوانین کو پیش کیا تو اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے اور اس کے پیغامات کو لوگوں تک پہنچانے میں کافی مدد ملے گی۔ اسلام ہی سے متاثر ہوکر بیوائوں سے شادی، ضرورت کے تحت دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کا رواج بڑھا اور اب شرعی قوانین کی منشا کے مطابق شادی کی عمر کم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں اور لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ بلوغ کے بعد وقت پر شادی نہ کرنا ہی ساری سماجی بُرائیوں کی جڑ ہے۔ ابھی شریعت کے مطابق شادی کی بات ہورہی ہے، ہوسکتا ہے کہ آگے چل کر اسلامی حجاب اور پردے کی باتیں ہونے لگیں جو خواتین کو تحفظ بھی فراہم کرتا اور بہت ساری بُرائیوں سے روکتا بھی ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے آڈوانی نے خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات پر قابو پانے کے لیے عصمت دری کی سزا موت تجویز کی تھی، جب کہ اسلام میں پہلے ہی سے یہ سزاسنگسار کی صورت میں موجود ہے۔ ایسے حالات میں جب لوگ مذہبی تعصب یا قانون کی چہارم دیواریوں سے نکل کر سوچنے لگے ہیں اور مسائل کی سنگینی کو محسوس کر کے اس کی جڑ میں جانے لگے ہیں تو اسلام کی سچی اور ہر دور کے مطابق تعلیمات کو ان تک پہنچانا وقت کا تقاضا اور مسلمانوں کی ذمے داری ہے۔ مثبت سوچ کو آگے بڑھانے میں مدد سے ہمیں برادران وطن کو بھی سمجھانے میں آسانی ہوگی اور انہیں بھی شریعت کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
No comments:
Post a Comment