آ ج عید الاضحی کا چو تھا دن ہے۔ہر سال کی طرح ہم نے اس عید کے مو قع پر نما ز عید ادا کی ، قربانیا ں پیش کیں ، یار دوستوں ، ہمسایو ں اور رشتہ داروں کے گلے ملے ، عید خریداریا ں کیں ، دینی اور فلا حی ادراوں اور رضا کا ر تنظیموںکو قر با نی کی کھا لیں اور چندے کی صورت میں اپنے اپنے ظرف کے عین مطا بق ما لی امداد کی ، خطیبو ں اور مقررین کی زبا نی فلسفۂ عیدپر خوب تقریریں سنیں ، عید پیغامات کی بھر ما ر دیکھی ، عید اشتہا رات کا پلندہ نظروں سے گزرا اور عید مبا رک دینے والے دوستوں اور متعلقین کے فون کا لز ار ایس ایم ایس بھی ہماری مشغولیا ت کا حصہ بنیں ۔ غرض وہ سارے رسم اور دستور خود بخود اعادے کی پٹری پر روایتی ترتیب سے سفر کرتے رہے جو اس متبرک مو قع پر ہمیشہ سے ہو تا چلا آ یا ہے اور آ گے بھی چلا جا تا رہے گا ۔ البتہ عید الا ضحی کے مسر آگیں لمحات کے پس پردہ کیا راز واسرا اور کیا الو ہی پیغام پو شیدہ ہے، کیا اس طرف ہما ری تو جہ گئی اس با رے میں کو ئی زیا دہ خو ش امیدی نہ ہو نے کے با وجو د اس با ت سے انکا ر کی مجا ل نہیں ہو سکتی کہ بعض خو ش نصیب لو گ ، چا ہے ان کی تعداد کتنی ہی کم کیو ں نہ ہو ، آ ج بھی عیدین کے اصل درس میں زیا دہ منہک رہتے ہیں۔ وہ جا نتے ہیں کہ عید کی خو شیا ں اپنے ساتھ کتنی بھا ری بھر کم ذمہ دا ریو ں کا بو جھ ہما رے کندھے پر ڈال جاتی ہیں ۔ ان ذمہ دارو ں کو ایک ہی لفظ میں ادا کر نا ہو تو یہ لفظ قر با نی کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا ۔
قُربانی اعلیٰ ترین انسانی قدر (Human values) ہے۔ اسی کی کوکھ سے تمام روابط ورشتے پھوٹ پڑتے ہیں، پروان چڑھتے ہیں اور زندگی کی کشمکش وگہما گہمی میں رَس گھول دیتے ہیں۔ بندے اوررب کا تعلق، ماں باپ اور اولاد کا رشتہ، زن وشو کی با ہمی رفاقت، رفیق وہمدم کی معیت، اقارب واعزہ کی شرکت، پڑوسی اور پڑ وسی کی محبت … یہ سب میل مو انست کی صورتیںہیں جن کی اساس قربانی اور جذ بۂ ایثارپر ہی اٹھتی ہے۔ عام طور پر ایک انسان قر با نیو ں کی مشقت اس لئے اٹھا تا ہے کیو نکہ ان سے اس کے ذاتی مفادا ت اور دلچسپیوں کا سر شتہ بند ھا ہو تا ہے۔ اس وجہ سے ان کا وہ مز ا کہاںجو خا ص طور اولو العزم انسانو ں کو اس نو ع کی انمول قر با نی سے ملتا ہے جو اپنے چھو ٹے بڑ ے مفاد یا نجی دلچسپی کے خم خا نہ سجا نے کے لئے بلکہ کسی اور اعلی وارفع مقصد کے ضمن میں دی جا تی ہے ۔ اس حو الے سے تاریخ انسا نیت میں ہمچو قسم کی قر با نیو ں کے ایے ایسے معرکو ںکی مرقع آ را ئیا ں ملتی ہیں جن کو دیکھ کر آج کے اس ما دی دوڑ دھو پ والے اس دور میں کسی بھی با لغ نظر انسان کو روحانی تسکین اور جذ با ت کی تشفی کا سامان مہیا ہو تا ہے ۔ ان تما م اوراقِ پر یشاں کو اگر یک جا ملا کر کتاب کی تربیب دی جا ئے تو اس کا سر نا مہ صرف دو ہی عظیم الشان پیغمبرانہ ہستیوں… خلیل اللہ حضرت ابراہیمؑ اور آ ں جنا ب کے فرزند ذبیح اللہ حضرت اسمٰعیل ؑ… کے نا م نا می سے ہی تر تیب پا ئے گااور با قی تما م اونچی اونچی ہستیوں کی قر با نیا ں اسی کتا ب ِ ایثار کے اوراق اور حو اشی قرار پا ئیں گی ۔ اللہ تعالیٰ نے بظا ہران دونو ں با پ بیٹوں کو ایک کڑی آزمائش کی بھٹی میں اپنی کا ر گا ہِ مشیت کا اتما م کر نے کے لئے جھونک دیا…لیکن سوال یہ ہے کہ آ خرکیوں؟ علما ئے کرام اس کا سیدھا جو اب یہ دیتے ہیں کہ صرف اور صرف اس واسطے کہ پروردگار عالم اور خالق کائنات آنجنابؑ کا اپنی ذاتِ بابرکت کے تئیں محبت وعقیدت جو مومنانہ زندگی کا شعار اور وطیرہ ہے اور جو ’’قربانی‘‘ ہی کے بطن سے پھوٹ پڑتا ہے کا جائزہ لے سکے اور عالم انسانیت کو قربا نی کے باب میں ایک رول ما ڈ ل عطا کرے… قربانی ہی رزمِ گاہِ حیات کا وہ ناقابل تسخیر اسلحہ ہے جو کٹر سے کٹر دشمن کو زیر کر کے دوستوں اور رفیقوں کے صف میں کھڑا کرتا ہے۔۔۔ قر با نیو ں کی اس مثا لی نقش ِ راہ کو اپنی سیر ت طیبہ ؐ کا اوڑھنا بچھو نا بنا نے والے پیغمبر اسلامؐ کی جلو ت ہا ئے حیا ت کو دیکھ کر آ دمی ورطہ ٔ حیر ت میں پڑ جا تا ہے کہ اسوۂ حسنہؐ میں کس طر ح میں ابو لا انبیا ء حضرت ابرا ہیم ؑ کی مہک گندھی ہو ئی ہے ۔ یہ آ پ ؐ کے اخلا ص اور ایثا ر کی ہی معجزہ نما ئی ہے کہ کٹر سے کٹر دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تٔیں عقیدت واحترام میں سراپا اطا عت ہو ا، قربانی کا یہی بیش قیمت جذبہ ہی تو تھا جس نے اندھیا روں میں بھی ہر خاص وعام کی زبان سے آپ ؐ کیلئے ’’الامین‘‘’’والصادق‘‘ ہی کے درخشندہ القاب دلو ائے ۔
یہ آ پؐ کے مجسمہ ٔ ایثار و قر با نی ہو نے کے اخلاقِ حمیدہ اور اوصاف کریمہ کی جلو ہ گر ی ہی تو تھی جس نے لڑاکو اور جا ہلیت پسندقوم کے درندہ صفت انسانی گوشت پوست کے پیکروں کو :میرے صحابیؓ آسمان ِ ہدایت کے تابناک ستارے ہیں… کے مقام علو یت پہ لا کھڑا کیا۔آپؐ کا یہ آبِ حیات ’’قربانی‘‘ ہی کے راستوں سے رواہو سلا م اس پر کہ جسنے گالیاں سنکر دُعائیں دیں ۔ گالیوں کا جواب دعائوں سے دینا ’’قربانی‘‘ نہیں تو اور کیا…قربانی ہی وہ قالب ہے جس میں ماں کی ’’مامتا‘‘ ڈھل کر اس نورانی پیکر کے پائوں تلے جنت جیسی ابدی آرام گاہ کی حسین وجمیل شکل اختیار کرتی ہے۔ ’’قربانی‘‘ ہی وہ جو ہر عظیم ہے جسکا پیکر بن کراصحاب رسولؐ ’’رضی اللہ عنہم ورضو عنہ‘‘ کے عظیم ترین صف میں کھڑا نظر آتے ہیں… ایک مفکر نے کیا خوب فرمایا ہے کہ قربانی کے ذریعہ تعمیر، یہ قدرت کا ایک عالمگیر قانون ہے۔ اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ قدرت کا یہی اصول مادی دُنیا کیلئے بھی ہے اور یہی اصول انسانی دنیا کیلئے بھی… درخت کیا ہے، ایک بیج کی قربانی۔ ایک بیج جب اپنے کو فنا کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے تو اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ سر سبز وشاداب درخت زمین پر کھڑا ہو۔ اینٹو ں سے اگر آپ پُوچھیں کہ مکان کس طرح بنتا ہے تو وہ زبانِ حال سے یہ کہیں گی کہ کچھ اینٹیں جب اس کے لئے تیار ہوتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ کیلئے زمین میں دفن کردیں، اس کے بعد ہی وہ چیز اُبھرتی ہے جس کو مکان کہتے ہیں۔۔۔ عمارت میں ایک گنبد ہوتا ہے اور ایک اس کی بنیاد، گنبد ہر ایک کو دکھائی دیتا ہے مگر بنیاد کسی کو نہیں دکھائی دیتی کیونکہ وہ زمین کے اندر دفن رہتی ہے مگر یہی نہ دکھائی دینے والی بنیاد ہے جس پر پوری عمارت اور اس کا گنبد کھڑا ہے۔۔۔ یہی حال انسانی زندگی کی تعمیر کا ہے۔ انسانیت کے مستقبل کی تعمیراس وقت ممکن ہوتی ہے جبکہ کچھ لوگ اپنے کو بے مستقبل دیکھنے پر راضی ہو جائیں، ملت کی ترقی اس وقت ہوتی ہے جبکہ کچھ لوگ جانتے بُوجھتے اپنے کو بنے ترقی کرلیں۔۔ قربانی یہ ہے کہ آدمی ایک نتیجہ خیز عمل کے غیر مشہور حصہ میں اپنے کو دفن کردے۔ وہ اپنے کام میں اپنی کوشش صرف کرے جس میں دولت یا شہرت کی شکل میں کوئی قیمت ملنے والی نہ ہو، جو مستقبل کیلئے عمل کرے نہ کہ حال کیلئے۔ وہ اپنے کو دفن کرکے قوم کیلئے زندگی کا سامان فراہم کردے، مقصد کی رفعت ہی قربانی کی کمیت ونوعیت کو متعین کردیتی ہے۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام کو عالمی اسلامی تحریک کی سربراہی وپیشوائی کا منصب جلیل جب ہی ملا جب اس مقصد عظیم کی راہ میں آپؑ نے اپنی تمام تر پونجی اور اپنا تمام تر اثاثہ خوشی خوشی لٹا دیا… مقصد کی راہ میں باپ سے، قوم سے، معبودانِ باطل سے، بادشاہ وقت سے، اپنے وطن سے اعلان برأت…اسلامی تاریخ کا عنوان ہی ’’قربانی‘‘ہے
غریب و سادہ ورنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتداء ہے اسماعیلؑ
بوڑھے باپ نے اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیلؑ کے گلے پر چھری رکھ کر جس بے مثال و بے مثیل قربانی کی ابتدأ کی، حضرت حسینؓ نے اسی قربانی کا نتیجہ کر بلا کے ریگزار میں اپنی اور اپنے اہل وعیال کی شہادت کی شکل میں عالمِ انسانیت کے سامنے پیش کیا۔ حضرت حسینؓ کی اس عظیم قربانی کوعلامہ مشرقؔنے یوں اشعار کا جامئہ رنگین پہنا دیا ہے ؎
بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است
پس نبائے لالٰہ گردیدہ است
سرِ ابراہیمؑ واسماعیل بود
یعنی آں اجمال راتفصیل بود
ابراہیمؑ واسماعیلؑ کی اجمالی قربانی کی تفصیل امام حسینؓ نے ہی کربلا کی تپتی زمین پر پیش کی۔ واضح ہو ا کہ اسلام ’’قربانی‘‘ ہی کا دوسرا نام ہے۔ ایک مفکر یہ کیا خوب فرمایا ہے’’خدا کے نزدیک اس کا سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو اپنی تمناوں کو اس کے لئے دفن کردے، جو اپنے آرام کو اس کی خاطر چھوڈدے، جو اپنی مشکلات کو نظر انداز کر کے اُس کی طرف چلا آئے، دنیا میں کسی شخص کی کامیابی یہ نہیں ہے کہ وہ یہاں کیا کچھ حاصل کر لے بلکہ کامیاب دراصل وہ ہے جو خدا کی راہ میں اپنا سب کچھ لُٹا دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے پوچھا ’’ سب سے افضل جہاد کونسا ہے؟آپؐ نے فرمایا ’’ وہ شخص جو اپنی بہترین سواری لے کر نکلا اور میدانِ جنگ میں اس کا گھوڑا مارا گیا اور وہ خود بھی شہید ہوگیا‘‘۔گویا سب سے زیادہ خوش نصیب وہ شخص ہے جو بالکل لٹا ہوا اپنے رب کے پاس پہنچے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں کو اسکے اوپر انڈیل دیگا‘‘ ابراہیمؑ کے رب نے آنجنابؑ سے فرمایا اَسلِم (اسلام لے آ۔ اپنے اپ کو میرے سپرد کردے۔ میرا ہوکررہ) تو جوباًآنجنابؑ نے فرمایا اسلمت لرب لعالمین (میں نے اسلام قبول کیا۔ میں نے اپنے آپ کو اسکے سپرد کردیا۔ میں رب العالمین کا ہو کررہا)…سید مودودیؒ اس قول وقرار کے ضمن میں رقمطراز ہیں’’اس قول وقرار کو اس سچے آدمی نے تمام عمر پوری پابندی کے ساتھ نبا کردیا۔ اسے رب العالمین کے خاطر صدیوں کے آبائی مذہب اور ایسی رسموں اور عقیدوںکو چھوڑا اور دنیا کے سارے فائدوں کو چھوڑا۔ اپنی جان کو آگ کے خطہ میں ڈالا، جلا وطنی کی مصیبتں سہیں، ملک ملک کی خاک چھانی، اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ رب العالمین کی اطاعت اوراس کے دین کی تبلیغ میں صرف کردیا اور بڑھاپے میں جب اولاد نصیب ہوئی تو اس کے لئے بھی یہی دین اور یہی کام پسند کیا‘‘ حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کا خلاصہ اور لُبِ لباب کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہے’’امتحان وآزمائش‘‘ جس کے لئے قرانِ حکیم کی جامع اصطلاح ’’ابتلائ‘‘ہے اور جب آزمایا ابراہیمؑ کواس کے رب نے بہت سی باتوں میں تو اُسنے ان سب کو پورا کردیا‘‘(البقرہ:۱۲۴) حیات دنیاوی بھی ربانی ارشاد کے مطابق ابتلاء وآزمائش ہی تو ہے ’’وہ جس نے پیدا کیا قوت اور زندگی کو کہ تمہیں آزمائے کہ کون ہے تم میں سے اچھا عمل کے اعتبار سے‘‘(الملک:۲) ابتلاء وآزمائش کی راہ قربانیوں اور جانثاریوں کی ہی تو راہ ہے اور قربانیوں کی راہ میں آنجنابؑ (جیسا کہ اوپر عرض کیا) ہر مرحلہ اور ہر گام پر سرخرو ہی نکلے۔ ہم جن حالات میں عیدالاضحی گزار رہے ہیں وہ حالات انتاہی گھمبیر، انتہائی بھیانک، انتہائی حوصلہ شکن اور انتہائی روح فرساہیں۔ ہرسو آتش وآہن، قتل وخون، عفت وعصمت کا چاک دامن، کٹی گردنیں، لٹی لٹی عصمتیں، غیر یقینی صبح وشامیں، غیر محفوظ ساعتیں عیدالاضحی ایسے مقدس ترین ملی تہوار کو گھیری ہوئی ہیں۔ جانوروں کی قربانی جو اس روز ہم اللہ کے حضور اُسی کی رضا وخوشنودی کیلے پیش کرتے ہیں وہ سادہ طور قربانی نہیں بلکہ ربانی ارشاد کے مطابق ’’اللہ تک نہیں پہنچتا ان قربانیوں کا گوشت یا خون، ہاں اُس تک رسائی ہے تمہارے تقویٰ کی‘‘(الحج:۳۷)
یہاں تقویٰ کے کے معنی ہیں؟تقویٰ کے معنی کی عملی تفسیر وہی نیت ہے جو ہم جانور کو ذبح کرتے وقت اپنی زبان سے یو ادا کرتے ہیںــ:میری نماز، میری قربانی، میراسم عبودیت، میری زندگی، میری قوت سب اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے…گویا جانور کی قربانی ایک معنوی حقیقت کی ظاہری علامت ہے۔ اسی شخص کی قربانی حقیقی معنوں میں قربانی ہے جو جانور کو ذبح کرتے ہوئے اپنے وجود، اپنے اثاثہ اور مختصراً اپنی پوری زندگی کو اللہ کی رضا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے ہر آن کمر بستہ ہو وگر نہ یہ قربانی زیادہ سے زیادہ ایک رسم ہو سکتی ہے ابراہیمؑ کی سنت نہیں ؎
نماز و روزہ قربانی وحج
یہ سب باقی ہیں، تو باقی نہیں ہے
روحِ قربانی ہمارے عمل ہی سے نہیں وہم وخیال سے بھی کب کی غائب ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ارب ساٹھ کروڑ کی ہماری مسلم آبادی بے عزتی، بے غیرتی اور بے حمیتی کی زندگی گزار رہی ہے۔ ابراہیمیؑ روح ہمارے ہاں پیدا ہو تو گلوبل سطح امت کیلئے جو آتش نمرود وآر آن ٹرر(War on Terorr) کی شکل میں دہکائی گئی ہے وہ سنتِ الٰہی ہی تحت گل وگلزار میں بدل جائے گی۔۔ ضرور بدل جائے گی انشاء اللہ۔ قربانی سے متعلق سید سلمان ندوی کے زریں خیالات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں’’ملت ابراہیمی کی اصل بنیاد قربانی تھی اور یہی قربانی حضرت ابراہیمؑ کی پیغمبرانہ اور روحانی زندگی کی اصلی خصوصیت تھی اور اس امتحان اور آزمائش میں پورا اترنے کے سبب سے وہ اور ان کی اولاد ہر قسم کی نعمتوں اور برکتوں سے مالامال کی گئی لیکن یہ قربانی کیاتھی؟ یہ محض خون اور گوشت کی قربانی نہ تھی۔ یہ ماسِواء اللہ اور غیر کی محبت کی قربانی خدا کی راہ میں تھی۔ یہ اپنی عزیز ترین متاع کو خدا کے سامنے پیش کردینے کی نذر تھی۔ یہ خدا کی اطاعت عبودیت اور کامل بندگی کا بے مثال منظر تھا۔ یہ تسلیم ورضا اور صبر وشکر کا وہ امتحان تھا جس کو پورا کئے بغیر دُنیا کی پیشوائی اور آخرت کی نیکی نہیں مل سکتی۔ یہ باپ کا پنے اکلوتے بیٹے کے خون سے زمین کو رنگین کردینا نہ تھا بلکہ خدا کے سامنے اپنے تمام جذبات خواہشوں، تمنائوں اور آرزووں کی قربانی تھی اور خدا کے حکم سامنے اپنے ہر قسم کے ارادے اور مرضی کو معدوم کردینا تھا اور جانور کی ظاہری قربانی اس اندرنی نقش کا ظاہری عکس اور اس خورشید حقیقت کا ظل مجاز تھا ؎
اس دور پر آشوب ہیں اے عید نہ آتو
آتی ہے تو اندازِ ابراہیمیؑ سکھاجا