Search This Blog

Wednesday, 31 October 2012

SUDAN PAR ISRAELI HAMLA

سوڈان پر اسرائیلی حملہ

مسعود انور

عید سے قبل سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں ایک فیکٹری کو دھماکے سے اڑادیا گیا۔ خود سوڈان اور بین الاقوامی میڈیا، دونوں کو اس امر کابھرپور یقین ہے کہ یہ کارروائی اسرائیل کی تھی۔ پاکستانیوں کو اس کی خبر اس لیے نہ ہوسکی کہ کنٹرولڈ کارپوریٹ میڈیا نے اس اہم خبر کو down play کیا۔جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے، اس نے نہ تو اس الزام کی تردید کی ہے اور نہ ہی اس کارروائی کا کریڈٹ لیا ہے۔ وہ اس پر no comments کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔  اس پر پوری دنیا میں پھر سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اسرائیل کی ایران پر کارروائی سے قبل کی ریہرسل تھی اور کچھ کا کہنا ہے کہ اس حملے سے ایران کے دوستوں کو سبق سکھانا مقصود تھا۔

یہ 24 اکتوبر کی رات تھی کہ خرطوم میں واقع اس فیکٹری میں اچانک دھماکے سے آگ بھڑک اٹھی۔ اس فیکٹری کے بارے میں اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ یہ فیکٹری واقع تو سوڈان میں ہے مگر اصلا یہ ایرانی کنٹرول میں ہے اور یہاں پر شہاب میزائیل تیار کیے جاتے ہیں۔ اس فیکٹری کا اسرائیل سے فاصلہ تقریبا ایک ہزار میل یا انیس سو کلومیٹر کا تھا۔ تقریبا اتنا ہی فاصلہ اسرائیل کا ایران سے ہے۔ اسرائیل اور سوڈان کے درمیان بحیرہ احمر بھی پڑتا ہے اور مصر و سعودی عرب کے ممالک بھی آتے ہیں۔ ابھی تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ اسرائیل نے حملہ کرنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا۔ کیا یہ اس کی فضائیہ کی کارروائی تھی۔؟ اگر یہ فضائیہ کی کارروائی تھی تو کم از کم چار F-16  یا F-15 طیاروں نے اس میں حصہ لیا ہوگا۔ ان طیاروں کو فضاء میںہی ایندھن بھی فراہم کیا گیا ہوگا اور ان طیاروں نے اسرائیل سے سوڈان تک کا یکطرفہ فاصلہ ڈھائی گھنٹے میں طے کیا ہوگا۔ ماہرین کا ایک دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس میں ڈرون طیارے استعمال کیے گئے ہوں گے۔ اس میں ایندھن کا مسئلہ پیش نہیں آتا۔
جہاں تک سوڈان کا تعلق ہے۔ وہ دفاعی لحاظ سے ایک کمزور ترین ملک ہے جہاں پررات میں اس کی کمزور فضائیہ کو کسی قسم کے آپریشن کی سہولت ہی دستیاب نہیں ہے۔ اس طرح رات میں سوڈان بے دانت کا شیر ہوتا ہے۔
جہاں تک اس کی حکومت کا تعلق ہے۔ اس کو اس امر کا یقین ہے کہ یہ کارروائی اسرائیل کی تھی۔ اسی لیے پورے سوڈان میں اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔اتوار کو عرب پارلیمنٹ نے بھی اسرائیل کے خلاف ایک مذمتی قراردار رسمی طور پر منظور کی ہے۔اگر یہ کارروائی اسرائیل کی ہے، جیسا کہ خود عرب ممالک اور سوڈان کو بھی اس کا یقین ہے اور پورا مغربی میڈیا یہی رپورٹ کررہا ہے ، تو پھر سعودی عرب اور مصر کی فضائی حدود سے ہی گزر کر اسرائیلی طیارے یا ڈرون اپنے ہدف تک کیسے پہنچے اور واپس آئے۔ان عرب ممالک کی جانب سے اس کی مذمت ایسے ہی ہے جیسا پاکستان واقعہ ایبٹ آباد پر یا ڈرون حملوں پر امریکا سے کرتا رہا ہے۔
ابھی تک پاکستانی و بین الاقوامی میڈیا بھی اسرائیل و امریکا کی فوجی مشقوں کی خبروں کو down play کررہا ہے۔ امریکا و اسرائیل کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقوں کا آغاز 21اکتوبر کو اسرائیل میں ہوا ہے۔گو کہ اس میں ڈیڑھ ہزار امریکی اہلکار اور دس ہزار اسرائیلی فوجی حصہ لیں گے مگر شرکت کے لیے ساڑھے تین ہزار امریکی فضائیہ کے اہلکار حصہ لینے اسرائیل پہنچے ہیں۔
اس وقت امریکا کے ملٹری چیف مارٹن ڈیمپسی اسرائیل میں موجود ہیں اور اسرائیل کے صدارتی دفتر کے ایک پریس ریلیز کے مطابق انہوں نے پیر کو اسرائیلی صدر شمعون پیریزسے ملاقات بھی کی جس میں دیگر امور کے علاوہ ایران کا موضوع سرفہرست تھا۔ دوسری جانب اسرائیل کے وزیر خارجہ ایہود باراک اچانک پیر کو لندن پہنچے جہاں پر انہوں نے برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ ولیم ہیگ اور دیگر سینئر افسران سے طویل ملاقاتیں کیں۔
برطانیہ کے اخبار ڈیلی میل کے مطابق گزشتہ ماہ برطانوی خفیہ ایجنسی MI 6  کے سربراہ بھی اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں۔ برطانوی اخبار کے مطابق انہوں نے نیتن یاہو کو ایران پر مجوزہ اسرائیلی حملے کی بابت متنبہ کیا تھا۔
اس وقت امریکا اپنی تاریخ کے بدترین سمندری طوفان سے نبرد آزما ہے۔ دنیا کسی اکتوبر سرپرائز کے خدشے میں بھی مبتلا ہے۔ ایسے میںسوڈان پر حملہ کسی بڑی کارروائی سے قبل دنیا کا ردعمل جانچنے کا ایک طریقہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس سے اسرائیل کو ان حکومتوں، جن کی فضائی حدود سے اس کے طیاروں کو گزرنا ہے، کے رویہ کا بھی اندازہ ہوگیا ہے اور ایک طویل سفر و حملے کی ریہرسیل بھی ہوگئی۔ رہ گئے عوام ، تو ان کو پتا ہی نہیں کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ ان کو تو جانوروں کی قیمتوں، ان کی خوبصورتی میں میڈیا نے لگایا ہوا تھا۔ جو وقت بچ جاتا ہے، اس میں ملالہ کی سانسیں گن لی جاتی ہیں یا پھر فیشن شوز ہیں۔
دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔

AANSOO AUR KALEJA

آنسو اور کلیجہ


آنسو پانی کا وہ قطرہ ہے جو غم، تکلیف یا خوشی کی شدت میں یا پھر شدید کھانسی اور قہقہے کے وقت آنکھوں سے نکلے۔ آنسوئوں کے بہنے کے عمل کو رونا بھی کہا جاتا ہے جب کہ رونے کے اس عمل کو بعض اوقات مگرمچھ کے آنسو بہانے سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔ کسی کے دُکھ میں بنائوٹی افسوس کرنے والے دھوکے باز کے رونے کو مگرمچھ کے آنسو بہانا کہتے ہیں۔ آنسو غم کے ہوں یا خوشی کے، پیاز کے ہوں یا مگرمچھ کے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ،البتہ مگرمچھ کے آنسو بہانے کیلئے نوٹنکی کیا جاتا ہے ۔جو اس فن میں ماہر ہو وہی کامیابی سے ایسے آنسو بہا سکتا ہے۔ مگرمچھ کے آنسوئوں کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس جانور کا مختصر تعارف بھی ہو جائے ورنہ یہ نہ صرف مگرمچھ کے ساتھ زیادتی ہوگی بلکہ اس کی تاریخ بھی ادھوری رہ جائے گی۔ مگرمچھ سے مراد ایسا رینگنے والا جانور ہے جو پانی کے اندر اور پانی کے باہر با ٓ سانی رہتا ہے۔یہ جانور افریقہ، آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز، پاکستان اور ہندوستان کے سوا دُنیا کے کسی اور خطے میں نہیں ملتا۔ مگرمچھ ہمیشہ گھات لگا کر حملہ کرتے ہیں یعنی یہ چھپ کر مچھلی یا دیگر زمینی جانوروں کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ قریب آجائیں اور قریب آتے ہی جھپٹ کر حملہ کرتے ہیں۔ ان میں استقلاب یعنی میٹابولزم کا عمل بہت سست ہوتا ہے اور لمبے عرصے تک خوراک کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں۔
 مگرمچھ کی نسل میں چند ایسے واقعات سینہ بہ سینہ چلے آ رہے ہیں کہ جس کی وجہ سے جب بھی وہ اپنا شکار پکڑتا ہے تو ساتھ ہی اس کے آنسو بھی نکل آتے ہیں۔ رونا تو اُس وقت چاہئے جب شکار ہاتھ سے نکل جائے لیکن مگرمچھ کا معاملہ کچھ مختلف ہے اور وہ ہمیشہ شکار کو اپنے دام میں لے کر ہی آنسو بہاتا ہے۔ یہ آنسو شکار کے مرنے کے غم میں بھی نہیں نکلتے بلکہ اسے یاد آ جاتا ہے کہ اس کے آبائو اجداد کتنے بیوقوف تھے۔ مگرمچھ شکار پکڑتے ہی اپنے بزرگوں کی عقل پر ماتم شروع کر دیتا ہے کیونکہ کسی نے اُسے بتا دیا تھا کہ بچپن میں ایک بندر اُس کے آبائو اجداد کو چکمہ دیتا آیا ہے۔ بندر کی مگرمچھ کے بزرگوں سے کافی گہری دوستی تھی۔ بندر چیری کے درخت پر رہتا تھا جہاں سے روز ایک مگرمچھ بھی گزرتا۔ بندر اُسے ڈھیر ساری چیریاں توڑ کر دیتا اور پھر آہستہ آہستہ دونوں میں گہری دوستی ہو گئی۔ مگرمچھ نے دل میں سوچا کہ جو بندر ہر روز چیریاں توڑ کر کھاتا ہو اُس کا کلیجہ کتنا میٹھا ہوگا۔
ایک دن اُس نے بندر کو بہانے سے اپنے ہاں دعوت پر بُلا لیا۔ بندر اُس کے ساتھ چل پڑا مگر عین بیچ دریا کے مگرمچھ نے بندر سے کہا کہ میں تیرا کلیجہ کھائوں گا۔ وہ ساری بات سمجھ گیااور مگرمچھ سے مخاطب ہوا کہ میرا کلیجہ تو درخت پر ہی ٹنگا رہ گیا۔ دوستی میں تو جان بھی حاضر ہے تُو پہلے بتا دیتا میں اپنا کلیجہ وہیں تمہارے حوالے کر دیتا۔ اب جلدی سے واپس مڑو تاکہ میں تمہیں اپنا کلیجہ دے سکوں۔ مگرمچھ بندر کو لے کر واپس ہوا۔ جیسے ہی دونوں منزل پر پہنچے تو بندر کلیجہ اُتارنے کے بہانے پھرتی سے درخت پر چڑھ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گیا اور پھر مگرمچھ کو چڑانے لگا ’’بیوقوف! کبھی کسی کا کلیجہ بھی پیڑ پر لٹکا رہتا ہے‘‘ مگرمچھ کفِ افسوس ملتا رہ گیا کہ بندر تو مجھے دھوکہ دے گیا۔ آج بھی جب آپ جنگل میں جائیں تو آپ کو بندر کے ہنسنے کی آواز آئے گی جب کہ مگرمچھ نیچے دریا میں منہ کھولے بندر کا انتظار کر رہا ہوگا۔ وہ دن اور آج کا دن مگرمچھ جب بھی شکار کرتا ہے تو ساتھ ہی اس کے آنسو بھی نکل آتے ہیں۔
صاف بات ہے کہ تالاب میں رہ کر مگرمچھ سے بیر نہیں لینا چاہئے لیکن سیانے کہتے ہیں کہ چاہے پانی میں رہیں یا خشکی میں دونوں صورتوں میں مگرمچھ کے مکر سے بچ کر رہنا چاہئے۔ مگرمچھ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ اگر کوئی آدمی مادرزاد برہنہ پانی میں اُتر جائے تو یہ اُس پر حملہ آور نہیں ہوتا بشرطیکہ وہ آدمی مگرمچھ کو چھیڑنے کی کوشش نہ کرے مگر یہ خیال صرف جنتر منتر کی حد تک درست ہے اور حقیقت سے اس کا دور تک بھی واسطہ نہیں ہے۔ جہاں کہیں غم مشترک ہو جائیں تو پھر دو غمگین دل ایک دوسرے کا سہارا بننے کی سعی کیا ہی کرتے ہیں۔ ایک آدمی نے مگرمچھ کو دیکھا کہ وہ آنسو بہا رہا ہے۔ وہ کافی دیر تک یہ سوچتا رہا کہ شاید مگرمچھ کی بیوی یا پھر ممی ڈیڈی نے اسے ڈانٹا ہوگا۔ اس خیال کی دلیل کا محور اس کا اپنا خاندانی پس منظر تھا چنانچہ وہ آدمی سوئمنگ بھول کر مگرمچھ کے قریب گیا تاکہ اس کے آنسو پونچھ سکے۔ جب وہ مگرمچھ کے قریب پہنچا تو معاملہ ایسا ہوگیا کہ پھر اُس آدمی کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہ تھا۔
اس واقعے کے بعد وہ شخص مگرمچھ کے آنسوئوں سے اس قدر متاثر ہوا کہ بقول اُس کے اگر مگرمچھ کی روح اس کے جسم میں حلول ہو جائے تو وہ زبردست انداز میں مگرمچھ کے آنسو بہا کر متاثرین کی صفوں میں کھلبلی مچا سکتا ہے۔شاید تب سے ہی انسان بھی کسی کو بیوقوف بنانے کے لئے مگرمچھ کے آنسو بہانے کا ڈرامہ کرتا چلا آ رہا ہے۔ ایک عام آدمی بھی مگرمچھ سے معمولی سی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد ایسے آنسو بہا کر ملک میں پانی کی کمی کو پورا کر سکتا ہے ۔ بعض لوگ پیدائشی اس کام میں ماہر ہوتے ہیں اور جیسے ہی مگرمچھ کے آنسو بہانا شروع کرتے ہیں تو ہر طرف سیلاب کا سماں ہوتا ہے پھر مجبوراً حکومتوں کو بھی بیرون ممالک سے امداد کیلئے ’’مگرمچھ کے آنسو‘‘ بہانا پڑتے ہیں۔ سیاست اور اقتدار کے لئے بھی مگرمچھ کے آنسو بہائے جاتے ہیں اور جیسے ہی اقتدار ملتا ہے ساتھ ہی آنسو بہنا بھی رُک جاتے ہیں۔ جو سیاست داں اپوزیشن میں ہوں تو ملک کے حالات پر اُن کا دل ہمیشہ ’’خون کے آنسو‘‘ روتا ہے اور جو اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہوں وہ اپوزیشن کے اس رونے کو ’’مگرمچھ کے آنسو‘‘ بہانے سے تشبیہ دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں کرپٹ سیاست دانوں کے لئے ’’سیاسی مگرمچھ‘‘ کی اصطلاح عام استعمال ہوتی ہے۔ ایسے مگرمچھ ہمیشہ کرپشن کے سمندر میں تیرتے رہتے ہیں بلکہ بہتی گنگا میں نہانا بھی ان ہی کے نصیب میں ہوتا ہے۔ یہ سیاسی مگرمچھ خود تو احتساب سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں البتہ ان کا نزلہ پوری قوم پر گر جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آنسو بہانے کی ایکٹنگ میں لڑکیوں کا کوئی ثانی نہیں لیکن چند ایک سیاسی لیڈروں نے اس کام میں لڑکیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایسے لیڈر جس انداز میں مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں وہ ڈرامہ کم بلکہ ٹوپی ڈرامہ زیادہ ہوتا ہے۔ صرف سیاست داں ہی نہیں بلکہ کبھی کبھار بیویاں یا ضدی بچے بھی بات منوانے کیلئے مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔ بعض کے آنسو تو آنکھوں میں تیار کھڑے ہوتے ہیں اِدھر صرف کچھ کہنے کی دیر ہوتی ہے اُدھر ایک سیکنڈ میں ساون بادوں کی طرح برسنا شروع ہو جاتے ہیں اور سامنے والا پریشان ہو کر سوچتا ہے کہ میں نے کہہ کیا دیا ہے۔ رونا کوئی بُری بات نہیں، کم از کم دل کے غبار کو کم کرنے کیلئے نہ سہی آنکھوں کی دھلائی کیلئے ہی رو لینا چاہئے البتہ مگرمچھ کے آنسو بہانے سے اجتناب ضروری ہے۔
courtesy: Kashmir Uzma Srinagar

Tuesday, 30 October 2012

EID RUKHSAT HUI MAGAR

عید رُخصت ہو ئی مگر
کہ قربانی خو شی کا دیبا چہ

 آ ج عید الاضحی کا چو تھا دن ہے۔ہر سال کی طرح ہم نے اس عید کے مو قع پر نما ز عید ادا کی ، قربانیا ں پیش کیں ، یار دوستوں ، ہمسایو ں اور رشتہ داروں کے گلے ملے ، عید خریداریا ں کیں ، دینی اور فلا حی ادراوں اور رضا کا ر تنظیموںکو قر با نی کی کھا لیں اور چندے کی صورت میں اپنے اپنے ظرف کے عین مطا بق ما لی امداد کی ، خطیبو ں اور مقررین کی زبا نی فلسفۂ عیدپر خوب تقریریں سنیں ، عید پیغامات کی بھر ما ر دیکھی ، عید اشتہا رات کا پلندہ نظروں سے گزرا اور عید مبا رک دینے والے دوستوں اور متعلقین کے فون کا لز ار ایس ایم ایس بھی ہماری مشغولیا ت کا حصہ بنیں ۔ غرض وہ سارے رسم اور دستور خود بخود اعادے کی پٹری پر روایتی ترتیب سے سفر کرتے رہے جو اس متبرک مو قع پر ہمیشہ سے ہو تا چلا آ یا ہے اور آ گے بھی چلا جا تا رہے گا ۔ البتہ عید الا ضحی کے مسر آگیں لمحات کے پس پردہ کیا راز واسرا اور کیا الو ہی پیغام پو شیدہ ہے، کیا اس طرف ہما ری تو جہ گئی اس با رے میں کو ئی زیا دہ خو ش امیدی نہ ہو نے کے با وجو د اس با ت سے انکا ر کی مجا ل نہیں ہو سکتی کہ بعض خو ش نصیب لو گ ، چا ہے ان کی تعداد کتنی ہی کم کیو ں نہ ہو ، آ ج بھی عیدین کے اصل درس میں زیا دہ منہک رہتے ہیں۔ وہ جا نتے ہیں کہ عید کی خو شیا ں اپنے ساتھ کتنی بھا ری بھر کم ذمہ دا ریو ں کا بو جھ ہما رے کندھے پر ڈال جاتی ہیں ۔ ان ذمہ دارو ں کو ایک ہی لفظ میں ادا کر نا ہو تو یہ لفظ قر با نی کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا ۔ 
قُربانی اعلیٰ ترین انسانی قدر (Human values) ہے۔ اسی کی کوکھ سے تمام روابط ورشتے پھوٹ پڑتے ہیں، پروان چڑھتے ہیں اور زندگی کی کشمکش وگہما گہمی میں رَس گھول دیتے ہیں۔ بندے اوررب کا تعلق، ماں باپ اور اولاد کا رشتہ، زن وشو کی با ہمی رفاقت، رفیق وہمدم کی معیت، اقارب واعزہ کی شرکت، پڑوسی اور پڑ وسی کی محبت … یہ سب میل مو انست کی صورتیںہیں جن کی اساس قربانی اور جذ بۂ ایثارپر ہی اٹھتی ہے۔ عام طور پر ایک انسان قر با نیو ں کی مشقت اس لئے اٹھا تا ہے کیو نکہ ان سے اس کے ذاتی مفادا ت اور دلچسپیوں کا سر شتہ بند ھا ہو تا ہے۔ اس وجہ سے ان کا وہ مز ا کہاںجو خا ص طور اولو العزم انسانو ں کو اس نو ع کی انمول قر با نی سے ملتا ہے جو اپنے چھو ٹے بڑ ے مفاد یا نجی دلچسپی  کے خم خا نہ سجا نے کے لئے بلکہ کسی اور اعلی وارفع مقصد کے ضمن میں دی جا تی ہے ۔ اس حو الے سے تاریخ انسا نیت میں ہمچو قسم کی قر با نیو ں کے ایے ایسے معرکو ںکی مرقع آ را ئیا ں ملتی ہیں جن کو دیکھ کر آج کے اس ما دی دوڑ دھو پ والے اس دور میں کسی بھی با لغ نظر انسان کو روحانی تسکین اور جذ با ت کی تشفی کا سامان مہیا ہو تا ہے ۔ ان تما م اوراقِ پر یشاں کو اگر یک جا ملا کر کتاب کی تربیب دی جا ئے تو اس کا سر نا مہ صرف دو ہی عظیم الشان پیغمبرانہ ہستیوں… خلیل اللہ حضرت ابراہیمؑ  اور آ ں جنا ب کے فرزند ذبیح اللہ حضرت اسمٰعیل ؑ… کے نا م نا می سے ہی تر تیب پا ئے گااور با قی تما م اونچی اونچی ہستیوں کی قر با نیا ں اسی کتا ب ِ ایثار کے اوراق اور حو اشی قرار پا ئیں گی ۔  اللہ تعالیٰ نے بظا ہران دونو ں با پ بیٹوں کو ایک کڑی آزمائش کی بھٹی میں اپنی کا ر گا ہِ مشیت کا اتما م کر نے کے لئے جھونک دیا…لیکن سوال یہ ہے کہ آ خرکیوں؟ علما ئے کرام اس کا سیدھا جو اب یہ دیتے ہیں کہ صرف اور صرف اس واسطے کہ پروردگار عالم اور خالق کائنات آنجنابؑ کا اپنی ذاتِ بابرکت کے تئیں محبت وعقیدت جو مومنانہ زندگی کا شعار اور وطیرہ ہے اور جو ’’قربانی‘‘ ہی کے بطن سے پھوٹ پڑتا ہے کا جائزہ لے سکے اور عالم انسانیت کو قربا نی کے باب میں ایک رول ما ڈ ل عطا کرے… قربانی ہی رزمِ گاہِ حیات کا وہ ناقابل تسخیر اسلحہ ہے جو کٹر سے کٹر دشمن کو زیر کر کے دوستوں اور رفیقوں کے صف میں کھڑا کرتا ہے۔۔۔ قر با نیو ں کی اس مثا لی نقش ِ راہ کو اپنی سیر ت طیبہ ؐ کا اوڑھنا بچھو نا بنا نے والے پیغمبر اسلامؐ کی جلو ت ہا ئے حیا ت کو  دیکھ کر آ دمی ورطہ ٔ حیر ت میں پڑ جا تا ہے کہ اسوۂ حسنہؐ میں کس طر ح میں ابو لا انبیا ء حضرت ابرا ہیم ؑ کی مہک گندھی ہو ئی ہے ۔ یہ آ پ ؐ کے اخلا ص اور ایثا ر کی ہی معجزہ نما ئی ہے کہ کٹر سے کٹر دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تٔیں عقیدت واحترام میں سراپا اطا عت ہو ا، قربانی کا یہی بیش قیمت جذبہ ہی تو تھا جس نے اندھیا روں میں بھی ہر خاص وعام کی زبان سے آپ ؐ کیلئے ’’الامین‘‘’’والصادق‘‘ ہی کے درخشندہ القاب دلو ائے ۔  
یہ آ پؐ کے مجسمہ ٔ ایثار و قر با نی ہو نے کے اخلاقِ حمیدہ اور اوصاف کریمہ کی جلو ہ گر ی ہی تو تھی جس نے لڑاکو اور جا ہلیت پسندقوم کے درندہ صفت انسانی گوشت پوست کے پیکروں کو :میرے صحابیؓ آسمان ِ ہدایت کے تابناک ستارے ہیں… کے مقام علو یت پہ لا کھڑا کیا۔آپؐ کا یہ آبِ حیات ’’قربانی‘‘ ہی کے راستوں سے رواہو  سلا م اس پر کہ جسنے گالیاں سنکر دُعائیں دیں ۔ گالیوں کا جواب دعائوں سے دینا ’’قربانی‘‘ نہیں تو اور کیا…قربانی ہی وہ قالب ہے جس میں ماں کی ’’مامتا‘‘ ڈھل کر اس نورانی پیکر کے پائوں تلے جنت جیسی ابدی آرام گاہ کی حسین وجمیل شکل اختیار کرتی ہے۔ ’’قربانی‘‘ ہی وہ جو ہر عظیم ہے جسکا پیکر بن کراصحاب رسولؐ ’’رضی اللہ عنہم ورضو عنہ‘‘ کے عظیم ترین صف میں کھڑا نظر آتے ہیں… ایک مفکر نے کیا خوب فرمایا ہے کہ قربانی کے ذریعہ تعمیر، یہ قدرت کا ایک عالمگیر قانون ہے۔ اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ قدرت کا یہی اصول مادی دُنیا کیلئے بھی ہے اور یہی اصول انسانی دنیا کیلئے بھی… درخت کیا ہے، ایک بیج کی قربانی۔ ایک بیج جب اپنے کو فنا کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے تو اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ سر سبز وشاداب درخت زمین پر کھڑا ہو۔ اینٹو ں سے اگر آپ پُوچھیں کہ مکان کس طرح بنتا ہے تو وہ زبانِ حال سے یہ کہیں گی کہ کچھ اینٹیں جب اس کے لئے تیار ہوتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ کیلئے زمین میں دفن کردیں، اس کے بعد ہی وہ چیز اُبھرتی ہے جس کو مکان کہتے ہیں۔۔۔ عمارت میں ایک گنبد ہوتا ہے اور ایک اس کی بنیاد، گنبد ہر ایک کو دکھائی دیتا ہے مگر بنیاد کسی کو نہیں دکھائی دیتی کیونکہ وہ زمین کے اندر دفن رہتی ہے مگر یہی نہ دکھائی دینے والی بنیاد ہے جس پر پوری عمارت اور اس کا گنبد کھڑا ہے۔۔۔ یہی حال انسانی زندگی کی تعمیر کا ہے۔ انسانیت کے مستقبل کی تعمیراس وقت ممکن ہوتی ہے جبکہ کچھ لوگ اپنے کو بے مستقبل دیکھنے پر راضی ہو جائیں، ملت کی ترقی اس وقت ہوتی ہے جبکہ کچھ لوگ جانتے بُوجھتے اپنے کو بنے ترقی کرلیں۔۔ قربانی یہ ہے کہ آدمی ایک نتیجہ خیز عمل کے غیر مشہور حصہ میں اپنے کو دفن کردے۔ وہ اپنے کام میں اپنی کوشش صرف کرے جس میں دولت یا شہرت کی شکل میں کوئی قیمت ملنے والی نہ ہو، جو مستقبل کیلئے عمل کرے نہ کہ حال کیلئے۔ وہ اپنے کو دفن کرکے قوم کیلئے زندگی کا سامان فراہم کردے، مقصد کی رفعت ہی قربانی کی کمیت ونوعیت کو متعین کردیتی ہے۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام کو عالمی اسلامی تحریک کی سربراہی وپیشوائی کا منصب جلیل جب ہی ملا جب اس مقصد عظیم کی راہ میں آپؑ نے اپنی تمام تر پونجی اور اپنا تمام تر اثاثہ خوشی خوشی لٹا دیا… مقصد کی راہ میں باپ سے، قوم سے، معبودانِ باطل سے، بادشاہ وقت سے، اپنے وطن سے اعلان برأت…اسلامی تاریخ کا عنوان ہی ’’قربانی‘‘ہے
غریب و سادہ ورنگین ہے داستانِ حرم
 نہایت اس کی حسینؓ ابتداء ہے اسماعیلؑ
بوڑھے باپ نے اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیلؑ کے گلے پر چھری رکھ کر جس بے مثال و بے مثیل قربانی کی ابتدأ کی، حضرت حسینؓ نے اسی قربانی کا نتیجہ کر بلا کے ریگزار میں اپنی اور اپنے اہل وعیال کی شہادت کی شکل میں عالمِ انسانیت کے سامنے پیش کیا۔ حضرت حسینؓ کی اس عظیم قربانی کوعلامہ مشرقؔنے یوں اشعار کا جامئہ رنگین پہنا دیا ہے    ؎
بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است
پس نبائے لالٰہ گردیدہ است
سرِ ابراہیمؑ واسماعیل بود
یعنی آں اجمال راتفصیل بود
ابراہیمؑ واسماعیلؑ کی اجمالی قربانی کی تفصیل امام حسینؓ نے ہی کربلا کی تپتی زمین پر پیش کی۔ واضح ہو ا کہ اسلام ’’قربانی‘‘ ہی کا دوسرا نام ہے۔ ایک مفکر یہ کیا خوب فرمایا ہے’’خدا کے نزدیک اس کا سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو اپنی تمناوں کو اس کے لئے دفن کردے، جو اپنے آرام کو اس کی خاطر چھوڈدے، جو اپنی مشکلات کو نظر انداز کر کے اُس کی طرف چلا آئے، دنیا میں کسی شخص کی کامیابی یہ نہیں ہے کہ وہ یہاں کیا کچھ حاصل کر لے بلکہ کامیاب دراصل وہ ہے جو خدا کی راہ میں اپنا سب کچھ لُٹا دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے پوچھا ’’ سب سے افضل جہاد کونسا ہے؟آپؐ نے فرمایا ’’ وہ شخص جو اپنی بہترین سواری لے کر نکلا اور میدانِ جنگ میں اس کا گھوڑا مارا گیا اور وہ خود بھی شہید ہوگیا‘‘۔گویا سب سے زیادہ خوش نصیب وہ شخص ہے جو بالکل لٹا ہوا اپنے رب کے پاس پہنچے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں کو اسکے اوپر انڈیل دیگا‘‘ ابراہیمؑ کے رب نے آنجنابؑ سے فرمایا اَسلِم (اسلام لے آ۔ اپنے اپ کو میرے سپرد کردے۔ میرا ہوکررہ) تو جوباًآنجنابؑ نے فرمایا اسلمت لرب لعالمین (میں نے اسلام قبول کیا۔ میں نے اپنے آپ کو اسکے سپرد کردیا۔ میں رب العالمین کا ہو کررہا)…سید مودودیؒ اس قول وقرار کے ضمن میں رقمطراز ہیں’’اس قول وقرار کو اس سچے آدمی نے تمام عمر پوری پابندی کے ساتھ نبا کردیا۔ اسے رب العالمین کے خاطر صدیوں کے آبائی مذہب اور ایسی رسموں اور عقیدوںکو چھوڑا اور دنیا کے سارے فائدوں کو چھوڑا۔ اپنی جان کو آگ کے خطہ میں ڈالا، جلا وطنی کی مصیبتں سہیں، ملک ملک کی خاک چھانی، اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ رب العالمین کی اطاعت اوراس کے دین کی تبلیغ میں صرف کردیا اور بڑھاپے میں جب اولاد نصیب ہوئی تو اس کے لئے بھی یہی دین اور یہی کام پسند کیا‘‘ حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کا خلاصہ اور لُبِ لباب کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہے’’امتحان وآزمائش‘‘ جس کے لئے قرانِ حکیم کی جامع اصطلاح ’’ابتلائ‘‘ہے اور جب آزمایا ابراہیمؑ کواس کے رب نے بہت سی باتوں میں تو اُسنے ان سب کو پورا کردیا‘‘(البقرہ:۱۲۴) حیات دنیاوی بھی ربانی ارشاد کے مطابق ابتلاء وآزمائش ہی تو ہے ’’وہ جس نے پیدا کیا قوت اور زندگی کو کہ تمہیں آزمائے کہ کون ہے تم میں سے اچھا عمل کے اعتبار سے‘‘(الملک:۲) ابتلاء وآزمائش کی راہ قربانیوں اور جانثاریوں کی ہی تو راہ ہے اور قربانیوں کی راہ میں آنجنابؑ (جیسا کہ اوپر عرض کیا) ہر مرحلہ اور ہر گام پر سرخرو ہی نکلے۔ ہم جن حالات میں عیدالاضحی گزار رہے ہیں وہ حالات انتاہی گھمبیر، انتہائی بھیانک، انتہائی حوصلہ شکن اور انتہائی روح فرساہیں۔ ہرسو آتش وآہن، قتل وخون، عفت وعصمت کا چاک دامن، کٹی گردنیں، لٹی لٹی عصمتیں، غیر یقینی صبح وشامیں، غیر محفوظ ساعتیں عیدالاضحی ایسے مقدس ترین ملی تہوار کو گھیری ہوئی ہیں۔ جانوروں کی قربانی جو اس روز ہم اللہ کے حضور اُسی کی رضا وخوشنودی کیلے پیش کرتے ہیں وہ سادہ طور قربانی نہیں بلکہ ربانی ارشاد کے مطابق ’’اللہ تک نہیں پہنچتا ان قربانیوں کا گوشت یا خون، ہاں اُس تک رسائی ہے تمہارے تقویٰ کی‘‘(الحج:۳۷)
یہاں تقویٰ کے کے معنی ہیں؟تقویٰ کے معنی کی عملی تفسیر وہی نیت ہے جو ہم جانور کو ذبح کرتے وقت اپنی زبان سے یو ادا کرتے ہیںــ:میری نماز، میری قربانی، میراسم عبودیت، میری زندگی، میری قوت سب اللہ رب العالمین  ہی کے لئے ہے…گویا جانور کی قربانی ایک معنوی حقیقت کی ظاہری علامت ہے۔ اسی شخص کی قربانی حقیقی معنوں میں قربانی ہے جو جانور کو ذبح کرتے ہوئے اپنے وجود، اپنے اثاثہ اور مختصراً اپنی پوری زندگی کو اللہ کی رضا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے ہر آن کمر بستہ ہو وگر نہ یہ قربانی زیادہ سے زیادہ ایک رسم ہو سکتی ہے ابراہیمؑ کی سنت نہیں   ؎
نماز و روزہ قربانی وحج
یہ سب باقی ہیں، تو باقی نہیں ہے
روحِ قربانی ہمارے عمل ہی سے نہیں وہم وخیال سے بھی کب کی غائب ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ارب ساٹھ کروڑ کی ہماری مسلم آبادی بے عزتی، بے غیرتی اور بے حمیتی کی زندگی گزار رہی ہے۔ ابراہیمیؑ روح ہمارے ہاں پیدا ہو تو گلوبل سطح امت کیلئے جو آتش نمرود وآر آن ٹرر(War on Terorr) کی شکل میں دہکائی گئی ہے وہ سنتِ الٰہی ہی تحت گل وگلزار میں بدل جائے گی۔۔ ضرور بدل جائے گی انشاء اللہ۔ قربانی سے متعلق سید سلمان ندوی کے زریں خیالات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں’’ملت ابراہیمی کی اصل بنیاد قربانی تھی اور یہی قربانی حضرت ابراہیمؑ کی پیغمبرانہ اور روحانی زندگی کی اصلی خصوصیت تھی اور اس امتحان اور آزمائش میں پورا اترنے کے سبب سے وہ اور ان کی اولاد ہر قسم کی نعمتوں اور برکتوں سے مالامال کی گئی لیکن یہ قربانی کیاتھی؟ یہ محض خون اور گوشت کی قربانی نہ تھی۔ یہ ماسِواء اللہ اور غیر کی محبت کی قربانی خدا کی راہ میں تھی۔ یہ اپنی عزیز ترین متاع کو خدا کے سامنے پیش کردینے کی نذر تھی۔ یہ خدا کی اطاعت عبودیت اور کامل بندگی کا بے مثال منظر تھا۔ یہ تسلیم ورضا اور صبر وشکر کا وہ امتحان تھا جس کو پورا کئے بغیر دُنیا کی پیشوائی اور آخرت کی نیکی نہیں مل سکتی۔ یہ باپ کا پنے اکلوتے بیٹے کے خون سے زمین کو رنگین کردینا نہ تھا بلکہ خدا کے سامنے اپنے تمام جذبات خواہشوں، تمنائوں اور آرزووں کی قربانی تھی اور خدا کے حکم سامنے اپنے ہر قسم کے ارادے اور مرضی کو معدوم کردینا تھا اور جانور کی ظاہری قربانی اس اندرنی نقش کا ظاہری عکس اور اس خورشید حقیقت کا ظل مجاز تھا  ؎
اس دور پر آشوب ہیں اے عید نہ آتو
آتی ہے تو اندازِ ابراہیمیؑ سکھاجا

courtesy: Urdutimes Srinagar

AMERIKA ISLAM KE KHILAF HALATE JANG MEIN HAI - URDUTIMED BOMBAY

Courtesy UrduTimes Bombay

MYNMAR KE HALAT PAR MUSLIM MUMALIK KI KHAMOOSHI - MUNSIFDAILY


Saturday, 27 October 2012

عیدالاضحی۔۔۔۔ایثار پیشہ بننے کا درس

عیدالاضحی۔۔۔۔ایثار پیشہ بننے کا درس


آج عیدالاضحی تزک واحتشام اور مذہبی جوش وخروش سے منائی جارہی ہے ۔ ہرسُو خوشیوں اور مسرتوں کے شادیانے بج رہے ہیں۔ عیدگاہوں، مساجد،زیارت گاہوں اور خانقاہوں میں مسلمان اللہ کے حضور سجدہ ریز ہیں ۔قربانی کا فریضہ قریہ قریہ بستی بستی انجام دیا جارہا ہے۔بچے اور بچیاں اس روح پرور اور مسرت آگیں سماں کی کچھ زیادہ ہی شان بڑھاتے ہیں ۔ یہ سب مسلم معاشرے کی روایات کا حصہ ہے۔ عیدالاضحی کی خوشی کا مومنانہ زندگی میں کیا مفہوم اور مطلب ہے ، اس پر اگرچہ ائمہ اور خطباء روشنی ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے لیکن بہت کم اس دن کی مقصدیت پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے ۔ اس بناء پراگر یہ کہاجائے کہ عیدین محض روایت پرستی کا ایک بے ہنگم اعادہ بن کر رہ چکی ہیںتو مبالغہ نہ ہوگا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ عیدالفطر یا عیدالاضحی کلمہ خوانوں کے سامنے ایمان اور اعمال صالح کے لئے ایک خدائی ماڈل پیش کرتی ہیں ۔ بلاشبہ دُنیا کی مختلف اقوام میں تہواروں کا رواج ہے ۔ان مواقع پر قومیں جشن مناتی ہیں ، خوشی کا اظہار کرنے کے لئے وہ ناچ نغمے اورہمچو قسم کی اچھی بُری سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہوجاتے ہیں ۔اکثر وبیشتر یہ تہوار کسی مذہبی شخصیت ، قومی قائد ،فصل کٹائی ، موسم کی تبدیلی ،توہم پرستانہ خرافات یا کسی تاریخی واقعہ کی یاد میں منائے جاتے ہیں ، ان کا اثربھی صرف ظاہر داری تک محدود ہوتاہے ۔ اس کے برعکس اسلام عیدین کے حوالے سے خوشیوں اور شادیانوں کو ایک روحانی معنویت سے جوڑتی ہیں ۔گو اس روز خوش لباس ہونا ، اچھے اچھے پکوانوں سے لطف اندوز ہونا، دوست احباب اور عزیز واقارب سے محبت اور مؤدت کا سلوک کرنا ،حتیٰ کہ شرعی حدود کے دائرے میں صالحیت پر اُبھارنے والے ترانوں وغیرہ کی اجازت ہے ۔ اس سلسلے میں بعض شرائط بھی ہیں جن کو نظرانداز کرنا گویا عید کی خوشیوں کو خوداپنے ہاتھوں بے روح اور پژمردہ بنانے کامترادف ہے ۔ عید الفطر ایک روز ہ دار کو خداخوفی اور ضبط نفس کے قواعدوضوابط پرپورا اُترنے کے حوالے سے خدائی انعام ہے جبکہ عیدالاضحی ایک ایمان والے انسان کواللہ کی خوشنودی کے لئے قربانی اور ایثار کرنے پر اُبھارتاہے ۔ یہ اسے ذہنی، روحانی اور نفسیاتی طورآمادہ کرتی ہے کہ وہ رب کریم کو خوش کرنے کے لئے اپنے نفس کو آلودگیوں سے اس قدرپاک وصاف کرے کہ اگر اسے اپنی عزیزترین شئے بھی اللہ کی راہ میں قربانی کرنے کا حکم دیا جائے تو بلا چوں وچرا تیار ہو ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام ، جن کو مسلمانوں سمیت عیسائی اور یہودی بھی ایک اولوالعزم پیغمبر کے طور تسلیم کرتے ہیں ، نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار ، اپنی قوم ، اپنے وطن حتیٰ کہ اپنی اہلیہ اور معصوم فرزند تک کو بے آب وگیا صحرا میں تن تنہا چھوڑا اور آخر پر جب آپ ؑ کو یہ حکم خداوندی ہوا کہ اپنے لاڈلے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اب اللہ کی رضا کیلئے ذبح کرنے پر عمل درآمدکریں تو بغیر کسی ادنیٰ تامل کے آپ ؑنے یہ قربانی بھی پیش کرڈالی تو اللہ کی رحمت یکبارجوش میں آگئی اور آسانی کا معاملہ فرماکر ذبیح اللہ ؑ کامتبادل خود ہی خلیل اللہ ؑ کوفراہم کیا۔ چشم فلک نے دیکھ لیا کہ ایک پیغمبر کس طرح حُب الٰہی کودنیا ہر چیز پر اوّلین ترجیح دیتاہے ۔ اس کڑی آزمائش پرپورااُترنے کے بعد آج تک مسلمان اسی اسوۂ حسنہ کی تقلید میں عیدالاضحی کی خوشیاں مناتے ہیں ۔بہرحال عیدقربان کی خوشیاں منانے کا اصل بھید اس وقت تک نہیں کھل سکتا جب تک یہی خدا پرستانہ جذبہ ایک کلمہ گو کے رگ وپے میں پیوست نہ ہو جس کا اظہار حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کیا ۔بلاشبہ یہ بات تاقیامِ قیامت بعید از امکان وقیاس ہے کہ کوئی انسان اس قدر حُب الٰہی میں غرق ہو جس طرح اللہ کے یہ دوپیغمبرانِ عظام تھے ،باایں ہمہ ان کی یاد میں خوشیاں منانے کا حق ہمیں اسی صورت میں پہنچتاہے جب انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہم میںاتنا شعور وادراک پیدا ہو کہ کم از کم انسانیت کی خدمت ، دین دکھیوں کی دلجوئی ،یتیموں کی کفالت ، ناداروں کی اعانت ، معذوروں اور زمانے کے ستم رسیدہ لوگوں کے ساتھ اُنسیت اور سب سے بڑھ کر اپنے انسانی فرائض کی انجام دہی کے لئے ایثار ومحبت کا جذبہ ہمارے وجودِ خاکی میں پیوست ہوجائے ۔ عید قربان انہی اوصاف کی رونقیں ہماری زندگیوں میں بھرنے کے لئے ہر سال ذی الحجہ کے ایام میں ہمارے ضمیروں پر دستک دیتی ہے کہ آیا ہم محض اللہ کی خاطر ایثار پیشہ بننے کے لئے رضامند ہیں یا نہیں ۔کتنے خوش قسمت وہ صاحب ِ ایمان ہیںجو عیدالاضحی کی ان اعلیٰ وارفع انسان دوستانہ شرائط پر پورا اُترنے کے سبب حقیقی خوشیاں منانے کے اہل ٹھہرتے ہیں۔

courtesy: Kashmir Times Srinagar

GOSHT KHORI - HAQAIQ AUR GHALAT FAHMIYAN

Munsif Hyderabad

QAFQAZ KI SURATEHAL AUR ISLAM PASAND TAHERIKEIN


MALALA- MAGHRIB KYOUN TADPA

courtesy: Munsif Hyderabad

PANAH GAZEEN CAMPON MEIN

courtesy: Munsif Hyderabad

EID-AL-ADHA KA PAIGHAM


Sunday, 7 October 2012

WAH RE AZADIYE IZHAR

واہ رے آزادیٔ اظہار
قلم کے بعداب فلم کے فتنے

ایک طرف امریکہ میںنو گیارہ سانحہ کی گیارہویں برسی کے موقع پر ریلیز کی جانے والی اشتعال انگیزفلم شہ سرخیوں میں ہے جس میں اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں دریدہ د ہنی کی گئی ہے کہ عالم اسلام میں فلم ساز ، کا سٹ اور امریکہ کی شدید مذمت مسلسل کی جا رہی ہے ۔ مصر کی سب سے بڑی دینی یو نیورسٹی جامعہ الازہرنے’محمد الرسول اللہؐ کے ٹرائل کا عالمی دن‘ کے نام سے تیار کی گئی فلم کو مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے اور فرقہ واریت پھیلانے کی سازش قرار دیتے ہوئے فلم پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ جامعہ الازہر کا کہنا ہے کہ یہ فلم کینہ پرور اور بیمار ذہنیت کے لوگوں کی اسلام دشمنی اور تعصب کا ایک واضح ثبوت ہے۔ مسلما ن چا ہے کتنے ہی گئے گزرے ہو ں وہ آزادی ٔاظہار کی آڑ میں اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند وبرتر شان میں گستاخانہ حرکات کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ادھر عوامی جمہوریہ مصر کے مفتی اعظم ڈاکٹر علی جمعہ نے اپنے ایک بیان میں نو گیارہ کی برسی کے موقع پرامریکی قبطیوں کی جانب سے گستاخانہ فلم ریلیز کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام دشمن عناصر اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیںجب کہ آزادیٔ اظہار الگ چیز ہے اور مقدس ہستیوں کی توہین بالکل الگ معاملہ ہے۔ اسلام سمیت دنیا کا کوئی مذہب مخالف مذہب کی شخصیات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی کوئی مذہب ایسی شرمناک حرکات کو آزادیٔ اظہار تسلیم کرتا ہے۔ یہ انسانی حقوق اور آزادی کا اظہار نہیں بلکہ عالمی انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہے۔ مٹھی بھر شر پسند عناصر اربوں مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کی مکروہ کوشش کر یں تو اس سے مذ ہبی رواداری ، بقائے باہم اور افہام و تفہیم کی صحت مند سوچ کو دھچکہ پہنچنا ظاہر سی با ت ہے۔ شیخ علی جمعہ نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور آزادی کے عالمی  علمبرداروںسے برحق مطالبہ کیا کہ وہ شر پسندوں کے ہاتھوں اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کی جانے والی گستاخیوں کانہ صرف سلسلہ بند کروائیںبلکہ اخلاق باختہ گستاخانہ فلم کے تمام کرداروں کے خلاف عالمی قوانین کے تحت کارروائی بھی کی جائے۔ درایں اثناء مصری محکمہ اوقاف و مذہبی امور نے بھی امریکی قبطیوں کی گستاخانہ فلم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلم امریکہ میں موجود قبطی شرپسندوں کی گندی ذہنیت کی عکاسی کر رہی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والاشان میں ایسی گستاخی ناقابل معافی سنگین جرم ہے۔ خیال رہے کہ امریکہ میں گذشتہ روزنوگیارہ کی گیارہویں برسی کے موقع پر مصری نژاد قبطیوں کی جانب سے ایک گستاخانہ فلم کے نہ صرف کچھ اجزاء دکھائے گئے تھے بلکہ اس کے ساتھ پوری فلم نشر کرنے کابھی اعلان بھی کیا گیا تھا۔’مسلما ن کی معصومیت‘ کے عنوان سے ریلیز کردہ اس فلم میں اسلام کو نوگیارہ کے واقعات کانہ صرف موجب بلکہ مسلمانوں کو اس کا ذمہ داربھی قراردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ فلم میں مصرمیں برپا ہونے والے انقلاب کو بھی منفی پینٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ فلم مشہورگستاخ رسول امریکی پادری ٹیری جونزکی مدد سے تیار کی گئی ہے جس نے علی اعلان اس فلم کو پردہ سیمیں پرنما ئش کااعلان کیا تھا، تاہم عالمی دباؤ اور عالم اسلام کی جانب سے ممکنہ طورپر شدید رد عمل کے خوف سے امریکی انتظامیہ نے فی الحال مکمل فلم نشر کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ البتہ فلم کے کچھ مناظر یو ٹیو ب پر دیدہ ودانستہ طور لائے گئے ۔
  امریکی پادریوں اور قبطیوں کی اسلام مخالف فلم کے ردعمل میں نہ صرف عالم اسلام میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے بلکہ خود مصر اور دوسرے ممالک میں موجود قبطیوں کی نمائندہ تنظیموں نے بھی فلم پر پابندی کا مطالبہ کیا ۔مصری اخبار ’الیوم السابع‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی پادری ٹیری جونز کی جانب سے گستاخانہ فلم نشر کرنے کے اعلان کے فوری بعد مصر اور دنیا بھرکی 120 قبطی تنظیموں نے گستاخانہ فلم کی مذمت کی اورامریکی انتظامیہ سے اسے نشر کرنے سے روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔امریکی اور مصری قبطیوں کی جانب سے جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں گستاخانہ فلم کی تیاری سے وہ مکمل طورپرلا علم تھے۔ وہ اس طرح کی گھٹیا کاموں کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ ہمیں جیسے ہی اس آ تشیں فلم کے بارے میںپتہ چلا ہے تو ہم نے فوری طور پر امریکی انتظامیہ سے فلم کی تشہیر اور اس کی پیشکش روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ وہ کسی بھی مذہب اور اس کی برگزیدہ شخصیات کی شان میں توہین کی حمایت نہیں کرتے، چاہے یہ توہین ان کے ہم مذہب اور ہم خیال لوگوں کی جانب سے ہی کیوں نہ کی گئی ہو۔ مصری میڈیا کو قبطیوں کی جانب سے موصولہ مذمتی بیان پر امریکہ کے صفوت حنا، ابراہیم شفیق، کینیڈا کے سامی عبدالمسیح، فرانس کے شنودہ توفیق، آسٹریلیا کے میرنا صدیق جیسے اہم قبطی رہنماؤں کے دستخط ثبت ہیں۔
ہندوستانی فلم ہدایت کارہ دیپا مہتہ نے10 ستمبر 2012کو کہا کہ سلمان رشدی کی کتاب ’مڈ نائٹس چلڈرن‘ پر مبنی ان کی فلم شاید ہندوستان میں ریلیز نہ ہو سکے۔اپنی ہی کمیونٹی میں ترچھی نگاہ سے دیکھی جانے والی دیپا مہتہ نے روزنامہ ’دی ہندوستان ٹائمز‘ کو بتایا کہ ان کی فلم ہندوستان پر ہی مبنی ہے لیکن ابھی تک ملک میں کوئی ڈسٹری بیوٹر نہیں مل سکا ہے۔اس کے باوجود نہ جانے کس خوش فہمی کے تحت ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بڑے افسوس کی بات ہوگی اگر چند سیاستدانوں نے ہندوستانی قوم کو اس فلم کے بارے میں خود فیصلہ نہ کرنے دیا۔‘کینیڈا میں ٹورنٹو فلم فیسٹیول میں اس فلم کو نمائش کیلئے پیش کیا جا چکا ہے۔دیپا مہتہ نے اخبار کو بتایا کہ سلمان رشدی ’اکثر کہتے رہے ہیں کہ ان کی کتاب ہندوستان کے لئے’ محبت بھرے خطوط‘ پر مبنی ہے اور فلم میں وہی محبت جھلکتی ہے۔‘اخبار نے اس جانب اشارہ بھی کیا ہے کہ چونکہ سلمان رشدی کی کتاب ’مڈ نائٹس چلڈرن‘ میں ہندوستان کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی پر نکتہ چینی کی گئی ہے شاید اسی لئے ڈسٹری بیوٹر کا ملنا مشکل ہو۔ہندوستان میں اس وقت حکمراں جماعت کانگریس پارٹی کی حکومت ہے جو گاندھی خاندان کے زیر اثر ہے اور شاید کوئی بھی ڈسٹری بیوٹر اس سے تعلقات خراب کرنا نہ چاہے۔ ویسے فلم ساز دیپا مہتہ اور سلمان رشدی دونوں ہی ہندوستان میں متنازعہ شخصیات ہیں۔ سلمان رشدی کی کتاب ’سٹینک ورسز‘ پر ہندوستان میں اب بھی پابندی عائد ہے۔ان کے خلاف ہندوستان میں مسلم تنظمیں مظاہرے بھی وقتاًفوقتاً کرتی رہی ہیں اور وہ گزشتہ جے پور ادبی فیسٹیول میں اسی لئے نہیں آئے تھے۔دیپا مہتہ نے اس سے پہلے خواتین کی ہم جنس پرستی پر مبنی فلم ’واٹر‘ بنائی تھی جس کی شوٹنگ ہندوؤں کے مقدم شہر بنارس میں ہونی تھی لیکن ہندو تنظیموں نے اس کی اجازت نہیں دی تھی۔بعد میں انہوں نے فلم کی شوٹنگ سری لنکا میں کی۔ سلمان رشدی کی کتاب پر مبنی فلم بھی انہوں نے سری لنکا میں ہی شوٹ کی ہے۔
جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے ‘انڈین پریس کونسل کے صدر اور سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجونے حال ہی میںآزادیٔ اظہار رائے کا قانونی پہلوپیش کرکے5 نکات کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے جس میںسب سے پہلی بات تو یہ کہ ہر جمہوری نظام میں اظہار کی آزادی کا حق اہم ہے۔ جمہوریت کی ترقی کے لئے لکھنے، بولنے اور کسی معاملہ یا نکتہ نظر کے با رے میںاپنی نا اتفاقی یا اختلاف رائے ظاہر کرنے کی آزادی ضروری ہے۔ اس کے بغیر خیالات کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ عبوریت کے اس دور میں ترقی یافتہ ملک ہندوستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک میں دیگرایجادات کے علاوہ جدید خیالات کوبھی آزما رہے ہیں اور یہ ان کیلئے بہت اہم ہے لیکن چونکہ انسان ایک معاشرتی مخلوق ہے، اس لئے اسے یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ اس کی خودمختاری سے معاشرتی تانے بانے کو کسی طرح کی نقصان پہنچے۔چنا نچہ ہندوستانی آئین کی دفعہ 19 (1) (ا) کی طرف سے جہاں ملک کے باشندوں کو اظہار کی آزادی فراہم کی گئی ہے، وہیں 19 (2) میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ دفعہ 19 (1) (ا) کی طرف سے فراہم کئے گئے اظہار کے حق پر ریاست، عوامی نظام، شرافت اور اخلاقیات کے مفاد میں پابندی بھی عائد جا سکتے ہیں۔ عوامی مفاد اظہار کی آزادی کا ایک لازمی عنصر ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان دونوں کے درمیان توازن قائم کرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے لیکن یہ توازن کس مرحلے پر جا کر قائم کیا جائے ؟یہ ایک اہم سوال ضرور ہے۔ دوسرا نکتہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ توازن کس مرحلے پر قائم کیا جائے؟ اس سلسلہ میں غور کرتے وقت کسی غیر مرئی اور تصواراتی اجحانات اور خیالات کی بجائے مخصوص تاریخی حوالوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ ’دی سیٹینک ورسز‘ میں سلمان رشدی نے اسلام اور پیغمبراسلام ؐکے بارے میں کچھ قابل اعتراض باتیں کہی تھیں۔ انہو ں نے کفر بک کر مغرب میں پذیرائی پا ئی تو پا ئی مگر خودان کی زندگی موت سے بدتر ہو کر رہ گئی ۔ ممکن ہے کہ اس طرح کی سنسنی خیزی کے ذریعے رشدی نے لاکھوں ڈالر بھلے ہی کما لئے ہوں لیکن اس سے مسلمانوں کے جذبات کوشدید نقصان پہنچا ہے۔بقول کاٹجوکچھ لوگ رشدی کو اس لئے’ عظیم‘ مصنف سمجھتے ہیں کیونکہ اس نے بو کرایوارڈ جیتا ہے۔ اس سلسلے میں میں یہ ماننا پڑے گا کہ ادب اور فن کے انعام اکثر پرُاسرار ہوتے ہیں یا ایک قسم کی ذہنی رشوت۔ ابھی تک تقریبا ًسو ادیبوں کو ادب کا نوبل انعام دیا جا چکا ہے لیکن ان میں سے اسی سے اکثرادیبوں کے نام بھی کسی کو یاد نہیں ہوں گے جب کہ کئی دیگر عظیم ادیبوں کو یہ انعام نہیں دیا گیا۔ اس لئے میرا ووٹ ہے کہ بو کر ایوارڈ جیتنے سے مزید کچھ ثابت نہیں ہوتا۔تیسری بات یہ کہ یہ افسوس ناک امر ہے کہ جے پور ادب تقریب رُشدی واقعہ کی وجہ سے تذکرے اور بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے اور اس وجہ سے ہندوستان اور دنیا کے دیگر ادیبوں پرخاطر خواہ تذکرہ نہیں ہو سکا جب کہ امیدکی جارہی تھی کہ اس ادب تقریب میں کبیر، پریم چند، شرت چندر، منٹو، قاضی نذرالاسلام، غالب، فیض جیسے ہندوستانی اور ڈیکنس، برنارڈ شا، اپٹن سنک لئیر، والٹ وٹمین، وک تومر ہیوگو، فلابیر، بالجاک، گیٹے، شلر، ٹالسٹائے، دستوایوسکی ، گورکی جیسے غیر ملکی ادیبوں پر خوب تبادلۂ خیالات ہوگا لیکن اس کی بجائے پوری توجہ سلمان رشدی واقعہ پر ہی مرکوز رہی۔ اس موضوع پر کافی ہائے توبہ مچائی گئی کہ اظہار کی آزادی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔وزیر اعظم نے حال ہی میں کہا تھا کہ ملک کے 42 فیصد بچوں کا اچھی پرورش سے محروم ہونا قومی شرم ہے۔ گزشتہ 15برسوں میں ملک میں ڈھائی لاکھ کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ بے روزگاری کا مسئلہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ غربت اورناداری کا بول بالا ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے،تعلیم، صحت، رہائش جیسی بنیادی ضروریات کا بحران ہے، وہیں دوسری طرف ملک میں ایسے 49 ارب پتی بھی ہیں جن کی املاک ڈالروں میں ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان کی خلیج نہایت عمیق ہو گئی ہے۔ کیا ادب کو ان مسائل کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہئے ؟کیا ہم محض رُشدی کی اظہار کی آزادی کے بارے میں ہی بات کرتے رہیں گے؟ ہندوستانی عوام الناس کے لئے آزادی کا مطلب ہے بھوک، ناخواندگی، بے روزگاری اور تمام طرح کی لعنت سے آزادی، رُشدی کی گھٹیا کتابیں پڑھنا نہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ اس قسم کی تنازعہ کی لہریں پیدا کرنے والی تمام کتابیں غیر معیاری ہوتی ہیں بلکہ وول لئیر، روسو، تھامس پین جیسے ادیبوں کی تخلیقات نے اپنے زمانہ میں سرگرم مداخلت کی تھی لیکن ’مڈنائٹس چلڈرن‘ اور ‘دی سیٹینک ورسز‘ جیسی کتابوں کی معاشرتی مطابقت بھلا کیاکی جاسکتی ہے؟  پہلے بھی کہا جا چکا ہے کہ بعض ہندوستانی آج بھی نو آبادیاتی احساس کے شکار ہیں۔‘واضح رہے کہ نو آبادیات کا مفہوم عم طور پر ماضی میں برطانوی آقاو ں کی برتری تسلیم کرتے ہوئے احساس کمتری کے ساتھ خود کو غلامانہ ذلت کا پابند تسلیم کرنا سمجھا جاتا ہے۔ بہر کیف سپریم کورٹ کے سابق جسٹس کے بقول ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ لندن یا نیویارک میں بیٹھ کر لکھنے والا ہر مصنف’ عظیم‘ ہے جب کہ ہندوستان میں اور خاص طور پر علاقائی زبانوں میں لکھنے والا ہر مصنف ان کے مقابلے میں محض ثانوی حیثیت کا درجہ رکھتا ہے۔چوتھی بات یہ کہ ہندوستان کثیر المذاہب اور کثیر العقائد یعنی تکثیریت پر مبنی ’متنوع‘ ملک ہے۔یہاں بڑے پیمانے پر غیر ملکی اور خاص طور پر شمال مغربی خطوں سے ہندوستان آئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ ہندوستان میں ذات، مذہب، زبان اور نسلوں کی تنوع کی وجہ سے ہمارے لئے واحد کارگر طریقہ سیکولرازم اور دیانتداری سے تمام مذاہب کے تھیں احترام ر ہا ہے جسے ہمارے آئین نے بھی تسلیم کیا ہے۔مذہب عقیدے کا موضوع ہے، منطقی دلیل یا جرح وتعدیل کا نہیں۔ چونکہ ہندوستان میں مذہب آج بھی لوگوں کی زندگی میں ایک اہم مقام رکھتا ہے، اس لئے یہ خیال رکھا جانا چاہئے کہ آزادیٔ اظہار کے نام پر کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے جب کہ رشدی کی کتاب نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو شدیدٹھیس پہنچائی ہے۔ ایسے میں یہ قابل غور ہے کہ جے پور میں اسے اتنی اہمیت دئے جانے کے پس پردہ وجہ کیا تھی؟
  آخری بات یہ کہ ہندوستان عبوری دور سے گزر رہا ہے۔ وہ جاگیردارانہ نظام سے جدید صنعتی معاشرہ بننے کی طرف گامزن ہے۔ یوروپ کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ملک کیلئے اس قسم کا عبوری دور نہایت آزمائشی اور چیلنج سے بھرپور ہوتا ہے۔ ہندوستان بہت مشکل سے اور متعددقربانیاں دینے کے بعد جاگیردارانہ نظام کے تاریک زمانہ سے باہر نکل سکا ہے۔ کیا اسے دوبارہ پیچھے دھکیل دیا جانا چاہئے؟میری واضح منشاء اوررائے یہ ہے کہ اظہار کی آزادی کا مقصد منطقی اور سائنسی نظریات کی تشہیر ہونا چاہئے، کسی مذہب کی توہین یا مذ ہبی شخصیات کی تذ لیل کرنا نہیں کیونکہ اسی طرح ہم عبوریت کی اس حالت کا اچھی طرح سامنا کر سکیں گے۔ملک کاامن پسند طبقہ یہ سمجھنے سے قاصرہے کہ سلمان رشدی کے خلاف جسٹس کاٹجو کے مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں آ خر کیوں قانون و انتظام کے حامی اس قدر خاموش اور غافل کیو ں رہے یہا ں تک کہ دیپا مہتہ نے فلم تک بنا ڈالی

JOSH. MAGAR HOSH KE SATH

Courtesy: Munsif Hyderabad

MOHAZZIB DUNIYA KA SAB SE BADA JHOOT

courtesy: Urdu Times Bombay