Search This Blog

Friday, 16 November 2012

اسرائیل کے کے دباؤمیں مسجداقصی کے امام شیخ صیّام کو ویزا دینے سے انکار

اسرائیل کے کے دباؤمیں مسجداقصی کے امام شیخ صیّام کو ویزا دینے سے انکار
جمعہ کی نماز مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب حفظہ اللہ پڑھائیں گے 

جامعۃ الفلاح کی گولڈن جوبلی تقریبات کا آغا 16 nov کو جمعہ کی نماز سے ہورہا ہے ، اعلان کے مطابق مسجد اقصی کے سابق امام شیخ صیام کو جمعہ کی نماز پڑھا نی تھی جس کی منظوری بھی انہوں نے دے دی تھی اور ویزا کے لئے اپنا پاسپورٹ یمن میں ہندوستانی سفارتخانے میں جمع کرادیا تھا ، ویزا جاری کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی لیکن عین وقت پر ویزا دینے سے انکار کردیا گیاجبکہ مرکزی سرکار کے سینئر وزراء سے رابطہ کیاگیا اور یہ بات واضح کی گئی کہ امام صاحب ایک معروف داعی ہیں اور اس سے پہلے بھی ہندوستان کا دورہ کرچکے ہیں اور ان کے خطابات سے لاکھوں لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے لیکن مرکزی سرکار پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اپنی مسلم دشمنی کی پالیسی پر گامزن رہی۔سلمان رشدی کو ویزا مل سکتا ہے مگر امام صیام جیسی محترم شخصیت کو ویزا نہیں دیا جاسکا ،
اس غیر منصفانہ فیصلے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے ،چونکہ قبلۂ اول سے مسلمانوں کو بے پناہ عقیدت و محبت ہے اس لئے حکومت کی اس حرکت پر عوام میں شدید ناراضگی اور غم و غصہ ہے ایسا لگتا ہے کہ مرکزی سرکار امریکہ اور اسرائیل کے اشارے پر چلتی ہے اور اسے مسلمانوں کے جذبات کی کوئی پرواہ نہیں ہے امام صاحب نے اپنے پیغام میں بڑھے دکھ کا اظہار کیا ہے اوریہ واضح کیا ہے کہ اس پروگرام میں شرکت کی دلی تمنا تھی جامعہ سے مجھے بہت لگاؤ ہے ، پہلے بھی ایک بار آچکا ہوں اس وقت بھی دل آپ لوگوں کے ساتھ ہے اور گولڈن جوبلی کی کامیابی کیلئے دست بدعا ہوں ۔ حکومت ہند کے فیصلے کے خلاف انہوں نے سخت احتجاج کیا ہے ۔
پروگرام کے منتظم کی حیثیت سے مجھے اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ لوگوں کو بڑی مایوسی ہوگی اور امام صاحب کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی خواہش پوری نہیں ہوگی اپنی طرف سے ہم لوگوں نے پوری کوشش کی اور ہمارے بہی خواہوں نے بھی بھرپور تعاون کیا لیکن سرکار کی ہٹ دھرمی اپنی جگہ قائم رہی اللہ کو جو منظور ہوتا ہے وہی ہوتا ہے اور کسی چیز میں کیا مصلحت ہے انسان نہیں جانتا ، لوگوں کو ہونے والی تکلیف کیلئے ہم معذرت خواہ ہیں ۔
ہم مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہماری درخواست قبول کی انشاء اللہ جمعہ کی نماز وہی پڑھائیں گے۔

محمد طاہر مدنی
( ناظم جامعۃ الفلاح)

Thursday, 8 November 2012

AURAT KI AZMAT KO TARAZOO MEIN NA TOL

عورت کی عظمت کو ترازو میں نہ تول


…..افشاں مراد

کائنات کے حسین رنگوں، کومل جذبوں، مہکتے احساسات کی صلیب کاندھے پر اٹھائے رب ذوالجلال کی ایک ایسی تخلیق جوہر روپ اور ہر رشتے میں اپنا آپ منوالیتی ہے وہ ایک عورت ہی ہے۔
ان نازک جذبات واحساسات کے ساتھ ساتھ آج کی عورت آہنی اعصاب بھی رکھتی ہے۔ آج بدلتے زمانے کے تغیّرات نے ہر کس وناکس کو حیران اور متحیّر کردیا ہے۔ ایسے میں زندگی کے نظم ونسق کو اس کی ترتیب سے چلانا، ایک عورت ہی کے بس کی بات ہے۔ عورت اپنے آہنی اعصاب کے ساتھ (ایک عورت کو ہم آہنی اعصاب کا فائد ہی کہیں گے کیونکہ اپنی پوری زندگی میں عورت اپنے ساتھ جتنے رویے، جتنے رشتے اور جتنے حالات و واقعات سے کامیابی سے گزرتی ہے وہ کم از کم مردوں کے بس کی بات تو نہیں) اپنے گھر بار کو جس طرح سنبھالتی ہے اور اگر وہ ایک ملازمت پیشہ عورت بھی ہے تو پھر تو وہ دوہرے امتحان سے گزر رہی ہوتی ہے۔ جس میں اسے گھر کے ساتھ ساتھ باہر والوں کو بھی برداشت کرنا ہوتا ہے۔
گھر میں اگر وہ اپنے علیحدہ گھر، اپنی راج دھانی کی بلاشرکت غیرے مالک ہے تو پھر بھی اس کی آزمائش میں اتنا تنوع نہیں ہوتا جتنا مشترکہ خاندانی نظام کے تحت رہنے والی خواتین کو گزرنا ہوتا ہے۔ ان سب رشتوں میں توازن رکھنا بڑے ہی دل گردے کا کام ہے اور پھر ان کے اپنے ساتھ لے کر چلنا بھی ایک فن ہے۔ جو خواتین اپنے حالات ، اپنے رشتوں، اپنے رویوں میں توازن رکھ کر آگے بڑھتی رہتی ہیں وہ کامیابی سے اپنی منزل پر پہنچ جاتی ہیں۔ لیکن جو ہمت ہار بیٹھی ہیں۔ وہ خودکشی، طلاق، خلع یا پاگل پن کی لپیٹ میں آجاتی ہیں۔ کیونکہ آج مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، دہشت گردی نے جہاں مردوں کو متاثر کیا ہے وہیں گھر بیٹھی عورت یا ملازمت پیشہ خواتین بھی اس کے اثر سے بچ نہیں سکیں۔ ان خوفناک عفریتوں سے متاثرہ مرد اپنی ساری جھنجلاہٹ، بیزاری باہر ملی ہوئی توہین اور غصہ، گھر آکر بیوی، بہن، ماں یا بیٹی پر انڈیل دیتا ہے۔ کتنے ہی گھرانوں میں ایسا ہوتا ہے کہ وہاں رہنے والی خواتین گھر والوں کے ناروا سلوک کی بناء پر نفسیاتی عوارض کاشکار ہوجاتی ہیں۔ بے خوابی تو آج کل ویسے ہی عام مرض ہے، بلڈ پریشر، ڈپریشن اور فرسٹریشن یہ سب بھی ان خواتین میں زیادہ پایا جاتا ہے جو بے چاری اپنے مردوں کی ساری ٹینشن اپنے اوپر طاری کرلیتی ہیں۔ ایسی خواتین اپنے گھر کو جنت بنانے کی خاطر ہر دکھ، ہر غم ہنس کر جھیلنے کی خواہش میں خود ادھ موئی جاتی ہیں اور جواب میں بعض اوقات انہیں دو جملے ستائش بھی سننے کو نہیں ملتی۔
آج عورت نے اپنا آپ زندگی کے ہر شعبے میں منوایا ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی شعبہ ہو، آج عورت کی کامیابیاں ان مردوں کے منہ پر طمانچہ ہیں جو عورت کو ناقص العقل کہتے ہیں۔ ان مردوں کے لیے باعث حیرت ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ عورت پیر کی جوتی ہے۔ آج وہی مرد اس پیر کی جوتی کو سر کا تاج بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان کا آدھا معاشی بوجھ بانٹ لیتی ہے۔ آج کی عورت ایک ماں ، بہن، بیٹی، بیوی کے ساتھ ساتھ ایک بیوٹیشن، ایک اچھی استاد، ایک اچھی ایڈمنسٹریٹر، ایک اچھی وکیل، ایک اچھی اینکرپرسن وغیرہ بھی ہے۔ اس کی قابلیت میں کسی شک وشعبے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
آج اگر عورت کے مقام اور عورت کی عظمت پر مردوں سے کوئی بات کی جائے تو ان کے پاس الفاظ ختم ہوجاتے ہیں۔ انہیں یاد رہتا ہے تو اپنا ’’قوّام‘‘ ہونا۔ باقی عورت کی عزت وتکریم اور اسلام میں عورت کے احترام اور مقام پر کیا قرآن وحدیث میں آیا ہے۔ اس بارے میں ہمارے مردوں کو کوئی علم نہیں۔ اور نہ وہ جاننا چاہتے ہیں اور غالباً معاشرے میں بگاڑ کی ایک اہم وجہ بھی یہی ہے۔ یہ لاعلمی ہمارے گھروں کومنتشر کررہی ہے۔ نہ مرد عورت کو عزت واحترام کے لائق سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کے گھر والے، اور یہی ذلت عورت کو تباہ وبرباد کردیتی ہے اور ایسے لاعلم مرد جب گھر سے باہر جاتے ہیں تو بھی عورت کو اپنے سے کمتر کی حیثیت سے ہی ڈیل کرتے ہیں جس کی وجہ سے دفتروں کا ماحول بھی کشیدہ ہوجاتا ہے۔
اور ایسے مردوں کے سرپر اگر عورت باس بن جائے تو پھر…؟ ہم اور آپ ایسے لوگوں کی ذہنی کیفیت کو خوب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے لوگ پھر دفتری کاموں میں بھی رکاوٹیں ڈالنا اور رخنہ ڈالنا اپنا فرض سمجھ لیتے ہیں اور دفتر کا غصہ اور فرسٹریشن گھر آکر بیچاری بیوی پر نکالتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ آج اگر عورت اپنا گھر بنانے میں اپنا تن، من، دھن وار رہی ہے تو اس کی قدر کریں اور اس کوا پنی محبت سے جیتنے کی کوشش کریں نہ کہ اس کو قربانیاں دیتا دیکھ کر اس کو اور رگڑ ڈالیں۔ عورت کا ضمیر محبت سے گندھا ہے، اسے محبت ہی تسخیر کرتی ہے، ظلم، زیادتی، جبر، تشدد، عورت کو توڑ ضرور دیتا ہے اسے جھکا نہیں سکتا اور پھر اسے جب موقع ملتا ہے وہ ایسی زنجیروں کو توڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن محض محبت کے چند لمحے یا محبت سے کی گئی چھوٹی سی ستائش پر یہ پگلی اپنا آپ لٹانے پر تیار ہوجاتی ہے۔ گھر میں یا گھر سے باہر عورت کو دی گئی تھوڑی سی عزت، گھر اور معاشرے دونوں کو بہتر بنا سکتی ہے۔
یہ عورت ہی ہے جو ماں بن کر اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہے، یہ عورت ہی ہے جو بیٹی بن کر خاندان کی عزت کا بوجھ اپنے نازک کندھے پر سہارتی ہے، یہ عورت ہی ہے جو بہن بن کر اپنے بھائیوں کے لیے مجسم دعا بن جاتی ہے، یہ عورت ہی ہے جو بیوی بن کر اپنے سائبان ، اپنے سرتاج، اپنے شوہر کی بہترین رفیق کار بن جاتی ہے۔ اس کی ہر مشکل، ہر پریشانی میں اس کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوتی ہے۔
اس لیے عورت کو اس کے اصل روپ میں دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو پیار، محبت اور عزت کے ہتھیار سے تسخیر کرنے کی کوشش کی جائے، محض، ذلت، رسوائی اور غلامی کا طوق اسے باغی کردیتا ہے اور عورت کی بغاوت معاشرے میں ایسا بگاڑ پیدا کرتی ہے جس کا خمیازہ صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔

EK TAJWEEZ AUR USKE PAS PARDA SOCH

ایک تجویز اور اس کے پس پردہ سوچ


محمد صبغت اللہ ندوی

گزشتہ دنوں ہر یانہ میں جاٹ برادری کی ایک کھاپ پنچایت ہوئی تھی، اس میں دیگر باتوں کے سوا ایک اہم مسئلہ یہ اٹھایا گیا کہ خواتین کے ساتھ زیادتی، بے راہ روی اور گھر سے فرار ہوکر شادی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سرکاری طور پر ملک میں شادی کی عمر سولہ برس کردی جائے۔ آل انڈیا جاٹ مہاسبھا کے ریاستی صدر اوم پرکاش مان کا کہنا ہے کہ ملک میں پہلے ایسا ہی ہوتا تھا، وہ مرکزی حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ شادی کی عمر کم کرکے سولہ برس کردی جائے جوفی الحال قانونی طور پر لڑکیوں کے لیے اٹھارہ برس اور لڑکوں کے لیے ۲۱ برس مقرر ہے۔ ایک کھاپ پنچایت نے جہاں مذکورہ تجویز پیش کی ہے، دوسری کھاپ پنچایتوں نے اسے مسترد کردیا ہے۔ ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اوم پرکاش چوٹالہ بھی اس تجویز کے حق میں ہیں اور اس سلسلے میں ریاست کے گورنر جگناتھ پہاڑیا کو ایک میمورنڈم بھی پیش کیا گیا ہے۔
یوں تو کھاپ پنچایتیں اپنے عجیب وغریب فیصلے کے لیے ہمیشہ سے بدنام رہی ہیں اور ان پر اکثر تنازعات کھڑے کیے جاتے رہے ہیں۔ ملک کا آزاد خیال میڈیا تو پہلی فرصت میں کھاپ پنچایتوں کے فیصلوں کی مخالف کرتا ہے اور اکثر وبیشتر وہ ان فیصلوں کے لیے طالبانی یا تغلقی فرمان جیسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ کوئی بھی ان فیصلوں کے پس منظر یا ان کے پیچھے سوچ پر ٹھنڈے دماغ سے غور نہیں کرتا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ کھاپ پنچایتوں کے فیصلے صحیح ہوتے ہیں اور بلاوجہ ان کی مخالفت اور ان پر تنقیدکی جاتی ہے۔ ان کا فیصلہ غلط ہوسکتا ہے، ان کا اندازہ بھی غلط ہوسکتا ہے، لیکن ان کی سوچ غلط نہیں ہوسکتی اور وہ سوچ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی کہ وہ سماجی برائیوں کی اصلاح چاہتی ہیں، لیکن اصلاح کا طریقہ اور انداز یا تو خطرناک یا مضحکہ خیز ہوتا ہے، تاہم سوچ مثبت ہوتی ہے۔ اس طرح کے فیصلوں کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ وہ چاہتے ہیں کہ سماج میں جو بُرائیاں پنپ رہی ہیں یا پھیل رہی ہیں، جن سے معاشرہ خراب ہورہا ہے، ان کی عزت پر بھی آنچ آرہی ہے۔ چونکہ کھاپ پنچایتوں کے فیصلوں کی مخالفت کرنے والے عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا امر واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، لیکن اگر وہی واقعہ ان کے ساتھ پیش آئے اور وہ اپنے آپ کو کھاپ پنچایتیں کرنے والوں کی جگہ پر رکھ کر دیکھیں اور پھر اپنے ضمیر سے پوچھیں تو شاید ان کی رائے بھی وہی ہوگی جو کھاپ پنچایتیں کرنے والوں کی ہوتی ہے۔ کوئی بھی اس پہلو سے نہیں سوچتا، اس لیے صرف کھاپ پنچایتیں ہی بدنام ہورہی ہیں۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کس طرح ہو، یہ بات تو سب ہی مانتے ہیں کہ ملک میں سماجی بُرائیوں کا دائرہ بڑھتا جارہا ہے۔ شادی کے بغیر ساتھ رہنا، ہم جنسی کی شادی، کرائے کی کوکھ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ نوجوانوں کے ذریعے خواتین کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات جیسے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جس ہریانہ میں جاٹ برادری کی طرف سے شادی کی عمر کم کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے، وہاں پچھلے ماہ خواتین کے ساتھ زیادتی کے ۱۳ واقعات پیش آئے۔ ۹ اکتوبر کے ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ریاست میں اس معاملے پر کافی ہنگامہ ہورہا ہے۔ آخر حکومت غیر اخلاقی حرکات کو کب تک قانونی مدد فراہم کرتی رہے گی۔ ایسی حرکتوں کی حوصلہ افزائی یا قانون سازی کے ذریعے تحفظ فراہم کرکے سماجی بُرائیوں کے مسائل کو کم نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ اور بڑھیں گے اور ہم دیکھ بھی رہے ہیں۔ مغربی تہذیب کی نقل ہندوستان میں وہ تباہی مچارہی ہے جس کے بارے میں ہم ایک دو دہائی قبل تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ انسان اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں رہا۔ بچہ بالغ ہونے کے بعد ازروئے قانون سارے فیصلے خود کرنے لگتا ہے، جن ماں باپ نے اس کی پرورش کرکے اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا اہل بنایا، اب ان کے فیصلوں میں ماں باپ کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ زور زبردستی کرنے پر دوہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو والدین اپنے پیروں پر کھڑے ہیں تو وہ نافرمانی کرنے والے اپنے لخت جگر کو گھر سے نکال دیتے ہیں اور جائیداد سے بے دخل کردیتے ہیں اور اگر والدین اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہیں وہ یا تو اپنے بچوں کی من مانی برداشت کرتے رہتے ہیں یا ناراضی مول لینے کی صورت میں اپنی بقیہ زندگی گزارنے کے لیے بوڑھوں کے آشرم میں پہنچ جاتے ہیں، یہ صورت حال صرف سماجی بُرائیوں کی دین ہوتی ہے۔
ہر یانہ کی کھاپ پنچایت نے شادی کی عمر کے سلسلے میں جو تجویز پیش کی ہے، وہ ملک کے لیے نئی نہیں ہے، پہلے بھی کسی نہ کسی پس منظر میں یہ مسئلہ اٹھایا جاتا رہا ہے اور اس پر بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ عدالتوں کی طرف سے بھی کئی فیصلے ایسے آئے ہیں جن میں قانونی طور پر مقرر شادی کی عمر کو یا تو کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے یا کم عمری کی شادی کے جواز کے لیے کسی نہ کسی بہانے کوئی گنجائش نکال لی گئی ہے۔ ایسا ہی ایک فیصلہ گزشتہ دنوں آیا تھا جب عدالت نے اٹھارہ برس سے کم ایک مسلم لڑکی کی غیر مسلم لڑکے کے ساتھ شادی کو یہ کہہ کر جواز فراہم کیا گیا تھا کہ مسلم پرسنل لا میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے، جب کہ حقیقت یہ تھی کہ وہ اسلامی شادی تھی ہی نہیں، پھر اس پر شرعی قوانین کا اطلاق کیسے ہوگا؟ بہرحال ہریانہ کی جاٹ برادری کی کھاپ پنچایت یا آل انڈیا جاٹ مہا سبھا کے ریاستی صدر اوم پرکاش مان نے شادی کی عمر کم کرنے کی جو ضرورت محسوس کی ہے اور اس کی تجویز پیش کی ہے، دیر سے ہی سہی اس پہلو سے لوگ سوچنے لگے ہیں، اگر ایسے لوگوں کے سامنے اسلام کی ابدی تعلیمات اور ہردور کے تقاضوں اور ضروریات سے ہم آہنگ شرعی قوانین کو پیش کیا تو اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے اور اس کے پیغامات کو لوگوں تک پہنچانے میں کافی مدد ملے گی۔ اسلام ہی سے متاثر ہوکر بیوائوں سے شادی، ضرورت کے تحت دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کا رواج بڑھا اور اب شرعی قوانین کی منشا کے مطابق شادی کی عمر کم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں اور لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ بلوغ کے بعد وقت پر شادی نہ کرنا ہی ساری سماجی بُرائیوں کی جڑ ہے۔ ابھی شریعت کے مطابق شادی کی بات ہورہی ہے، ہوسکتا ہے کہ آگے چل کر اسلامی حجاب اور پردے کی باتیں ہونے لگیں جو خواتین کو تحفظ بھی فراہم کرتا اور بہت ساری بُرائیوں سے روکتا بھی ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے آڈوانی نے خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات پر قابو پانے کے لیے عصمت دری کی سزا موت تجویز کی تھی، جب کہ اسلام میں پہلے ہی سے یہ سزاسنگسار کی صورت میں موجود ہے۔ ایسے حالات میں جب لوگ مذہبی تعصب یا قانون کی چہارم دیواریوں سے نکل کر سوچنے لگے ہیں اور مسائل کی سنگینی کو محسوس کر کے اس کی جڑ میں جانے لگے ہیں تو اسلام کی سچی اور ہر دور کے مطابق تعلیمات کو ان تک پہنچانا وقت کا تقاضا اور مسلمانوں کی ذمے داری ہے۔ مثبت سوچ کو آگے بڑھانے میں مدد سے ہمیں برادران وطن کو بھی سمجھانے میں آسانی ہوگی اور انہیں بھی شریعت کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

IQBAL AUR DAURE IBLISIYAT اقبال اور دورِ ابلیسیت


اس دور ابلیسیت کے مظاہر میں سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ ابلیس نے پورے کرئہ ارض پر فرعونیت کو ایک نظام کی صورت میں غالب کردیا ہے۔ پہلے ابلیس عام طور پر افراد کو شکار کیا کرتا تھا ، لیکن اب چونکہ اجتماعیت کا دور ہے لہٰذا اجتماعی اعتبار سے ابلیس نے یہ غلبہ ’نیو ورلڈ آرڈر ‘ کی صورت میں حاصل کرلیا ہے جس کا نعرہ آج امریکا نے لگایا ہے جو ’سول سپریم پاور آن ارتھ ‘‘ ہے ۔اصل کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ نیو ورلڈ آرڈر، جیو ورلڈ آرڈر ہے۔ لیکن درحقیقت یہ سب سے بڑا ابلیسی نعرہ ہے ۔اللہ کے خلاف سب سے بڑی بغاوت ہے ۔نیوورلڈ آرڈر دراصل فرعونیت اور قارونیت کا مجموعہ ہے ۔یہ بدترین استحصالی نظام ہے۔ ایسے نظام میں ایک عام انسان کا اللہ کی توحید اور اللہ کی بندگی پر قائم رہ جانا انتہائی مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ اسی کا نام دجالیت ہے۔احادیث کی رو سے دجالی فتنے کے دور میں کسی شخص کا ایمان پر قائم رہنا اتنا ہی مشکل ہوگا جتنا اپنی ہتھیلی پر انگارے رکھ کر اسے برداشت کرنا ۔ دوسرا کام جو ابلیس نے اس دور میں کیا ہے اور جس سے اس کی بالادستی ثابت ہوئی ہے ، وہ انسان کو شرف انسانیت سے محروم کرنا ہے۔ ان کے لیے اس دو طریقے اختیار کیے ہیں۔ایک سود، دوسرا مادر پدر آزادی۔سود کی حقیقت کو بھی اقبال نے خوب سمجھا ہے ۔فرماتے ہیں    ؎از ربوٰاجان تیرہ دل چوںخشت و سنگ   آدمی درندہ بے دندان و چنگ۔ یعنی سودخوری کے نتیجے میں انسان کا باطن تاریک اور اس کا دل اینٹ اور پتھر کی طرح سخت ہوجاتا ہے اور سودخور شخص ایک ایسے درندے کی مانند ہے جس کے دانت اور پنجے نہ ہو۔ سود کے ذریعے سے معیشت میں تقسیم دولت کا نظام ایسی غلط بنیادوں پر استوار ہوتا ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک طرف دولت کا ارتکاز جبکہ دوسری طرف محرومی جنم لیتی ہے۔اس کا سب سے بڑا مظہر آج ہمارا اپنا معاشرہ ہے کہ جس کا ایک بڑا حصہ نہایت تیزی کے ساتھ غربت کی لکیر سے نیچے جارہا ہے۔پاکستان میں رفتہ رفتہ مڈل کلاس ختم ہورہی ہے۔ ایک طرف محرومی بڑھ رہی ہے ، دوسری طرف ارتکاز دولت بڑھ رہا ہے۔ فقر کی ایک انتہا انسان کو کفر تک پہنچادیتی ہے جبکہ ارتکاز دولت کی صورت میں انسان کی حیوانیت اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ اشرف المخلوقات کی صفات سے عاری ہوکر درندے کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ ابلیس نے انسان کو اس کے مقام سے گرانے کے لیے جو دوسرا طریقہ اختیار کیا ہے ، وہ آزادی کے نام پر فحاشی اور عریانی کا فروغ ہے۔وہ اپنے اصل کام یعنی انسان کے جسم سے لباس اتروانے اور اسے شرم و حیا کے پاکیزہ جذبات سے محروم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج انسان اخلاقیات اور معاشرتی اقدار میں بالکل حیوان کی سطح پر آچکا ہے۔ چنانچہ اس طرح ابلیس نے آدمی کو اعلیٰ اور ارفع مقام سے گراکر اپنی فوقیت کو ثابت کیا ہے۔ ایک اور حقیقت جسے اقبال نے نوٹ کیا تھا وہ یہ کہ اس وقت ابلیس کے سب سے بڑے ایجنٹ اور آلۂ کار یہود ہیں جنہوں نے نہایت شاطرانہ انداز میں بینکنگ کے نظام کے ذریعے پورے یورپ کو اپنے معاشی چنگل میں جکڑ لیا ہے۔ فرماتے ہیں    ایں بنوک ،ایں فکر چالاک یہود   نور حق از سینۂ آدم ربود
چنانچہ پچھلی صدی کے اوائل ہی میں انہوں نے اس حقیقت کو بے نقاب کردیا تھا
؎   فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے
اور وہ چیز بالکل عیاں ہوکر سامنے آگئی ہے۔اس وقت تو ومشاہدے پر مبنی ایک خیا ل تھا ، لیکن وہ خیال اب واقعتا کھل کرایک حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ یہود اور ابلیس میں جو چیز قدرمشترک ہے ، اس کو اگر پہچان لیا جائے تو دور ابلیسیت کی اصلیت سمجھ میں آجائے گی۔ابلیس کا اصل مسئلہ کیا تھا؟ جب اسے حضرت آدم ؑ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیاتو اس نے کہا ’’میں اس سے بہتر ہوں ، تونے مجھے آگ سے پیدا کیا جبکہ اسے مٹی سے پیدا کیا۔‘‘لہٰذامیں برتر ہوں اور اس کو سجدہ نہیں کرسکتا ۔اس تکبر کی بنا پر پر وہ اپنے مقام سے گرا اور مردود اور ملعون قرار پایا۔ اس کے سینے میں آدم ؑ کے خلاف حسد کی آگ بھڑک اٹھی تھی ۔تبھی اس نے کہا کہ میں انسانوں کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا۔جہنم میں خود تو جائوں گا ہی، اس کو انسانوں سے بھروں گا۔ یہ اس کا چیلنج تھا کہ انہیں بھی
ساتھ لے کر جائوں گا کہ جن کی وجہ سے میں اس مقام سے محروم کردیا گیا ہوں    ؎   قصۂ آدم کو رنگیں کرگیا کس کا لہو۔ ’’جبرئیل و ابلیس‘‘ کے عنوان کے تحت ایک مکالمے کے انداز میں اقبال نے بڑی خوبصورتی سے اس بات کو واضح فرمایا ہے کہ ابلیس کے نزدیک جنت سے اسے نکالے جانے کا ذمہ دار آدم ہے لہٰذا اس کے خلاف ایک حسد اور جو ش انتقام ابلیس کے دل میں موجود ہے۔ بعینہٖ یہی مسئلہ یہود کا بھی ہے۔ آنحضور ﷺ کی بعثت کے بعد وہ بھی اسی قسم کی آزمائش سے دوچار ہوئے جس سے شیطان یا عزازیل حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے کے حکم پر ہوا تھا۔ یہود نے آنحضرت ﷺ کو اچھی طرح پہچاننے اور یہ جاننے کے باوجود کہ یہی وہ آخری نبی ہیں جن کے بارے میں پیشنگوئیاں ان کی الہامی کتابوں میں موجود ہیں، آنحضور ﷺ کی رسالت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا مسئلہ بھی عصبیت ، تکبر اور نسلی برتری کا تھا۔ بنی اسرائیل کا کہنا تھا کہ جب گزشتہ دو ہزار سال کے دوران تمام انبیا ء و رسل ہمارے قبیلے اور اور ہماری نسل سے مبعوث ہوئے ،تمام آسمانی کتابوں کا نزول ہمارے ہاں ہوا تو اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم آخری نبی کو مان کر بنو اسماعیل کی برتری کو تسلیم کرلیں۔ چنانچہ ان کا تکبر سد راہ بنا۔ پھر جب وہ ملعون قرار دیے گئے ، مغضوب علیہم قرار پائے اور بنو اسماعیل اس عظیم منصب پر فائز کردیے گئے جو اس سے قبل یہود کو حاصل تھا توحسد کی آگ ان کے سینوں میں بھڑک اٹھی۔مسلمانوں کے خلاف یہ آگ آج بھی دہک رہی ہے۔ چنانچہ جو آخری معرکہ ہے وہ اقبال کے نزدیک بھی اصل میں اسلام اور ابلیسیت کے مابین ہو گا۔ اس وقت پورے روئے ارضی پر ابلیس کے سب سے بڑے ایجنٹ یہود ہیں ۔اس امر میں کوئی شک نہیں ۔نیو ورلڈ آرڈر کا نعرہ اسی سلسے کی ایک کڑی ہے۔ آج امریکا پوری طرح یہودکی گرفت اور ان کے شکنجے میں ہے۔ اس طرح پوری دنیا میں سودی نظام کو بھی یہود نے رائج کیا ۔ مغرب میں فحاشی اور عریانی کے فروغ میں بھی یہود کا ہاتھ ہے۔ شیطان کے اصل ایجنٹ اس وقت یہی ہیں اور قیامت سے قبل حق وباطل کا جو آخری معرکہ ہونا ہے  ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفویٰ سے شرار بولہبی
اس میں مسلمانوں کے مقابلے میں یہود اور ان کے وہ حلیف شریک ہوں گے جن کی رگ جان ان کے پنجے میں ہے ۔ وہ تمام قوتیں ایک طرف ہوںگی جبکہ دوسری طرف صرف مسلمان ہوں گے۔ اس آخری معرکہ کا وقت یقیناََبہت قریب ہے۔ اقبال نے اسے معرکہ روح وبدن قرار دیا ہے۔ اس آخری معرکے کے حوالے سے اقبال نے اُمت کو بہت امید افزا پیغام دیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صرف ترجمان القرآن ہی بلکہ ترجمان حدیث بھی تھے ۔صحیح احادیث میں یہ واضح پیشن گوئی ہے کہ قیامت سے قبل آخری فتح اسلام کی ہو گی اور یہ دین پورے کرہ ارض پر اسی شان سے قائم وغالب ہو گا جیسے آنحضور ؐ کے دور میں جزیرہ نمائے عرب پر قائم تھا۔ چنانچہ ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ واقعتاََ اس اعتبار سے پڑھنے کے لائق ہے کہ اس کے ذریعے موجودہ دور کے اصل مسائل اور فتنہ انگیزیاں بھی نمایاں ہوتی ہیں اور اسلام کا اصل پیغام بھی سامنے آتا ہے۔ آج کے صوفی وملا کی غالب اکثریت اسلام کی روح اور اصل حقیقت سے بہت دور ہے۔ اصل اسلام جس سے ابلیس کو خطرہ ہے وہ اقبال نے اسی کی زبان سے کہلوایا ہے۔   ؎
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس اُمت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِآرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے جس پہ روشن باطنِ ایام ہے
مزدکیت فینہ فردا نہیں اسلام ہے
یعنی ابلیس کے نزدیک اصل فتنہ وہ اشتراکیت نہیں جس کا اس دور میں بڑا چرچا تھابلکہ اسے حقیقی اندیشہ اسلام سے ہے۔
عصرِحاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکار ا شرعِ پیغمبر کہیں
شرعِ پیغمبر کی جو تفصیل اقبال نے’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں بیان کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دین کا صحیح اور اسیع تر فکر علامہ اقبال پر کس درجے منکشف تھا۔ چنانچہ اس پہلو سے ان کا آخری پیغام یہ ہے کہ فیصلہ کن غلبہ بالآخر ابلیس کو نہیں بلکہ حق کی قوتوں ہی کو ہو گا۔  ؎
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی