Search This Blog

Tuesday, 25 June 2013

Muslim trust turns saviour for Godhra's Hindu widows

Muslim trust turns saviour for Godhra's Hindu widows

VADODARA: Kala Patel (40) could barely make two ends meet with her meager earnings as a cook. Widowed eight years ago, she struggles with the expenses of her three children. But on Sunday, she got help from a quarter she least expected.
A Godhra-based Muslim charitable trust ensured that her family does not go hungry for the next three months by giving her provisions and eatables.

There are 54 other widows like her from the majority community who got a helping hand from the Hamdard Charitable Trust.
Godhra, the ground zero of 2002 Gujarat riots, is seeing a surge of sadbhavna.
"Godhra earned a bad name after the 2002 riots and there was a general perception that Hindus and Muslims don't stay in harmony here. The trust decided to extend support to Hindu widows and strengthen the unity between two communities," said Mufti Haroon Sindhi, president of HCT.
Leaders of Hindu and Muslim communities shared the stage at the Sardar Nagar Hall at the function that displayed community camaraderie.
"I am sure that this Sadbhavna will go a long way in forging strong ties between both the communities. Women, especially widows, are neglected in our society, so we felt the need to help them lead a respectful life. We will continue supporting Hindu widows," Sindhi said.
"It was a touching gesture from the Muslim trust and I cannot express how much this means to me," said Sharda Bhoi (50), whose husband died in an accident 15 years ago.
Nalin Bhatt, a community leader from Dahod who attended the event, said, "It's a sign of Sadbhavna from Muslims and I hope that Hindus too reciprocate. Both the communities have always stayed together in Godhra."

http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2013-06-24/india/40165059_1_muslim-trust-hindu-widows-godhra

 

KEYA YE SARKARI AUR SIYASI DAHESTGARDI NAHIN HAI? S.A. SAGAR

CRTSY: MUNSIF HYDERABAD

BURMA MEIN MUSALMANON KI NASAL KASHI


CRTSY: MUNSIF HYDERABAD SUNDAY EDITION 23 JUNE 2013

Sunday, 16 June 2013

UP HUKUMAT MALYANA AUR HASHIMPURA FASADAT KI REPORT DABAYE BAITHI HAI





CRTSY: INQUILAB BOMBAY

Character Assasination of Muslims in Movies فلموں میں مسلمانوں کی کردار کشی

فلموں میں مسلمانوں کی کردار کشی
سینسر بورڈ کی کارگردگی پر سوالیہ نشان
مجاہد قائمی
 
د نیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے میڈیا، فلم، اور ٹی وی سیریلیس میں جس طرح سے غیر ذمہ دارانہ اور جانبدارانہ رویہ اپنا یا جا رہا ہے ، وہ سارے عالم کے مسلمانوں کے سامنے کئی ہزار فلموں ، خبروں، اور ٹی وی سیریلیوں کی شکل میں موجود ہے، اسلام، مسلمان، اور مسلم ممالک پر کئی ایسی فلمیں بنائی جا چکی ہیں، جس سے مسلمانوں اور اسلام کا دور دور تک تعلق نہیں ہے، کچھ فلم ساز یا تو جان بوجھ کر مسلمانوں کے خلاف سستی شہرت پانے اور پیسہ کمانے کی چکر میں ایسی گھٹیا فلم بناتے ہیں، یا کچھ فلم ساز اظہار رائے کی آزادی کا سہارا لیکر بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ایک سازش اور دشمنی کے بنیاد پر ایسی فلمیں بناتے ہیں، اس کے علاوہ فلم سازوں کا ایک اور طبقہ جو اپنے آپ کو دانشورسمجھتا ہے، اور اسلام سے متعلق عدم جانکاری، اور یا تھوڑی بہت جانکاری حاصل کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہیں اسلام سے متعلق بہت جانکاری حاصل ہے، اب تک دنیا بھر میں ایسا ہوتا آ رہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کا سہارا لیکر عالمی سطح پر انگریزی سے لیکر دنیا کی تقریبا تمام زبانوں میں اور ملکوں میں مسلمانوں کے خلاف فلمیں بن جاتی ہیں، دنیا میں صرف مسلمان ہی ایک ایسی قوم ہے ، جن کو میڈیا سے لیکر، فلم ساز، ٹی وی سیریل بنانے والے ، مضمون نگار اور یہاں تک کے کارٹونسٹ بھی مسلمانوں اور اسلام کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے ہوئے ہوتے ہیں، ابھی حال ہی میں پیغمبر اسلام ﷺ پر بنائے گئے اہانت آمیز فلم کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا، اس فلم کے احتجاج کے دوران کئی جانی اور مالی نقصانات ہوئیں، مسلمانوں کو سڑکو ں میں آنا پڑا، اور پہلے ہی سے کئی محاز پر دشمنوں کی سازشوں کے شکار مسلمانوں کو فلم بینی جو عام طور پر ایک تفریحی مشغلہ سمجھا جاتا ہے، ایسے پلیٹ فارم پر بھی مسلمانوں کے خلاف بھڑاس نکا لا جاتا ہے، فلموں میں خاص طور سے مسلمانوں کے بزرگوں کو ہمیشہ کسی اسمگلر یا کسی دہشت گرد تنظیم، یا کسی ڈاکوؤں کے سردار یا ولین کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اسی طرح مسلم عورتوں کو فلموں یا تو مظلوم یا تو اسلامی تعلیمات سے نفرت کرنے والی یا اپنے شوہروں کے ظلم کا شکار مظلوم کا ہی کردار دیا جاتا ہے، مسلم نوجوانوں کو سر پر عمامہ چہرے پر داڑھی اور ایک عدد کپڑے سے چہرے کو ڈھانپ کر اور نقلی اے کے 47ہاتھ میں تھما کر انہیں دنیا بھر کے امن پسند عوام کے درمیان، دنیا میں فسادات اور بم دھماکے کرنے والے اور امن نہ چاہنے والا کردار دیکر یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ گویا دنیا کے تمام مسلمان دہشت گرد ہیں، اسی طرح مسلمانوں کے بچوں کو یا تو مفلسی کا شکار یا مظلومیت کے شکار، اور تعلیم سے نا آشنا جیسے کرداروں میں ڈھال کر دنیا میں پیش کیا جا تا ہے، ان تمام فلموں کو مسلمان یہ سمجھ کر سہہ لیتے ہیں کہ اسلام کو ان کی سازشوں سے کچھ نقصان نہیں پہنچے گا، لیکن میڈیا، فلم، ٹی وی سیریلس، اور کارٹونوں کے ذریعے کچھ شر پسند عناصر دنیا بھر میں بسنے والے کڑوروں امن پسند، اور انسانیت نواز عوام کو ان فلموں کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے اور مسلمانوں اور اسلام سے دور رکھنے کی سازش میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور آج کے اس پر فتن دور میں شر پسند عناصر اس بات کو اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ سستی شہرت اور کڑوروں کی کمائی اور اپنی دشمنی نکالنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور اسلام کے تعلق سے متنازعہ فلم بنا دیا جائے ، اگر پوری دنیا میں صرف مسلمانوں کے خلاف جتنی بھی فلم بنائی گئی ہیں،ان تمام فلموں کو اکھٹا کر لیا جائے تو اور ان فلموں میں جو مسلمانوں کے تعلق سے پیش کردہ کردار وں کو دیکھا جائے ، اور ان فلموں میں اسلام سے متعلق جو من گھڑت باتیں پیش کی گئی ہیں، اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو مسلمانوں کو پتہ چلے گا کہ ان فلموں کی وجہ سے مسلمانوں کو ان دشمن عناصر نے کتنا بڑا نقصان پہنچا یا ہے، قیاس کے طور پر نہیں یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ان فلموں کی وجہ سے دنیا بھر کے مختلف مذاہب اور مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے عوام کے دلوں اور دماغوں میں مسلمانوں اور اسلام سے متعلق جو غلط فہمیاں زہریلے کانٹوں کی طرح پیوست ہو چکی ہیں، ان کانٹوں کو نکالنے کے دنیا بھر کے مسلم دانشوروں اور عالموں کو ایک صدی کا وقفہ لگ سکتا ہے، اس کے علاوہ خود مسلمان بھی جن کو اسلام کے متعلق پوری جانکاری نہیں ہوتی وہ بھی ان فلموں کو دیکھنے کے بعد ان من گھڑت کہانیوں کو حقیقت سمجھ کر احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں، ان فلموں کو دیکھنے کے بعد وہ مزید اسلام سے دور ہو جاتے ہیں، اور اسلامی شناخت کو اپنے بدن پر زیب تن کرنے اور چہرے اور سر پر رکھنے میں عار اور شرمندگی محسوس کرتے ہیں، ادھر وطن عزیز ہندوستان میں بھی جس قوم نے اس ملک کی آزادی کے لیے اپنے جان ومال کی قربانیاں دیکر اس ملک کو آزادی دلائی تھی، ان کو بھی کئی ہندی فلموں اور دیگر تمام علاقائی زبانوں میں بنائی جانے والی فلموں میں مسلمانوں کو غداروں اور گھس پیٹھیوں کے کردار میں پیش کیا جاتا ہے، ہندی فلموں کے کردار میں مسلمانوں کو پاکستان آئی ایس آئی کے ایجنٹ، دہشت گرد، جاہل، غریب، بھکاری، چور، ڈاکو، اور عورتوں کو غلام بنا کر ظلم کرنے والے ظالموں کے کردار میں پیش کیا جاتا ہے، اور سب سے بڑا مذاق یہ کیا جاتا ہے کہ مسلمان اس ملک میں چار چار بیویاں رکھتے ہیں، اور ان کے کئی درجن بچے بھی ہوتے ہیں، اور اسی جھوٹ کو سامنے رکھکر ہندو توا طاقتیں، ملک کے دیگر مذاہب کے معصوم عوام کو یہ کہہ کر ورغلاتی ہے کہ مسلمان اس ملک میں زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کر کے اپنی آبادی بڑھانے کے بعد اس ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، جس کا سچائی سے دور تک کا بھی تعلق نہیں ہے، اسی طرح ملک کی دیگر ریاستوں میں بنائے جانے والے مقامی زبانوں کی فلموں میں بھی مسلمانوں کے کردار ہو بہو ایسے ہی پیش کئے جاتے ہیں، تاکہ ہر ریاست میں بستے آ رہے دیگر مذاہب کے عوام اور مسلمانوں کے درمیان نفرت اور دوریوں کا ماحول ہمیشہ کے لئے بنا رہے .

بہ شکرئیہ تعمیر نیوز

Need to re-investigate all the terrorist incidents


crtsy: Urdu Times Bombay

اڈوانی ۔ دیکھو جو مجھے دیدہ عبرت نگاہ ہو



crtsy: Urdu Times Bombay

Musalman ada kareinge ahem kirdar مسلمان ادا کریں گے اہم کردار

Turki key muzahire ya israeli agenton ki inteqami kawai

یہاں دہشت گرد کون ہے؟کیا نکسلی یا وہ نیتا جو غریبوں کو کھانا نہیں دیتے؟

یہاں دہشت گرد کون ہے؟کیا نکسلی یا وہ نیتا جو غریبوں کو کھانا نہیں دیتے؟

 http://www.thesundayindian.com/ur/story/who-is-terrorist-naxals-or-leader-who-do-not-give-food-to-poors/3570/

 ارندم چودھری 

 
 ہر مرتبہ جب نکسلی حملہ کرتے ہیں تب ہی ریاست اس مسئلہ سے ہونے والے نقصان پر جاگتی ہے۔بلا شبہ آج یہ سچ ہے کہ نکسلیوں کی کارروائی با لکل دہشت گردوں جیسی ہے اور میں نے ماضی میں اکثر ان کی مذ مت بھی کی ہے اور جمہوریت میں ایسے قتل عام کو جائز نہیں ٹھرایا جا سکتا۔ہمیں چند حقیقتوں پر نظر ڈالنا چاہئے ۔ چھتیس گڑھ میں بندوق کی گولیوں کے مقابلہ بھوک اور قابل علاج امراض سے اموات کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ ستم ظر یفی ہی ہے کہ غربت اور بھوک کو چھوڑیئے ریاست میں تعینات سی آر پی ایف جوانوں کی موت ماﺅوادیوں کی گولیوں سے کم اور مچھروں کے کاٹنے سے زیادہ ہوتی ہے۔یہ سی آر پی ایف جوانوں کی قابل رحم صورتحال ہے۔ کہانی کی دوسری تصویر آج کے حقیقی ہندوستان کی کہانی ہے۔ کیسے ہم اپنی 60 فیصد آبادی کو بھوک، قابل علاج امراض اور مچھروں کے کاٹنے سے مرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ تقریبا 650ملیئن ہندوستانی ایسے ہیں جو 1.25ڈالر یومیہ کے غریبی کے بین الا قوامی معیار سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک طرف جہاں ہندوستان اور ہندوستانی ذرائع ابلاغ اس بات پر جشن مناتا ہے کہ فوربس کی ارب پتیوں کی فہرست میں ہندوستانیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے دوسری طرف غریب جس کا کوئی پرسان حال نہیں وہ بھوک سے مر رہا ہے۔
سچائی یہ ہے کہ ماﺅوادیوں کا تعلق ایسے ہی غریب خاندانوں سے ہے جن کو بھوک سے مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔حکومت چاہے جتنا چیخ چیخ کر یہ کہتی رہے کہ ماﺅوادی قاتل ہیں، دہشت گرد ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری حکومت میں ایسے قاتل بھرے پڑے ہیں۔قاتل صرف ان پرچل رہے مقدمات کے تعلق سے نہیں بلکہ جس طرح وہ اپنے عوام کو روٹی، صحت اور روزگار جیسی بنیادی ضرورتوں سے محروم رکھ کر ان کا قتل کر رہے ہیں۔ ہماری حکومت تقریبا 40%عوام کو 45سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی مار دیتی ہے۔ یہ لوگ 75سال تک جیتے اگر ان کی رسائی کھانے اور طبی سہولیات تک ہوتی۔ سالوں سے ہماری حکومتوں نے اپنے ملک دشمنی رویہ سے لاکھوں افرادکاقتل کیا ہے اور خود کو اور مٹھی بھر تجارتی گھرانوں کو امیر بنایا ہے جبکہ اپنے اطراف میں غربت کو پھیلنے دیا۔ اسی لئے میدھا پاٹکر اور مہاشوےتا دیوی جیسے لوگوں کی نظر میں ماﺅوادی قاتل یا دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ وہ غریب لوگ ہیں جنہوں نے ایک مقصد کے لئے ہتھیار اٹھائے ہیں۔
حکومت اگر حقیقت میں نکسلی مسئلہ کو حل کرنا چاہتی ہے تو اس کو اس سے آگے دیکھنا ہوگا۔ اس کو پہلے ان کا دل دیکھنا ہوگا جو غریبوں کے لئے دھڑکتا ہے اور پھر ان غریب ترین لوگوں کے لئے کچھ کرنا ہوگا۔ غریب کے پاس ہتھیار اٹھانے کی کوئی وجہ نہیں ہے ان کو صرف کھانا چاہئے اور یہ کھانا حکومت کے پاس ہے جو یا تو گوداموں یا پھر گوداموں کی کمی کی وجہ سے کھلے آسمان کے نیچے سڑ رہا ہے ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جتنا گیہوں گوداموں اور گوداموں کے باہر سڑ رہا ہے اگر اس کو بوریوں میں بھر کر ان بوریوں کی لائن لگائی جائے تو یہ اتنی لمبی سڑک بن جائے گی جس سے چاند پر جاکر واپس آیا جا سکتا ہے ۔ پھر بھی یہ کھانا غریبوں کو نہیں دیتے ۔ ہم ریاست کی ایما پر سلوا جدوم تیار کرتے ہیں(اس تعلق سے میرا مضمون ’نکسلیوں پر قابو پانے کے لئے غریب گاﺅں والوں کو ہتھیار تھما دےنا خود انسانیت کے لئے بحران ہے http://arindamchaudhuri.blogspot.in/2008/05/handing-guns-to-poor-villagers-to.html) اور پھر جب ماﺅوادی جوابی کارروائی کرکے قتل کرتے ہیں تو افسوس کرتے ہیں لیکن ہم کھانا، روزگار،صحت، تعلیم اور غریب کی عزت جیسی بنیادی حقیقتوں کو تسلیم نہیں کرتے۔
ایک بڑی حد تک ممتا بنرجی نے بنگال میں غریبوں کی کھانے تک رسائی کراکر اس مسئلہ پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ملک کو بالکل ایسا ہی کرنا ہوگا۔ ماﺅوادیوں کے خلاف نعرے بازی حکومت کو انسانیت پر دہشت گردی سے بری نہیں کر سکتی۔ نکسلی علاقوں میں غریبوں کے لئے حقیقی کام حکومت کو اندرونی سلامتی کے تمام تناﺅ سے چھٹکارا دلاسکتا ہے۔ بصورت دیگر ہر مرنے والا ایک ماﺅوادی ایسے کئی ماﺅوادیوں کو جنم دےگا بلکہ مچھروں کے کاٹنے سے مرنے والے جوانوں کے کئی بچے بھی ایک دن اقتدار پر بیٹھے ان مچھروں پر گولیاں بر سا دیں گے۔ اور تاریخ ممکن ہے انہیں دہشت گرد نہیں لکھے۔

 
(Disclaimer: The views expressed in the blog are that of the author and does not necessarily reflect the editorial policy of The Sunday Indian