Search This Blog

Sunday, 16 June 2013

یہاں دہشت گرد کون ہے؟کیا نکسلی یا وہ نیتا جو غریبوں کو کھانا نہیں دیتے؟

یہاں دہشت گرد کون ہے؟کیا نکسلی یا وہ نیتا جو غریبوں کو کھانا نہیں دیتے؟

 http://www.thesundayindian.com/ur/story/who-is-terrorist-naxals-or-leader-who-do-not-give-food-to-poors/3570/

 ارندم چودھری 

 
 ہر مرتبہ جب نکسلی حملہ کرتے ہیں تب ہی ریاست اس مسئلہ سے ہونے والے نقصان پر جاگتی ہے۔بلا شبہ آج یہ سچ ہے کہ نکسلیوں کی کارروائی با لکل دہشت گردوں جیسی ہے اور میں نے ماضی میں اکثر ان کی مذ مت بھی کی ہے اور جمہوریت میں ایسے قتل عام کو جائز نہیں ٹھرایا جا سکتا۔ہمیں چند حقیقتوں پر نظر ڈالنا چاہئے ۔ چھتیس گڑھ میں بندوق کی گولیوں کے مقابلہ بھوک اور قابل علاج امراض سے اموات کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ ستم ظر یفی ہی ہے کہ غربت اور بھوک کو چھوڑیئے ریاست میں تعینات سی آر پی ایف جوانوں کی موت ماﺅوادیوں کی گولیوں سے کم اور مچھروں کے کاٹنے سے زیادہ ہوتی ہے۔یہ سی آر پی ایف جوانوں کی قابل رحم صورتحال ہے۔ کہانی کی دوسری تصویر آج کے حقیقی ہندوستان کی کہانی ہے۔ کیسے ہم اپنی 60 فیصد آبادی کو بھوک، قابل علاج امراض اور مچھروں کے کاٹنے سے مرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ تقریبا 650ملیئن ہندوستانی ایسے ہیں جو 1.25ڈالر یومیہ کے غریبی کے بین الا قوامی معیار سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک طرف جہاں ہندوستان اور ہندوستانی ذرائع ابلاغ اس بات پر جشن مناتا ہے کہ فوربس کی ارب پتیوں کی فہرست میں ہندوستانیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے دوسری طرف غریب جس کا کوئی پرسان حال نہیں وہ بھوک سے مر رہا ہے۔
سچائی یہ ہے کہ ماﺅوادیوں کا تعلق ایسے ہی غریب خاندانوں سے ہے جن کو بھوک سے مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔حکومت چاہے جتنا چیخ چیخ کر یہ کہتی رہے کہ ماﺅوادی قاتل ہیں، دہشت گرد ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری حکومت میں ایسے قاتل بھرے پڑے ہیں۔قاتل صرف ان پرچل رہے مقدمات کے تعلق سے نہیں بلکہ جس طرح وہ اپنے عوام کو روٹی، صحت اور روزگار جیسی بنیادی ضرورتوں سے محروم رکھ کر ان کا قتل کر رہے ہیں۔ ہماری حکومت تقریبا 40%عوام کو 45سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی مار دیتی ہے۔ یہ لوگ 75سال تک جیتے اگر ان کی رسائی کھانے اور طبی سہولیات تک ہوتی۔ سالوں سے ہماری حکومتوں نے اپنے ملک دشمنی رویہ سے لاکھوں افرادکاقتل کیا ہے اور خود کو اور مٹھی بھر تجارتی گھرانوں کو امیر بنایا ہے جبکہ اپنے اطراف میں غربت کو پھیلنے دیا۔ اسی لئے میدھا پاٹکر اور مہاشوےتا دیوی جیسے لوگوں کی نظر میں ماﺅوادی قاتل یا دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ وہ غریب لوگ ہیں جنہوں نے ایک مقصد کے لئے ہتھیار اٹھائے ہیں۔
حکومت اگر حقیقت میں نکسلی مسئلہ کو حل کرنا چاہتی ہے تو اس کو اس سے آگے دیکھنا ہوگا۔ اس کو پہلے ان کا دل دیکھنا ہوگا جو غریبوں کے لئے دھڑکتا ہے اور پھر ان غریب ترین لوگوں کے لئے کچھ کرنا ہوگا۔ غریب کے پاس ہتھیار اٹھانے کی کوئی وجہ نہیں ہے ان کو صرف کھانا چاہئے اور یہ کھانا حکومت کے پاس ہے جو یا تو گوداموں یا پھر گوداموں کی کمی کی وجہ سے کھلے آسمان کے نیچے سڑ رہا ہے ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جتنا گیہوں گوداموں اور گوداموں کے باہر سڑ رہا ہے اگر اس کو بوریوں میں بھر کر ان بوریوں کی لائن لگائی جائے تو یہ اتنی لمبی سڑک بن جائے گی جس سے چاند پر جاکر واپس آیا جا سکتا ہے ۔ پھر بھی یہ کھانا غریبوں کو نہیں دیتے ۔ ہم ریاست کی ایما پر سلوا جدوم تیار کرتے ہیں(اس تعلق سے میرا مضمون ’نکسلیوں پر قابو پانے کے لئے غریب گاﺅں والوں کو ہتھیار تھما دےنا خود انسانیت کے لئے بحران ہے http://arindamchaudhuri.blogspot.in/2008/05/handing-guns-to-poor-villagers-to.html) اور پھر جب ماﺅوادی جوابی کارروائی کرکے قتل کرتے ہیں تو افسوس کرتے ہیں لیکن ہم کھانا، روزگار،صحت، تعلیم اور غریب کی عزت جیسی بنیادی حقیقتوں کو تسلیم نہیں کرتے۔
ایک بڑی حد تک ممتا بنرجی نے بنگال میں غریبوں کی کھانے تک رسائی کراکر اس مسئلہ پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ملک کو بالکل ایسا ہی کرنا ہوگا۔ ماﺅوادیوں کے خلاف نعرے بازی حکومت کو انسانیت پر دہشت گردی سے بری نہیں کر سکتی۔ نکسلی علاقوں میں غریبوں کے لئے حقیقی کام حکومت کو اندرونی سلامتی کے تمام تناﺅ سے چھٹکارا دلاسکتا ہے۔ بصورت دیگر ہر مرنے والا ایک ماﺅوادی ایسے کئی ماﺅوادیوں کو جنم دےگا بلکہ مچھروں کے کاٹنے سے مرنے والے جوانوں کے کئی بچے بھی ایک دن اقتدار پر بیٹھے ان مچھروں پر گولیاں بر سا دیں گے۔ اور تاریخ ممکن ہے انہیں دہشت گرد نہیں لکھے۔

 
(Disclaimer: The views expressed in the blog are that of the author and does not necessarily reflect the editorial policy of The Sunday Indian

 

No comments:

Post a Comment