Search This Blog

Sunday, 10 March 2013

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر ظلم و تشدد

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر ظلم و تشدد
عابدہ رحمانی

مشرقی پاکستان ،پاکستان کے بازو کو  ٹوٹتے ہوئے اور اسکو بنگلہ دیش بنتے ہوئے میں نے اپنی ان گناہگار آنکھوں سے دیکھا اور دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا -ڈھاکے میں بھرا پرا گھر اور جائدادیں چھوڑ کر جانیں بچا کر مغربی پاکستان یا موجودہ پاکستان آئے- مدتوں تک میرے منہ پر بنگلہ دیش کا نام نہیں اتا تھا اور یہ نام ادا کرتے ہوئے دل سے درد کی شدید ٹھیس سی اٹھتی تھی-  لیکن بنگلہ دیش پچھلے  41 سال سے ایک حقیقت ہے اور تمام قتل وخون، تباہی و بربادی اور ماضی کی غلطیوں ، تلخیوں کو بھلا کر ہم اس پر مطمئن ھوئے کہ وہ ہمارا برادر اسلامی ملک ہے - 41 سال گزرنے کے بعد عوامی لیگ اور حسینہ واجد کواز سر نو یہ اذیت شروع ہوئی کہ جماعت اسلامی کو متحدہ پاکستان کی حمائت اور بنگلہ دیش کے قیام کی مخالفت کی کڑی سزا دی جائے- یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی نے متحدہ پاکستان کی حمائت کی تھی اور بنگلہ دیش کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے اس مقصد کے لئے غیر بنگالیوں کے ہمراہ بے پناہ قربانیاں دی تھیں -انکے گروپ الشمس اور البدر کا مکتی باہنی کی قتل گاہوں میں غیر بنگالیوں اور پاکستانی فوجیوں کے ہمراہ بے دریغ خون بہایا گیا تھا - تباہی و بربادی انکا مقدر ٹہری-انکا قصور محض متحدہ پاکستان کا دفاع تھا وہ اس ملک کی تقسیم اور نئے ملک کی  تشکیل کے خلاف تھے انکا یہ فعل اسوقت پاکستان کی حبالوطنی کے لئے تھا -

بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے کے بعد  یہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے نام سے اپنے تحریکی اور سیاسی کام نبھانے لگی - میرا پھر ڈھاکہ یا بنگلہ دیش جانا تو نہیں ہوا لیکن شمالی امریکہ میں جن بنگالی بھائی بہنوں سے تعلق قائم ہوا تو انکے اسلامی تشخص اور گرم جوشی کو دیکھ کر بیحد خوشی ہوئی وہ لوگ ماشاءاللہ دینی کاموں میں کافی سر گرم اور پیش پیش  ہیں اور انکا اسلامی تشخص لا جواب ہے- جماعت اسلامی نے اپنے ملک میں لادینی اور سیکولر نظریات کی توڑ کی اور اسلامی تشخص اور نظریات کو قائم کرنیکی جدوجہد جاری رکھی - معاشی ، تعلیمی اور فلاحی میدانوں میں اپنی کوششیں جاری رکھیں- گو کہ یہ اپنے ملک کی سیاست میں کافی متحرک جماعت ہے   بلکہ عوامی لیگ کی مخالف پارٹی میں بی این پی کے ساتھ انکا اتحاد ہے- اور 2001 میں ایوان اقتدار کا حصہ بنے-اور اچھی کارکردگی دکھائی اپنی اہلیت اور ایمانداری سےعوام کا دل جیتا جماعت کے امیر مطیع الرحمن نظامی اور سکرٹری جنرل علی احسن مجاہد مرکزی کابینہ کے رکن تھے  انکی کارکردگی ، شرافت و دیانت کا پورا بنگلہ دیش معترف ہے--ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھی انکی بیحد تعریف کی-

 41 - سال گزرنے کے بعد عوامی لیگ غالبا پھر ایک بار بنگلہ دیش میں اپنا زور اور قوت دکھا رہی ہے اور اپنے پرانے حساب بیباق کر رہی ہے- اگر واقعی انصاف کیا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ مکتی باہنی نے جو ظلم و تشدد کیا تھا وہ بے حساب اور بے پناہ ہے- اسکا حساب تو اب شائد روز قیامت ہی ہوگا- وقت کے ساتھ کافی کچھ بدل چکا تھا اور بہت سے تائب بھی ہوگئے - ہیں تو مسلمان ہی اور مسلمانوں کے لئے توبے کا دروازہ مرتے دم تک کھلا ہوتا ہے-

جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر جو الزامات لگے ہیں وہ ناقابل یقین ہیں انہی الزامات کے خلاف مظاہرین کو فائرنگ کر کے قتل کیا جا رہا ہے اور لگ بھگ اسی سے سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں-

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماء کو انیس سو ستر، اکہتر کی لڑائی کے دوران ہونے والے ’جنگی جرائم‘ پر سزائے موت سنائے جانے کے بعد شروع ہوے والے ہنگاموں میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے ٹریبیونل سے ملنے والی سزاؤں کے بارے میں رائے عامہ کافی خلاف ہے اس نام نہاد ٹریبونل نے اس سے قبل جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل عبدالقادر

ملا کو 5فروری 2013ء عمر قید کی سزا سنائی جب کہ جماعت کے ایک سابق رکن اور ممبرپارلیمان ابوالکلام آزاد کو ان کی غیرحاضری میں 21جنوری 2013ء کو سزائے موت سنائی تھی۔ اب جماعت کے نائب امیر اور بنگلہ دیش کے معروف ترین عالم دین، مبّلغ اسلام، مفسرقرآن اور شعلہ نوا وہردل عزیز خطیب سابق رکن پارلیمان مولانا دلاور حسین سعیدی کو سزائے موت سنا دی ہے- اس ظلم و تشدد مین جماعت پر مقدمات چلائے گئے رہنماانتہائی گھناؤنے اور ناقابل یقین الزامات لگا کر انہیں سزائے موت سنا دی گئی حالانکہ انہی کے ساتھ اس سے پہلے عوامی لیگ انتخابی اتحاد بھی کر چکی ہے قتل و غارتگری تباہی و بربادی کی داستانیںجنمیں  مکتی باہنی سر فہرست ہے اور یقینا جماعت کے اہلکاروں نے بھی اپنے موقف کی حمایت میں ظلم و تشدد کیا ہوگا - لیکن اگر ایک فریق کو محض اس لئے معاف کر دیا گیا ہے اور کوئی مواخذہ نہیں ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے حامی تھے تو جماعت اسلامی کے کردہ یا نا کردہ گناہوں کا حساب بے باق کرنیکی ضرورت کیوں پڑ گئی -د یہ جنگی ٹریبونل ہرگز غیر جانبدار نہیں ہیں اور نہ ہی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں- جنرل حسین محمد ارشاد جو حسینہ کے حامی ہین انہوں نے بھی اس ٹریبونل اور سزا پر کڑی تنقید کی ہے- یوں لگتا ہے حسینہ نے اپنی مصیبت کو خود دعوت دی ہے عوام کے رد عمل ، غم اور غصے سے بنگلہ دیش جہاں خانہ جنگی کی طرف جارہا ہے وہیں یہ ایک اور انقلاب کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے-میری تو دلی دعا ہے کہ حسینہ ہوش کے ناخن لے اور گھڑے مردے اکھاڑنے سے پر ہیز کرے ---

Abida Rahmani <abidarahmani@yahoo.com>

--

 

No comments:

Post a Comment