Search This Blog

Friday, 16 November 2012

اسرائیل کے کے دباؤمیں مسجداقصی کے امام شیخ صیّام کو ویزا دینے سے انکار

اسرائیل کے کے دباؤمیں مسجداقصی کے امام شیخ صیّام کو ویزا دینے سے انکار
جمعہ کی نماز مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب حفظہ اللہ پڑھائیں گے 

جامعۃ الفلاح کی گولڈن جوبلی تقریبات کا آغا 16 nov کو جمعہ کی نماز سے ہورہا ہے ، اعلان کے مطابق مسجد اقصی کے سابق امام شیخ صیام کو جمعہ کی نماز پڑھا نی تھی جس کی منظوری بھی انہوں نے دے دی تھی اور ویزا کے لئے اپنا پاسپورٹ یمن میں ہندوستانی سفارتخانے میں جمع کرادیا تھا ، ویزا جاری کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی لیکن عین وقت پر ویزا دینے سے انکار کردیا گیاجبکہ مرکزی سرکار کے سینئر وزراء سے رابطہ کیاگیا اور یہ بات واضح کی گئی کہ امام صاحب ایک معروف داعی ہیں اور اس سے پہلے بھی ہندوستان کا دورہ کرچکے ہیں اور ان کے خطابات سے لاکھوں لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے لیکن مرکزی سرکار پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اپنی مسلم دشمنی کی پالیسی پر گامزن رہی۔سلمان رشدی کو ویزا مل سکتا ہے مگر امام صیام جیسی محترم شخصیت کو ویزا نہیں دیا جاسکا ،
اس غیر منصفانہ فیصلے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے ،چونکہ قبلۂ اول سے مسلمانوں کو بے پناہ عقیدت و محبت ہے اس لئے حکومت کی اس حرکت پر عوام میں شدید ناراضگی اور غم و غصہ ہے ایسا لگتا ہے کہ مرکزی سرکار امریکہ اور اسرائیل کے اشارے پر چلتی ہے اور اسے مسلمانوں کے جذبات کی کوئی پرواہ نہیں ہے امام صاحب نے اپنے پیغام میں بڑھے دکھ کا اظہار کیا ہے اوریہ واضح کیا ہے کہ اس پروگرام میں شرکت کی دلی تمنا تھی جامعہ سے مجھے بہت لگاؤ ہے ، پہلے بھی ایک بار آچکا ہوں اس وقت بھی دل آپ لوگوں کے ساتھ ہے اور گولڈن جوبلی کی کامیابی کیلئے دست بدعا ہوں ۔ حکومت ہند کے فیصلے کے خلاف انہوں نے سخت احتجاج کیا ہے ۔
پروگرام کے منتظم کی حیثیت سے مجھے اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ لوگوں کو بڑی مایوسی ہوگی اور امام صاحب کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی خواہش پوری نہیں ہوگی اپنی طرف سے ہم لوگوں نے پوری کوشش کی اور ہمارے بہی خواہوں نے بھی بھرپور تعاون کیا لیکن سرکار کی ہٹ دھرمی اپنی جگہ قائم رہی اللہ کو جو منظور ہوتا ہے وہی ہوتا ہے اور کسی چیز میں کیا مصلحت ہے انسان نہیں جانتا ، لوگوں کو ہونے والی تکلیف کیلئے ہم معذرت خواہ ہیں ۔
ہم مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہماری درخواست قبول کی انشاء اللہ جمعہ کی نماز وہی پڑھائیں گے۔

محمد طاہر مدنی
( ناظم جامعۃ الفلاح)

Thursday, 8 November 2012

AURAT KI AZMAT KO TARAZOO MEIN NA TOL

عورت کی عظمت کو ترازو میں نہ تول


…..افشاں مراد

کائنات کے حسین رنگوں، کومل جذبوں، مہکتے احساسات کی صلیب کاندھے پر اٹھائے رب ذوالجلال کی ایک ایسی تخلیق جوہر روپ اور ہر رشتے میں اپنا آپ منوالیتی ہے وہ ایک عورت ہی ہے۔
ان نازک جذبات واحساسات کے ساتھ ساتھ آج کی عورت آہنی اعصاب بھی رکھتی ہے۔ آج بدلتے زمانے کے تغیّرات نے ہر کس وناکس کو حیران اور متحیّر کردیا ہے۔ ایسے میں زندگی کے نظم ونسق کو اس کی ترتیب سے چلانا، ایک عورت ہی کے بس کی بات ہے۔ عورت اپنے آہنی اعصاب کے ساتھ (ایک عورت کو ہم آہنی اعصاب کا فائد ہی کہیں گے کیونکہ اپنی پوری زندگی میں عورت اپنے ساتھ جتنے رویے، جتنے رشتے اور جتنے حالات و واقعات سے کامیابی سے گزرتی ہے وہ کم از کم مردوں کے بس کی بات تو نہیں) اپنے گھر بار کو جس طرح سنبھالتی ہے اور اگر وہ ایک ملازمت پیشہ عورت بھی ہے تو پھر تو وہ دوہرے امتحان سے گزر رہی ہوتی ہے۔ جس میں اسے گھر کے ساتھ ساتھ باہر والوں کو بھی برداشت کرنا ہوتا ہے۔
گھر میں اگر وہ اپنے علیحدہ گھر، اپنی راج دھانی کی بلاشرکت غیرے مالک ہے تو پھر بھی اس کی آزمائش میں اتنا تنوع نہیں ہوتا جتنا مشترکہ خاندانی نظام کے تحت رہنے والی خواتین کو گزرنا ہوتا ہے۔ ان سب رشتوں میں توازن رکھنا بڑے ہی دل گردے کا کام ہے اور پھر ان کے اپنے ساتھ لے کر چلنا بھی ایک فن ہے۔ جو خواتین اپنے حالات ، اپنے رشتوں، اپنے رویوں میں توازن رکھ کر آگے بڑھتی رہتی ہیں وہ کامیابی سے اپنی منزل پر پہنچ جاتی ہیں۔ لیکن جو ہمت ہار بیٹھی ہیں۔ وہ خودکشی، طلاق، خلع یا پاگل پن کی لپیٹ میں آجاتی ہیں۔ کیونکہ آج مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، دہشت گردی نے جہاں مردوں کو متاثر کیا ہے وہیں گھر بیٹھی عورت یا ملازمت پیشہ خواتین بھی اس کے اثر سے بچ نہیں سکیں۔ ان خوفناک عفریتوں سے متاثرہ مرد اپنی ساری جھنجلاہٹ، بیزاری باہر ملی ہوئی توہین اور غصہ، گھر آکر بیوی، بہن، ماں یا بیٹی پر انڈیل دیتا ہے۔ کتنے ہی گھرانوں میں ایسا ہوتا ہے کہ وہاں رہنے والی خواتین گھر والوں کے ناروا سلوک کی بناء پر نفسیاتی عوارض کاشکار ہوجاتی ہیں۔ بے خوابی تو آج کل ویسے ہی عام مرض ہے، بلڈ پریشر، ڈپریشن اور فرسٹریشن یہ سب بھی ان خواتین میں زیادہ پایا جاتا ہے جو بے چاری اپنے مردوں کی ساری ٹینشن اپنے اوپر طاری کرلیتی ہیں۔ ایسی خواتین اپنے گھر کو جنت بنانے کی خاطر ہر دکھ، ہر غم ہنس کر جھیلنے کی خواہش میں خود ادھ موئی جاتی ہیں اور جواب میں بعض اوقات انہیں دو جملے ستائش بھی سننے کو نہیں ملتی۔
آج عورت نے اپنا آپ زندگی کے ہر شعبے میں منوایا ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی شعبہ ہو، آج عورت کی کامیابیاں ان مردوں کے منہ پر طمانچہ ہیں جو عورت کو ناقص العقل کہتے ہیں۔ ان مردوں کے لیے باعث حیرت ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ عورت پیر کی جوتی ہے۔ آج وہی مرد اس پیر کی جوتی کو سر کا تاج بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان کا آدھا معاشی بوجھ بانٹ لیتی ہے۔ آج کی عورت ایک ماں ، بہن، بیٹی، بیوی کے ساتھ ساتھ ایک بیوٹیشن، ایک اچھی استاد، ایک اچھی ایڈمنسٹریٹر، ایک اچھی وکیل، ایک اچھی اینکرپرسن وغیرہ بھی ہے۔ اس کی قابلیت میں کسی شک وشعبے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
آج اگر عورت کے مقام اور عورت کی عظمت پر مردوں سے کوئی بات کی جائے تو ان کے پاس الفاظ ختم ہوجاتے ہیں۔ انہیں یاد رہتا ہے تو اپنا ’’قوّام‘‘ ہونا۔ باقی عورت کی عزت وتکریم اور اسلام میں عورت کے احترام اور مقام پر کیا قرآن وحدیث میں آیا ہے۔ اس بارے میں ہمارے مردوں کو کوئی علم نہیں۔ اور نہ وہ جاننا چاہتے ہیں اور غالباً معاشرے میں بگاڑ کی ایک اہم وجہ بھی یہی ہے۔ یہ لاعلمی ہمارے گھروں کومنتشر کررہی ہے۔ نہ مرد عورت کو عزت واحترام کے لائق سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کے گھر والے، اور یہی ذلت عورت کو تباہ وبرباد کردیتی ہے اور ایسے لاعلم مرد جب گھر سے باہر جاتے ہیں تو بھی عورت کو اپنے سے کمتر کی حیثیت سے ہی ڈیل کرتے ہیں جس کی وجہ سے دفتروں کا ماحول بھی کشیدہ ہوجاتا ہے۔
اور ایسے مردوں کے سرپر اگر عورت باس بن جائے تو پھر…؟ ہم اور آپ ایسے لوگوں کی ذہنی کیفیت کو خوب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے لوگ پھر دفتری کاموں میں بھی رکاوٹیں ڈالنا اور رخنہ ڈالنا اپنا فرض سمجھ لیتے ہیں اور دفتر کا غصہ اور فرسٹریشن گھر آکر بیچاری بیوی پر نکالتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ آج اگر عورت اپنا گھر بنانے میں اپنا تن، من، دھن وار رہی ہے تو اس کی قدر کریں اور اس کوا پنی محبت سے جیتنے کی کوشش کریں نہ کہ اس کو قربانیاں دیتا دیکھ کر اس کو اور رگڑ ڈالیں۔ عورت کا ضمیر محبت سے گندھا ہے، اسے محبت ہی تسخیر کرتی ہے، ظلم، زیادتی، جبر، تشدد، عورت کو توڑ ضرور دیتا ہے اسے جھکا نہیں سکتا اور پھر اسے جب موقع ملتا ہے وہ ایسی زنجیروں کو توڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن محض محبت کے چند لمحے یا محبت سے کی گئی چھوٹی سی ستائش پر یہ پگلی اپنا آپ لٹانے پر تیار ہوجاتی ہے۔ گھر میں یا گھر سے باہر عورت کو دی گئی تھوڑی سی عزت، گھر اور معاشرے دونوں کو بہتر بنا سکتی ہے۔
یہ عورت ہی ہے جو ماں بن کر اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہے، یہ عورت ہی ہے جو بیٹی بن کر خاندان کی عزت کا بوجھ اپنے نازک کندھے پر سہارتی ہے، یہ عورت ہی ہے جو بہن بن کر اپنے بھائیوں کے لیے مجسم دعا بن جاتی ہے، یہ عورت ہی ہے جو بیوی بن کر اپنے سائبان ، اپنے سرتاج، اپنے شوہر کی بہترین رفیق کار بن جاتی ہے۔ اس کی ہر مشکل، ہر پریشانی میں اس کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوتی ہے۔
اس لیے عورت کو اس کے اصل روپ میں دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو پیار، محبت اور عزت کے ہتھیار سے تسخیر کرنے کی کوشش کی جائے، محض، ذلت، رسوائی اور غلامی کا طوق اسے باغی کردیتا ہے اور عورت کی بغاوت معاشرے میں ایسا بگاڑ پیدا کرتی ہے جس کا خمیازہ صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔

EK TAJWEEZ AUR USKE PAS PARDA SOCH

ایک تجویز اور اس کے پس پردہ سوچ


محمد صبغت اللہ ندوی

گزشتہ دنوں ہر یانہ میں جاٹ برادری کی ایک کھاپ پنچایت ہوئی تھی، اس میں دیگر باتوں کے سوا ایک اہم مسئلہ یہ اٹھایا گیا کہ خواتین کے ساتھ زیادتی، بے راہ روی اور گھر سے فرار ہوکر شادی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سرکاری طور پر ملک میں شادی کی عمر سولہ برس کردی جائے۔ آل انڈیا جاٹ مہاسبھا کے ریاستی صدر اوم پرکاش مان کا کہنا ہے کہ ملک میں پہلے ایسا ہی ہوتا تھا، وہ مرکزی حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ شادی کی عمر کم کرکے سولہ برس کردی جائے جوفی الحال قانونی طور پر لڑکیوں کے لیے اٹھارہ برس اور لڑکوں کے لیے ۲۱ برس مقرر ہے۔ ایک کھاپ پنچایت نے جہاں مذکورہ تجویز پیش کی ہے، دوسری کھاپ پنچایتوں نے اسے مسترد کردیا ہے۔ ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اوم پرکاش چوٹالہ بھی اس تجویز کے حق میں ہیں اور اس سلسلے میں ریاست کے گورنر جگناتھ پہاڑیا کو ایک میمورنڈم بھی پیش کیا گیا ہے۔
یوں تو کھاپ پنچایتیں اپنے عجیب وغریب فیصلے کے لیے ہمیشہ سے بدنام رہی ہیں اور ان پر اکثر تنازعات کھڑے کیے جاتے رہے ہیں۔ ملک کا آزاد خیال میڈیا تو پہلی فرصت میں کھاپ پنچایتوں کے فیصلوں کی مخالف کرتا ہے اور اکثر وبیشتر وہ ان فیصلوں کے لیے طالبانی یا تغلقی فرمان جیسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ کوئی بھی ان فیصلوں کے پس منظر یا ان کے پیچھے سوچ پر ٹھنڈے دماغ سے غور نہیں کرتا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ کھاپ پنچایتوں کے فیصلے صحیح ہوتے ہیں اور بلاوجہ ان کی مخالفت اور ان پر تنقیدکی جاتی ہے۔ ان کا فیصلہ غلط ہوسکتا ہے، ان کا اندازہ بھی غلط ہوسکتا ہے، لیکن ان کی سوچ غلط نہیں ہوسکتی اور وہ سوچ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی کہ وہ سماجی برائیوں کی اصلاح چاہتی ہیں، لیکن اصلاح کا طریقہ اور انداز یا تو خطرناک یا مضحکہ خیز ہوتا ہے، تاہم سوچ مثبت ہوتی ہے۔ اس طرح کے فیصلوں کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ وہ چاہتے ہیں کہ سماج میں جو بُرائیاں پنپ رہی ہیں یا پھیل رہی ہیں، جن سے معاشرہ خراب ہورہا ہے، ان کی عزت پر بھی آنچ آرہی ہے۔ چونکہ کھاپ پنچایتوں کے فیصلوں کی مخالفت کرنے والے عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا امر واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، لیکن اگر وہی واقعہ ان کے ساتھ پیش آئے اور وہ اپنے آپ کو کھاپ پنچایتیں کرنے والوں کی جگہ پر رکھ کر دیکھیں اور پھر اپنے ضمیر سے پوچھیں تو شاید ان کی رائے بھی وہی ہوگی جو کھاپ پنچایتیں کرنے والوں کی ہوتی ہے۔ کوئی بھی اس پہلو سے نہیں سوچتا، اس لیے صرف کھاپ پنچایتیں ہی بدنام ہورہی ہیں۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کس طرح ہو، یہ بات تو سب ہی مانتے ہیں کہ ملک میں سماجی بُرائیوں کا دائرہ بڑھتا جارہا ہے۔ شادی کے بغیر ساتھ رہنا، ہم جنسی کی شادی، کرائے کی کوکھ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ نوجوانوں کے ذریعے خواتین کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات جیسے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جس ہریانہ میں جاٹ برادری کی طرف سے شادی کی عمر کم کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے، وہاں پچھلے ماہ خواتین کے ساتھ زیادتی کے ۱۳ واقعات پیش آئے۔ ۹ اکتوبر کے ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ریاست میں اس معاملے پر کافی ہنگامہ ہورہا ہے۔ آخر حکومت غیر اخلاقی حرکات کو کب تک قانونی مدد فراہم کرتی رہے گی۔ ایسی حرکتوں کی حوصلہ افزائی یا قانون سازی کے ذریعے تحفظ فراہم کرکے سماجی بُرائیوں کے مسائل کو کم نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ اور بڑھیں گے اور ہم دیکھ بھی رہے ہیں۔ مغربی تہذیب کی نقل ہندوستان میں وہ تباہی مچارہی ہے جس کے بارے میں ہم ایک دو دہائی قبل تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ انسان اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں رہا۔ بچہ بالغ ہونے کے بعد ازروئے قانون سارے فیصلے خود کرنے لگتا ہے، جن ماں باپ نے اس کی پرورش کرکے اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا اہل بنایا، اب ان کے فیصلوں میں ماں باپ کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ زور زبردستی کرنے پر دوہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو والدین اپنے پیروں پر کھڑے ہیں تو وہ نافرمانی کرنے والے اپنے لخت جگر کو گھر سے نکال دیتے ہیں اور جائیداد سے بے دخل کردیتے ہیں اور اگر والدین اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہیں وہ یا تو اپنے بچوں کی من مانی برداشت کرتے رہتے ہیں یا ناراضی مول لینے کی صورت میں اپنی بقیہ زندگی گزارنے کے لیے بوڑھوں کے آشرم میں پہنچ جاتے ہیں، یہ صورت حال صرف سماجی بُرائیوں کی دین ہوتی ہے۔
ہر یانہ کی کھاپ پنچایت نے شادی کی عمر کے سلسلے میں جو تجویز پیش کی ہے، وہ ملک کے لیے نئی نہیں ہے، پہلے بھی کسی نہ کسی پس منظر میں یہ مسئلہ اٹھایا جاتا رہا ہے اور اس پر بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ عدالتوں کی طرف سے بھی کئی فیصلے ایسے آئے ہیں جن میں قانونی طور پر مقرر شادی کی عمر کو یا تو کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے یا کم عمری کی شادی کے جواز کے لیے کسی نہ کسی بہانے کوئی گنجائش نکال لی گئی ہے۔ ایسا ہی ایک فیصلہ گزشتہ دنوں آیا تھا جب عدالت نے اٹھارہ برس سے کم ایک مسلم لڑکی کی غیر مسلم لڑکے کے ساتھ شادی کو یہ کہہ کر جواز فراہم کیا گیا تھا کہ مسلم پرسنل لا میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے، جب کہ حقیقت یہ تھی کہ وہ اسلامی شادی تھی ہی نہیں، پھر اس پر شرعی قوانین کا اطلاق کیسے ہوگا؟ بہرحال ہریانہ کی جاٹ برادری کی کھاپ پنچایت یا آل انڈیا جاٹ مہا سبھا کے ریاستی صدر اوم پرکاش مان نے شادی کی عمر کم کرنے کی جو ضرورت محسوس کی ہے اور اس کی تجویز پیش کی ہے، دیر سے ہی سہی اس پہلو سے لوگ سوچنے لگے ہیں، اگر ایسے لوگوں کے سامنے اسلام کی ابدی تعلیمات اور ہردور کے تقاضوں اور ضروریات سے ہم آہنگ شرعی قوانین کو پیش کیا تو اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے اور اس کے پیغامات کو لوگوں تک پہنچانے میں کافی مدد ملے گی۔ اسلام ہی سے متاثر ہوکر بیوائوں سے شادی، ضرورت کے تحت دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کا رواج بڑھا اور اب شرعی قوانین کی منشا کے مطابق شادی کی عمر کم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں اور لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ بلوغ کے بعد وقت پر شادی نہ کرنا ہی ساری سماجی بُرائیوں کی جڑ ہے۔ ابھی شریعت کے مطابق شادی کی بات ہورہی ہے، ہوسکتا ہے کہ آگے چل کر اسلامی حجاب اور پردے کی باتیں ہونے لگیں جو خواتین کو تحفظ بھی فراہم کرتا اور بہت ساری بُرائیوں سے روکتا بھی ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے آڈوانی نے خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات پر قابو پانے کے لیے عصمت دری کی سزا موت تجویز کی تھی، جب کہ اسلام میں پہلے ہی سے یہ سزاسنگسار کی صورت میں موجود ہے۔ ایسے حالات میں جب لوگ مذہبی تعصب یا قانون کی چہارم دیواریوں سے نکل کر سوچنے لگے ہیں اور مسائل کی سنگینی کو محسوس کر کے اس کی جڑ میں جانے لگے ہیں تو اسلام کی سچی اور ہر دور کے مطابق تعلیمات کو ان تک پہنچانا وقت کا تقاضا اور مسلمانوں کی ذمے داری ہے۔ مثبت سوچ کو آگے بڑھانے میں مدد سے ہمیں برادران وطن کو بھی سمجھانے میں آسانی ہوگی اور انہیں بھی شریعت کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

IQBAL AUR DAURE IBLISIYAT اقبال اور دورِ ابلیسیت


اس دور ابلیسیت کے مظاہر میں سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ ابلیس نے پورے کرئہ ارض پر فرعونیت کو ایک نظام کی صورت میں غالب کردیا ہے۔ پہلے ابلیس عام طور پر افراد کو شکار کیا کرتا تھا ، لیکن اب چونکہ اجتماعیت کا دور ہے لہٰذا اجتماعی اعتبار سے ابلیس نے یہ غلبہ ’نیو ورلڈ آرڈر ‘ کی صورت میں حاصل کرلیا ہے جس کا نعرہ آج امریکا نے لگایا ہے جو ’سول سپریم پاور آن ارتھ ‘‘ ہے ۔اصل کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ نیو ورلڈ آرڈر، جیو ورلڈ آرڈر ہے۔ لیکن درحقیقت یہ سب سے بڑا ابلیسی نعرہ ہے ۔اللہ کے خلاف سب سے بڑی بغاوت ہے ۔نیوورلڈ آرڈر دراصل فرعونیت اور قارونیت کا مجموعہ ہے ۔یہ بدترین استحصالی نظام ہے۔ ایسے نظام میں ایک عام انسان کا اللہ کی توحید اور اللہ کی بندگی پر قائم رہ جانا انتہائی مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ اسی کا نام دجالیت ہے۔احادیث کی رو سے دجالی فتنے کے دور میں کسی شخص کا ایمان پر قائم رہنا اتنا ہی مشکل ہوگا جتنا اپنی ہتھیلی پر انگارے رکھ کر اسے برداشت کرنا ۔ دوسرا کام جو ابلیس نے اس دور میں کیا ہے اور جس سے اس کی بالادستی ثابت ہوئی ہے ، وہ انسان کو شرف انسانیت سے محروم کرنا ہے۔ ان کے لیے اس دو طریقے اختیار کیے ہیں۔ایک سود، دوسرا مادر پدر آزادی۔سود کی حقیقت کو بھی اقبال نے خوب سمجھا ہے ۔فرماتے ہیں    ؎از ربوٰاجان تیرہ دل چوںخشت و سنگ   آدمی درندہ بے دندان و چنگ۔ یعنی سودخوری کے نتیجے میں انسان کا باطن تاریک اور اس کا دل اینٹ اور پتھر کی طرح سخت ہوجاتا ہے اور سودخور شخص ایک ایسے درندے کی مانند ہے جس کے دانت اور پنجے نہ ہو۔ سود کے ذریعے سے معیشت میں تقسیم دولت کا نظام ایسی غلط بنیادوں پر استوار ہوتا ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک طرف دولت کا ارتکاز جبکہ دوسری طرف محرومی جنم لیتی ہے۔اس کا سب سے بڑا مظہر آج ہمارا اپنا معاشرہ ہے کہ جس کا ایک بڑا حصہ نہایت تیزی کے ساتھ غربت کی لکیر سے نیچے جارہا ہے۔پاکستان میں رفتہ رفتہ مڈل کلاس ختم ہورہی ہے۔ ایک طرف محرومی بڑھ رہی ہے ، دوسری طرف ارتکاز دولت بڑھ رہا ہے۔ فقر کی ایک انتہا انسان کو کفر تک پہنچادیتی ہے جبکہ ارتکاز دولت کی صورت میں انسان کی حیوانیت اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ اشرف المخلوقات کی صفات سے عاری ہوکر درندے کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ ابلیس نے انسان کو اس کے مقام سے گرانے کے لیے جو دوسرا طریقہ اختیار کیا ہے ، وہ آزادی کے نام پر فحاشی اور عریانی کا فروغ ہے۔وہ اپنے اصل کام یعنی انسان کے جسم سے لباس اتروانے اور اسے شرم و حیا کے پاکیزہ جذبات سے محروم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج انسان اخلاقیات اور معاشرتی اقدار میں بالکل حیوان کی سطح پر آچکا ہے۔ چنانچہ اس طرح ابلیس نے آدمی کو اعلیٰ اور ارفع مقام سے گراکر اپنی فوقیت کو ثابت کیا ہے۔ ایک اور حقیقت جسے اقبال نے نوٹ کیا تھا وہ یہ کہ اس وقت ابلیس کے سب سے بڑے ایجنٹ اور آلۂ کار یہود ہیں جنہوں نے نہایت شاطرانہ انداز میں بینکنگ کے نظام کے ذریعے پورے یورپ کو اپنے معاشی چنگل میں جکڑ لیا ہے۔ فرماتے ہیں    ایں بنوک ،ایں فکر چالاک یہود   نور حق از سینۂ آدم ربود
چنانچہ پچھلی صدی کے اوائل ہی میں انہوں نے اس حقیقت کو بے نقاب کردیا تھا
؎   فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے
اور وہ چیز بالکل عیاں ہوکر سامنے آگئی ہے۔اس وقت تو ومشاہدے پر مبنی ایک خیا ل تھا ، لیکن وہ خیال اب واقعتا کھل کرایک حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ یہود اور ابلیس میں جو چیز قدرمشترک ہے ، اس کو اگر پہچان لیا جائے تو دور ابلیسیت کی اصلیت سمجھ میں آجائے گی۔ابلیس کا اصل مسئلہ کیا تھا؟ جب اسے حضرت آدم ؑ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیاتو اس نے کہا ’’میں اس سے بہتر ہوں ، تونے مجھے آگ سے پیدا کیا جبکہ اسے مٹی سے پیدا کیا۔‘‘لہٰذامیں برتر ہوں اور اس کو سجدہ نہیں کرسکتا ۔اس تکبر کی بنا پر پر وہ اپنے مقام سے گرا اور مردود اور ملعون قرار پایا۔ اس کے سینے میں آدم ؑ کے خلاف حسد کی آگ بھڑک اٹھی تھی ۔تبھی اس نے کہا کہ میں انسانوں کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا۔جہنم میں خود تو جائوں گا ہی، اس کو انسانوں سے بھروں گا۔ یہ اس کا چیلنج تھا کہ انہیں بھی
ساتھ لے کر جائوں گا کہ جن کی وجہ سے میں اس مقام سے محروم کردیا گیا ہوں    ؎   قصۂ آدم کو رنگیں کرگیا کس کا لہو۔ ’’جبرئیل و ابلیس‘‘ کے عنوان کے تحت ایک مکالمے کے انداز میں اقبال نے بڑی خوبصورتی سے اس بات کو واضح فرمایا ہے کہ ابلیس کے نزدیک جنت سے اسے نکالے جانے کا ذمہ دار آدم ہے لہٰذا اس کے خلاف ایک حسد اور جو ش انتقام ابلیس کے دل میں موجود ہے۔ بعینہٖ یہی مسئلہ یہود کا بھی ہے۔ آنحضور ﷺ کی بعثت کے بعد وہ بھی اسی قسم کی آزمائش سے دوچار ہوئے جس سے شیطان یا عزازیل حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے کے حکم پر ہوا تھا۔ یہود نے آنحضرت ﷺ کو اچھی طرح پہچاننے اور یہ جاننے کے باوجود کہ یہی وہ آخری نبی ہیں جن کے بارے میں پیشنگوئیاں ان کی الہامی کتابوں میں موجود ہیں، آنحضور ﷺ کی رسالت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا مسئلہ بھی عصبیت ، تکبر اور نسلی برتری کا تھا۔ بنی اسرائیل کا کہنا تھا کہ جب گزشتہ دو ہزار سال کے دوران تمام انبیا ء و رسل ہمارے قبیلے اور اور ہماری نسل سے مبعوث ہوئے ،تمام آسمانی کتابوں کا نزول ہمارے ہاں ہوا تو اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم آخری نبی کو مان کر بنو اسماعیل کی برتری کو تسلیم کرلیں۔ چنانچہ ان کا تکبر سد راہ بنا۔ پھر جب وہ ملعون قرار دیے گئے ، مغضوب علیہم قرار پائے اور بنو اسماعیل اس عظیم منصب پر فائز کردیے گئے جو اس سے قبل یہود کو حاصل تھا توحسد کی آگ ان کے سینوں میں بھڑک اٹھی۔مسلمانوں کے خلاف یہ آگ آج بھی دہک رہی ہے۔ چنانچہ جو آخری معرکہ ہے وہ اقبال کے نزدیک بھی اصل میں اسلام اور ابلیسیت کے مابین ہو گا۔ اس وقت پورے روئے ارضی پر ابلیس کے سب سے بڑے ایجنٹ یہود ہیں ۔اس امر میں کوئی شک نہیں ۔نیو ورلڈ آرڈر کا نعرہ اسی سلسے کی ایک کڑی ہے۔ آج امریکا پوری طرح یہودکی گرفت اور ان کے شکنجے میں ہے۔ اس طرح پوری دنیا میں سودی نظام کو بھی یہود نے رائج کیا ۔ مغرب میں فحاشی اور عریانی کے فروغ میں بھی یہود کا ہاتھ ہے۔ شیطان کے اصل ایجنٹ اس وقت یہی ہیں اور قیامت سے قبل حق وباطل کا جو آخری معرکہ ہونا ہے  ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفویٰ سے شرار بولہبی
اس میں مسلمانوں کے مقابلے میں یہود اور ان کے وہ حلیف شریک ہوں گے جن کی رگ جان ان کے پنجے میں ہے ۔ وہ تمام قوتیں ایک طرف ہوںگی جبکہ دوسری طرف صرف مسلمان ہوں گے۔ اس آخری معرکہ کا وقت یقیناََبہت قریب ہے۔ اقبال نے اسے معرکہ روح وبدن قرار دیا ہے۔ اس آخری معرکے کے حوالے سے اقبال نے اُمت کو بہت امید افزا پیغام دیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صرف ترجمان القرآن ہی بلکہ ترجمان حدیث بھی تھے ۔صحیح احادیث میں یہ واضح پیشن گوئی ہے کہ قیامت سے قبل آخری فتح اسلام کی ہو گی اور یہ دین پورے کرہ ارض پر اسی شان سے قائم وغالب ہو گا جیسے آنحضور ؐ کے دور میں جزیرہ نمائے عرب پر قائم تھا۔ چنانچہ ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ واقعتاََ اس اعتبار سے پڑھنے کے لائق ہے کہ اس کے ذریعے موجودہ دور کے اصل مسائل اور فتنہ انگیزیاں بھی نمایاں ہوتی ہیں اور اسلام کا اصل پیغام بھی سامنے آتا ہے۔ آج کے صوفی وملا کی غالب اکثریت اسلام کی روح اور اصل حقیقت سے بہت دور ہے۔ اصل اسلام جس سے ابلیس کو خطرہ ہے وہ اقبال نے اسی کی زبان سے کہلوایا ہے۔   ؎
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس اُمت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِآرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے جس پہ روشن باطنِ ایام ہے
مزدکیت فینہ فردا نہیں اسلام ہے
یعنی ابلیس کے نزدیک اصل فتنہ وہ اشتراکیت نہیں جس کا اس دور میں بڑا چرچا تھابلکہ اسے حقیقی اندیشہ اسلام سے ہے۔
عصرِحاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکار ا شرعِ پیغمبر کہیں
شرعِ پیغمبر کی جو تفصیل اقبال نے’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں بیان کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دین کا صحیح اور اسیع تر فکر علامہ اقبال پر کس درجے منکشف تھا۔ چنانچہ اس پہلو سے ان کا آخری پیغام یہ ہے کہ فیصلہ کن غلبہ بالآخر ابلیس کو نہیں بلکہ حق کی قوتوں ہی کو ہو گا۔  ؎
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی

Friday, 2 November 2012

SANDY KE SAMNEY AMERICA BEBAS

courtesy: Urdu Times Bombay

SUDAN PAR ISRAELI HAMLA

courtesy: Urdu Times Bombay

PHOONKON SE YE CHARAGH

پھو نکوں سے یہ چراغ بجھا یا نہ جا ئے گا



عالمی سطح پر مسلما نو ں کے خلا ف مشکیں کسنے اور ان کو طرح طرح سے ستا نے کا سلسلہ برابر جا ری ہے اور یہ تا قیام قیا مت جا ری رہے گا کیو نکہ یہ حق اور نا حق ، سچ اور جھو ٹ ، اندھیرے اور اجا لے کے درمیا ن ایک نہ مٹنے والی چپقلش اور نہ ختم ہو نے والا محا ربہ ہے جس کا ہمیشہ ہمیش جا ری رہنا قانون قدرت کے عین مطا بق ہے ۔ اس محا ربے نے افغا نستان اورعراق و بر ماسے لے کر گجرات ، آ سام ، زانسکار اور کشتواڑ تک کیا کیا گل کھلا ئے وہ روز روشن کی طرح عیا ں ہیں۔ حق بینی سے حا لا ت کا تجزیہ کیا جا ئے تو پتہ چلتا ہے کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ مغرب اپنے شاخ نازک کو اسلام کی خنک وخوشگوار ہو اؤں میں ڈولتا دیکھ کر حواس با ختہ ہو چکا ہے ۔وہ اپنے پیروں تلے کھسک رہی زمین کو دیکھ کر یہ بات سمجھ چکا ہے کہ جد ید ذہن کو سراسر اپیل کر نے والے دین اسلام کی وہ کتنی ہی غلط سلط شبیہ دنیا کے سامنے پیش کر ے ، وہ اس دین محبت ومودت پرکتنا ہی چلا ّ چلا ّ کر اسے دہشت گردی ، رجعت پسندی اور جنو نی فلسفہ کا نا م دے ،اسلام بہر حا ل اپنی حقانیت کے بل پر دیر سویر دنیا کو مفتوح کر کے چھو ڑے گا کیو نکہ یہ ما رکس ، لینن اور ما ؤزے تنگ یاچنگیزخانو ں اور ہٹلروں کی طر ح نعوذ با للہ بے انصافی اور انسان دشمنی کا روادار ہے نہ یہ رنگ ، نسل، زبا ن ، جغرافیہ ، ذات پا ت اور انسان کے تراشیدہ دوسری دیو اروں کے اندر مقید ہے۔ چنا نچہ اس کاایما نی ، اصلا حی ا ور انقلا بی پرتو جو نہی مغرب ومشرق تک پڑ ے گا تو ان کی ملحد تہذیبیں اور بے تکے فلسفے اپنی مو ت آ پ مر یں گے اور باوجوداپنے محیرا لعقول سائنسی کا ر نا موں اور مسلما نو ں کے ہمہ گیر اخلا قی اور علمی زوال کے ا نہیں دنیا کی اما مت سے ہا تھ دھونا ہو گااور خود ساختہ خدائیت کے مقام سے لڑ ھک کر گر نا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ہمہ تن کو شاں ہیں کہ اسلا م اور پیغمبر اسلام ؐ  کی شانِ اقدس میں گستاخیاں کر یں ۔     
اسی سلسلے کی ایک کڑی اسلام مخا لف حا لیہ انگریزی فلم ہے جو امریکہ میں صیہو نیت اور صلیبیت کے پرستا روں نے مل کر بنا ئی ۔  یو ںہمیشہ کی طرح ایک بار پھر اہل کتا ب کے مغضوب وگمراہ لو گو ں نے فخرِ آدمیتؐ ، مُحسنِ انسانیت ؐ ، محمد رسول اللہ ؐ کے تئیں اپنے دُشمنانہ رویہ کو واضح کردیا۔ یہودیوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر آج دنیا  کے اندھیا ورں میں کہیں انصاف، ہمدردی ، محبت اور انسانیت کا وجو د اور اجا لا ہے تو یہ صرف اور صرف اِسی محمد رسول اللہ ؐ کی مُقدس تعلیمات اور آ پ ؐ کی سیرت کا پرتو ہے ۔ اس سلسلے میں ’دی ہینڈر‘ نا می وہ کتا ب چشم کشا ہے جو ایک عیسا ئی کی تصنیف ہے لیکن اسے بھی چا ر ونا چار تسلیم کر نا پڑا کہ دنیا کی تہذیبی گہما گہمی ، علمی تفوق اور بقائے با ہم کی تاریخ میں اگر کسی نے سب سے آگے تن تنہا ہراول دست کا کام کیا تو پیغمبرآ خر الزما ں ؐ ہیں اور آ پ ؐ ہر معا ملے میں ہر عظیم شخصیت پر سبقت لے کرسر فہر ست ہیں ۔ حتیٰ کہ محمد عربی ؐ کی سکھا ئی ہو ئی تعلیما ت ، بتا ئے ہو ئے انعامات اور دکھا ئی ہو ئی راہ کی وجہ سے مسلمانوں نے اِن یہودیوں کو تب پناہ دی جب وہ ساری دُنیا میں تتر بتر تھے ، جب ساری دنیا میں یہودیوں کو ذلیل و خوار کیا جا رہا تھا اور جب ان پر دو آنسو بھی کو ئی بہا نے والا نہ تھا ۔اس تا ریخی حقیقت کا برملااظہار اسرائیل کے سابقہ وزیر اعظم بن گوریون نے یوں کیا۔
"Muslim Spain ia the golden era of our diaspora"                                
یعنی مسلم اسپین یہودیوں کے دورِ انتشار کا سنہری دور ہے جہاں مسلمانوں کے وسیع القلبی و فراخ دلی کی وجہ سے اُن کو عزت ملی اور حقِ حیا ت ملا۔ دوسری طرف عیسائیوں کو یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چا ہئے کہ جس سائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے وہ آج ساری دُنیا کے حکمران بنے ہوئے ہیں، یہ دنیو ی نعمت بھی اس دُنیا کوصرف اور صرف رسولِ رحمت ؐ کی ہی وجہ سے ملی جنہوں نے علم کی اہمیت کوواضح کرتے ہوئے فرمایاعلم میرا ہتھیار ہے۔
پھر یہ حضورؐ کے ہی غلاموں کی محنت کا ثمرہ ہے جنہو ں نے زما نہ ٔ وسطیٰ میں مختلف علوم کے دریا بہادئے۔ پھر بعد میں غلاامان ِ محمدؐ کے ہی علمی خزانے کو عیسائیوں نے بنیادبنا کر موجودہ سائنسی دور کا آغاز کردیا۔ یہ بات ہم کسی وہم یا عقیدت میں رو میں نہیں کہہ رہے بلکہ تاریخ کے اوراق میں یہ حقیقت روزِروشن کی طرح عیاں ہے اور اِس بات کا اظہار اسلام بیزار مستشرق پی کے ہٹی اپنی کتاب "History of Arabs"میں یوں کرتا ہے۔
"Muslim Spain wrote one of the Brightest chapters in the intellectual history of Europe. Between the middle of the eighth and the beginning of the thirteenth centuries, the Arabic speaking people where the main bearers of the torch of culture and civilization throughout the world. They were the medium through which ancient science and philosophy were recovered , supplemented, and transmitted in such a way, as to make possible the renaissance of western Europe."
 با لفا ظ دیگر اقوامِ عالم کی حالیہ ترقیاں آپ ؐ کے عظیم ترین علمی وفکری محنتوں کا ہی نتیجہ ہیں۔اِسی طرح کا اعترافِ حقیقت ایک اور غیر مسلم مفکر   John Willam Draper اپنی کتاب"Intellectual Development of  Europe"میں یوں کرتا ہے۔ 
"I have to deplore the systematic manner in which the literature of Europe has continued to put out of sight our obligations to the Mohammedans (Muslims) Surely they can not be much longer hidden. Injustice based  on religion rancour  and national conceit can not be perpetuated forever. The Arab has left his  intellectual impress on Europe. He has indelibly written it on the heavens as any one my see who reads the names of the stars on common celestial globe."      
اسی کو کہتے ہے کہ حقیقی عظمت وہی ہے جس کا اعتراف دشمن بھی کرے مگراہل کتاب کی کتنی فتنہ پرور ذہنیت ہے کہ جس محمد رسول اللہؐ کے طفیل ان پر امت مسلمہ کے یہ احسانا ت ہیں ، آ ج یہ اسی کے خلا ف ہر محا ذپر کمربستہ ہو جائیں۔اِن یہودیوں اور عیسائیوں کو توـتھامس کارلائل کی طرف دیکھنا چاہے جو خوداِنہی میں سے تھا۔ جب اُس نے’’ ہیروز ازم‘‘ نام سے کتاب لکھناشروع کی تو سارے انبیاء علیہ السّلام میں صرف محمد رسول اللہ ؐ کو اپنا ہیرو مانا۔ کیا کو ئی عقل کا اندھا یہ ما نے گا کہ کارلائل کو حضرت موسیٰ  ؑ کے کارنامے یاد نہ تھے ‘ کیا اُسے داوودؑ کے کارنامے معلوم نہ تھے؟ کیا اُسے سلیمانؑ کے معجزات پر نظر نہ تھی؟ کیا اُسے یوسف ؑ اور یحییٰ  ؑ وغیرہ کے معجزات اور کنٹربیو شن  پتہ نہ تھے؟کارلائل جیسے عظیم دماغ کو یہ سب کچھ معلوم تھا اور خود عیٰسیؑ کا نام لیوا بھی تھا مگر پھر بھی صرف اور صرف حضور ؐکو ہی اپنا رہبر اور ہیرو کیوں تسلیم کیا؟ اِس کا جواب یوں ہے کہ ’’ جب کارلائل نے اپنی مئور خانہ تحقیقات کی نِگاہ سے آفتابِ نبوت محمد رسولؐ کو دیکھا تب اُسے ہزراوں سال کے عہدوسیع کے آسمان پر اور کوئی کوکبِ نبوت نظر نہ آیا‘ جیسے اِس آفتاب ؐکے دوش بدوش وہ اپنے اوراق پر جلوہ گر کرسکتا۔ــ‘‘ ( ماخوز از رحمتً للعالمینؐ ۔ مصنف فاضی سلیمان منصور یوریؒ  ۔)
اسلام دشمن عنا صر کو کیا ہوا کہ آسمان پر نمودار ہُوئے سورج کا تو اقرار کرتے ہیںمگرجس محمد رسول اللہ ؐکی سیرت مبار کہ اِس سورج سے اربوں کھربوں گنا روشن ہے اُنؐ  کو غلط ، قابل اعتراض اور شرا نگیز طر یقے پہ فلمو ں اور کا رٹونو ں کے ذریعے پیش کر کے تا ریخ اور صداقت کو جھٹلا نے کا واہیات کا م کرتے ہیں۔ جب سے ان عیسائیوںاوردرپردہ طور یہودیوں کے ہاتھوں میں دُنیا کی چند روزہ قیادت آئی تب سے عالمِ انسانیت نے تبا ہی ہی تباہی دیکھی ہے ۔ چاہے وہ دو عظیم جنگیں ہوں‘ چاہے وہ شیطانی سودی نظام ہو‘ چاہے وہ مسلمان ممالک کی موجودہ تباہی ہو ‘ چاہے وہ موجودہ دُنیا کا اخلاقی بُحران ہو ‘ چاہے وہ صنفِ نازک کی چادرِ عزت کی نیلامی ہو،۔
تاریخ شاہد عادل ہے کہ محمد رسول اللہ صلعم نے (جن ؐ کی یہودی اورعیسائی خدا واسطے دشمن بنے پھر رہے ہیں ) ان سارے مکہّ والوں کو بیک جنبش قلم معاف کردیا جنہو ں نے آ پ ؐ کو اذیتیں دینے میں کو ئی کسر با قی نہ رکھی تھی ‘جنگِ حُنین کے مو قعہ پر چھے ہزار جنگی قیدیوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا کہ انصاف و عدل کے دامن پر کو ئی ادنیٰ آنچ نہ آئی ۔ ساری حیات مبارکہ صلعم انسانیت کی بقا کے لئے صَرف کر دی۔ یہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ ؐ کی ہی ذات با بر کت ہے کہ آپ ؐکے جانی دشمن بھی آپ ؐ کو امین‘ صادق جیسے معزز القاب سے پکارتے تھے۔ دُنیا ئے انسانیت نے یہ نظارہ پہلی بار آپ ؐ کے ہی ذریعہ سے ہی دیکھا کہ آپ ؐ کے جانی دشمن بھی اپنی امانیتں آپ ؐ کے حوالے کرتے تھے کیونکہ اُن کو معلوم تھا کہ کچھ بھی کیوں نہ ہو جائے آپؐ  نعوذ با للہ حیا نت کرنے والے ہیں ہی نہیں۔ یہ صرف اور صرف حضور ؐ کی ہی ذات والا شان ہے جسؐ نے لوگوں تک اپنی اپنی امانتیں پہنچانے کا اُس وقت بھی انتظام کرلیا جب ہجرت کی رات میں اہلِ مکہ آپ  ؐ کو شہید کرنا چاہتے تھے۔ اِن یہودیوں اور عیسایئوں کے نزدیک  انسانی آزادی ‘ اخوت ‘ اور انصاف کوئی معنی ہی نہیں رکھتے ہیں کیونکہ جس فکر وفلسفہ کے نما ئندے ہیں ‘وہ تو صرف اور صرف نسل پرستا نہ اور قومی تفا خر جیسی لا یعنی چیزوں پر انحصار رکھتی ہے‘ دوسرے اقوام کے کئے وہاں انصاف ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے جس کاجیتا جاگتا ثبوت U.N.O ہے جو کہ اِن ہی یہودیوں اور عیسایئوںکے زیر قیادت ہے۔ اِس کے برعکس جن محمد رسول اللہؐ کے خلاف یہ لوگ ہمیشہ زہر اگلتے رہتے ہیں، انہوں ؐ نے عدل و انصاف، بھائی چارے ‘  انسان دوستی کی ایسی زندگی بخش فضا سرزمین عرب میں قائم کر کے رکھد دی جس کی تعریف میں ایچ جی ویلز بے ساختہ بُول اُٹھے:
"Although the sermons of human freedom, fraternity and equality where said before also. We find a lot in the sermons of Jesus of Nazareth, but, it must be admitted that, it was only Mohammad (SAW) , who for the first time in the history of mankind established society based on these principles."                   
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
اِن دشمنانِ حق کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرنی چاہیے کہ یہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ ؐ  ہی ہے جو آبروئے انسانیت ہیں‘ جنؐ کی ہستی کے بغیر انسانیت  اور عدل گستری کا تصّور نا ممکن ہے کیونکہ یہ محمد رسول اللہ ؐ  ہی ہیںجو ایک انسان کو اُس کی زندگی کے ہر ایک میدان میں رہنمائی کرتے ہیں ‘ چاہے وہ سیاسی میدان ہو‘ چاہے وہ اقتصادی میدان ہو‘ وہ جنگ کا میدان ہو‘ چاہے وہ امن وصلح کی میز ہو‘ چاہے وہ ملک کے حکمرانی کا منصب ہو‘چاہے وہ ایک لیڈر ی کا مسئلہ ہو، چاہے وہ ایک باپ کے حقوق اور فرائض ہوں، چاہے وہ ایک بیٹے کی اطاعت شعاری کا نکتہ ہو، چاہے وہ ایک اُستاد اور شاگرد کا رشتہ ہو وغیرہ۔ الغرض ہر جگہ صرف اور صرف اِنسان کا مِلؐ  محمد رسول اللہ ؐ ہی رہنمائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اِس حقیقت کا اِظہار  غیر مسلم مفکر ـسر جیت سنگھ لانبہ یوں کرتا ہے:  ’’ انسان اپنے رہنمائے کامل کی جستجومیں جس طرف بھی نگاہ ڈالے آپ ؐ ہی آپ ؐدکھاتے دیتے ہیں‘‘۔
یہ اسلام دشمن عنا صر کی کیسی نادانی ہے کہ ایڈیسن کے تو اس لئے مشکور ہیں کہ اُس نے بجلی کا بلب ایجاد کر دیا ، جس سے اُن کے گھر روشن ہو گئے مگر جس محمد ؐ کے ہونے سے ساری انسانیت ہدایت کے نور سے منور ہو گئی، اُن ؐ کے مشکور اور ثنا ء خواں ہو نا تو دور کی بات آ پ ؐ  سیرت طیبہ پر نا قابل معافی گستا خیا ں کرتے ہیں لیکن کیا پھو نکو ں سے یہ چراغ بجھا یا جا سکتا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔ 
courtesy: Kashmir Uzma Srinagar

DIL KE JANWAR KO ZUBAH KAREIN


دل کے جا نور کو ذبح کریں
قربان ہیں گر اللہ پر پھر ہمیں کا ہے کا ڈر؟

 اسلام کا لغوی معنی ٰ ہے کسی با لا تر ہستی کے سامنے مکمل سرنڈر کر نا اور اس کے ہر حکم کی تعمیل اور ہر ممانعت پر رضاکا را نہ طور روک لگا نا ۔ با لفا ظ  دیگر اسلام کامل اطاعت کے ساتھ  سرخم تسیلم کر نا ۔ اصطلا حی معنی ٰ میں یہ اللہ کی کبریا ئی ، اس کی کلی مالکیت اور حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ کے سامنے بلا چو ں چرا اپنی گردن بر ضا ورغبت جھکا نا ہے۔ اگر ہم اس زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو دل کی معیت اور جاں کی شر کت کے ساتھ ایک اللہ کے سامنے سر عبو دیت خم کر نااسلام ہے ۔ بالفاظ دیگر ایک انسان جب اپنی ذاتی پسند ونا پسند سے دستبردار وہ جا ئے ،و ہ اللہ کی خوشنودی کے لئے خوشی خوشی ہر چیز کی قربانی پیش کر ے تو وہ کامل انسان یا کمہ خواں مسلما ن ہو جا تا ہے ۔ ہم نے انفرادی اور اجتما عی طور گزشتہ دنو ں قربا نی کے حوالے سے تجدید عہد کیا کہ ہماری زندگی ، ہماری موت ، ہماری نما ز اور ہماری قربا نی سارے جہا ں کے ما لک وخا لق کے لئے ہے ۔ کہنے کو یہ  قر با نی اُس عظیم المر تبت پیغمبرانہ شخصیت کی یاد گار ہے جس نے ایثار کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ دُنیا اب تک محوِ حیرت ہے لیکن اس کو قلب وجگر سے قبول کر کے ہم نے اصل مین اسوہ ٔ رسولؐ کی وساطت سے اسوۂ ابراہیمیؑ پر نیا حلف اٹھا یا ۔ عید الا ضحیٰ کی قربانی کو اسی خُدا کے برگزیدہ پیغمبر کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جن کی زندگی کا ہر ورق پاک و صاف اور مقدس ہے، جن کی سیرت طیبہ کے لمحات امتحان اور آزمائش کی مثال کامل ہیں،جن کی عملی زندگی ملت اسلامیہ کے لئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ قربانی درحقیقت حضرت ابراہیمؑ کی ایک ایسی یاد گار ہے اور با رگاہ الہیہ میںایسا مقبول عمل ہے کہ اسلام میں جس دِن سے قربانی مشروع ہوئی، اُس دن سے آج تک مسلمانوں میں یہ عملی طور جاری و ساری ہے اور یہ ایک ایسا عالمگیر عمل ہے جو دنیا کے ہر گوشے میں ایام ذی الحجہ میںہوتا رہتا ہے۔ یہ تقریباََ ایک سو سال عمرکے اُس باپ ( حضرت ابراہیمؑ) کی سُنت عظیم ہے جو رافت و رحمت کا پیکر اور شفقت و محبت کا مجسمہ تھا ، جس کی دِلسوزی و دردمندی دوست و دشمن سب کے لئے عام تھی۔ ہاں ! وہی شفیق و رحیم باپ اپنے رب کا اِشارہ پاتے ہی اپنے جگر گوشے کو ذبح کرنے کے لئے اپنی آستینیں چڑھالیتا ہے ، جو کہ نہایت ہی بردبار ، سلیم الطبع ، فرماں بردار ، صابر اور سعادت مند بیٹا تھا۔ اس طرح کی قربانی تاریخ انسانی کا ایسا واقعہ بن گئی جس کو زمین و آسمان کی نگاہوں نے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا ، اور اس کی نظیر تاریخِ انسانی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ہر سال اس زمین پر جو کروڑوں قربانیاں ہوتی آرہی ہیں اور قیامت تک ہوتی رہیں گی سب اسی ایک مطیع و مسلم جان کی بلندی و فیروزمندی کا فدیہ عظیم ہے۔ یہ بلندی و فیروزمندی صرف اس وجہ سے ہوئی کہ وہ اللہ کی محبت سے سر شار تھی۔ اس کے سینہ ٔ وجود میں عشق الٰہی کی انگیٹھیا ں دہک رہی تھیں ۔ اس کی زندگی میں تقویٰ و طہارت ، خُدا پرستی و پرہیز گاری اور اطاعت و بندگی کی تمام رعنائیاں موجود تھیں۔
ایک طرف عبدیت و بندگی اور کامل خود سپردگی کی یہ حسین تصویریں ہیں جو اس عظیم پیغمبر صلعم کی زندگی میں نمایاں ہیں تو دوسری طرف انکار و اعراض اور غفلت و مدہوشی کی شرمناک تصویریں ہیں جو آج ہم پیش کر رہے ہیں۔ در اصل قربانی کا مقصد یہی نہیں کہ انسان کی ذات پر عائد ہونے والی قربانی کو جانور کی ذات پر منتقل یا محدود کر دیا جائے۔ بے شک جانور کو ذبح کرنے سے قربانی کا ظاہری روپ تو مکمل ہو گیا لیکن اس کا حقیقی اور باطنی روپ سامنے نہیں آیا۔ جس طرح روزہ رکھنے کا اصل مقصد ظاہری حواس سے نکل کر باطنی حواس میں داخل ہونا ہے ،اسی طرح قربانی کا اصل مقصد صرف جانور کے حلقوم پر چھری پھیر دینا ہر گز نہیں بلکہ جانور کے گلے پر چھری چلانے کی بعد قربانی دینے والے شخص پر فوراََ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے دل کو ٹٹولے ، اپنے ضمیر کو دستک دے کہ کیا اس نے اپنی نفسیاتی خواہش سستے جذبات اور خود غرضانہ عادات کے گلے پر بھی چھری رکھ دی ہے یا نہیں ؟ اگر صرف جانور کے گلے پر چھری رکھی ہے اور اپنے مفادات کو صاف بچا لیا تو جان لے کہ اللہ تعالیٰ تک قربانی کا گوشت اور خون نہیں بلکہ صرف تقویٰ پہنچتا ہے۔گوشت ہم کھا لیں گے ، کچھ غرباء کھانے کو لے جائیں گے ، کھالیں بھی کوئی جماعت ، ادارہ یا دارالعلوم والے لے جائیںگے لیکن اللہ تک کچھ نہیں پہنچے گا۔ اگر توجہ اور رجوع الی اللہ ، خشوع و خضوع ، بارِ گاہِ رب میں حضوری کا شعور و اِدراک ، انابت اور محبت الٰہی کی روح موجود نہیںہے۔ تقویٰ سے بے نیاز افراد خواہ وہ مسندِ اقتدار پر فائز ہوں یا محکومی اور مغلوبیت کی زندگی بسر کر رہے ہوں، اگر اپنی نا جائز خواہشات اور حد سے بڑھتی ہوئی ہوس پر چھری نہیں پھیر تے ، تجارت میں ، ملازمت میں ، پیشہ ورانہ مشاغل میں ، نا جائز اور حرام کو حلال بنانے میں ہیں تو وہ اچھی طرح جان لیں کہ ان کے اس ظاہری عمل کی بارگاہِ الٰہی میں کوئی حیثیت نہیں۔ اگر وہ اپنی ریاکاری ، منافقت ، دھوکہ دہی ، جھوٹ اور خود غرضی کو ذبح نہیں کرتے اور جانور پہ جانور قربان  کئے جارہے ہیں تو جان لیں کہ وہ راہِ حیات میں خسارہ اُٹھانے والے مسافر ہیں۔ اس کے برعکس جس نے فدائیت کے جذبے سے ایک جانور لیا اور اس کو ذبح کرنے کے لئے چلا اور اس کا دل کہہ رہا تھا  :  یا بارالٰہا ! میں جانور کو نہیں خود اپنے آپ کو اور اپنی تمام خواہشات کو آپ کے حوالے کر رہا ہوں ، جانور کو مقرر طریقے پر ذبح کیا اور اس کی زبان سے نکلا :  خُدایا ! یہ میری اپنی جان کا ہدیہ ہے جو میں آپ کی بارگاہ میں پیش کر رہا ہوں اس کو قبول فرما ۔ قربانی کے دوران اگر اس کا دل پگھلتا رہا ، اس کی آنکھیں آنسوں بہاتی رہیں ، قربانی اس کے اندر نرمی پیدا کرکے ہر قسم کے بُرے جذبات کو نکالتی رہی ، کبر ، عداوت ، انتقام اور خود نمائی کے جذبات کو اللہ کے لئے قربان کرتا رہا ، تقویٰ کا تجربہ کرتا رہا ، اپنی اصلاح کی فکر میں لگ گیا ، حوصلے اور تمنائیں دُنیاوی چیزوں کے بجائے اُخروی چیزوں میں لگانے کی فکر میں لگا رہا ، اس نے گویا قربانی کا تقویٰ اللہ کو بھیجا تو یہ وہ قربانی ہے جس کے ذریعے اس کا ایمان و عملِ صالح اس کو اُن نفسیاتی پیچیدگیوں سے صاف و پاک کردیتا ہے جو کسی معاملے میں حق کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ اس طرح اس کا ایمان اس کو خُدائی راستہ پر چلا تارہتا ہے۔اس کے بعد خُدائے بر تر اس کا ہاتھ تھام لیتا ہے اور کبھی بھی اس کواپنے سے الگ نہیں کرتا۔ اس کی رہنمائی بھی کرتا ہے اور اس کی مدد بھی۔اللہ کی منشاء اور پیغام کو ذہن نشین کریں تو آج سے ملت اسلامیہ کی تاریخ کا نیا باب شروع ہوجائے گا۔ لیل و نہار تبدیل ہو جائیں گے ۔ ملت اسلامیہ کو وہی سر فرازیاں نصیب ہوں گی جو کبھی ہمارے بزرگ و آباء کو حاصل تھیں ۔غورطلب بات ہے کہ سورج ہمارے سروں پرچمک رہاہے،اور اس شان سے پورے عالم میں اپنی روشن کرنیں بکھیررہاہے۔ کیا ہم جانتے ہیں کہ اس کی شان وشوکت اوراس کی تابناکیوں کارازکیاہے؟اس کاراز صرف یہ ہے کہ وہ اپنے مالک وآقا کے بنائے ہوئے نظام اورضابطے کاپا بندہے۔ اس کے آقانے اس کے لئے جودائرہ متعین کردیاہے،وہ اسی دائرے میںگردش کررہاہے۔ اس کے طلوع وغروب کے لئے جواوقات مقررکردئے گئے ہیں،انہیں اوقات میںوہ طلوع وغروب ہوتاہے۔ اگرآج وہ اپنے محورکوچھوڑدے یااپنے دائرے سے باہرآجائے، خدانے اس کے لئے جوضابطہ بنایاہے،اگر وہ اس سے آزاد ہوجائے تودیکھتے ہی دیکھتے سورج کے بجائے راکھ کاڈھیر ہوجائے۔ لہٰذا ہمیں  اللہ کی راہ میں کو ئی بھی قربانی پیش کر تے قربا نی کی اصل مقصدیت اوراپنی حیثیت اورمنصب کویادرکھناچاہیے۔ یہی قر بانی کاپیغام ہے جو ملت اسلامیہ کوہرعیدالاضحی پر ربانی انقلاب کو اپنے اندر سرایت کرنے کی ہدایت دیتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قربانی کی اصل روح اور اسکے منشاء کو کو سمجھنے اور اپنی شریعت پر ثابت قدم رہنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ (آمین)