نظام دکن کے خلاف زہر افشانی
Tuesday, 21 January 2014
|
Comments(3) |
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ نظام دکن کے خلاف زہر افشانی آندھرا پردیش قانون ساز اسمبلی میں تلنگانہ بل پر مباحث کے دوران اچانک ہی ارکان نے سابق فرمانروا آصفیہ نظام دکن کے خلاف زہر افشانی کا سلسلہ شروع کردیا ۔ یہ ارکان اس حقیقت کے باوجود نظام دکن کے خلاف زہر افشانی کر رہے تھے کہ وہ جس عمارت میں حکومت کے کام کاج چلا رہے ہیں وہ خود نظام دکن کی تعمیر کردہ ہے ۔ نظام دکن کے خلاف بہتان تراشیوں اور تنقیدوں میں کانگریس و تلگودیشم دونوں ہی جماعتوں کے ارکان ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے تھے اور حد تو یہ ہوگئی کہ امور مقننہ کی وزارت رکھنے والے شیلجہ ناتھ نے بھی نظام کے خلاف انتہائی شدید ریمارکس کرتے ہوئے اپنی انتہائی گھٹیا اور فرقہ پرستانہ ذہنیت کو ظاہر کردیا ہے ۔ انہوں نے نظام دکن کی تائید کرنے اور ان کی مدافعت کرنے کو ملک دشمنی سے تعبیر کردیا جو ان کے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے ۔ نظام دکن نے جو کارنامے اپنی حیات میں انجام دئے ہیں آج بھی ساری دنیا ان کی معترف ہے اور خود حکومت آندھرا پردیش کو نظام دکن کے کارناموں کا معترف ہونا چاہئے ۔ نظام دکن کے کارنامے ہی تھے جن کی وجہ سے انہیں سقوط حیدرآباد کے بعد راج پرمکھ بنایا گیا تھا ۔ نظام دکن دنیا کے متمول ترین انسانوں میں شامل رہنے کے باوجود سادگی پسند انسان تھے اور ان پر غیر سکیولر ہونے کا الزام عائد کرنے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نظام دکن نے سب سے پہلے کہا تھاکہ ’’ ہند و اور مسلمان میری دو آنکھیں ہیں ‘‘ ۔ آج سیما آندھرا کے حکمران اکثر و بیشتر موقعوں پر نظام دکن کا یہ قول دہراتے ہیں اور اپنے سکیولر ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ اسمبلی میں حالانکہ تلنگانہ کی تائید یا مخالفت میں بحث ہونی چاہئے تھی لیکن فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والے عناصر نے ان مباحث کا رخ ہی تبدیل کرتے ہوئے اپنے دلوں کی بھڑاس نظام دکن پر نکالنی شروع کردی جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ نظام دکن وہ شخصیت رہے ہیں جنہوں نے ہمیشہ ہی عوام کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھا تھا اور ان کے پاس ہندو یا مسلمان میں کوئی امتیاز نہیں تھا ۔ نظام دکن نے اپنے دور حکومت میں غیر مسلم اداروں اور منادر کیلئے بھی جو عطیات دئے ہیں وہ آج بھی دنیا کے سامنے ہیں اور اس کی مثال آج کے دور میں ’ سکیولر ‘ کہلانے والے حکمران بھی شائد ہی مشکل سے پیش کرسکیں۔ نظام دکن نے جو کارنامے انجام دئے ہیں وہ بے مثال ہیں۔ انہوں نے ریاستی اسمبلی کی جو عمارت ہے وہ تعمیر کروائی تھی ۔ اسی عمارت میں آج تک متحدہ ریاست کے کام کاج چلائے جاتے ہیں۔ نظام دکن نے جوبلی ہال تعمیر کروایا تھا جو اپنی مثال آپ ہے ۔ نظام دکن نے دواخانہ عثمانیہ تعمیر کروایا اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ آج تک اس دواخانہ سے مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم افراد مستفید ہوتے آئے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں۔ نظام دکن نے ہندوستان کی ایک عظیم درسگاہ جامعہ عثمانیہ قائم کی ۔ یہ یونیورسٹی ہندوستان کی چنندہ یونیورسٹیوں میں شمار کی جاتی ہے اور آج یہاں بھی مسلمان سے زیادہ غیر مسلم طلبا علم و فن سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ یہ نظام دکن ہی کا کارنامہ تھا کہ انہوںنے حیدرآباد کیلئے دو عظیم ذخائر آب تعمیر کروائے تھے اور یہی ذخائر آب آج بھی شہر کے ایک بڑے حصے کی آبی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ دیگر ذخائر آب سے پانی کی فراہمی حالیہ وقتوں میں ممکن ہوسکی ہے جبکہ ایک طویل عرصہ تک عثمان ساگر اور حمایت ساگر ہی سے شہر کی آبی ضروریات پوری کی گئیں۔ نظام دکن نے بنارس ہندو یونیورسٹی کو ‘ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی سے دوگنا عطیہ دیا تھا ۔ انہوں نے بھدرا چلم کے مندر کو نہ صرف نقد عطیہ دیا بلکہ اراضی بھی حوالے کی تھی ۔ نظام دکن نے تروپتی کے مندر کیلئے عطیہ فراہم کیا تھا ۔ ان کے یہ ایسے کارنامے ہیں جو شائد آج کے حکمران تصور میں بھی نہ لا پائیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود نظام دکن کے خلاف زہر افشانی ‘ کانگریس اور تلگودیشم دونوں ہی جماعتوں کے ارکان اسمبلی کی فرقہ پرستانہ اور متعصب ذہنیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ تنقیدیں اس لئے بھی قابل مذمت ہیں کہ اسمبلی میں اس موضوع پر اظہار خیال کی ضرورت ہی تھی اور تلنگانہ پر مباحث کا انہوں نے عمدا رخ موڑتے ہوئے اپنی فرقہ پرستانہ ذہنیت کو ظاہر کردیا ۔ اسمبلی میں نظام کے خلاف ان ارکان اسمبلی کے اظہار خیال سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ سیما آندھرا کے ارکان کے ذہن کس حد تک متعصب اور پراگندہ ہیں۔ یہ بھرم ختم ہوگیا کہ سیما آندھرا قائدین یا عوام کی وجہ سے فرقہ پرستی کو روکنے میں مدد ملتی ہے ۔ اسمبلی میں جب یہ ارکان اظہار خیال کر رہے تھے تو کہیں سے یہ تاثر نہیں مل رہا تھا کہ یہ ان جماعتوں کے ارکان ہیں جو مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرکے اقتدار حاصل کرتی ہیں۔ یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ بی جے پی ‘ شیوسینا یا ایسی ہی فرقہ پرست جماعتوں کے ارکان ہیں اور ایک بے مثال ‘ انصاف پسند ‘ غیر جانبدار ‘ انسانیت نواز اور رعایا پرور حکمران کے خلاف اپنے دلوں کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ ان ارکان کو اپنے اظہار خیال پر معذرت خواہی کرنے کی اور حقائق سے واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی بہتان تراشیوں سے حقائق بدلنے والے نہیں ہیں اور ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی نظام دکن کی حکومت کی ایک معمولی اور ادنی سے مثال بھی یہ ارکان اور آج کی حکومت پیش نہیں کر پائیگی ۔ |
- See more at:
http://www.siasat.com/urdu/news/%D9%86%D8%B8%D8%A7%D9%85-%D8%AF%DA%A9%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%81-%D8%B2%DB%81%D8%B1-%D8%A7%D9%81%D8%B4%D8%A7%D9%86%DB%ddd8C#sthash.hf0pQ9
نظام دکن کے خلاف زہر افشانی
Tuesday, 21 January 2014
|
Comments(3) |
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ نظام دکن کے خلاف زہر افشانی آندھرا پردیش قانون ساز اسمبلی میں تلنگانہ بل پر مباحث کے دوران اچانک ہی ارکان نے سابق فرمانروا آصفیہ نظام دکن کے خلاف زہر افشانی کا سلسلہ شروع کردیا ۔ یہ ارکان اس حقیقت کے باوجود نظام دکن کے خلاف زہر افشانی کر رہے تھے کہ وہ جس عمارت میں حکومت کے کام کاج چلا رہے ہیں وہ خود نظام دکن کی تعمیر کردہ ہے ۔ نظام دکن کے خلاف بہتان تراشیوں اور تنقیدوں میں کانگریس و تلگودیشم دونوں ہی جماعتوں کے ارکان ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے تھے اور حد تو یہ ہوگئی کہ امور مقننہ کی وزارت رکھنے والے شیلجہ ناتھ نے بھی نظام کے خلاف انتہائی شدید ریمارکس کرتے ہوئے اپنی انتہائی گھٹیا اور فرقہ پرستانہ ذہنیت کو ظاہر کردیا ہے ۔ انہوں نے نظام دکن کی تائید کرنے اور ان کی مدافعت کرنے کو ملک دشمنی سے تعبیر کردیا جو ان کے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے ۔ نظام دکن نے جو کارنامے اپنی حیات میں انجام دئے ہیں آج بھی ساری دنیا ان کی معترف ہے اور خود حکومت آندھرا پردیش کو نظام دکن کے کارناموں کا معترف ہونا چاہئے ۔ نظام دکن کے کارنامے ہی تھے جن کی وجہ سے انہیں سقوط حیدرآباد کے بعد راج پرمکھ بنایا گیا تھا ۔ نظام دکن دنیا کے متمول ترین انسانوں میں شامل رہنے کے باوجود سادگی پسند انسان تھے اور ان پر غیر سکیولر ہونے کا الزام عائد کرنے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نظام دکن نے سب سے پہلے کہا تھاکہ ’’ ہند و اور مسلمان میری دو آنکھیں ہیں ‘‘ ۔ آج سیما آندھرا کے حکمران اکثر و بیشتر موقعوں پر نظام دکن کا یہ قول دہراتے ہیں اور اپنے سکیولر ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ اسمبلی میں حالانکہ تلنگانہ کی تائید یا مخالفت میں بحث ہونی چاہئے تھی لیکن فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والے عناصر نے ان مباحث کا رخ ہی تبدیل کرتے ہوئے اپنے دلوں کی بھڑاس نظام دکن پر نکالنی شروع کردی جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ نظام دکن وہ شخصیت رہے ہیں جنہوں نے ہمیشہ ہی عوام کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھا تھا اور ان کے پاس ہندو یا مسلمان میں کوئی امتیاز نہیں تھا ۔ نظام دکن نے اپنے دور حکومت میں غیر مسلم اداروں اور منادر کیلئے بھی جو عطیات دئے ہیں وہ آج بھی دنیا کے سامنے ہیں اور اس کی مثال آج کے دور میں ’ سکیولر ‘ کہلانے والے حکمران بھی شائد ہی مشکل سے پیش کرسکیں۔ نظام دکن نے جو کارنامے انجام دئے ہیں وہ بے مثال ہیں۔ انہوں نے ریاستی اسمبلی کی جو عمارت ہے وہ تعمیر کروائی تھی ۔ اسی عمارت میں آج تک متحدہ ریاست کے کام کاج چلائے جاتے ہیں۔ نظام دکن نے جوبلی ہال تعمیر کروایا تھا جو اپنی مثال آپ ہے ۔ نظام دکن نے دواخانہ عثمانیہ تعمیر کروایا اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ آج تک اس دواخانہ سے مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم افراد مستفید ہوتے آئے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں۔ نظام دکن نے ہندوستان کی ایک عظیم درسگاہ جامعہ عثمانیہ قائم کی ۔ یہ یونیورسٹی ہندوستان کی چنندہ یونیورسٹیوں میں شمار کی جاتی ہے اور آج یہاں بھی مسلمان سے زیادہ غیر مسلم طلبا علم و فن سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ یہ نظام دکن ہی کا کارنامہ تھا کہ انہوںنے حیدرآباد کیلئے دو عظیم ذخائر آب تعمیر کروائے تھے اور یہی ذخائر آب آج بھی شہر کے ایک بڑے حصے کی آبی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ دیگر ذخائر آب سے پانی کی فراہمی حالیہ وقتوں میں ممکن ہوسکی ہے جبکہ ایک طویل عرصہ تک عثمان ساگر اور حمایت ساگر ہی سے شہر کی آبی ضروریات پوری کی گئیں۔ نظام دکن نے بنارس ہندو یونیورسٹی کو ‘ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی سے دوگنا عطیہ دیا تھا ۔ انہوں نے بھدرا چلم کے مندر کو نہ صرف نقد عطیہ دیا بلکہ اراضی بھی حوالے کی تھی ۔ نظام دکن نے تروپتی کے مندر کیلئے عطیہ فراہم کیا تھا ۔ ان کے یہ ایسے کارنامے ہیں جو شائد آج کے حکمران تصور میں بھی نہ لا پائیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود نظام دکن کے خلاف زہر افشانی ‘ کانگریس اور تلگودیشم دونوں ہی جماعتوں کے ارکان اسمبلی کی فرقہ پرستانہ اور متعصب ذہنیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ تنقیدیں اس لئے بھی قابل مذمت ہیں کہ اسمبلی میں اس موضوع پر اظہار خیال کی ضرورت ہی تھی اور تلنگانہ پر مباحث کا انہوں نے عمدا رخ موڑتے ہوئے اپنی فرقہ پرستانہ ذہنیت کو ظاہر کردیا ۔ اسمبلی میں نظام کے خلاف ان ارکان اسمبلی کے اظہار خیال سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ سیما آندھرا کے ارکان کے ذہن کس حد تک متعصب اور پراگندہ ہیں۔ یہ بھرم ختم ہوگیا کہ سیما آندھرا قائدین یا عوام کی وجہ سے فرقہ پرستی کو روکنے میں مدد ملتی ہے ۔ اسمبلی میں جب یہ ارکان اظہار خیال کر رہے تھے تو کہیں سے یہ تاثر نہیں مل رہا تھا کہ یہ ان جماعتوں کے ارکان ہیں جو مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرکے اقتدار حاصل کرتی ہیں۔ یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ بی جے پی ‘ شیوسینا یا ایسی ہی فرقہ پرست جماعتوں کے ارکان ہیں اور ایک بے مثال ‘ انصاف پسند ‘ غیر جانبدار ‘ انسانیت نواز اور رعایا پرور حکمران کے خلاف اپنے دلوں کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ ان ارکان کو اپنے اظہار خیال پر معذرت خواہی کرنے کی اور حقائق سے واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی بہتان تراشیوں سے حقائق بدلنے والے نہیں ہیں اور ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی نظام دکن کی حکومت کی ایک معمولی اور ادنی سے مثال بھی یہ ارکان اور آج کی حکومت پیش نہیں کر پائیگی ۔ |
- See more at:
http://www.siasat.com/urdu/news/%D9%86%D8%B8%D8%A7%D9%85-%D8%AF%DA%A9%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%81-%D8%B2%DB%81%D8%B1-%D8%A7%D9%81%D8%B4%D8%A7%D9%86%DB%8C#sthash.hf0pQ9s6.dpufs6.dpuf