بھارت میں انتخابی سیاست کی لہریں
سیما مصطفیٰ
اس وقت انتخابات اور مخالفانہ سیاست نے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے
رکھا ہے۔ ووٹ بینک سیاست کے علاوہ ہر چیز ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہے
کیونکہ بی جے پی کے نریندرا مودی ملک بھر کا دورہ کر رہے ہیں۔
نریندرا مودی کی انتخابی مہم کا مقابلہ کرنے کے لیے کانگریس کے راہول گاندھی ایک نرم اور جمہوری انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ علاوہ ازیں دیگر سیاسی جماعتیں آئندہ انتخابات کے حوالے سے آپس میں جوڑ توڑ کی سیاست کر رہی ہیں۔ جیسے جیسے دن گزرتے جارہے ہیں ، زبانیں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ وزیرخارجہ سلمان خورشید نے مودی کو ’’کمزور‘‘ قرار دیا لیکن بی جے پی نے اس ’’کمزوری‘‘ کو ظاہری معنی میں لیا اور وزیرخارجہ کے خلاف سخت زبان استعمال کی۔
بہرحال راہول گاندھی نے سلمان خورشید کی طرف سے استعمال کی گئی زبان کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ راشٹریہ جنتادل کے لیڈر لالوپرساد یادیوکی بہار میں واپس آنے کی کوشش مشکل محسوس ہوتی ہے۔ یہ سیاستدان جس نے بی جے پی کی سربراہی میں قائم نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کو چھوڑ دیا تھا تاکہ گجرات میں ہونے والے تشدد کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جائے، نے اسی بی جے پی میں شمولیت کے لیے کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی قیادت گجرات کے وہی وزیراعلیٰ نریندرا مودی کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لالوپرساد بہار میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تفریح وکھیل کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں، بھارت میں انتخابی مہم شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
عام آدمی پارٹی مخصوص لیڈروں کو اپنا نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور ان امیدواروں کا انتخاب کر رہی ہے جو اپنی ذہانت، قابلیت اور دیانت کے لیے مشہور ہیں۔ یہ کام، خاص طور پر اس نئی سیاسی جماعت کے لیے قدرے مشکل ہے جو بھارت بھر میں کم از کم چار سو امیدوار میدان میں لانا چاہتی ہے۔ عام آدمی پارٹی عوام کی حمایت کی اس لہر پر انحصار کرنا چاہتی ہے جو فی الحال دہلی اور ہریانہ سے باہر نہیں۔ آئندہ بھارتی انتخابات کی نوعیت انتہائی پیچیدہ ہے کیونکہ ہر بھارتی ریاست کے اپنے مسائل ہیں۔ مثال کے طور پر تامل ناڈوکی وزیراعلیٰ لے للتا، جن کی نظروزارت عظمیٰ پر ہے، قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کے قاتلوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ پھر سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور دلچسپ امر یہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں نے کوئی توجہ نہ کی۔
علاوہ ازیں ملکی سیاست میں مذہب اور ذات کے عناصر موجود ہیں کیونکہ سیاست دان ان عناصر کی بنیاد پر سیاست کرنے میں بالکل شرم محسوس نہیں کر رہے۔ ہر ووٹ بینک کا دعویٰ ہے کہ یہی وقت ہے کہ جب غریبوں اور محتاجوں کی وہ لوگ آواز سنیں گے جنہوں ووٹوں کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں یہ امر خاص اہمیت کا حامل ہے کہ معاشرے کے اس طبقے کو اب مزید احمق نہیں بنایا جا سکتا۔ ملک بھر میں اس احساس کو تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ یہ لوگ اب سیاستدانوں کے ہاتھوں میں نہیں کھیلیں گے اور وہ اب مزاحمت کرنے پر آمادہ ہو چکے ہیں۔ بہرحال، یہ حقیقت اکثر نظرانداز کر دی جاتی ہے۔ بھارتی انتخابات ، ایک بہت بھاری ذمہ داری اور مشق ہیں اور ان کی کامیابی کا انحصار الیکشن کمشن اور بھارتی عوام کی طرف سے سوفیصد کارکردگی پر ہے۔ ان انتخابات میں لاکھوں افراد ووٹ ڈالنے کے لیے آئیں گے اور یقینی طور پر دیہی علاقوں کے ووٹ اہم کردار ادا کریں گے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ طبقہ امرا اور اپر مڈل کلاس کے لوگ انتخابات کی تعطیلات کو آرام کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی پولنگ سٹیشنوں کی قطاروں میں نہیں کھڑا ہونا چاہتا۔ لیکن ان کی طرف سے پولنگ سٹیشنوں کی قطاروں میں کھڑا ہونے سے ہچکچاہٹ کی تلافی ، غریب افراد اپنی طرف سے کثیر تعداد میں شرکت کے ذریعے کر دیں گے کیونکہ انہیں امید ہے کہ ان کا ووٹ ملک کے بہتر مستقبل کے لیے اہم ترین ثابت ہوگا۔
بشکریہ: دی ایکسپریس ٹریبیون
ترجمہ: ریاض محمود انجم
نریندرا مودی کی انتخابی مہم کا مقابلہ کرنے کے لیے کانگریس کے راہول گاندھی ایک نرم اور جمہوری انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ علاوہ ازیں دیگر سیاسی جماعتیں آئندہ انتخابات کے حوالے سے آپس میں جوڑ توڑ کی سیاست کر رہی ہیں۔ جیسے جیسے دن گزرتے جارہے ہیں ، زبانیں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ وزیرخارجہ سلمان خورشید نے مودی کو ’’کمزور‘‘ قرار دیا لیکن بی جے پی نے اس ’’کمزوری‘‘ کو ظاہری معنی میں لیا اور وزیرخارجہ کے خلاف سخت زبان استعمال کی۔
بہرحال راہول گاندھی نے سلمان خورشید کی طرف سے استعمال کی گئی زبان کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ راشٹریہ جنتادل کے لیڈر لالوپرساد یادیوکی بہار میں واپس آنے کی کوشش مشکل محسوس ہوتی ہے۔ یہ سیاستدان جس نے بی جے پی کی سربراہی میں قائم نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کو چھوڑ دیا تھا تاکہ گجرات میں ہونے والے تشدد کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جائے، نے اسی بی جے پی میں شمولیت کے لیے کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی قیادت گجرات کے وہی وزیراعلیٰ نریندرا مودی کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لالوپرساد بہار میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تفریح وکھیل کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں، بھارت میں انتخابی مہم شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
عام آدمی پارٹی مخصوص لیڈروں کو اپنا نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور ان امیدواروں کا انتخاب کر رہی ہے جو اپنی ذہانت، قابلیت اور دیانت کے لیے مشہور ہیں۔ یہ کام، خاص طور پر اس نئی سیاسی جماعت کے لیے قدرے مشکل ہے جو بھارت بھر میں کم از کم چار سو امیدوار میدان میں لانا چاہتی ہے۔ عام آدمی پارٹی عوام کی حمایت کی اس لہر پر انحصار کرنا چاہتی ہے جو فی الحال دہلی اور ہریانہ سے باہر نہیں۔ آئندہ بھارتی انتخابات کی نوعیت انتہائی پیچیدہ ہے کیونکہ ہر بھارتی ریاست کے اپنے مسائل ہیں۔ مثال کے طور پر تامل ناڈوکی وزیراعلیٰ لے للتا، جن کی نظروزارت عظمیٰ پر ہے، قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کے قاتلوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ پھر سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور دلچسپ امر یہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں نے کوئی توجہ نہ کی۔
علاوہ ازیں ملکی سیاست میں مذہب اور ذات کے عناصر موجود ہیں کیونکہ سیاست دان ان عناصر کی بنیاد پر سیاست کرنے میں بالکل شرم محسوس نہیں کر رہے۔ ہر ووٹ بینک کا دعویٰ ہے کہ یہی وقت ہے کہ جب غریبوں اور محتاجوں کی وہ لوگ آواز سنیں گے جنہوں ووٹوں کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں یہ امر خاص اہمیت کا حامل ہے کہ معاشرے کے اس طبقے کو اب مزید احمق نہیں بنایا جا سکتا۔ ملک بھر میں اس احساس کو تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ یہ لوگ اب سیاستدانوں کے ہاتھوں میں نہیں کھیلیں گے اور وہ اب مزاحمت کرنے پر آمادہ ہو چکے ہیں۔ بہرحال، یہ حقیقت اکثر نظرانداز کر دی جاتی ہے۔ بھارتی انتخابات ، ایک بہت بھاری ذمہ داری اور مشق ہیں اور ان کی کامیابی کا انحصار الیکشن کمشن اور بھارتی عوام کی طرف سے سوفیصد کارکردگی پر ہے۔ ان انتخابات میں لاکھوں افراد ووٹ ڈالنے کے لیے آئیں گے اور یقینی طور پر دیہی علاقوں کے ووٹ اہم کردار ادا کریں گے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ طبقہ امرا اور اپر مڈل کلاس کے لوگ انتخابات کی تعطیلات کو آرام کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی پولنگ سٹیشنوں کی قطاروں میں نہیں کھڑا ہونا چاہتا۔ لیکن ان کی طرف سے پولنگ سٹیشنوں کی قطاروں میں کھڑا ہونے سے ہچکچاہٹ کی تلافی ، غریب افراد اپنی طرف سے کثیر تعداد میں شرکت کے ذریعے کر دیں گے کیونکہ انہیں امید ہے کہ ان کا ووٹ ملک کے بہتر مستقبل کے لیے اہم ترین ثابت ہوگا۔
بشکریہ: دی ایکسپریس ٹریبیون
ترجمہ: ریاض محمود انجم