Search This Blog

Monday, 3 March 2014

بھارت میں انتخابی سیاست کی لہریں Intekhabi Siasat ke Lehrein

بھارت میں انتخابی سیاست کی لہریں

اس وقت انتخابات اور مخالفانہ سیاست نے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ووٹ بینک سیاست کے علاوہ ہر چیز ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہے کیونکہ بی جے پی کے نریندرا مودی ملک بھر کا دورہ کر رہے ہیں۔
نریندرا مودی کی انتخابی مہم کا مقابلہ کرنے کے لیے کانگریس کے راہول گاندھی ایک نرم اور جمہوری انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ علاوہ ازیں دیگر سیاسی جماعتیں آئندہ انتخابات کے حوالے سے آپس میں جوڑ توڑ کی سیاست کر رہی ہیں۔ جیسے جیسے دن گزرتے جارہے ہیں ، زبانیں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ وزیرخارجہ سلمان خورشید نے مودی کو ’’کمزور‘‘ قرار دیا لیکن بی جے پی نے اس ’’کمزوری‘‘ کو ظاہری معنی میں لیا اور وزیرخارجہ کے خلاف سخت زبان استعمال کی۔
بہرحال راہول گاندھی نے سلمان خورشید کی طرف سے استعمال کی گئی زبان کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ راشٹریہ جنتادل کے لیڈر لالوپرساد یادیوکی بہار میں واپس آنے کی کوشش مشکل محسوس ہوتی ہے۔ یہ سیاستدان جس نے بی جے پی کی سربراہی میں قائم نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کو چھوڑ دیا تھا تاکہ گجرات میں ہونے والے تشدد کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جائے، نے اسی بی جے پی میں شمولیت کے لیے کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی قیادت گجرات کے وہی وزیراعلیٰ نریندرا مودی کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لالوپرساد بہار میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تفریح وکھیل کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں، بھارت میں انتخابی مہم شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
عام آدمی پارٹی مخصوص لیڈروں کو اپنا نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور ان امیدواروں کا انتخاب کر رہی ہے جو اپنی ذہانت، قابلیت اور دیانت کے لیے مشہور ہیں۔ یہ کام، خاص طور پر اس نئی سیاسی جماعت کے لیے قدرے مشکل ہے جو بھارت بھر میں کم از کم چار سو امیدوار میدان میں لانا چاہتی ہے۔ عام آدمی پارٹی عوام کی حمایت کی اس لہر پر انحصار کرنا چاہتی ہے جو فی الحال دہلی اور ہریانہ سے باہر نہیں۔ آئندہ بھارتی انتخابات کی نوعیت انتہائی پیچیدہ ہے کیونکہ ہر بھارتی ریاست کے اپنے مسائل ہیں۔ مثال کے طور پر تامل ناڈوکی وزیراعلیٰ لے للتا، جن کی نظروزارت عظمیٰ پر ہے، قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کے قاتلوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ پھر سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور دلچسپ امر یہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں نے کوئی توجہ نہ کی۔
علاوہ ازیں ملکی سیاست میں مذہب اور ذات کے عناصر موجود ہیں کیونکہ سیاست دان ان عناصر کی بنیاد پر سیاست کرنے میں بالکل شرم محسوس نہیں کر رہے۔ ہر ووٹ بینک کا دعویٰ ہے کہ یہی وقت ہے کہ جب غریبوں اور محتاجوں کی وہ لوگ آواز سنیں گے جنہوں ووٹوں کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں یہ امر خاص اہمیت کا حامل ہے کہ معاشرے کے اس طبقے کو اب مزید احمق نہیں بنایا جا سکتا۔ ملک بھر میں اس احساس کو تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ یہ لوگ اب سیاستدانوں کے ہاتھوں میں نہیں کھیلیں گے اور وہ اب مزاحمت کرنے پر آمادہ ہو چکے ہیں۔ بہرحال، یہ حقیقت اکثر نظرانداز کر دی جاتی ہے۔ بھارتی انتخابات ، ایک بہت بھاری ذمہ داری اور مشق ہیں اور ان کی کامیابی کا انحصار الیکشن کمشن اور بھارتی عوام کی طرف سے سوفیصد کارکردگی پر ہے۔ ان انتخابات میں لاکھوں افراد ووٹ ڈالنے کے لیے آئیں گے اور یقینی طور پر دیہی علاقوں کے ووٹ اہم کردار ادا کریں گے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ طبقہ امرا اور اپر مڈل کلاس کے لوگ انتخابات کی تعطیلات کو آرام کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی پولنگ سٹیشنوں کی قطاروں میں نہیں کھڑا ہونا چاہتا۔ لیکن ان کی طرف سے پولنگ سٹیشنوں کی قطاروں میں کھڑا ہونے سے ہچکچاہٹ کی تلافی ، غریب افراد اپنی طرف سے کثیر تعداد میں شرکت کے ذریعے کر دیں گے کیونکہ انہیں امید ہے کہ ان کا ووٹ ملک کے بہتر مستقبل کے لیے اہم ترین ثابت ہوگا۔
بشکریہ: دی ایکسپریس ٹریبیون
ترجمہ: ریاض محمود انجم

Wednesday, 5 February 2014

نظام دکن کے خلاف زہر افشانی

Tuesday, 21 January 2014
 Print  Pdf
Comments(3)
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
نظام دکن کے خلاف زہر افشانی
آندھرا پردیش قانون ساز اسمبلی میں تلنگانہ بل پر مباحث کے دوران اچانک ہی ارکان نے سابق فرمانروا آصفیہ نظام دکن کے خلاف زہر افشانی کا سلسلہ شروع کردیا ۔ یہ ارکان اس حقیقت کے باوجود نظام دکن کے خلاف زہر افشانی کر رہے تھے کہ وہ جس عمارت میں حکومت کے کام کاج چلا رہے ہیں وہ خود نظام دکن کی تعمیر کردہ ہے ۔ نظام دکن کے خلاف بہتان تراشیوں اور تنقیدوں میں کانگریس و تلگودیشم دونوں ہی جماعتوں کے ارکان ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے تھے اور حد تو یہ ہوگئی کہ امور مقننہ کی وزارت رکھنے والے شیلجہ ناتھ نے بھی نظام کے خلاف انتہائی شدید ریمارکس کرتے ہوئے اپنی انتہائی گھٹیا اور فرقہ پرستانہ ذہنیت کو ظاہر کردیا ہے ۔ انہوں نے نظام دکن کی تائید کرنے اور ان کی مدافعت کرنے کو ملک دشمنی سے تعبیر کردیا جو ان کے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے ۔ نظام دکن نے جو کارنامے اپنی حیات میں انجام دئے ہیں آج بھی ساری دنیا ان کی معترف ہے اور خود حکومت آندھرا پردیش کو نظام دکن کے کارناموں کا معترف ہونا چاہئے ۔ نظام دکن کے کارنامے ہی تھے جن کی وجہ سے انہیں سقوط حیدرآباد کے بعد راج پرمکھ بنایا گیا تھا ۔ نظام دکن دنیا کے متمول ترین انسانوں میں شامل رہنے کے باوجود سادگی پسند انسان تھے اور ان پر غیر سکیولر ہونے کا الزام عائد کرنے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نظام دکن نے سب سے پہلے کہا تھاکہ ’’ ہند و اور مسلمان میری دو آنکھیں ہیں ‘‘ ۔ آج سیما آندھرا کے حکمران اکثر و بیشتر موقعوں پر نظام دکن کا یہ قول دہراتے ہیں اور اپنے سکیولر ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ اسمبلی میں حالانکہ تلنگانہ کی تائید یا مخالفت میں بحث ہونی چاہئے تھی لیکن فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والے عناصر نے ان مباحث کا رخ ہی تبدیل کرتے ہوئے اپنے دلوں کی بھڑاس نظام دکن پر نکالنی شروع کردی جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ نظام دکن وہ شخصیت رہے ہیں جنہوں نے ہمیشہ ہی عوام کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھا تھا اور ان کے پاس ہندو یا مسلمان میں کوئی امتیاز نہیں تھا ۔ نظام دکن نے اپنے دور حکومت میں غیر مسلم اداروں اور منادر کیلئے بھی جو عطیات دئے ہیں وہ آج بھی دنیا کے سامنے ہیں اور اس کی مثال آج کے دور میں ’ سکیولر ‘ کہلانے والے حکمران بھی شائد ہی مشکل سے پیش کرسکیں۔
نظام دکن نے جو کارنامے انجام دئے ہیں وہ بے مثال ہیں۔ انہوں نے ریاستی اسمبلی کی جو عمارت ہے وہ تعمیر کروائی تھی ۔ اسی عمارت میں آج تک متحدہ ریاست کے کام کاج چلائے جاتے ہیں۔ نظام دکن نے جوبلی ہال تعمیر کروایا تھا جو اپنی مثال آپ ہے ۔ نظام دکن نے دواخانہ عثمانیہ تعمیر کروایا اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ آج تک اس دواخانہ سے مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم افراد مستفید ہوتے آئے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں۔ نظام دکن نے ہندوستان کی ایک عظیم درسگاہ جامعہ عثمانیہ قائم کی ۔ یہ یونیورسٹی ہندوستان کی چنندہ یونیورسٹیوں میں شمار کی جاتی ہے اور آج یہاں بھی مسلمان سے زیادہ غیر مسلم طلبا علم و فن سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ یہ نظام دکن ہی کا کارنامہ تھا کہ انہوںنے حیدرآباد کیلئے دو عظیم ذخائر آب تعمیر کروائے تھے اور یہی ذخائر آب آج بھی شہر کے ایک بڑے حصے کی آبی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ دیگر ذخائر آب سے پانی کی فراہمی حالیہ وقتوں میں ممکن ہوسکی ہے جبکہ ایک طویل عرصہ تک عثمان ساگر اور حمایت ساگر ہی سے شہر کی آبی ضروریات پوری کی گئیں۔ نظام دکن نے بنارس ہندو یونیورسٹی کو ‘ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی سے دوگنا عطیہ دیا تھا ۔ انہوں نے بھدرا چلم کے مندر کو نہ صرف نقد عطیہ دیا بلکہ اراضی بھی حوالے کی تھی ۔ نظام دکن نے تروپتی کے مندر کیلئے عطیہ فراہم کیا تھا ۔ ان کے یہ ایسے کارنامے ہیں جو شائد آج کے حکمران تصور میں بھی نہ لا پائیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود نظام دکن کے خلاف زہر افشانی ‘ کانگریس اور تلگودیشم دونوں ہی جماعتوں کے ارکان اسمبلی کی فرقہ پرستانہ اور متعصب ذہنیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ تنقیدیں اس لئے بھی قابل مذمت ہیں کہ اسمبلی میں اس موضوع پر اظہار خیال کی ضرورت ہی تھی اور تلنگانہ پر مباحث کا انہوں نے عمدا رخ موڑتے ہوئے اپنی فرقہ پرستانہ ذہنیت کو ظاہر کردیا ۔
اسمبلی میں نظام کے خلاف ان ارکان اسمبلی کے اظہار خیال سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ سیما آندھرا کے ارکان کے ذہن کس حد تک متعصب اور پراگندہ ہیں۔ یہ بھرم ختم ہوگیا کہ سیما آندھرا قائدین یا عوام کی وجہ سے فرقہ پرستی کو روکنے میں مدد ملتی ہے ۔ اسمبلی میں جب یہ ارکان اظہار خیال کر رہے تھے تو کہیں سے یہ تاثر نہیں مل رہا تھا کہ یہ ان جماعتوں کے ارکان ہیں جو مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرکے اقتدار حاصل کرتی ہیں۔ یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ بی جے پی ‘ شیوسینا یا ایسی ہی فرقہ پرست جماعتوں کے ارکان ہیں اور ایک بے مثال ‘ انصاف پسند ‘ غیر جانبدار ‘ انسانیت نواز اور رعایا پرور حکمران کے خلاف اپنے دلوں کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ ان ارکان کو اپنے اظہار خیال پر معذرت خواہی کرنے کی اور حقائق سے واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی بہتان تراشیوں سے حقائق بدلنے والے نہیں ہیں اور ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی نظام دکن کی حکومت کی ایک معمولی اور ادنی سے مثال بھی یہ ارکان اور آج کی حکومت پیش نہیں کر پائیگی ۔
- See more at: http://www.siasat.com/urdu/news/%D9%86%D8%B8%D8%A7%D9%85-%D8%AF%DA%A9%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%81-%D8%B2%DB%81%D8%B1-%D8%A7%D9%81%D8%B4%D8%A7%D9%86%DB%ddd8C#sthash.hf0pQ9

نظام دکن کے خلاف زہر افشانی

Tuesday, 21 January 2014
 Print  Pdf
Comments(3)
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
نظام دکن کے خلاف زہر افشانی
آندھرا پردیش قانون ساز اسمبلی میں تلنگانہ بل پر مباحث کے دوران اچانک ہی ارکان نے سابق فرمانروا آصفیہ نظام دکن کے خلاف زہر افشانی کا سلسلہ شروع کردیا ۔ یہ ارکان اس حقیقت کے باوجود نظام دکن کے خلاف زہر افشانی کر رہے تھے کہ وہ جس عمارت میں حکومت کے کام کاج چلا رہے ہیں وہ خود نظام دکن کی تعمیر کردہ ہے ۔ نظام دکن کے خلاف بہتان تراشیوں اور تنقیدوں میں کانگریس و تلگودیشم دونوں ہی جماعتوں کے ارکان ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے تھے اور حد تو یہ ہوگئی کہ امور مقننہ کی وزارت رکھنے والے شیلجہ ناتھ نے بھی نظام کے خلاف انتہائی شدید ریمارکس کرتے ہوئے اپنی انتہائی گھٹیا اور فرقہ پرستانہ ذہنیت کو ظاہر کردیا ہے ۔ انہوں نے نظام دکن کی تائید کرنے اور ان کی مدافعت کرنے کو ملک دشمنی سے تعبیر کردیا جو ان کے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے ۔ نظام دکن نے جو کارنامے اپنی حیات میں انجام دئے ہیں آج بھی ساری دنیا ان کی معترف ہے اور خود حکومت آندھرا پردیش کو نظام دکن کے کارناموں کا معترف ہونا چاہئے ۔ نظام دکن کے کارنامے ہی تھے جن کی وجہ سے انہیں سقوط حیدرآباد کے بعد راج پرمکھ بنایا گیا تھا ۔ نظام دکن دنیا کے متمول ترین انسانوں میں شامل رہنے کے باوجود سادگی پسند انسان تھے اور ان پر غیر سکیولر ہونے کا الزام عائد کرنے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نظام دکن نے سب سے پہلے کہا تھاکہ ’’ ہند و اور مسلمان میری دو آنکھیں ہیں ‘‘ ۔ آج سیما آندھرا کے حکمران اکثر و بیشتر موقعوں پر نظام دکن کا یہ قول دہراتے ہیں اور اپنے سکیولر ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ اسمبلی میں حالانکہ تلنگانہ کی تائید یا مخالفت میں بحث ہونی چاہئے تھی لیکن فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والے عناصر نے ان مباحث کا رخ ہی تبدیل کرتے ہوئے اپنے دلوں کی بھڑاس نظام دکن پر نکالنی شروع کردی جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ نظام دکن وہ شخصیت رہے ہیں جنہوں نے ہمیشہ ہی عوام کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھا تھا اور ان کے پاس ہندو یا مسلمان میں کوئی امتیاز نہیں تھا ۔ نظام دکن نے اپنے دور حکومت میں غیر مسلم اداروں اور منادر کیلئے بھی جو عطیات دئے ہیں وہ آج بھی دنیا کے سامنے ہیں اور اس کی مثال آج کے دور میں ’ سکیولر ‘ کہلانے والے حکمران بھی شائد ہی مشکل سے پیش کرسکیں۔
نظام دکن نے جو کارنامے انجام دئے ہیں وہ بے مثال ہیں۔ انہوں نے ریاستی اسمبلی کی جو عمارت ہے وہ تعمیر کروائی تھی ۔ اسی عمارت میں آج تک متحدہ ریاست کے کام کاج چلائے جاتے ہیں۔ نظام دکن نے جوبلی ہال تعمیر کروایا تھا جو اپنی مثال آپ ہے ۔ نظام دکن نے دواخانہ عثمانیہ تعمیر کروایا اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ آج تک اس دواخانہ سے مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم افراد مستفید ہوتے آئے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں۔ نظام دکن نے ہندوستان کی ایک عظیم درسگاہ جامعہ عثمانیہ قائم کی ۔ یہ یونیورسٹی ہندوستان کی چنندہ یونیورسٹیوں میں شمار کی جاتی ہے اور آج یہاں بھی مسلمان سے زیادہ غیر مسلم طلبا علم و فن سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ یہ نظام دکن ہی کا کارنامہ تھا کہ انہوںنے حیدرآباد کیلئے دو عظیم ذخائر آب تعمیر کروائے تھے اور یہی ذخائر آب آج بھی شہر کے ایک بڑے حصے کی آبی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ دیگر ذخائر آب سے پانی کی فراہمی حالیہ وقتوں میں ممکن ہوسکی ہے جبکہ ایک طویل عرصہ تک عثمان ساگر اور حمایت ساگر ہی سے شہر کی آبی ضروریات پوری کی گئیں۔ نظام دکن نے بنارس ہندو یونیورسٹی کو ‘ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی سے دوگنا عطیہ دیا تھا ۔ انہوں نے بھدرا چلم کے مندر کو نہ صرف نقد عطیہ دیا بلکہ اراضی بھی حوالے کی تھی ۔ نظام دکن نے تروپتی کے مندر کیلئے عطیہ فراہم کیا تھا ۔ ان کے یہ ایسے کارنامے ہیں جو شائد آج کے حکمران تصور میں بھی نہ لا پائیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود نظام دکن کے خلاف زہر افشانی ‘ کانگریس اور تلگودیشم دونوں ہی جماعتوں کے ارکان اسمبلی کی فرقہ پرستانہ اور متعصب ذہنیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ تنقیدیں اس لئے بھی قابل مذمت ہیں کہ اسمبلی میں اس موضوع پر اظہار خیال کی ضرورت ہی تھی اور تلنگانہ پر مباحث کا انہوں نے عمدا رخ موڑتے ہوئے اپنی فرقہ پرستانہ ذہنیت کو ظاہر کردیا ۔
اسمبلی میں نظام کے خلاف ان ارکان اسمبلی کے اظہار خیال سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ سیما آندھرا کے ارکان کے ذہن کس حد تک متعصب اور پراگندہ ہیں۔ یہ بھرم ختم ہوگیا کہ سیما آندھرا قائدین یا عوام کی وجہ سے فرقہ پرستی کو روکنے میں مدد ملتی ہے ۔ اسمبلی میں جب یہ ارکان اظہار خیال کر رہے تھے تو کہیں سے یہ تاثر نہیں مل رہا تھا کہ یہ ان جماعتوں کے ارکان ہیں جو مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرکے اقتدار حاصل کرتی ہیں۔ یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ بی جے پی ‘ شیوسینا یا ایسی ہی فرقہ پرست جماعتوں کے ارکان ہیں اور ایک بے مثال ‘ انصاف پسند ‘ غیر جانبدار ‘ انسانیت نواز اور رعایا پرور حکمران کے خلاف اپنے دلوں کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ ان ارکان کو اپنے اظہار خیال پر معذرت خواہی کرنے کی اور حقائق سے واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی بہتان تراشیوں سے حقائق بدلنے والے نہیں ہیں اور ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی نظام دکن کی حکومت کی ایک معمولی اور ادنی سے مثال بھی یہ ارکان اور آج کی حکومت پیش نہیں کر پائیگی ۔
- See more at: http://www.siasat.com/urdu/news/%D9%86%D8%B8%D8%A7%D9%85-%D8%AF%DA%A9%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%81-%D8%B2%DB%81%D8%B1-%D8%A7%D9%81%D8%B4%D8%A7%D9%86%DB%8C#sthash.hf0pQ9s6.dpufs6.dpuf

Sunday, 2 February 2014

دوست ۔ جاوید چودھری Dost...by Javid Chowdhary

دوست

یہ میرے بچپن کی بات ہے‘ ہم لوگ دیہاتی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں‘ ہزاروں سال سے کھیتی باڑی‘ دوستیاں‘ دشمنیاں اور لڑائی جھگڑے ہمارا کام تھا‘ میرے والد اس خاندان کے پہلے فرد تھے جس نے کاروبار شروع کیا‘ یہ مختلف کاروبار کرتے ہوئے آخر میں ’’بیو پار‘‘ میں ٹھہر گئے‘ پنجاب اور سندھ کے دیہاتی علاقوں میں اجناس کی منڈیاں ہیں‘ ان منڈیوں کو بیوپاری کنٹرول کرتے ہیں‘ یہ اجناس کے ریٹس بھی طے کرتے ہیں‘ اجناس کو روک یا کھول کر ان کی قلت اور فراوانی بھی کرتے ہیں اور اگلے سال کون سی جنس کی کیا مارکیٹ ویلیو ہو گی یہ لوگ یہ فیصلے بھی کرتے ہیں‘ میرے والد منڈی کے درمیان میں کام کرتے تھے لیکن پھر کسی وجہ سے انھیں یہ دکان چھوڑنا پڑ گئی‘ ان کے پاس اب دو آپشن تھے‘ یہ کسی دوسری دکان کا بندوبست کرتے یا پھر یہ کام چھوڑ کر گاؤں واپس چلے جاتے‘ یہ دونوں کام اس وقت مشکل تھے چنانچہ میرے والد نے تیسرا راستہ تلاش کیا.
ہمارے شہر میں دو منڈیاں تھیں‘ پرانی منڈی اور نئی منڈی۔ ہمارا گھر ان دونوں منڈیوں کے درمیان تھا‘ ہم ایک ایسے محلے میں رہتے تھے جو دونوں منڈیوں کو آپس میں ملاتا تھا‘ میرے والد نے گھر کی بیٹھک کو دکان بنا لیا‘ یہ اس محلے کی پہلی دکان تھی‘ لوگ مکانوں اور گھروں کے درمیان دکان دیکھ کر حیران ہوتے تھے لیکن میرے والد ڈٹے رہے‘ اس دکان نے آہستہ آہستہ پوری گلی کو مارکیٹ بنا دیا‘ میں پچھلے مہینے دس سال بعد اس گلی میں گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا‘ ہماری پوری گلی مارکیٹ بن چکی تھی‘ اس گلی کو مارکیٹ بنانے کا کارنامہ بہرحال میرے والد ہی نے سرانجام دیا تھا لیکن یہ میرا موضوع نہیں.


میرا موضوع اس دکان کا حقہ ہے‘ یہ دکان محض دکان نہیں تھی‘ یہ محلے کی بیٹھک بھی تھی‘ یہ پنچایت بھی تھی اور یہ محلے کا چائے خانہ بھی تھی‘ میرے والد فجر کے وقت دکان کھول دیتے تھے‘ حقہ تازہ کر کے دکان میں رکھ دیا جاتا تھا‘ حقہ پنجاب کا سب سے بڑا سماجی رابطہ ہے‘ آپ اگر حقے کے مالک ہیں‘ آپ اگر دن میں تین بار یہ حقہ تازہ کر سکتے ہیں تو آپ جان لیں‘ آپ کا ڈیرہ آباد رہے گا‘ میرے والد کا حقہ تازہ ہوتا رہتا تھا،‘ غریب اور امیر اس حقے کے لیے سب برابر تھے۔ یہ حقہ بہت بڑی ’’ایکٹویٹی‘‘ تھا‘ میرے والد اس حقے کا بہت خیال رکھتے تھے‘ اس کا پیندا پیتل کا تھا‘ اس پیتل پر چمڑا چڑھا ہوا تھا‘ چمڑے کو ہر دو تین گھنٹے بعد گیلا کر دیا جاتا تھاجو حقے کے پانی کو ٹھنڈا رکھتا تھا‘ حقے کی نلیاں اسپیشل بانس کی بنی ہوئی تھیں‘ اس بانس پر پیتل کے چمک دار چھلے چڑھے ہوئے تھے‘ نلی کے سرے پر تمباکو کی تہہ جم جاتی تھی‘ میرے والد چار پانچ دن بعد باریک چاقو سے یہ تہہ صاف کرتے تھے‘ نلیوں میں لوہے کی تار گھسا کر نلیاں بھی صاف کی جاتی تھیں‘ تمباکو کو مردان سے خصوصی طور پر منگوایا جاتا تھا‘ تمباکو کے اوپر گڑ رکھا جاتا تھا‘ یہ بھی خصوصی ہوتا تھا‘ حقے کی چلم (ہمارے علاقے میں اسے ٹوپی کہا جاتا ہے) گجرات کی خصوصی مٹی سے بنائی جاتی ہے، کیکر کی چھال جلا کر چلم کی آگ بنائی جاتی تھی اور اس آگ کو چلم میں بھرنے کے لیے خصوصی چمٹا ہوتا تھا.

ہم نے والد کو ہمیشہ حقے کا خاص خیال رکھتے دیکھا‘ ہمیں بعض اوقات محسوس ہوتا تھا ہمارے والد ہم سے زیادہ حقے سے محبت کرتے ہیں چنانچہ ہم اس حقے سے ’’جیلس‘‘بھی ہو جاتے تھے‘ ہم اس کا انتقام نلی میں الٹی پھونک مار کر لیتے تھے‘ ہماری الٹی پھونک کے نتیجے میں حقے کا پانی چلم میں چڑھ جاتا تھا‘ یہ پانی آگ بجھا دیتا تھا اور یوں حقہ خراب ہو جاتا تھا اور ہمارے والد کونئے سرے سے حقہ تازہ کرنا پڑ جاتا تھا‘یہ ہماری شرارت سے واقف تھے لیکن انھوں نے اس گستاخی پر ہمیں کبھی نہیں ڈانٹا۔


ہماری دکان کی دوسری ’’بڑی اٹریکشن‘‘ ٹیلی فون تھا‘ پورے محلے نے اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کو ہمارا فون نمبر دے رکھا تھا‘ ہم تمام بھائی اسکول سے واپسی پر ٹیلی فون آپریٹر بن جاتے تھے‘ لوگوں کے فون آتے تھے اور ہمارے والد ہم میں سے کسی نہ کسی کو محلے داروں کا نام بتا کر اس کے گھر کی طرف دوڑا دیتے تھے‘ ہم ان کے دروازے کی کنڈی بجا کر اونچی آواز میں نعرہ لگاتے تھے ’’چاچا جی آپ کا ٹیلی فون آیا ہے‘‘ اور اندر موجود لوگ ’’فون آیا‘ فون آیا‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ننگے پاؤں دوڑ پڑتے تھے‘ اس فون اور اس حقے نے محلے میں ایک نئی کلاس کو جنم دے دیا‘ لوگ فون کرنے اور حقہ پینے کے لیے ہماری دکان پر آتے اور گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے‘ یہ ہمارے والد کو اپنے دکھڑے بھی سناتے ‘ ہم ان میں سے چند لوگوں کو روز اپنے والد کے پاس بیٹھا دیکھتے تھے‘ یہ صبح کے وقت آتے تھے اور بعض اوقات شام تک دکان پر بیٹھے رہتے تھے‘ یہ چائے بھی وہیں پیتے تھے اور ہمارے والد کے ساتھ کھانا بھی کھاتے تھے‘ یہ ادھار بھی لے جاتے تھے اور ہمارے والد کو کسی نہ کسی کام میں بھی استعمال کر جاتے تھے‘ ہم ان لوگوں کو اپنے والد کا گہرا دوست سمجھتے تھے‘ یہ ہمارے چاچا جی بن چکے تھے‘ ہم ان کا بے حد احترام کرتے تھے.

میرے بچپن کی بات ہے‘ ایک بار میرے والد کا گلا خراب ہو گیا‘ گلے کے اندر انفیکشن ہو گیا‘ تمباکو بلکہ ہر قسم کا دھواں اس انفیکشن کے لیے انتہائی نقصان دہ تھا‘ ڈاکٹروں نے والد کی تمباکو نوشی بند کرا دی‘ میں آپ کو یہاں تمباکو نوشی کے بارے میں ایک دلچسپ حقیقت بھی بتاتا چلوں‘ دنیا میں تمباکو نوشی کی چند غیر مطبوعہ روایات ہیں‘ سگریٹ نوش دنیا کے کسی بھی کونے میں‘ کسی بھی شخص سے‘ کسی بھی وقت سگریٹ مانگ سکتے ہیں اور دوسرا سگریٹ نوش انکار نہیں کرتا‘ یہ تمباکو نوشی کے دوران عموماً گپیں بھی مارتے ہیں‘ میرے والد ’’چین اسموکر‘‘ ہیں‘ یہ میرے ساتھ ایک بار پیرس گئے‘ جہاز میں تمباکو نوشی کی اجازت نہیں تھی چنانچہ ابا جی نے چھ گھنٹے کی فلائیٹ بڑی مشکل سے گزاری‘ ہم جوں ہی ائیرپورٹ پر اترے‘ اباجی امیگریشن کی ساری قطاریں اور کاؤنٹرز روند کر باہر نکل گئے‘ راستے میں انھیں جو بھی روکتا تھا‘ یہ انگلی سے سگریٹ کا نشان بناتے تھے اورگورا راستے سے ہٹ جاتا تھا‘ میں امیگریشن کے مسئلے حل کر کے باہر نکلا تو میں نے دیکھا‘ میرے والد ایک گورے کے ساتھ کھڑے ہو کر سگریٹ پی رہے ہیں اور اس کے ساتھ گپ بھی لگا رہے ہیں‘ میں اس عجیب و غریب تبادلہ خیال پر حیران رہ گیا‘ گورے کا تعلق آسٹریلیا سے تھا‘ وہ انجینئر تھا اور شارٹ کورس کے لیے پیرس آیا تھا‘ وہ انگریزی بول رہا تھا جب کہ ابا جی ان پڑھ ہیں اور پنجابی کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتے‘ میں ان کے قریب پہنچا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی‘ آسٹریلین انجینئر ابا جی کو انگریزی میں بتا رہا تھا‘ فلائیٹ بہت لمبی تھی‘ میں نے دس گھنٹے سے سگریٹ نہیں پیا‘ یہ سفر میرے لیے بہت مشکل تھا اور ابا جی اسے پنجابی میں بتا رہے تھے‘ میں نے آخری سگریٹ دبئی میں پیا‘ چھ گھنٹے سے سگریٹ کے بغیر ہوں اور یہ سفر میرے لیے بھی بہت مشکل تھا‘ دونوں سگریٹ پھونک رہے تھے‘ دو مختلف زبانوں میں گفتگو کر رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے.

مجھے اس وقت معلوم ہوا سگریٹ نوش زبان سے بھی بالا تر ہوتے ہیں ‘یہ مختلف زبانوں‘ علاقوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کا مسئلہ سمجھتے ہیں‘ یہ سگریٹ کی ویلیو سے بھی واقف ہوتے ہیں‘ ڈاکٹر نے جب میرے والد کے حقے پر پابندی لگائی تو یہ خبر میرے والد کے لیے صورِ اسرافیل کی حیثیت رکھتی تھی‘ یہ پریشان ہو گئے لیکن ڈاکٹر کا فیصلہ عدالتی فیصلہ تھا‘ میرے والد ڈسپلن کے بھی انتہائی سخت ہیں‘ یہ جب کوئی بات ‘ کوئی چیز ٹھان لیتے ہیں تو یہ پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتے‘ میرے والد نے حقے پر پابندی لگا دی‘ ہم لوگوں نے حقہ اٹھایا اور گودام میں رکھ دیا یوں دکان کی بڑی اٹریکشن اچانک ختم ہو گئی‘ حسن اتفاق سے انھیں دنوں ’’ایکس چینج‘‘کی ’’اپ گریڈیشن‘‘بھی شروع ہو گئی اور ہمارا فون بھی عارضی طور پر کٹ گیا یوں دکان کی دوسری اٹریکشن بھی ختم ہو گئی‘ ان اٹریکشنز کے خاتمے کے ساتھ ہی دکان کے رش میں کمی ہو گئی‘ لوگ دکان کے قریب پہنچ کر منہ نیچے کر لیتے تھے اور تیز تیز قدموں سے آگے نکل جاتے تھے‘ وہ لوگ جو روز صبح سویرے ہماری دکان پر آ کر بیٹھ جاتے تھے اور ان کی شام بھی اسی دکان پر ہوتی تھی وہ بھی اچانک غائب ہو گئے.
ہم جن کو والد کا انتہائی قریبی دوست سمجھتے تھے‘ جو لوگ ہمارے چاچا جی ہوتے تھے‘ جو گلی میں داخل ہو کر اونچی آواز میں چوہدری صاحب کا نعرہ لگاتے تھے اور جو گھنٹوں ہمارے والد کی تعریفیں کرتے تھے‘ وہ سب بھی غائب ہو گئے‘ ہم ان کی شکلیں تک بھول گئے‘ میرے والد سارا دن دکان پر اکیلے بیٹھے رہتے تھے‘ گاہک آتے تھے‘ منشی اور دکان کے کارندے گاہکوں کو ڈیل کرتے تھے لیکن وہ لوگ بھی میرے والد کے قریب نہیں جاتے تھے‘ وہ دور سے انھیں سلام کرتے تھے‘ رسید بنواتے تھے اور رخصت ہو جاتے تھے‘ میں اس وقت پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا‘ میرے کچے ذہن کے لیے یہ صورتحال ہضم کرنا مشکل تھا‘ میں ایک دن والد کے پاس بیٹھا اور میں نے ان سے پوچھا’’ابا جی آپ کے سارے دوست کہاں چلے گئے ہیں‘‘ میرے والد نے غور سے میری طرف دیکھا‘میری آنکھوں میں اس وقت آنسو تھے‘ میرے والد نے رومال سے میری آنکھیں صاف کیں‘ سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے پیار سے کہا’’بیٹا یہ لوگ میرے دوست نہیں تھے‘ یہ حقے اور ٹیلی فون کے دوست تھے‘ حقہ بند ہو گیا‘ ٹیلی فون کٹ گیا‘ یہ لوگ بھی کٹ گئے‘ یہ بھی بند ہو گئے‘ جس دن ٹیلی فون اور حقہ واپس آ جائے گا‘ یہ لوگ بھی اس دن واپس آ جائیں گے‘‘ میرے کچے ذہن نے یہ فلسفہ سمجھنے سے انکار کر دیا‘ میرے والد نے میرے چہرے کی گومگو پڑھ لی‘ وہ بولے بیٹا یاد رکھو اللہ تعالیٰ جب آپ کو کوئی نعمت دیتا ہے تو یہ نعمت اپنے ساتھ نئے دوست لے کر آتی ہے لیکن ہم نعمت کے ان دوستوں کو اپنا دوست سمجھ بیٹھتے ہیں‘ یہ ہماری بے وقوفی ہوتی ہے‘ یہ نعمت جس دن چلی جاتی ہے‘ یہ سارے دوست بھی رخصت ہو جاتے ہیں.
میرے والد نے اس کے بعد شاندار نصیحت کی‘ انھوں نے فرمایا ’’بیٹا آپ کا اصل کمال یہ ہو گا آپ نعمتوں کے دوستوں کو نعمتوں کا دوست رہنے دو‘ آپ ان لوگوں کو کبھی اپنا دوست نہ بننے دو‘ تم زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہو گے‘‘ میرے والد نے فرمایا’’ بیٹا آپ کار کے دوستوں کو کار کا دوست سمجھو‘ کاروبار کے دوستوں کو کاروبار کا دوست سمجھو اور اپنے عہدے کے دوستوں کو عہدے کا دوست سمجھو‘ ان لوگوں کو کبھی اپنے دل تک نہ پہنچنے دو‘تمہارا دل کبھی زخمی نہیں ہو گا‘ تم کبھی خون کے آنسو نہیں روؤ گے‘‘۔