Search This Blog

Sunday, 24 February 2013

میں نے معافی کب مانگ لی؟

میں نے معافی کب مانگ لی؟



ہندوستان کے 3 روزہ دورے پر آئے ہوئے برطانیہ کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون ممبئی اور دہلی کے بعد بدھ کو پنجاب کے شہر امرتسر پہنچے جہاں انھوں نے سکھوں کی زیارت گاہ گولڈن ٹیمپل میں حاضری دی اور جلیاںوالا باغ بھی گئے جہاںانھوں نے1919 میں ہلاک ہونے والے پرامن مظاہرین کونہ صرف خراج عقیدت پیش کیابلکہ یہ اعتراف بھی کیا کہ ’یہ واقعہ برطانوی تاریخ کیلئے ایک شرمناک بات رہی ہے۔ ڈیوڈ کیمرون کے اس اظہارافسوسکے نے برطانیہ کے نوآبادیاتی ماضی کے بارے میں ذرائع ابلاغ نے متعدد سوالات کا پٹارہ کھول دیا ۔مثلاً، کیا برٹش میوزیم ہندوستان پر حکمرانی کے دوران لوٹے گئے تمام نوادرات واپس کر دے گا؟ کیا ملکہ برطانیہ کے تاج میں آویزاں کوہ نور ہیرا بھی ہندوستان کو لوٹا دیا جائے گا؟اگلے ہی روز کیمرون نے صاف کردیا کہ 19 ویں صدی میں ہندوستان سے برطانیہ لے جایا جانے والا کوہِ نور ہیرا واپس نہیں کیا جائے گا
 کثیر القومی کمپنیوں کی شکل میں کس کی ہے حکمرانی؟
موجودہ نسل کیلئے بہت سے حقائق صیغہ راز میں ہیں۔دراصل یورپی اقوام نے اپنے نوآبادیات قائم کرنے کیلئے جو جنگیں لڑیں وہ عام طور پر ان کی سرحدوں سے بہت دورلڑی گئیں۔ ان جنگوں کے تمام ترمنفی اثرات توایشیا اور افریقہ کی مفتوحہ قوموں نے برداشت کئے جبکہ یورپ ا ن جنگوں کے نتیجے میں خوشحالی کی نئی منزلیں سر کرنے لگا۔یوروپ میں ہونے والی سائنسی پیش رفت کو نوآبادیات سے آنے والی دولت اور غلاموں کی ریل پیل نے بلند معیارِ زندگی کے اوج پر پہنچادیا۔اسی کی ایک مثال کوہ نور ہیرا بھی ہے ۔نوآبادیاتی لوٹ مار کے کا یہ دور تقریباََ سو سال تک جاری رہا۔ اس کے بعد یوروپی اقوام نوآبادیات میں اپنی باقاعدہ موجودگی لا حا صل محسوس کرنے لگیں۔ اس نئی سوچ کے پس پشت چند حقائق تھے۔ سب سے پہلی بات تو یہ تھی کہ دو عظیم جنگوںمیںبے تحاشہ افرادی قوت اور وسائل جھونک دینے کے بعد یوروپ کیلئے اپنی طویل وعریض نو آبادیات پر قبضہ برقرار رکھنا مشکل تھا۔دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اپنے استعماری قبضے کے دوران یوروپی اقوام اپنے غلام ملکوں میں ایک ایسا مقتدر طبقہ پیدا کر چکی تھیں جو یوروپ کے نظریات اور طرز زندگی کو نہ صرف خود اختیار کر چکا تھا بلکہ ان مغربی نظریات اور طرز زندگی کو اپنے ہم وطنوں پر نافذ کرنے کیلئے تہہ دل سے تیار ہوچکا تھاجبکہ یوروپی استحصال کی شکل بدل چکی تھی۔ یوروپی استعماری طاقتوں کی جگہ اب کثیر القومی کمپنیاں لے چکی تھیں۔ اب آزادی کے لباس میں استحصال کی ایک نئی شکل تیار ہو چکی تھی۔ مزے کی بات یہ تھی کہ اس نئی غلامی پر غلام قومیں آج بھی بصد مسرت تیارہیں‘جبھی تو والمارٹ جیسی جانے کتنی کمپنیاںبرصغیر ہند -پاک کے علاوہ متعددممالک میں پیرپھیلا چکی ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ نوآبادیاتی طاقتوں میں کامیاب ترین ممالک برطانیہ اور فرانس ثابت ہوئے البتہ برطانیہ کا پلڑا بھاری رہا۔برطانوی اقتدار میں سورج غروب نہیں ہوا کرتا تھا۔ افریقہ سے ہانگ کانگ تک یونین جیک لہرا رہا تھا۔استعماری غلبہ اور نوآبادیات کی کثرت کے لحاظ سے جو یوروپی ممالک جس قدر کامیاب رہے اس کے مثبت اثرات بھی انہوں نے اسی طرح سمیٹے اور نوآبادیات بنانے کے تلخ نتائج کا سامنا بھی کیا۔برطانیہ نے دنیا کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ برطانیہ نے اپنی نوآبادیات کو آزادی دینے کے بعد بھی آزاد نہیں ہونے دیا بلکہ اپنے سابقہ غلام ممالک کی ایک دولت مشترکہ تشکیل دے دی۔اس دولت مشترکہ کے ذریعے برصغیر اور افریقہ کے غلام ملکوں کے باشندوں نے تعلیم، مستقل سکونت اور کاروبار کیلئے برطانیہ کا رخ کیا۔دارالحکومت دہلی کی موجودہ نسل نے خود اپنی آنکھوں سے دولت مشترکہ کھیلوں کا تماشہ2010کے دوران دیکھا ہے ۔ اس طرح برصغیر اور شمالی افریقہ کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد برطانیہ پہنچ گئی تو دوسری جانب پاکستان میں منگلا ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں آبادی کا انخلا ہوا۔میر پور کی آبادی کو برطانیہ نے اپنے ہاں قبول کر لیا۔ان تاریخی واقعات نے برطانیہ کے یک قومی ملک کوکثیر لسانی ملک میں تبدیل کر دیا۔ برطانیہ میں دیگر اقوام کا تناسب حیرت انگیز طور پربتدریج بڑھنے لگا۔
اس صورتحال کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ ماضی کے آبادی سے بھرپور یوروپ کی ہیئت بھی بدلنی شروع ہوگئی۔ اب ہر عام برطانوی بڑے خاندان اور اس کی اقدار کی بجائے معیار زندگی کو ترجیح دینے لگا۔ البتہ برصغیر اور افریقہ سے برطانیہ آنے والی برادریوںخاص طور پر مسلم طبقہ نے نہ صرف اپنی تہذیب، خاندان اور اقدار پرکسی مصالحت سے گریز کیا بلکہ بڑی حد تک اسے محفوظ رکھنے کی کوشش بھی کی۔البتہ برطانیہ کی مسلم کمیونٹی کی طرف سے اپنی اقدار سے متعلق رہنے کی روش نے اپنے نتائج آہستہ آہستہ ظاہر کرنا شروع کئے۔نتیجے کے طور پر برطانیہ کے شہر بتدریج کثیر نسلی اور کثیر لسانی شہروں میں تبدیل ہونے لگے ۔ برطانیہ میں گوری نسل کے خاندان مختصر ہوتے چلے گئے۔بلکہ اب تو نوبت یہ آگئی ہے کہ یہاں آباد’گورے‘ اقلیت میں آگئے ہیں۔ یہاں تک کہ خود خاندان کا ادارہ ہی تیزی سے زوال کے مراحل طے کرنے لگا۔ ہم جنس پرستی اور بے راہ روی کے رجحانات نے اس زوال کو مزید گہرا کیا۔ برطانیہ میں آباد مسلمانوں نے اپنے آبائی وطن سے تعلق کو ختم نہ کیا بلکہ نئی نسل کے ازدواجی رشتے بھی اپنے ہی آبائی ممالک میں کرنے کی وجہ سے ان ممالک سے نوجوان نسل بڑی تعداد میں برطانیہ پہنچنے لگی۔اس پرمستزادیہ کہ قبولیت اسلام کے مغربی رجحان سے برطانیہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ان تمام عوامل کے نتیجے میں اب عملی صورت حال یہ ہے کہ بلیک برن اور ڈیوزبری جیسے برطانوی شہر مسلم اکثریتی شہر بن چکے ہیں۔ دیگر برطانوی شہر مثلا دارالحکومت لندن اور برمنگھم میں پورے کے پورے محلے مسلم آبادیوں پر مشتمل ہونے لگے۔
 انتہا پسند‘کون ہے…؟
برطانیہ کی یہ صورت حال محض ایک یوروپی ملک کا مسئلہ نہیں۔ فرانس، جرمنی، اٹلی، یونان اور اسپین ہر جگہ گوری نسلی خاندان کے زوال کے نتیجے میں آبادی کی کمی کا شکار ہیں۔ آبادی کی اس کمی کو بھی بر صغیر اور شمالی افریقہ کے سستے مزدور پورا کر رہے ہیں۔ یہ رجحان یوروپ کی گوری نسل کو مزیدسمیٹ رہا ہے۔ یوروپ کے ڈیموگرافک چارٹ نے یوروپی ماہرین سماجیات اور حکومتوں کو پریشان کردیا۔ اٹلی، فرانس، جرمنی اور روس کی حکومتوں نے اس سلسلے میں چند اہم اقدامات کئے۔ ان ممالک نے بچوں کو جنم دینی والی خواتین کو2سال کی چھٹی مع تنخواہ اور ایک معقول رقم نقدبطور انعام دینے کا اعلان کیالیکن یہ پالیسی3  وجوہات سے ناکام رہی، پہلی وجہ یہ تھی کہ یہ تمام پرکشش مراعات ان تکالیف اور قربانیوں کا متبادل نہ بن سکیں جو ماں بننے اور اولاد کی پرورش کرنے میں درکار ہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مغرب میں اولاد کی ذمہ داری اٹھانے والا اور ہر حال میں اپنی شریک حیات کا ساتھ نبھانے والا مرد باقی نہ رہا۔ اس پالیسی کی ناکامی کی تیسری عملی وجہ یہ رہی کہ یوروپی ممالک میں رہنے والے مسلم خاندان نے اس پالیسی سے فائدہ اٹھا کر اپنے خاندانوں کو مزید وسعت دے دی۔اس صورت حال نے یوروپی سیاست دانوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔ سب سے پہلے سوئٹزر لینڈ نے اپنے ملک میں بڑھتی ہوئی مساجد کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا جبکہ عبادت گاہوں پر پابندی بہت مشکل تھی۔ اس لئے پہلے مرحلے میں مساجد کے میناروں پر پابندی لگادی گئی۔ فرانس نے چہرے کے حجاب پر پابندی لگادی،اب اٹلی نے بھی فرانس کی تقلید کرتے ہوئے حجاب پر پابندی لگادی ۔ ان اقدامات نے یوروپ کی مسلم آبادی میں اپنے اور اپنی اقدار کو تحفظدینے کا نیا احساس پیدا کیا۔ بجائے اس کے کہ یوروپ اپنی آبادی میں فطری خود کفالت کیلئے معاشی اقدار کے غلبے، معیار زندگی کی بڑھتی ہوئی دوڑ اور ہم جنس پرستی کے رجحانات کو ترک کرکے خاندانی اور اخلاقی اقدار کو ترجیح دینے کی کوشش کرتا، اس نے اپنی ہی مسلم آبادی کی خلاف ایک سرد جنگ چھیڑ کر صورت حال کو مزید نازک کردیا۔یوروپ کو اس صورت حال نے یوروپ کو آبادی میں کمی کے ساتھ ساتھ خالصتََا یوروپی اقدار سے بھی پشت پھیرنے پر مجبور کردیا۔ خاص طور پر فرانس میں حجاب پر پابندی نے یوروپ کی بنیادی قدر یعنی آزادی یاFreedom کو سخت نقصان پہنچایا۔ خود یوروپ کے سنجیدہ سیکولر طبقے نے سوالیہ نشان قائم کردیا کہ اگر فرانس نے خواتین کو زبردستی حجاب سے محروم کر دیا تو فرانس کی لبرل حکومت اور افغانستان کی طالبان انتظامیہ میں کیا فرق رہ جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر طالبان زبردستی حجاب کروا کے’ انتہا پسند‘ قرار پاتے ہیں تو زبردستی حجاب اتروانے والی فرانس کی’ لبرل ‘حکومت انتہا پسندی کے الزام سے کیسے بچ سکتی ہے؟ کیا یوروپ میں ہٹلر کی نسل پرستی کا دور واپس آرہا ہے؟ اس یوروپی صورتحال کے کیا نتائج نکلیں گے اور جمہوری ،تعلیم یافتہ اور مہذب یوروپ اس صورت حال سے کیسے عہدہ برآ ہوگا؟ ان سوالا ت کے جواب نہ صرف تاریخی ہوںگے بلکہ اک نئی تاریخ بھی رقم کریں گے۔ مغربی دنیا کو جلد یا بدیر ان سوالات کو حل کرنا ہوگا کیونکہ تہذیبی تصادم کی یہ صورت حال اپنے اندر مثبت اور منفی دونوں قسم کے ان گنت امکانات رکھتی ہے۔
بہت سے سوال اور رہ گئے تشنہ:
دنیا کے سب سے بڑے ہیروں میں شمار کیا جانے والا ایک سو پانچ کیرٹ کے کوہِ نور ہیرے کو انیسوی صدی میں اس وقت برطانیہ لے جایا گیا تھا جب ہندوستان پر برطانیہ کا قبضہ تھا جبکہ ہندوستان برطانیہ کی نو آبادی تھی۔یہ کوہِ نور ہیرہ فی الحال لندن ٹاور میںآج بھی رکھا ہوا ہے جبکہ مہاتما گاندھی کے پوتے سمیت ہندوستان کی کئی اہم شخصیات برطانیہ سے بارہا یہ مطالبہ کرچکی ہیں کہ وہ کوہِ نور ہیرہ ہندوستان کو واپس کریںلیکن ڈیوڈ کیمرون نے اپنے حالیہ ہندوستان کے دوران نے اس مطالبہ کو خارج کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ یہ صحیح طریقہ ہے۔ یونان کے الینگن سنگ مرمر کا بھی یہی معاملہ ہے۔ مجھے چیزوں کو لوٹانے میں کوئی یقین نہیں ہے۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ یہ سمجھداری والی بات ہے۔‘عجیب بات یہ کہ یونان کے پتھروں سے بنی مورتیوں کو بھی برطانیہ لے جایا گیا تھا اور یونان ایک لمبے عرصے سے ان کی واپسی کا مطالبہ کررہا ہے لیکن برطانیہ نے انہیں بھی واپس کرنے سے انکار کردیا ہے۔اس سلسلہ میں میں ڈیوڈ کیمرون کا موقف ہے کہ ’اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ برطانیہ کے عجائب گھر دنیا بھر کے دیگر عجائب گھروں کے ساتھ بات کر کے اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ برطانیہ نے جن نایاب چیزوں کو جتنے’بہترین طریقے‘ سے’ سنبھال کر‘ رکھا ہے ان کو پوری دنیا کے لوگوں کے ساتھ شیئر کیا جائے جبکہ وہ ماضی کے بارے میں سوچنے سے زیادہ ہندوستان کے ساتھ موجودہ اور مستقبل کے رشتوں پر اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔حقائق کھنگالیں تو پتہ چلتا ہے کہ 1850 میں ہندوستان کے اس وقت کے گورنر جنرل نے برطانیہ کی ملکہ وکٹوریا کو یہ کوہِ نور ہیرا تحفے میں دیا تھاجبکہ بعد میں اس ہیرے کو ملکہ ایلزبتھ کے تاج میں سجا دیا گیا تھا۔1997 میں ملکہ ایلزبتھ دوئم جب ہندوستان کے دورے پر آئی تھیں تو ان کے دورے کے موقع پر بھی ہندوستان میں کوہِ نور واپس کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔کہنے والے توآج یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان ہی پر کیوں اکتفا کر لیا جائے؟ برطانیہ کی افغانستان میں جنگوں کے دوران جو افراد ہلاک ہوئے، ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟لیکن اگر برطانیہ ہندوستان کو ’سوری‘ کہنا ہی چاہتا ہے، تو ایک اور واقعہ ایسا ہے جو جلیاںوالہ کے قتل عام سے کہیں بڑا ہے۔کون نہیں جانتا کہ 1943 میں ہونے والے قحط بنگال میں 30 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔برطانیہ میں اس سانحے کو اگر کوئی اہمیت دی بھی جاتی ہے تو صرف دوسری جنگِ عظیم کے ایک المناک شاخسانے کے طور پر۔ اس جنگ میں برطانیہ جاپان کے ساتھ برسر پیکار تھالیکن برطانیہ کے افعال اور اس کی گاندھی کی ’ہندوستان چھوڑ دو‘ تحریک کی مخالفت نے اس سانحے میں کلیدی کردار ادا کیااگرچہ ونسٹن چرچل نے جلیاںوالہ باغ قتلِ عام کو ’خوفناک‘ کہا لیکن قحط بنگال کے بارے میں ان کا رویہ یکسر مختلف تھا۔ جب انھیں ایک تار موصول ہواجس میںتحریر تھا کہ کتنے بنگالی ہلاک ہو رہے ہیں تو انھوں نے محض اتنا کہاکہ ’گاندھی ابھی تک کیوں نہیں مرا؟‘قحط بنگال کے مستند مورخ مادھوشری مکھرجی کے بقول وزیراعظم کیمرون کو اس قحط کی معافی بھی مانگنی چاہئے تھی۔آخر کیوں نہیں؟جبکہ ٹونی بلیئر نے آئرلینڈ میں آلوؤں کے قحط اور برطانیہ کے غلاموں کی تجارت میں ملوث ہونے پر معافی مانگی تھی۔بہرکیف ہندوستان کو کلیجہ پر پتھررکھ کر سننا پڑرہا ہے کہ برطانوی حکام کہتے ہیں کہ جلیاںوالہ باغ میں جانے کی وجہ برطانوی راج کی معافی مانگنا نہیں تھابلکہ ایوان وزیراعظم کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ امرتسر کے دورے پر گئے تھے اس لئے وہ اس واقعہ پر معذرت کر رہے تھے۔‘مادھوشری مکھرجی نے کہا کہ ہو سکتا ہے برطانوی وزیراعظم اس لئے بھی زیادہ کھل کر بات نہیں کرنا چاہتے ہوں کہ اس طرح قانونی ازالے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔برطانوی وزیرِاعظم کے امرتسر جانے کی بنیادی وجہ یہ تھی برطانیہ میں پنجاب سے ہجرت کر کے آئے ہوئے بہت سے ووٹر موجود ہیں۔ اس لئے انھیں جلیاںوالہ باغ کے بارے میں کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی تھا۔بقول شخصے ماضی کے واقعات کیلئے سیاسی معذرتیں بے معنی ہوتی ہیں جبکہ ناقدین کا خیال ہے کہ ٹونی بلیئر آئرلینڈ کے قحط کیلئے تو معذرت کر سکتے تھے، لیکن عراق کی جنگ کیلئے نہیںلیکن ڈیوڈ کیمرون نے ہندوستان کے ساتھ ’خصوصی تعلقات‘ قائم کرنے کے خواہش میں ایک مثال تو قائم کر ہی دی ہے۔ اگر انھوں نے کولکتہ کا دورہ کیا تو ان کیلئے قحط بنگال کو نظرانداز کرنا مشکل ہو جائے گا
رابطہ: sa.sagar7@gmail.comفون نمبر:+919811231871

No comments:

Post a Comment