Search This Blog
Friday, 30 August 2013
Wednesday, 28 August 2013
شام پر حملے کی تیاری ATTACK ON SYRIA
شام پر حملے کی تیاری
امریکا اور یورپ نے ایک اور مسلم ملک شام پر
حملے کی تیاری کرلی ہے اور ممکن ہے کہ دو، چار روز میں حملہ ہوجائے گا۔
ابھی یہ بات پائے ثبوت کو نہیں پہنچی کہ شام کے علاقے ’’غوطہ‘‘ میں جو
کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے ہیں وہ کس کی طرف سے ہوئے ہیں۔ روس کا
اصرار ہے کہ یہ ہتھیار باغیوں نے استعمال کیے ہیں تاکہ امریکا اور یورپ کو
حملہ کرنے کا جواز مل جائے۔ امریکی صدر اوباما اس کا اظہار بھی کرچکے ہیں
کہ بلاجواز حملہ نہیں کیا جائے گا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے فیصلہ
سنا دیا ہے کہ ’’بشارالاسد کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں۔‘‘ ہتھیار ہیں
یا نہیں لیکن اس حوالے سے امریکا کا کردار بہت گندا ہے۔ ایک سابق امریکی
ویزر خارجہ جنرل پاول نے اقوام متحدہ میں ثابت کیا تھا کہ عراق کے صدر صدام
حسین کے پاس انتہائی خطرناک اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار
ہیں۔ اس پر برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر نے ردا جمایا تھا کہ صدام حسین صرف
25 منٹ میں ان ہتھیاروں کو استعمال کے قابل بنا سکتے ہیں۔ اور پھر اس
مکروہ جھوٹ کا سہارا لے کر سب عراق پر ٹوٹ پڑے، اینٹ سے اینٹ بجادی گئی
لیکن کونا کونا چھان مارنے کے باوجود وہ خطرناک ہتھیار کہیں سے نہ ملے۔
امریکی وزیر خارجہ نے اعتراف کیا کہ سی آئی اے نے گمراہ کیا۔ اس کے باوجود
امریکی فوجیں عراق میں جمی بیٹھی رہیں اور عراقی مسلمانوں کا قتل عام کرتی
رہیں۔ صدام حسین کے دور میں اتنے لوگ نہیں مارے گئے جتنے امریکی قبضہ کے
بعد مارے گئے اور اب تک مارے جارہے ہیں۔ شیعہ سنی خونریز تصادم اور روزانہ
کے دھماکے صدام حسین کے دور میں تو نہیں ہوتے تھے۔ اب شام اور مصر میں بھی
جو کچھ ہورہا ہے اس کے پیچھے یہی شیطانی طاقتیں ہیں۔ شام پر حملے کا ایک
مقصد یہ بھی ہے کہ مصر کی صورتحال سے توجہ ہٹائی جائے۔ برطانیہ کے وزیر
خارجہ ولیم ہیگ نے کہا ہے کہ ’’شام میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی
متفقہ حمایت کے بغیر بھی کارروائی کی جاسکتی ہے۔‘‘ منگل کو روس اور چین نے
حملہ کی قرارداد کو مسترد کردیا ہے۔ روس کا اصرار ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں
کے استعمال میں اسد حکومت ملوث نہیں ہے۔ شام میں اگر فوجی مداخلت کی گئی تو
اس کا سب سے بڑا فائدہ تو اسرائیل کو پہنچے گا جو برسوں سے شام کے پہاڑی
علاقے جولان پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔ فوجی نقطہ نظر سے جولان کی پہاڑیوں کی
بہت اہمیت ہے جہاں سے دمشق کو آسانی سے نشا نہ بنایا جاسکتا ہے۔ شام پر
حملہ صرف اسی ملک تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پورا مشرق وسطی زد میں آئے گا۔
المیہ یہ ہے کہ مسلم ممالک نہ صرف یہ کہ کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہیں
کرسکتے بلکہ موت وزندگی کے معاملات میں بھی آپس میں بٹے ہوئے ہیں۔ نام نہاد
تنظیم اسلامی کانفرنس کا کوئی وجود نظر نہیں آتا۔ ترکی بھی شام پر حملہ
کرنے کے حق میں ہے۔ دریں اثناء اسد حکومت سے برسر پیکار گروہوں کو بڑے
پیمانے پر بھاری اسلحہ پہنچا دیا گیا ہے۔ باغی لیڈروں نے انکشاف کیا ہے کہ
سیکڑوں ٹن گولہ بارود اور ہلکا اسلحہ گزشتہ تین دن میں ترکی کی سرحد سے شام
کے شمالی علاقے میں پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ اس سال اسلحہ کی سب سے بڑی مقدار
اور تعداد ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ اسلحہ سعودی عرب اور قطر سے
فراہم کیا گیا تھا جو کئی ماہ سے ترکی کے گوداموں میں رکھا ہوا تھا۔ اسلحہ
میں ٹینک شکن میزائل بھی شامل ہیں۔ سلفی ملیشیا احزار الشام کے کمانڈر نے
خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم ایک باقاعدہ فوج کی طرح سے لڑسکیں
گے، ہم کئی ماہ سے محاذ پر پیش قدمی سے محروم تھے۔ باغیوں کو اسلحہ کی
فراہمی سے خانہ جنگی مزید طول کھینچے گی۔ ایران کی طرف سے اسد حکومت کو ہر
طرح کی مدد فراہم کی جارہی ہے اور یہ جنگ علویوں (شیعہ) اور سنیوں میں بدل
گئی ہے۔ گو کہ اسد خاندان نصیری فرقہ سے تعلق رکھتا ہے جو اپنے عقائد میں
کئی معاملات میں شیعوں سے مختلف ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ عالم اسلام کے رہنما
ہوش کے ناخن لیں اور امریکا ویورپ کو شام میں فوجی مداخلت سے باز رکھنے کی
کوشش کریں۔ شام بھی عراق اور افغانستان جیسے انجام سے دوچار ہوجائے گا جس
کا فائدہ اسرائیل اور امریکا کو ہوگا۔ مسلمانوں کا ایک اور ملک تباہی کا
شکار ہورہا ہے۔ مصر پہلے ہی خانہ جنگی کا شکار ہے اور سب تماشا دیکھ رہے
ہیں۔
Thursday, 22 August 2013
مصر میں نیٹو فوج کب اترے گی When Nato Troops are arriving in Egypt
مصر میں نیٹو فوج کب اترے گی

مصر کے نئے
فرعون جنرل السیسی کو ایک اسکرپٹ دے دیا گیا ہے، اس کی ڈیوٹی یہ ہے کہ ایسے
حالات پیدا کردے جن پر قابو پانے کے لئے بیرونی فوجی مداخلت کو لوگ خوش
آمدید کہیں۔
تیونس اورلیبیا میں یہ ڈرامہ کامیابی سے کھیلا جا چکا ہے ، یہی کھیل شام میں جاری ہے۔ شامی باغیوں کو امریکہ اور یورپ کی کھلی حمائت حاصل ہے،لیبیامیں تو نیٹو طیارے بمباری میں حصہ لیتے رہے ہیں ، شام میں بھی نیٹو کے رکن کی حیثیت سے ترک فضائیہ اور توپخانہ بار بار دخل اندازی کر رہی ہیں۔
نئے ورلڈ آرڈر میں امریکہ نے دنیا میں تھانیداری جمانے کا فریضہ برطانیہ عظمی کو سونپ دیا ہے، اس ملک کو نیٹو میں بالادستی حاصل ہے، افغانستان اور عراق میں بھی نیٹو نے ظلم اور جبر کی انتہا کر دی ۔ پاکستان کو افغانستان کی وجہ سے جن مسائل کا سامنا ہے ، ان میںنیٹو سپلائی سر فہرست ہے، ایک تو نیٹو کے بھاری بھر کم کنٹینروںنے ہمارا روڈ نیٹ ورک اکھاڑ پھینکا ہے، دوسرے ان کنٹینروں کا ا سلحہ راستے میں چوری ہو جاتاہے یا ہونے دیا جاتا ہے اور اس اسلحے سے اہل پاکستان کو موت کی نیند سلایا جارہا ہے۔
جب نائن الیون ہوا اور صدر بش نے نئی صلیبی جنگ کا اعلان کیا تو یہ ہم لوگ تھے جنہوںنے امریکہ سے کہا کہ وہ ان اسباب کو ختم کرے جن کی بنا پر لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں، امریکہ کو ہم نے بتایا کہ وہ عالم اسلام کے طول وعرض میں جابر اور آمر حکومتوں کا سر پرست ہے، اس ضمن میں ہم نے خاص طور پر لیبیا ، شام ، مصر، ارد ن وغیرہ کا نام لیا جہاں ہمارے بقول جمہوریت کا نام ونشان نہیں اور یہاں یا تو فوجی آمر کئی عشروں سے حکومت پر قابض ہیں یا شاہی خاندانوں کی فرمانروائی ہے۔
امریکہ نے پہلے لیبیا کا رخ کیا جہاں کرنل قذافی کے بارے میں کوئی بھی یاد داشت کے سہارے نہیں جانتا کہ اس نے حکومت کب ہتھیائی۔اس کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکانے کے لئے القاعدہ کو استعمال کیا گیا اور اس کی بغاوت کو کامیاب کرانے کے لئے ہر طرح کی فوجی امداد دی گئی۔امریکہ کی پالیسیوں کی سمجھ نہیںا ٓتی، وہ ساری دنیا میں القاعدہ کے خلاف جنگ کر رہا ہے لیکن لیبیا میں اس نے القاعدہ کے کندھے سے کندھا ملا کر کرنل قذافی کی حکومت کا تختہ الٹا اورا ٓخر میں کرنل قذافی جان بچانے کے لئے کہیں چھپ گئے تو نیٹو طیاروںنے اسے ڈھونڈھ نکالا اور ایک سیدھا میزائل مار کر اس کاکام تمام کر دیا، ہم نے اس پر خوشیاں منائیں اور عرب بہار کے جھونکوں کے ساتھ جھوم جھوم اٹھے۔اسی دوران عرب بہار تیونس کے حکمران کو تنکوں کی طرح اڑا کر قعر مذلت میں پھینک چکی تھی۔تبدیلی کی ہواﺅں نے ہلکے سے تھپیڑے اردن اور سعودی عرب کے رخساروںپر بھی رسید کئے لیکن ان متمول اور فلاحی ریاستوںنے جلد ہی عرب بہار کو سرحدوںسے باہر دھکیل دیا مگر شام میں عرب بہار جہنمی شعلوں کی زبان بن کر لپکی۔
اب شام میں ہر سو لاشے بکھرے ہوئے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یہاں بھی القاعدہ یا اس کے حلیف گروپ انقلاب کا پرچم لہرا رہے ہیں اور امریکہ اور اس کا حلیف نیٹو ان انقلابی گروپوں کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے۔ترکی کے طیارے اور توپخانہ تو باقاعدہ اس جنگ میں کود چکا ہے اور شامی فوج کے ہاتھوں نقصان بھی اٹھا چکا ہے۔
شام شاید سخت ہڈی ثابت ہوا ہے، اس لئے عرب بہار نے مصر کی طرف ہجرت کر لی ہے، یہاں ایک سال پہلے ایک انقلاب نے کامیابی کا بگل بجایا تھا، اور حسنی مبارک کو لوہے کے پنجرے میں بند کر دیا گیا تھا۔پھر آزادانہ الیکشن ہوئے اور ایک جمہوری دور شروع ہوا مگر اس حکومت کو فوج نے یہ کہہ کر چلتا کر دیاکہ یہاںخانہ جنگی کا اندیشہ تھا، اس وقت خانہ جنگی تو نہیں ہوئی لیکن اب فوجی حکومت کے دور میں یہ خانہ جنگی عروج پر ہے،ہر روز لاشیں گر رہی ہیں، ٹینکوں کے گولے نہتے شہریوں پر برس رہے ہیں ، مشین گنوں سے مسجدوں کے نمازیوں کے سینے چھلنی کئے جا رہے ہیں۔اس قدر خونریزی پر اب ڈرامے کے پروڈیوسر امریکہ کو بھی فکر لاحق ہو گئی ہے مگر یہ سب کچھ اسکرپٹ کے عین مطابق ہے اور حالات کو اس نہج پر پہنچانا مطلوب ہے جب امریکہ اپنا دم چھلہ بننے والے نیٹو کو بزن کا اشارہ کرے یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مصر میںمداخلت کی ایک مبہم سی قرارداد منظور کرا لی جائے۔
یہ ہماری بھول ہے کہ امریکہ اور نیٹو نے تیونس ، لیبیا، شام اور مصر میں اب تک جو ڈرامہ رچایا ہے، اس کے براہ راست کوئی اثرات پاکستان پر مرتب نہیں ہوتے، اسلامی کانفرنس کا خاموش تماشائی بننا بھی ایک تکلیف دہ امر ہے، اور مجھے یہ کہنے دیجیے کہ جب پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی تھی تو میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوںنے مستی میں یہ نعرہ لگایا کہ پاکستان عالم اسلام کا قلعہ ثابت ہو گا اورایٹمی قوت سے پوری اسلامی دنیا کا دفاع کرے گا مگر آج ہم ٹک ٹک دیدم ،دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں یا یہ سمجھ لیں کہ گونگے ہیں ، بہرے ہیں اور اندھے ہیں۔ہم کسی کی حفاظت کیا کریں گے ،اپنی بھی حفاظت نہیں کر پائے، الٹا جس طاقت نے ہمیں بچانا تھا، اس کو بچانا ہماری سر دردی بن گیا ہے۔اغیار تو اغیار ہیں ، انہوںنے تو طعنے دینا ہی تھے، اب تو ہمارے ہی اینکر ہمیں طعنے دے رہے ہیں ، انہوںنے مجھ جیسے جہادیوں اور جذباتی پاکستانیوں کا جینا حرام کر دیا ہے کہ کدھر گیا آپ کا ایٹمی اسلحہ جو عالم اسلام کے لئے ڈیٹرنٹ تھا۔
تیونس اورلیبیا میں یہ ڈرامہ کامیابی سے کھیلا جا چکا ہے ، یہی کھیل شام میں جاری ہے۔ شامی باغیوں کو امریکہ اور یورپ کی کھلی حمائت حاصل ہے،لیبیامیں تو نیٹو طیارے بمباری میں حصہ لیتے رہے ہیں ، شام میں بھی نیٹو کے رکن کی حیثیت سے ترک فضائیہ اور توپخانہ بار بار دخل اندازی کر رہی ہیں۔
نئے ورلڈ آرڈر میں امریکہ نے دنیا میں تھانیداری جمانے کا فریضہ برطانیہ عظمی کو سونپ دیا ہے، اس ملک کو نیٹو میں بالادستی حاصل ہے، افغانستان اور عراق میں بھی نیٹو نے ظلم اور جبر کی انتہا کر دی ۔ پاکستان کو افغانستان کی وجہ سے جن مسائل کا سامنا ہے ، ان میںنیٹو سپلائی سر فہرست ہے، ایک تو نیٹو کے بھاری بھر کم کنٹینروںنے ہمارا روڈ نیٹ ورک اکھاڑ پھینکا ہے، دوسرے ان کنٹینروں کا ا سلحہ راستے میں چوری ہو جاتاہے یا ہونے دیا جاتا ہے اور اس اسلحے سے اہل پاکستان کو موت کی نیند سلایا جارہا ہے۔
جب نائن الیون ہوا اور صدر بش نے نئی صلیبی جنگ کا اعلان کیا تو یہ ہم لوگ تھے جنہوںنے امریکہ سے کہا کہ وہ ان اسباب کو ختم کرے جن کی بنا پر لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں، امریکہ کو ہم نے بتایا کہ وہ عالم اسلام کے طول وعرض میں جابر اور آمر حکومتوں کا سر پرست ہے، اس ضمن میں ہم نے خاص طور پر لیبیا ، شام ، مصر، ارد ن وغیرہ کا نام لیا جہاں ہمارے بقول جمہوریت کا نام ونشان نہیں اور یہاں یا تو فوجی آمر کئی عشروں سے حکومت پر قابض ہیں یا شاہی خاندانوں کی فرمانروائی ہے۔
امریکہ نے پہلے لیبیا کا رخ کیا جہاں کرنل قذافی کے بارے میں کوئی بھی یاد داشت کے سہارے نہیں جانتا کہ اس نے حکومت کب ہتھیائی۔اس کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکانے کے لئے القاعدہ کو استعمال کیا گیا اور اس کی بغاوت کو کامیاب کرانے کے لئے ہر طرح کی فوجی امداد دی گئی۔امریکہ کی پالیسیوں کی سمجھ نہیںا ٓتی، وہ ساری دنیا میں القاعدہ کے خلاف جنگ کر رہا ہے لیکن لیبیا میں اس نے القاعدہ کے کندھے سے کندھا ملا کر کرنل قذافی کی حکومت کا تختہ الٹا اورا ٓخر میں کرنل قذافی جان بچانے کے لئے کہیں چھپ گئے تو نیٹو طیاروںنے اسے ڈھونڈھ نکالا اور ایک سیدھا میزائل مار کر اس کاکام تمام کر دیا، ہم نے اس پر خوشیاں منائیں اور عرب بہار کے جھونکوں کے ساتھ جھوم جھوم اٹھے۔اسی دوران عرب بہار تیونس کے حکمران کو تنکوں کی طرح اڑا کر قعر مذلت میں پھینک چکی تھی۔تبدیلی کی ہواﺅں نے ہلکے سے تھپیڑے اردن اور سعودی عرب کے رخساروںپر بھی رسید کئے لیکن ان متمول اور فلاحی ریاستوںنے جلد ہی عرب بہار کو سرحدوںسے باہر دھکیل دیا مگر شام میں عرب بہار جہنمی شعلوں کی زبان بن کر لپکی۔
اب شام میں ہر سو لاشے بکھرے ہوئے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یہاں بھی القاعدہ یا اس کے حلیف گروپ انقلاب کا پرچم لہرا رہے ہیں اور امریکہ اور اس کا حلیف نیٹو ان انقلابی گروپوں کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے۔ترکی کے طیارے اور توپخانہ تو باقاعدہ اس جنگ میں کود چکا ہے اور شامی فوج کے ہاتھوں نقصان بھی اٹھا چکا ہے۔
شام شاید سخت ہڈی ثابت ہوا ہے، اس لئے عرب بہار نے مصر کی طرف ہجرت کر لی ہے، یہاں ایک سال پہلے ایک انقلاب نے کامیابی کا بگل بجایا تھا، اور حسنی مبارک کو لوہے کے پنجرے میں بند کر دیا گیا تھا۔پھر آزادانہ الیکشن ہوئے اور ایک جمہوری دور شروع ہوا مگر اس حکومت کو فوج نے یہ کہہ کر چلتا کر دیاکہ یہاںخانہ جنگی کا اندیشہ تھا، اس وقت خانہ جنگی تو نہیں ہوئی لیکن اب فوجی حکومت کے دور میں یہ خانہ جنگی عروج پر ہے،ہر روز لاشیں گر رہی ہیں، ٹینکوں کے گولے نہتے شہریوں پر برس رہے ہیں ، مشین گنوں سے مسجدوں کے نمازیوں کے سینے چھلنی کئے جا رہے ہیں۔اس قدر خونریزی پر اب ڈرامے کے پروڈیوسر امریکہ کو بھی فکر لاحق ہو گئی ہے مگر یہ سب کچھ اسکرپٹ کے عین مطابق ہے اور حالات کو اس نہج پر پہنچانا مطلوب ہے جب امریکہ اپنا دم چھلہ بننے والے نیٹو کو بزن کا اشارہ کرے یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مصر میںمداخلت کی ایک مبہم سی قرارداد منظور کرا لی جائے۔
یہ ہماری بھول ہے کہ امریکہ اور نیٹو نے تیونس ، لیبیا، شام اور مصر میں اب تک جو ڈرامہ رچایا ہے، اس کے براہ راست کوئی اثرات پاکستان پر مرتب نہیں ہوتے، اسلامی کانفرنس کا خاموش تماشائی بننا بھی ایک تکلیف دہ امر ہے، اور مجھے یہ کہنے دیجیے کہ جب پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی تھی تو میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوںنے مستی میں یہ نعرہ لگایا کہ پاکستان عالم اسلام کا قلعہ ثابت ہو گا اورایٹمی قوت سے پوری اسلامی دنیا کا دفاع کرے گا مگر آج ہم ٹک ٹک دیدم ،دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں یا یہ سمجھ لیں کہ گونگے ہیں ، بہرے ہیں اور اندھے ہیں۔ہم کسی کی حفاظت کیا کریں گے ،اپنی بھی حفاظت نہیں کر پائے، الٹا جس طاقت نے ہمیں بچانا تھا، اس کو بچانا ہماری سر دردی بن گیا ہے۔اغیار تو اغیار ہیں ، انہوںنے تو طعنے دینا ہی تھے، اب تو ہمارے ہی اینکر ہمیں طعنے دے رہے ہیں ، انہوںنے مجھ جیسے جہادیوں اور جذباتی پاکستانیوں کا جینا حرام کر دیا ہے کہ کدھر گیا آپ کا ایٹمی اسلحہ جو عالم اسلام کے لئے ڈیٹرنٹ تھا۔
Tuesday, 20 August 2013
البرادعی: یہودیوں کا براہِ راست ایجنٹ Al Bardaei Yahuydiyon ka Agent
البرادعی: یہودیوں کا براہِ راست ایجنٹ
…مسعود انور…
مصر میں آگ و خون کا کھیل پورے جوبن پر ہے۔ نہتے و بے گناہ شہریوں کو محض اس جرم میں روز گولیوں سے بھون دیا جاتا اور زندہ آگ میں جلادیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بنیادی حقِ خودارادیت کے لیے آواز بلند کررہے ہیں۔ مصر کی تمام ریاستی مشینری اس وقت اپنی پوری قوت کے ساتھ مصری عوام کے احتجاج کو دبانے میں مصروف ہے۔ اس امر میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ اسرائیل، امریکا، یورپ، روس، چین اور ان سب کی سیٹلائٹ عرب ریاستیں بھی مصری فوجی حکومت کی پشت پر کھڑی ہیں۔ عبدالفتاح السیسی کی فوجی بغاوت کے بعد الرابعہ العدویہ میں، اور پھر اس کے بعد پورے مصر میں موت کا جو خوفناک عفریت ناچا، اس کے بعد عبدالفتاح السیسی کی عبوری حکومت کے نائب وزیراعظم البرادعی نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اخوان کے احتجاجی کیمپوں پر تشدد کی پالیسی سے اختلاف رکھتے ہیں، اس لیے اس حکومت کے ساتھ مزید نہیں چل سکتے۔ اس احتجاجی استعفے نے البرادعی کا ایک بااصول انسان کے طور پر امیج ابھارا۔ اس وقت البرادعی آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ چھٹیاں گزار رہے ہیں۔
محمد مصطفی البرادعی کا نام ایسا نہیں ہے کہ لوگ انہیں جانتے نہ ہوں۔ عراق پر امریکی حملے سے پہلے جو شخصیت عراق میں چوتھی چالے کررہی تھی وہ البرادعی ہی تھے۔ اُس وقت وہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کے منصب پر فائز تھے۔ اس کے بعد البرادعی کو ان کی انسانیت کے لیے بہترین اور ناقابلِ فراموش خدمات پر نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ البرادعی اس کے بعد مصر ی عوام کی خدمت کی جانب متوجہ ہوئے اور حسنی مبارک کے خلاف گیارہ جماعتوں کی مہم جس میں اخوان بھی شامل تھی، کے قائد ٹھیرے۔ حسنی مبارک کے خلاف احتجاجی مہم میں کارکنان تو اخوان کے پیش پیش تھے، مگر قیادت البرادعی کے ہی ہاتھ میں تھی۔ جب اخوان کے مقرر کردہ محمد مرسی مصر کے ایوانِ صدر میں داخل ہوئے تو البرادعی اخوان سے اپنا راستہ الگ کرچکے تھے اور اخوان کے حکومت میں آنے کے ٹھیک ایک برس بعد وہ مرسی کے خلاف احتجاج کی قیادت کررہے تھے۔ اس چار روزہ احتجاج کے بعد مصری فوج نے ایک منتخب صدر کو جیل میں ڈال دیا اور خود اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ منطقی طور پر البرادعی اس نئی حکومت کے بنیادی اراکین میں شامل تھے مگر حیرت انگیز طور پر ان کا نمبر پہلا نہیں دوسرا تھا۔ وزیراعظم کا قرعہ فال عدلی منصور کے نام نکلا۔ اخوان کی ویب سائٹ پر موجود ایک آرٹیکل کے مطابق جو اب ہٹادیا گیا ہے مگر اس کا حوالہ نیویارک ٹائمز نے بھی دیا ہے، منصور کا تعلق پروٹسٹنٹ عیسائیت کی شاخ سیونتھ ڈے سے ہے۔ اخوان کا یہ بھی کہنا ہے کہ منصور اصلاً کرپٹو یہودی ہے۔ کرپٹو یہودی وہ ہوتے ہیں جو اندر سے تو یہودی ہوتے ہیں مگر ظاہری طور پر اپنا مذہب تبدیل کرلیتے ہیں۔
البرادعی کی شخصیت صرف اتنی نہیں ہے جتنی اوپر بیان کی گئی ہے۔ ذرا سی چھان بین کی جائے تو البرادعی کی شخصیت کے جو پہلو سامنے آتے ہیں، اس سے مصر میں عالمی سازش کاروں کا پورا کھیل واضح ہوجاتا ہے۔ البرادعی کی ماں ایک یہودی تھی اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ یہودی مذہب اب تبلیغی مذہب نہیں رہا ہے۔ یہ ایک نسلی مذہب تک محدود کردیا گیا ہے، اور اس نسلی مذہب میں بھی اگر ماں یہودی ہو تو بچے کو یہودی مذہب میں داخلے کی اجازت ہے ورنہ نہیں۔ البرادعی کی بیوی کا تعلق ایران سے ہے اور اس کے بارے میں بھی شبہات ہیں کہ وہ ایرانی یہودی خانوادے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ تو ہے البرادعی کا خاندانی پس منظر۔
اب ذرا البرادعی کا کیریئر دیکھیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ کوفی عنان، جنرل ویسلے کلارک اور البرادعی میں کیا قدر مشترک ہے؟ یہ تینوں حضرات مشہور ترین این جی او یا تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس سینٹر کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن ہیں۔ اس انٹرنیشنل کرائسس سینٹر کو فنڈز ملتے ہیں عالمی سازش کاروں کے کلب کے رکن اور بدنام زمانہ صہیونی جارج سوروز کے اوپن سوسائٹی گروپ سے۔ اب کہانی کچھ واضح ہونا شروع ہوتی ہے۔ البرادعی کا کیریئر انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی سربراہی کے بعد ختم نہیں ہوگیا تھا۔ بس ان کی پوسٹنگ تبدیل ہوگئی تھی اور ان کی نئی تعیناتی مصر کے اندر ہی تھی۔ وہ پہلے بھی عالمی سازش کاروں کے ایجنٹ تھے اور اب بھی ہیں۔ چونکہ اِس وقت مصر میں عبوری اور عارضی حکومت قائم ہے جو اپنا ٹاسک مکمل کرنے کے بعد ہٹادی جائے گی اور کہا جائے گا کہ عالمی دباؤ کے بعد مصر میں فوجی حکومت کو رخصت ہونا پڑا۔ اس وقت البرادعی کی اس ڈرامے میں دوبارہ انٹری ہوگی۔ البرادعی، جنہیں اِس وقت مستعفی کرواکر نیک نام اور بااصول قرار دے دیا گیا ہے، اُس وقت ایک غیر جانبدار حیثیت سے داخل ہوں گے اور پھر ایک طویل عرصے تک مصر کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہوگی۔
البرادعی کے مہرے مرسی کی حکومت میں بھی شامل تھے اور السیسی کی حکومت میں بھی شامل ہیں۔ صرف اور صرف البرادعی مستعفی ہوئے ہیں، ان کی ٹیم کے دیگر ارکان نہیں۔ کسی بھی ڈرامے میں تماشائی ڈائریکٹر کی مرضی کے مطابق ہی جذبات میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ ولن اور ہیرو، دونوں کے ہیروئن کے بارے میں یکساں جذبات ہوتے ہیں۔ مگر ولن ذرا ہیروئن کے قریب آکر تو دیکھے، تماشائیوں کا بس نہیں چلتا کہ خود ہی اٹھ کر اس کا قلع قمع کردیں۔ ہیرو جو چاہے کر گزرے، تماشائی مطمئن رہتے ہیں۔ یہی حال ہماری حقیقی زندگی کا بھی ہے۔ اب یہ ڈائریکٹر پر منحصر ہے کہ وہ کس اداکار کو ہیرو کا اور کس کو ولن کا کردار تفویض کرتا ہے۔ چاہے جو بھی ہیرو ہو یا ولن، یا سائیڈ اداکار… چلنا سب کو ڈائریکٹر کی ہدایت کے مطابق ہی ہوتا ہے، اور مکالمات بھی صرف وہ ادا کرنے ہوتے ہیں جو اسکرپٹ میں دیے گئے ہوتے ہیں۔
مصر کے ڈرامے میں السیسی کا کردار مختصر دورانیے کا اور البرادعی کا کردار طویل دورانیے کا ہے۔ السیسی ولن ہے اور البرادعی ہیرو۔ رہ گئے مرسی اور ان کے حامی، تو ان کا کردار اس پورے ڈرامے میں عوام کو احمق بنانے سے زیادہ کا نہیں ہے۔ ڈراما پورے جوبن پر ہے۔ کلائمیکس سے پہلے تماشائی ڈائریکٹر کے سحر میں ہی ڈوبے رہیں گے۔ مگر جان لیجیے کہ عالمی سازش کاروں کے کٹھ پتلی تماشے کا مقصد کیا ہے؟ سارے کردار کہانی کو آگے بڑھارہے ہیں، چاہے یہ ولن ہو، ہیرو ہو یا سائیڈ کے کردار۔ یہ سب کہانی کا لازمی جزو ہیں۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔
Monday, 19 August 2013
اسرائیل کے مصری فوج سے خاموش تعلقات
اسرائیل اپنے ہمسایہ ملک مصر میں جاری بحران پر محتاط انداز میں نظر رکھے ہوئے ہے اور وہاں کی فوج کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔
حکام کے مطابق یہ خدشات موجود ہیں کہ مصری بحران میں اضافے کے نتیجے میں جزیرہ نما سینائی میں اسلامی شدت پسندوں کے خلاف دونوں کی مشترکہ جنگ کمزور پڑ جائے۔
مصر میں گزشتہ ہفتے کے دوران ہونے والی 750 سے زائد ہلاکتوں کے باعث مصری فوج کے ساتھ اسرائیلی حکومت کا اتحاد ایک نازک پوزیشن پر آ گیا ہے۔ ان حالات میں اسلام پسند محمد مُرسی کے حامیوں کی طرف سے اسرائیل کو ان کے خلاف آپریشن میں بطور اتحادی معاون قرار دیا سکتا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کو اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ مصری فوج دونوں ممالک کی مشترکہ سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے تاریخی امن معاہدے کی پاسداری بھی کرتی رہے۔
مصر کے ساتھ اسرائیل کا یہ معاہدہ 1979ء میں ہوا تھا اور یہ کسی عرب ملک کے ساتھ اس طرز کا پہلا معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کو علاقائی استحکام کے لیے ایک سنگ میل قرار دیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے بعد اسرائیل کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنے ذرائع اور توجہ شام اور لبنان کے ساتھ اپنی سرحد پر مرکوز کر سکے، جسے زیادہ نازک سرحد خیال کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف اس معاہدے کے بعد مصر کے لیے اربوں ڈالرز کی امریکی فوجی امداد کی راہ بھی ہموار ہوئی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق گو کہ اسرائیل اور مصر کے سفارتی تعلقات بہت زیادہ قریبی نہیں رہے تاہم دونوں ممالک کی افواج کے درمیان ایک اچھا ورکنگ ریلیشن شپ ضرور رہا ہے۔ سابق مصری صدر حُسنی مبارک کو ایک عوامی تحریک کے بعد اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں بھی بہتری دیکھی گئی۔ اسرائیلی سرحد کے قریب جزیرہ نما سینائی میں شدت پسند اسلامی گروپوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کے دوران اسرائیلی سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے مصری سکیورٹی حکام کے ساتھ اس سے قبل اتنے مضبوط روابط کبھی نہیں رہے۔
مصری فوج کے ہاتھوں صدر محمد مُرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسرائیل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران محمد مُرسی کے حامیوں کے خلاف آپریشن کے دوران سینکڑوں افراد کی ہلاکت پر بھی اسرائیل کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

ایک اسرائیلی اخبار Yediot Ahronot میں شائع ہونے والے ملٹری معاملات کے ایک ماہر Alex Fishman کے تجزیے کے مطابق ابھی تک دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں سرد مہری کی کوئی علامت نہیں ہے۔
اسرائیلی حکام کی طرف سے کہا جا چکا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدہ قائم رہے گا۔ اسرائیلی حکام نے اس معاہدے کو درپیش کسی خطرے سے متعلق قیاس آرائیوں کی تردید کی ہے۔
دوسری طرف اسرائیل کی طرف سے پیر کے دن اپنے شہریوں کے لیے ایک نیا سفری انتباہ بھی جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ جزیرہ نما سینائی کا سفر نہ کریں اور اگر وہاں موجود ہیں تو فوری طور پر وہاں سے نکل جائیں۔ سینائی کا ساحلی علاقہ اسرائیلی سیاحوں کے لیے چھٹیاں گزارنے کا ایک پسندیدہ مقام ہے۔
MISR FAUJI DAHESHATGARDON KI HIRASAT MEIN
Subscribe to:
Posts (Atom)