Search This Blog

Tuesday, 13 August 2013

ہنددوپاک :خوشگوارتعلقات کی بحالی دونوں کے مفاد میں بے حد اہم


ہنددوپاک :خوشگوارتعلقات کی بحالی دونوں کے مفاد میں بے حد اہم 
تیشہ فکر عابد انور
ہندوپاک کے درمیان معمول کے تعلقات کی بحالی کیلئے جتنے اقدامات کئے جاتے ہیں معاملہ اتنا ہی بگڑتا چلا جاتاہے۔ جب جب تعلقات بحال کرنے کی سعی گئی اسی وقت سرحد پر کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوگیاجس سے معاملہ آگے بڑھنے کے بجائے بہت پیچھے چلا گیا۔یہ سلسلہ آزادی ہندوستان کے بعد سے جاری ہے اور دو قدم آگے بڑھنے کے ساتھ ہی چار قدم پیچھے کھینچ لیا جاتاہے۔ہندوستان واحد ایسا ملک نہیں ہے جس کے سرحدی تنازعات ہیں۔ دنیا کے تقریباَ تمام ممالک کے ساتھ سرحدی تنازعات ہیں لیکن ان ممالک کے درمیان کبھی کوئی تلخی سامنے نہیں آئی جس سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوجائے۔ چین ایسا ملک ہے جس کے سرحدی تنازعات ہندوستان سمیت، جاپان، جنوبی کوریا،بھوٹان اور دیگر ممالک کے ساتھ ہیں۔ جاپان کے ساتھ تو جزیرہ کے سلسلے میں جنگ تک کی نوبت آجاتی ہے لیکن دونوں ممالک کے معمول کے تعلقات پر کوئی حرف نہیں آتا۔ دونوں ممالک کی تجارتی اور عوامی سرگرمیاں حسب سابق رواں دواں رہتی ہیں۔اسی طرح یوروپ کے کئی ممالک ہیں جس کے اپنے سرحدی تنازعات ہیں اور تقسیم کے سلسلے میں باہم پیکار بھی ہیں لیکن عوامی، تجارتی اور روز مرہ کی سرگرمیوں پر کوئی اثر نہیں پڑتاتو ہند وپاک کے درمیان ایسی کیا بات ہے جس سے معمولی سے معمولی واقعہ پر مرنے مارنے، صفحہ ہستی سے مٹادینے کی بات کی جانے لگتی ہے۔ چین جاپان، یوروپی ممالک اور دیگر ممالک کے درمیان جو تنازعات ہیں وہ بین حکومتی ہیں لیکن ہندوپاک کے درمیان جو تنازعات ہیں وہ بین حکومتی نہ رہ کر وہ بین دو قومی ہوگئے ہیں۔ اس طرح کے مہیب بادل چھاگئے ہیں جہاں حقائق ، دلائل، صحیح و غلط کی تمیز نہیں رہتی۔ اس کی جگہ اشتعال انگیزی،دشمنی،نفرت اور تعصب کا دور دورہ ہوتا ہے۔ ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ حکومت کے بجائے خود کارروائی کرے اور ایک ایک پاکستانی کو نیست و نابود کردے۔ یہ ماحول بناتا ہے ہندوستان کا ہندی میڈیا۔ بے سر پیر کی رپورٹ گھنٹوں چلوائی جاتی ہے۔ ہر اینکر اور رپورٹر ہر چھوٹے بڑے واقعہ کو ہندوستان کے وقار سے منسلک کرکے پیش کرتاہے۔ ایسا محسوس کرایا جاتاہے کہ اگر کارروائی نہیں کی گئی تو ہندوستان کی عزت اور وقار مٹی میں مل جائے گا۔کوئی شخص واقعہ کی تہہ میں جانا نہیں چاہتا اور نہ حقیقت کو اجاگر کرنا چاہتا ہے ۔ جتنے ماہرین ہوتے ہیں وہ اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یکطرفہ باتیں کرتے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں کہتا ہے سیکورٹی فورسز کی اتنی بڑی تعیناتی کے باوجود یہ واقعہ کیسے ہوگیا۔اسرائیل سے خریدے گئے راڈار کا کیا ہوا جس کے بارے میں دعوی کیا گیا تھا کوئی چیز اس کی نظر نہیں بچ سکتی، وہ اندھیرے میں بھی خط پڑھ لینے کی صلاحیت رکھتاہے ۔ ہندوستانی دفاع پر خرچ کئے جانے والے دو لاکھ تین ہزار 672 کروڑ روپے کے باوجود ہندوستانی سرحد غیر محفوظ کیوں ہے۔ چین جب چاہتاہے ہندوستانی سرحد میں داخل ہوجاتاہے اور اپنے خیمے گاڑ دیتاہے اور ہم کچھ نہیں کرپاتے، بلکہ خیمے ہٹا لینے کی درخواست کرتے نظرآتے ہیں۔تو ہمارا رویہ پاکستان کے ساتھ اتنا جارحانہ کیوں ہے۔جب معلوم ہے کہ وہاں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو کبھی نہیں چاہتے کہ ہندوپاک کے درمیان تعلقات معمول پر آئیں کیوں کہ نارمل تعلقات کی وجہ سے ان لوگوں کی دکانیں بند ہوسکتی ہیں۔ جب 3جون 2013کو نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تھا اس وقت یہ امید پیدا ہوگئی تھی اب ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات معمول پر آجائیں گے اور خصوصاً اس تناظر میں کہ آئندہ ماہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع ہندوپاک کے وزرائے اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور نواز شریف کے درمیان ملاقات ہوگی۔جیسے ہی یہ ملاقات طے ہوئی سرحد پر ناخوشگوارا واقعہ پیش آگیا۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ دونوں ملک کے تعلقات کو خراب کرنے کی عمداً اور منصوبہ بند سازش کے تحت ایسا ہوا ہے۔ پونچھ سیکٹر میں پانچ ہندوستانی فوجی جوانوں کی ہلاکت پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے پس منظر پر نظر رکھنا زیادہ ضروری ہے۔ آخر کون لوگ ہیں جو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے انسانی جانوں کی قربانی لینے پر مصر ہیں۔ 
گزشتہ چھ اگست کو علی الصبح کشمیر کے پونچھ سیکٹر کے چکن دا باغ میں کنٹرول لائن کے قریب گشت لگانے والے پانچ ہندوستانی فوجیوں کو تقریباَ پانچ سو میٹر اندر سرحد میں گھس کر ہلاک کردیاگیا۔ان جوانوں کا تعلق 21 بہار رجمنٹ تھا۔ ہندوستانی فوج کے مطابق بھاری ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں اور پاکستانی فوجیوں کی ایک ٹیم نے منگل کی صبح گھات لگا کر حملہ کیا۔یہ 15۔20 دہشت گرد تھے ۔جموں سے تقریبا 200 کلومیٹر دور چکن دا باغ علاقے میں انہوں نے پونچھ بریگیڈ کی سارلاک چوکی کے قریب حملہ کیا۔فوج کے ایک افسر کے مطابق ہمارے علاقے میں تقریبا 450 میٹر کے اندر فائرنگ ہوئی ہے جس میں کے پانچ جوان ہلاک اور ایک نوجوان زخمی ہوا جس کی بھی ایمس میں موت ہوگئی۔پاکستان نے ان حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے الزامات کو بے بنیاد اور بیکار کہا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق ،" ہم جنگ بندی پرپوری طرح مصروف عمل ہیں اورہندوستان کے ساتھ امن مذاکرات جلد شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے فوج سے اس بات کی تصدیق کر لی ہے کہ ایسا کوئی حملہ نہیں ہوا ہے "۔پاکستان ہندوستانی میڈیا کے ایک طبقے کی طرف سے لگائے گئے ان الزامات کی تردید کرتا ہے کہ اس کے فوجیوں نے کنٹرول لائن پار کرکے ہندوستانی فوجیوں کی گشتی ٹیم پر حملہ کیا ہے جس میں پانچ ہندوستانی فوجیوں کی موت ہوئی۔ پاکستان نے بیان میں مزید کہا ہے کہ وہ ابھی بھی 2003 کے جنگ بندی کے معاہدے پر قائم ہے، جو اعتماد کی بحالی کا ایک اہم طریقہ ہے۔ ہندوستان کے ساتھ پاکستان ایک تخلیقی، پائیدار نتیجہ خیز مذاکرات کے عمل سے جوڑنے کے لئے مصروف عمل ہے۔ یہ دونوں فریقوں کے لئے ضروری ہے کہ مثبت ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں اور منفی پروپیگنڈے سے بچا جائے۔
اس بار بھی حملہ کشمیر کے پونچھ سیکٹر میں ہی ہوا ہے۔جنوری میں ایسے ہی ایک حملے میں ایک فوجی کی ہلاکت ہوئی تھی اور حملہ آوروں نے اس کا سر کاٹ دیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مجوزہ بات چیت تعطل کا شکار ہوگئی تھی۔ اب اسی علاقے میں ایک بار پھر حملہ ہوا ہے اور حملے کی خبر آنے کے بعد پارلیمنٹ میں جم کر ہنگامہ ہوا اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت سے اس پر جواب طلب کیا ہے۔ وزیر دفاع اے کے انٹونی نے لوک سبھا میں پاک حملے پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ حملہ آور پاک فوج کی وردی میں تھے جس پر کافی لے دے ہوئی اور وزیر دفاع سے معافی کا مطالبہ کیاگیا تھا۔بعد میں وزیر دفاع کو یہ بیان دینا پڑا کہ یہ حملہ پاکستانی فوج نے کیا تھا۔ وزیر دفاع کے اس بیان پر بی جے پی لیڈر ارون جیٹلی نے وزیر دفاع کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ان کے اس بیان سے پاکستان بچ سکتا ہے۔ ایسا بیان پاکستان کو مکرنے کا موقع دے سکتا ہے۔حکومت نے پارلیمنٹ کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کی جانب سے بار بار کئے جا نے والی کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کو روکنے کے لئے ملک کی فوج تمام ضروری قدم اٹھانے کے لئے تیار ہے۔ اس سال جنگ بندی کی خلاف ورزی کے 57 واقعات ہوئے ہیں جو گزشتہ سال کی اس مدت کے خلاف ورزیوں سے 80 فیصد زیادہ ہیں۔ میں ایوان کو یقین دہانی کرتا ہوں کہ ہماری فوج کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کے خلاف تمام ضروری اقدامات کرنے کو تیار ہے۔اس سال کشمیر میں سکیورٹی پر مہلک حملوں میں تیزی آ گئی ہے۔ ہندوستانی فوج نے گزشتہ ماہ تقریبا 25 عسکریت پسندوں کو مار گرایا۔ ہندوستانی سیکورٹی تجزیہ کار طویل عرصہ سے یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ 2014 میں افغانستان سے مغربی ممالک کی فوج کے جانے کے بعد عسکریت پسند گروپوں کی توجہ ہندوستان اور کشمیر کی طرف مرکوز ہوگی اور گزشتہ ہفتہ مشرقی افغانستان کے شہر جلال اباد میں ہندوستانی کونسلیٹ پر بھی حملہ اسی نظریہ کی عکاسی کرتا ہے۔پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی ہندوستان کو تعلقات کے معمول پر لانے کے لئے تجویزیں بھیجی تھیں۔گزشتہ ماہ ہی نواز شریف کی قیادت میں قائم پاکستان کی نئی حکومت نے ہندوستان کے ساتھ بات چیت کے لئے تاریخوں کی تجویز بھیجی تھی اور ہندوستان ابھی اپنا جواب تیار کر رہا تھا۔ وزیر مملکت برائے داخلہ آر پی این سنگھ کے مطابق اگر پاکستان ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے تو یہ راستہ صحیح نہیں ہے۔وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے انتخابی مہم میں ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا بھی وعدہ کیا تھا۔اس سے واضح ہوتا ہے نواز شریف ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اور ہندوستان کو یہ موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے۔ نواز شریف جب جب اقتدار میں آئے انہوں نے ہندوستا ن کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کی اور 1999میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری کے ساتھ بات چیت ، دہلی لاہور بس کی شروعات اور واجپئی جی کا بس میں سفر کرکے لا ہور جانا اس بات کا ثبوت ہے دونوں ملکوں کی حکومتیں تعلقات کو معمول پر لانا چاہتی ہیں لیکن معاملہ یہیں آکر معلق ہوجاتاہے کہ کوئی معشوق ہے پردہ ژر نگاری میں۔ دونوں ملکوں کو اسی معشوق کا پتہ لگاکر اس کا قلعہ قمع کرنا ہوگا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ جب دونوں ممالک تعلقات بحال کرنے کی سمت میںآگے بڑھتے ہیں کوئی نہ کوئی بڑا واقعہ پیش آجاتا ہے۔نواز شریف نے 1999 میں ہندوستان کے ساتھ ایک بے حد اہم معاہدہ کیا لیکن اس کے بعد ہی دونوں ملکوں کے درمیان سرحد پر جنگ چھڑ گئی اور اس کے بعد فوج کے بغاوت نے انہیں اقتدار سے باہر کا راستہ دکھا دیاتھا۔مارچ 2000 کوچھٹی پورہ کا سانحہ پیش آیا جب امریکی صدر بل کلنٹن ہندوستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے ۔ دونوں ممالک کے تعلقات کی بحالی پر زور دے رہے تھے۔ تب یہ واقعہ پیش آیا۔ اسی طرح جولائی 2001میں آگرہ سمٹ کے ناکام ہونے کے باوجود دونوں ملک کے تعلقات کی بحالی میں کوئی سرد رخ سامنے نہیں آیا تھا تو اسی سال کے اخیر میں پارلیمنٹ پر حملہ کا واقعہ پیش آیا تھا۔ معاملہ پھر وہیں پہنچ گیا جہاں کرگل جنگ کے بعد تھا۔ اس کے بعد تعلقات بحال ہونے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پرویز مشرف کے وزیر خارجہ محمود احمد قصوری اور ہندوستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ نٹور سنگھ نے دونوں ممالک کے تعلقات کو بحال کرنے کی بہت کوشش کی اور سلسلہ کافی آگے بڑھا بھی تھا لیکن اس کے بعد 2008 میں ممبئی پر حملہ کا واقعہ پیش آجاتاہے اور تعلقات کی بحالی کی جگہ جنگ کی باتیں کی جانے لگتی ہیں۔ جب بھی تعلقات بحال کرنے کی بات ہوئی کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ ضرور پیش آگیا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوگئے۔ اس بار بھی یہی ہوا ہے۔تما م سیاسی جماعتیں جنگ کی باتیں کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ 
سرحد اور کشمیر میں جتنے بھی واقعات پیش آتے رہے ہیں اس پر شک و شبہات کی دبیز چادر پڑی رہی اور کبھی بھی اسے دور کرنے کی کوشش کی گئی کہ جس سے یہ ثابت ہوجائے اس کے پیچھے حقیقتاََ لوگ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستانی سیکورٹی ایجنسی یہ دعوی کرتی ہے کہ وہا ں پرندہ بھی پر نہیں مار کرسکتا تو دہشت گرد یا پاکستانی فوج ہمارے سرحد کے اندر 500میٹر اندر گھس کر قتل کرکے چلے جاتے ہیں اور ہمارے جوان بے بسی سے اس کا نظارہ کرتے رہتے ہیں۔ کشمیر میں چھ لاکھ سے زائد فوج ہے ۔ اس کے علاوہ نیم فوجی دستے بھی سی آر پی ایف بی ایس ایف بھی تعینات ہیں۔ بی ایس ایف کا کام سرحد کی نگہبانی کرنا ہے اس کے باوجود اس طرح کے افسوسناک واقعات کا ہونا اپنے آپ میں بہت کچھ کہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں اس طرح کے واقعات بے حد سنگین ہیں اور جذبات کو برانگیختہ کرتے ہیں لیکن ہمیں انسانی اموات کے معاملے تفریق نہیں کرنا چاہئے۔ موت چاہے سرحد پر ہو یا کہیں اور وہ اتنے ہی افسوسناک ہیں۔ہمیں اس خیال پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ ہندوستان میں سیکڑوں، لاکھوں افراد دیگر وجوہ سے مرجائیں لیکن ایک بھی کسی ’پاکستانی ‘کی گولی سے نہیں مرنا چاہئے۔ جس طرح ہندوستان میں فسادات کے دوران سیاسی رہنماؤں کے پولیس سے ہتھیار لے کر فائرنگ کے واقعات سامنے آئے ہیں اسی طرح ہر لیڈر فائرنگ کرنا چاہتا ہے۔ اشتعال انگیزی، جنگ اور نفرت کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لئے مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے۔ چینی فوجیوں کی دراندازی، ہندوستانی علاقوں پر قبضہ، وقتا فوقتا دھمکیوں کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں اس کے باوجود ہندوستان کے وقار کو ٹھیس نہیں پہنچتا اور تعلقات معمول کی طرح رواں دواں رہتے ہیں۔ہندوستان کے محب وطن عوام کو یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ ہندوستان کو ہندی نیوز چینل چلائے گا یا ہندوستان کے پالیسی ساز ، سیاست داں اوررہنما چلائیں گے۔ ملک اور قوم کی بھلائی ہندوپاک کے بہتر تعلقات میں پوشیدہ ہے۔ دونوں ممالک کی باہمی تجارت 2.6 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور یہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ہم آپس میں پڑوسی ہے لہذا ہمارے رشتے بہتر ہونے چاہئے۔ اس سے معیشت کو مدد ملتی ہے اورجب معیشت بہتر ہوگی، تو تمام چیزیں اپنے آپ بہتر ہوجائیں گی اور جو تجارت ہمارے تاجر تیسرے ممالک کے ذریعہ پاکستان سے کرتے ہیں وہ راہ راست کریں گے اور وقت اور پیسہ دونو بچے گا۔ اس لئے ہندوستان کو پاکستان کے تعلقات استوار نے کی ضرور ہے کیوں کہ اس طرح خدشات تعلقات کی بحالی سے دور کئے جاسکتے ہیں۔ پاکستان سے گہری دوستی کرکے افغانستان سے فوجی انخلا کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کو ہندوستان کم کرسکتا ہے۔ ہندوستانی دفاعی تجزیہ کا نفرت کے خول میں بند ہیں اور ایسے میں کسی بہتر تجویز کی امید نہیں کی جاسکتی۔ سانپ بچھو پر گھنٹوں پروگرام چلانے والے ہندی نیوز چینل سے کسی بہتری امید نہیں کی جاسکتی۔ اس میں سب سے بڑا نقصان کشمیریوں کا ہورہاہے جو ’سینڈوچ‘ کی طرح پس رہے ہیں ہر وقت ان پر جنگ اور بندامنی کا سایہ منڈلاتا رہتا ہے جس کا اثر ان کی روز مرہ کی زندگی پر پڑ رہا ہے۔وہ نفسیاتی مرض میں مبتلا ہورہے ہیں اس سے جہاں بے روزگاری بڑھ رہی ہے وہیں تعلیم کا بھی نقصان ہورہاہے۔یہ دور جنگ کا امن ہے اور امن میں ہی تمام فلاح کا راز مضمر ہے۔
ڈی۔64 ، فلیٹ نمبر 10، ابوالفضل انکلیو ، جامعہ نگر، نئی دہلی۔110025
abidanwaruni@gmail.com
9810372335

IJAZAT NAHIN DI JAYEGI - A funny but important article

اجازت نہیں دی جائے گی

پروفیسر عنایت علی خان
یہ میرے ایک شریکِ کار کی دی ہوئی ردیف تھی جس کے تحت کہی گئی غزل کو خاص پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ دو ایک شعر دیکھیے:
اس سے اندیشۂ فردا کی جوئیں جھڑتی ہیں
سر کھجانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
آپ کے باپ کی جاگیر نہیں فکرِ وطن
سر کھپانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اب مشکل یہ ہے کہ ہر قسم کے جرائم کے ارتکاب کے اجازت نامے تو امراء و عمالِ حکومت اور صاحبانِ اقتدار میں بٹ کر ختم ہوجاتے  ہیں، عوام کو ہر جرم کا ارتکاب بلا اجازت ہی کرنا پڑتا ہے، چنانچہ حکام کو پورا پورا حق ہوتا ہے کہ وہ ارتکابِ جرم پر مجرمین کی گرفت کریں۔ یہ گرفت اگر ڈھیلی ہوسکتی ہے تو صرف اور صرف قائداعظم کی سفارش سے۔ اکثر اوقات تو سرکاری حکام و کارکنان ارتکابِ جرم کی اجازت خود عطا فرمادیتے ہیں کہ
تو مشقِ ناز کر خونِ دو عالم میری گردن پر
مثلاً واپڈا کے لائن مینوں کو ان کے باس سے ویسا ہی حکم ملتا ہے جیسا اللہ تعالیٰ نے علامہ اقبال کے الفاظ میں فرشتوں کو دیا تھا کہ
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگادو
اس فرمان کی چند ہدایات ملاحظہ فرمایئے:
جب واپڈا والوں سے کہا جا کے کسی نے
یہ کس نے کہا ہے ہمیں راتوں کو سزا دو
بولے ہمیں اقبال کا پیغام ملا تھا
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
اور اٹھتے ہوئے باس نے یہ اور کہا تھا
کاخِ امراء کے در و دیوار سجا دو
کاخِ امرا کے کہیں فانوس نہ بجھ جائیں
بہتر ہے چراغِ حرم و دیر بجھا دو
جس زون سے ورکر کو میسر نہ ہو روزی
اس زون میں کنڈوں کا چلن اور بڑھا دو
جو بندۂ مومن نہ ہو سیٹنگ پہ راضی
دو لاکھ کا بل ہاتھ میں تم اس کے تھما دو
اور اس طرح باقاعدہ حکومتی اداروں کے اجازت ناموں کی جگہ قائداعظم کی سفارش سے سیٹنگ سے ہر ناجائز کام دھڑلے سے ہورہا ہے، اور جائز کام کے راستے میں ’’اجازت نہیں دی جائے گی‘‘ کا سنہرے چمکدار الفاظ کا حامل بورڈ آویزاں ہے۔ یہاں وہ لطیفہ بھی دوہرا لیجیے کہ جب ایک ضرورت مند نے بڑے صاحب کے چپراسی سے ان کے کمرے میں جانے کی اجازت مانگی تو اس نے پورے وثوق سے کہا: ’’اجازت نہیں ہے۔‘‘ اس شخص نے کہا: ’’یہ اتنے لوگ جو میرے سامنے کمرے میں گئے ہیں!‘‘ چپراسی کا جواب تھا: ’’انہوں نے اجازت کب مانگی تھی‘‘، یعنی
بے اجازت جو مچائو تو بصدِ شوق مچائو
غل مچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی

Wednesday, 7 August 2013

A month of fasting or fun?

A month of fasting or fun?

Afifa Jabeen Quraishi

IT’S curtains for the month-long annual “gala festival.” In other words, Ramadan.
Before the festival commenced, we went on a grocery shopping rampage, filling our trolleys to the brim with flour packs, oil, sugar, meats, cheeses, syrupy drinks, so that there is a good flow of food through the evenings until dawn. Then we ensured that our mothers and maids spent all their afternoons and evenings in the kitchen dishing out elaborate five-course meals.
And why not, it’s a festival that comes once a year. There was some talk about performing maximum ibadah during this time, and letting the womenfolk do the same, but that can come later, of course. After all, we can’t just sit watching our favorite “Ramadan special” TV series without a bowl of harira or a platter of kebabs. We just can’t!
The tele-series are broadcast just once a year and we should not miss them. After all, what other entertainment options do we have during this festival! But what about maximum ibadah, you say? Ah, we can always pray year round but these tele-soaps...
And so is the case with the dozens of cooking shows that have suddenly popped up on every channel, as though the only purpose of existence of every person in this month is to prepare and eat sambusas with 10 different stuffings. Each of these shows claims to teach you how to make the perfect futoor appetizers, which of course are good for your health, or the chicken kabsah with a twist, which is “light” yet satiating for suhoor. Simple eating can happen some other time, of course.
This is also a time when we get invited to extravagant futoor and suhoor parties, where everyone is competing with one another to present a dining table that can qualify for the Guinness’s longest table of the world — complete with as many as 10 starters, 11 soups, 12 rice and curry dishes and 13 desserts.
But during the days of our pious predecessors, didn’t people eat less during this month and gave more time for worship because worship means prayers that require physical activity? And didn’t they say the worst container a person can fill is his stomach? Yes, but we cannot afford to miss the mouth-licking, once-in-a-year futoor and suhoor special menus that restaurants come out with year after year, can we?
The underlying message of this festival, they say, is self-discipline and eating simple. They even say fasting allows a person to experience the pangs of hunger and thirst and thereby develop sympathy for those starving and dying of thirst in the world. But let alone sympathy, many of us are in need of a month’s gym sessions to lose the kilos we gained during this time.
With all the festivities minus any religious contemplation, our night becomes the day and the day becomes the night. So we party in the night and sleep in the day, hardly doing any work. But then who works during festival time, you say? Perhaps all that talk about fasting making one efficient and increasing productivity does not apply to us.
We also embark on our non-stop 10 p.m. to 3 a.m. shopping missions, in which we buy clothes, shoes, perfumes, abayas, curtains and dishes as if there is no tomorrow. After all, the extended family is invited for a meal at home at the end of this mega festival and they should know that we got the best gold-rimmed cutlery and the Italian designer rugs. Wonder why then some say this festival is meant to evoke virtues of self-control and humbleness in oneself. Things people say!

Monday, 5 August 2013

جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر پابندی

جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر پابندی

بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن میں جماعت اسلامی کی رجسٹریشن کو غیر قانونی قرار دے کر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی ہے۔ بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دو درخواستوں کی بنا پر سنایا ہے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جماعت اسلامی کا منشور بنگلہ دیش کے سیکولر آئین سے متصادم ہے۔ بنگلہ دیش کے متنازع اور جعلی جنگی جرائم کی عدالتوں سے جماعت اسلامی کے قائدین کو موت اور عمر قید کی سزائوں کے بعد دوسرا اہم فیصلہ آیا ہے۔ اس فیصلے سے بنگلہ دیش کے نظام عدل کی ساکھ بھی مجروح ہوگئی ہے۔ ایک طرف دنیابھر میں انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی پر قدغن عائد کرنے والے تمام قوانین کو ختم کرایا جاتا ہے اور اس سلسلے میں مذہبی اور سماجی اقتدار کا لحاظ بھی نہیں رکھا جاتا، لیکن اس حق سے مسلمانوں اور اسلامی تحریکوں کو محروم رکھا جارہا ہے۔ جب سے بنگلہ دیش کی نام نہاد جنگی جرائم کی عدالتوں نے امریکی، مغربی،    ایما پر حسینہ واجد کی عوامی غیر مقبولیت کے نتائج سے بچنے کے لیے جماعت اسلامی کے قائدین کے خلاف ظالمانہ اور استبدای فیصلے کرنے شروع کیے ہیں تب سے بنگلہ دیش میں ان اقدامات کے خلاف سیاسی ردعمل بھی تیز ہورہا ہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے حق میں احتجاج میں تیزی آرہی ہے۔ یہ بات بنگلہ دیش کے سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے ہر مبصر کو نظر آرہی تھی کہ آئندہ انتخابات میں حسینہ واجد اور اس کی عوامی لیگ بری طرح شکست کھائے گی، اس لیے ایک متنازع درخواست کو بنیاد بنا کر بنگلہ دیش کی حکمراں سیکولر قوم پرست اقلیت نے کنگرو کورٹ کے ذریعے جماعت اسلامی کا جمہوری راستہ روکنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ بنگلہ دیش میں ریاستی دہشت گردی کی پشت پر جس طرح وہاں کی عدلیہ عدل وانصاف کا قتل عام کررہی ہے اس نے سیکولر جمہوریت اور انسانی حقوق کے مغرب زدہ علم برداروں کے چہروں پر سے نقاب الٹ دی ہے۔ اس وقت مختلف مسلم ملکوں کے حالات مختلف ہیں، لیکن تمام ممالک میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کا عوام سے رابطہ اور تعلق کمزور کیا جائے۔ مسلمانوں کا طویل سیاسی سفر یہ سبق دے چکا ہے کہ قوم پرستی اور وطن پرستی چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو امت کے کام نہیں آتی اور اسے کسی نہ کسی عالمی یا علاقائی یا مقامی طاقت کا غلام بننا پڑتا ہے۔ بنگلہ دیش تمام عالم اسلام کے لیے ایک مثال اور نمونہ بن چکا ہے جس کا سبق یہ ہے ہر قوم پرست تحریک اپنی ہی قوم کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔ امت واحدہ کا تصور ہی عالمی انسانی برادری کے خواب کو تعبیر عطا کرسکتا ہے اور پروفیسر غلام اعظم جیسی صاحب عزیمت ہستی اور ان کے ساتھی روشن چراغ بن گئے ہیں اور پھونکوں سے ان چراغوں کو نہیں بجھایا جاسکتا۔
crtsy: Jasarat

Friday, 2 August 2013

قدس۔۔ دشمن کون؟ QUDS .... DUSHMAN KAUN??

 قدس۔۔  دشمن کون؟
عالم نقوی

مسجد اقصیٰ کی بازیابی اور بیت المقدس کو صہیونی قبضے سے چھڑانے کے لئے امت مسلمہ اورمسلم ممالک کیا کر رہے ہیں ؟'کچھ نہیں 'کے مایوسانہ فقرے کے سوا اس سوال کے جواب میں اور کیا کہا جاسکتاہے ؟مسلم ممالک کی کوئی متحدہ کوشش کہیں نظر نہیں آتی۔حماس اورحزب اللہ کے سوا'امت کا کوئی دوسرا گروہ ایسا نہیں جو اس وقت بھی آزادی فلسطین کی راہ میں آزادانہ طور پر سرگرم ہو۔ مرحوم یاسر عرفات کی ''الفتح'' تواسی روز مردہ ہو گئی تھی جب اس نے غاصب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاہدے پردستخط کردئیے تھے۔کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو امن معاہدوں نے انتفاضہ کے خاتمے کے صہیونی منصوبے پرعمل درآمد کو ممکن بنانے کے سوا اورکچھ نہیں کیا۔ یاسر عرفات میں چونکہ حمیت وغیرت کی کچھ رمق باقی تھی اس لئے انہیں پہلے پی ایل او کے ہیڈ کوارٹر راملہ میں خانہ قید کردیاگیا اورپھر موقع ملتے ہی ہمیشہ کے لئے راستے سے ہٹا دیاگیا۔فتح کی موجودہ قیادت سے صہیونیت کو کوئی خطرہ نہیں۔ان حالات میں فلسطین کی سپریم اسلامک کونسل کے چیرمین اورمسجد اقصیٰ کے خطیب وامام شیخ عکرمہ صبری کا شکوہ حق بجانب ہے کہ امت مسلمہ اور بالخصوص عرب اورمسلم ممالک نے فلسطین کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ شیخ عکرمہ صبری نے گذشتہ ہفتے الجزیرہ ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے القدس کی حفاظت کے لئے دی جانے والی قربانیوں کو یاد کیا اوربالکل صحیح کہا کہ القدس شہر اسیر مغموم اور یتیم ہو کر رہ گیا ہے اور پورا عالم اسلام اس سے متعلق اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کر کئے ہوئے ہے۔ رہا امریکہ توایک طرف دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے نام نہاداسرائیل مخالف بیان دیتا ہے اوردوسری طرف وہ یروشلم (بیت المقدس شہر)میں فلسطینیوں سے جبراً خالی کرائی گئی زمینوں پرغاصبانہ یہودی آبادکاری کو قانونی حیثیت دینے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ انہوںنے غلط نہیںکہا کہ امریکہ کا نام نہاد نیا امن منصوبہ فی الواقع مسئلہ فلسطین کو سرد خانے میں ڈالے رکھنے کی ایک سازش ہے۔ رہے مذاکرات توغاصب اسرائیل سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ محض وقت گزاری کے لئے مذاکرات کی رٹ لگاتا ہے۔ فلسطینی عربوں کے مسائل حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش اس کی طرف سے کبھی دکھائی نہیں دی۔مسجد اقصیٰ کی بازیابی اوربیت المقدس کی آزادی صرف اس لیے ممکن نہیں ہو پارہی ہے کہ عرب اورمسلم ممالک متحد نہیں ہیں۔ صہیونی مقتدرہ نہیں چاہتا کہ عرب کبھی متحد ہوں لہٰذا اگر ایک طرف عربی وعجمی عصبیت کو ہوا دی جاتی رہتی ہے تو دوسری طرف مذہبی ومسلکی عصبیت کا استحصال بہت بڑے پیمانے پرجاری رہتا ہے۔ صہیونی مقتدرہ کے سب سے بڑے عمیل اسرائیل اورامریکہ آج عرب ممالک ،ایران ،افغانستان، عراق ،پاکستان اورہندوستان وغیرہ میںجوکام سب سے زیادہ شدومد کے ساتھ کر رہے ہیں وہ یہی کہ مسلمانوں کو کسی قیمت پر متحد نہ ہونے دیں۔ہم پچھلے کئی برسوں سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوںکے داخلی اورمسلکی اختلافات کو اچھالنے کی کوششوںمیں اچانک اضافہ ہوگیا ہے۔سنی شیعہ اختلاف ہی کیا کم تھا کہ اب مْقلّد غیر مْقلد حنفی ،شافعی اور بریلوی ،دیوبندی اختلافات کو بھی نئے سرے سے اٹھایا اوربڑھایا جا رہا ہے اور خطہ عرب میں اس پروپیگنڈے کو ہوادی جا رہی ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام اسرائیل سے زیادہ عرب ممالک کے لئے خطرناک ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صہیونی پروپیگنڈہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے خالص ابلیسی ہے۔عربوں کو ایران کے خلاف بھڑکانا اورمسلمانوں کے داخلی اختلافات کو ہوادینا ایک ہی سازش کا حصہ ہیں۔ جس کے پیچھے صہیونیت کا یہ خوف ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد ہی اس کی موت ہے۔دنیا کے ڈیڑھ پونے دوارب مسلمان اور پچاس پچپن مسلم ممالک آج متحد ہو کر کلمة اللہ ھ العلیائ کے پرچم کے نیچے متحد ہو جائیں تودوسرا لمحہ مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس (یروشلم ) کی آزادی پرمنتج ہوگا۔جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور جھوٹے کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔ جو لوگ مسلمانوںکے باہمی انتشار کو ہوا دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ شیعہ سنی،بریلوی ،دیوبندی مقلد غیر مقلداتحاد ممکن نہیں وہی وطن عزیز میں برادران وطن کی اکثریت سے اتحاد کے پرچم اٹھائے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ اگر اس ملک میںہندومسلم اتحادممکن ہے اورمغرب میں یہودی،مسلم اورعیسائی مسلم اتحاد ممکن ہے توآخر جنوبی وسطی اورمغربی ایشیائ میں مسلم۔مسلم اتحادکیوں ممکن نہیں؟بیت المقدس کی آزادی اتحاد امت کے ساتھ مشروط ہے اورآج جو شخص بھی خواہ وہ بظاہر کتنا ہی ''بڑا اورمقدس ''کیوں نہ ہو اتحاد بین المسلمین کے خلاف ہے وہ صہیونیت کا دوست اورمسلمانوں کادشمن ہے۔ فہل من مدکر؟(عالم نقوی)

This Ramadan....

This Ramadan....
 Asma Anjum Khan, ummid.com

Take your pick

Choose carefully

Whatever you choose is red indeed

Scarlet Syrian fields are sizzling embers

Each sparkle sending the Ummah party sour

Would thou say cheers to Tayyip?

Or join the Sickulars for an iftar?

All this while, amid the groans of the drones

The poor Afghans mumble little prayers

The one who said Anaa Ibn e Firoun

Came back riding within a year

Mursi or Mubarak, the choice is bloodied.

Whatever you choose is red indeed.

The Iraqi cheeks have tears as thick as their oil

We hear an eternal moaning saga on Palestinian soil

The Bay of Guantanamo has special Tube iftars

55 plus days of fasting, unbroken remains their fast

The Rohingyas spark but a little anger

Compare it only to the sitting Somalian hunger

In Pak you have Shia dates and Sunni dates

Your pick will decide your fate

Indies are unique, no ear to their commotion

In a demo- crazy way they make the forty percent of Prison Population

We kill and they kill

The blood remains red still

This Ramadan,

Spare a thought

For all the red

Pause, think and reflect

Whatever you choose should NOT be red indeed

Asma Anum Khan teaches at a Maharashtra college as lecturer.
- See more at: http://www.ummid.com/news/2013/August/01.08.2013/this-ramadan.html#.Ufp7kQH0D1Y.gmail