Search This Blog
Friday, 24 August 2012
Wednesday, 22 August 2012
EID- DAURE PUR ASHOD KA MUSALMAN
عید:دور ِ پُرآ شوب کا مسلماں
کہیں نیم جا ں وہ کہیں بے اَماں
ڈاکٹرغطریف شہبازندوی
کہیں نیم جا ں وہ کہیں بے اَماں
ڈاکٹرغطریف شہبازندوی
عید
الفطر کے موقع پر خو ں کے آ نسو دلا دینے والے ان مصا ئب و ابتلا ؤں کو
چھوڑ کر ہم اس کالم میں شام کے خو ں آ شام حا لا ت کا مختصر جا ئز ہ لیتے
ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہا ں مسلمان کن نا گفتہ بہ حا لا ت کے تختہ ٔ مشق
بنے ہو ئے ہیں۔ شام (سیریا) کی سرزمین وہ ہے جس کو خود قرآن پاک میں متعد
مقامات پر مقدس وبابرکت قراردیاگیاہے ۔زبان ِرسالت سے جس کے لئے شام کو
لازم پکڑو،شام کے لیے خوش خبری ہواوراسلام کی چھاؤنی جیسے الفاظ آئے ہیں ،
جس کے لیے آ پ ﷺ نے اے اللہ! ہمارے شام میں برکت دے ، کی دعافرمائی ہے
اورجس کی برکت وفضیلت میں اتنی حدیثیں آئی ہیں کہ کسی اورسرزمین کے تقدس
کے بارے میں نہیںآئیں۔وہ شام جہاں سیدنا بلالؓ ، امین ِامت ابوعبیدہ بن
الجراحؓ ،اللہ کی تلوار خالدبن ولیدؓ،کسرائے عرب امیرمعاویہ ؓ ،ام المومنین
ام حبیبہ ؓ،معاذبن جبل ؓ ابودرداء ؓ،سعدبن عبادہ ؓ،ابی بن کعبؓ،اورحضرت
دحیہ کلبی ؓجیسے کبارصحابہ ؓ آسودہ ٔ خاک ہیں،جہاں عمربن عبدالعزیزؒجیسے
خلیفہ ٔ راشد،صلاح الدین ایوبیؒ ؒؒجیسے مجاہدکے علاوہ ابن الصلاحؒ،ذہبی
ؒ،ترمذیؒ ؒؒؒ،ابن کثیرؒ،ابن عساکرؒ،اورنوویؒ اورابن تیمیہؒ جیسے ائمہ ٔ
اعلام کی آرام گاہیں ہیں،وہی شام آج لہولہان ہے اورعالم اسلام پر اس کے
سلسلہ میں بے حسی طاری ہے۔
دوسال
ہونے کو آرہے ہیں جب مارچ 2011 میں شام میں انقلاب کی شروعات ہوئی ۔یہ
انقلاب عالم عرب کے دوسرے ممالک تیونس ،مصراورلیبیامیں آنے والے عوامی
انقلابوںسے بھی inspire ہواتھااورخودسیریامیں
ا س انقلاب کی جڑیں بہت گہری تھیں۔اس کی وجہ 1970سے چلے آرہے اسدخانوادے
کی جابرانہ وآمرانہ سفاک علوی حکومت ہے جوفوج کی مددسے سیریاکے مسلمانوںپر
کسی عفریت کی طرح مسلط ہے۔ واضح رہے کہ شام پر علوی نصیری مسلط ہیں جو
مسلما نو ں کے سواد اعظم کے بدترین دشمن ہیں کیو نکہ یہ ایک غالی فرقہ ہے
جس کو خودراسخ العقیدہ مسلما ن دائرہ اسلام سے خا رج مانتے ہیں ۔ یہ سب لوگ
عرصہ ہائے دراز سے پیشہ ٔ سپہ گری سے وابستہ رہے ہیںاوربیسویں صدی کے
آغاز میں جب عرب دنیانے اپنی پہلی ہمالیائی غلطی بلکہ اسلام کے ساتھ غداری
کی تھی کہ خلافت ِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرکے انگریزوں اور فرانسیسیوں سے
ہاتھ ملالیاتھا،اس وقت اس علوی نصیری فرقہ کو فرانس نے اپنے وسیع مقاصدکے
لیے گودلے لیاتھا ۔اس نے ان کو فوجی تربیت دی اوراکثر یتی مسلما نوںکے خلاف
لڑنے کے لئے تیارکردیاتھا۔اس کے بعدحافظ الاسدجیسے آ مر فوجی جنرل کے
ہاتھ ان کی قیادت آگئی تواس نے نہ صرف ملک کے اقتدار پر قبضہ کرلیابلکہ
شام کے دروبست پر اورزندگی کے ہرشعبہ میں کلیدی عہدوںپر اپنے چہیتوں کو
مسلط کردیا۔
گزشتہ
سال ما رچ میں شروع حکو مت مخا لف مظا ہر ے آغاز میں بالکل پر امن تھے
اوربر سر احتجا ج مظا ہر ین کا مطالبہ جابرانہ ملکی قوانین میں تبدیلی اور
سیاسی نظام میں مثبت تبدیلیاں لائے اور ظالم وجابرصدربشارالاسدکے نظام
کوختم کرنے کا مقصد ظاہرنہیں کیا گیا تھا مگر جب بشارالاسدکی حکومت نے کسی
بھی مطالبہ کوسننے اورماننے سے قطعی انکارکرکے پرامن مظاہرین کا استقبال
گولیوں،توپوںکے دہانوں اور قید وبندسے کیا۔ان کو سیریاکے بدنام زمانہ جیلوں
میںڈال کر شدید ٹارچر و تعذیب کی انتہاکردی تویہ پر امن مظاہرے منظم سیاسی
احتجاج میں بدل گئے اور خاصے دنوں تک دمشق ،حلب ،اریحا، ریف ،غوطہ ،حمص
وغیرہ شہروں میں روزانہ یہ مظاہرے نکلنے لگے ۔ احتجاجیوں نے کئی پلیٹ فارم
منظم کیے ،حقوق انسانی کے گروپ بنے ، انہوں نے باہر کی دنیا سے رابطہ کیا ۔
بشار الاسد اور اس کے ظالم وجابر باپ کرنل حافظ الاسدکے زمانہ سے جو لوگ
اس نظام کے خلاف تھے اور سیریا سے بھاگ کرفرانس ،ترکی اور دوسرے یوروپی
ممالک میں پناہ لئے ہوئے تھے ، انہوں نے فرانس اور ترکی میں اپنے آپ کو
منظم کرنا شروع کردیا۔ سیریائی اپوزیشن پارٹیوں نے احتجاجیوں کی حمایت کی
اور بشارا لاسد کے نظام کے خلاف سیاسی عمل کے لئے زور ڈالنا شروع
کردیا۔انہوںنے کئی محاذبنائے جن میں سب سے بڑے محاذ کے صدربرہان غلیوم
ہیں۔اب انقلاب کانشانہ موجودہ نظام کو ختم کرنااوراس کی جگہ ایک جمہوری
واسلامی سیریاکی تشکیل تھی ۔
سیریامیں
انقلاب کی بڑی وجہ داخلی ہے کہ وہاں 1970سے جب کرنل حافظ الاسدنے فوجی
بغاوت کرکے جمہوری وعوامی حکومت کا تختہ پلٹ دیاتھااورجن لوگوںنے بھی ان کے
خلاف کوئی آواز اٹھائی ان کو سختی سے کچل کررکھ دیاتھاانسانی حقوق بری
طرح پامال ہورہے ہیں ۔ اسی خوںخوارحافظ الاسدنے حماۃ شہرمیں اخوان المسلمون
سے تعلق رکھنے والے انقلابیوںکو بری طرح بمباری کرکے ہلاک کردیاتھا ۔اس کی
خونریزی سے تیں ہزاردین پسندمسلمان شہیدہوئے تھے ۔اس کے بعدسے
سیریاجمہوریت پسندوںاورمذہبی لوگوںکے لیے ایک کھلا قیدخانہ بن گیا۔جولوگ
پابندی سے نماز پڑھتے انٹیلی جنس کے لوگ ان کے پیچھے لگ جاتے ،پریس کی
آزادی سلب کرلی گئی ۔ حلا ت کے دبا ؤ میںآزادخیال صحافی
اوردانشوراورادیب اورعلماء ایک ایک کرکے سیریاکو چھوڑ کر چلے گئے یااسدکے
عقوبت خانوںمیں پوری عمریں گزارکردنیاسے چلے گئے ۔کتنے لوگوںکوپولیس نے پکڑ
ا اور پھر ان کا کوئی پتہ نہیں چل سکا۔
جب
یہ تا زہ انقلاب شروع ہواتو اپنے ڈکٹیٹرباپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بشار
الاسد نے ان نہتے اور غیرمسلح احتجاجیوں کے خلاف ہر شہر میں فوج اتار دی
اور فوج نے راکٹوں، فوجی ہیلی کاپٹروں، توپوں اور ٹینکوں کے ساتھ ان کے گلی
محلوں پر چڑھائی کردی ۔ مختلف شہروں میں بہت سے کمپاؤنڈ، مارکیٹیں اور
محلے اڑادیے گئے ۔ پورے کے پورے محلے قبرستان بنا دیے گئے ۔ بہت سارے
علاقوں، خاص طور پر ریف ِدمشق ،حلب اور غوطہ ،دیرالزور،درعااورادلب جیسے
شہروںمیں یہ وحشیانہ کاروائیاں اب بھی جاری ہیں ۔جس وقت یہ سطریں لکھی
جارہی ہیںحلب اوروسطی دمشق میں سیریاکی سرکاری فوج اورآزادفوج کے
جیالوںمیں معرکہ آرائی جاری ہے۔ روزانہ سودوسوآدمی شہیدکئے جارہے ہیں۔اب
تک ۵۱ ہزار
سے زیادہ بے قصور عوام فوج کے جبر وتشدد کا نشانہ بن چکے ہیں اورا س سے
کئی گناکو جیلوںمیں سڑیاجارہاہے۔ کتنے علماء کو اغوا کر لیا گیا ہے ، کتنوں
کو مارڈ الا گیا ہے اور کتنی ہی مسجدیں زمیں بوس کی جا چکی ہیں، اس کا کو
ئی شما ر نہیں۔ شام کے مظلوم عوام اپنا دوسرا رمضان ان ناگفتہ بہ حالات میں
گزار رہے ہیں،جب حلب کا فوجی محاصرہ کیا ہوا ہے اور فوجی ہیلی کاپٹروں سے
اس پر بمباری جاری ہے۔ لوگوں کو کھانے پینے کے سامان کی قلت ہے ،دواعلاج
دستیاب نہیں ،بڑے پیمانے پر نوجوانوںاورلڑکوںکی بے محابا گرفتاریاں مسلسل
جاری ہیں۔شورش زدہ علاقوںکی لائٹ کاٹ دی جاتی ہے ،ان کی پانی کی سپلائی روک
دی جاتی ہے ،غرض وہ انہتائی شدیدحالات سے دوچارہیں،جس کی تھوڑی سی جھلک
’’الجزیرہ‘‘ کی رپورٹوںاوراس کی سیریافائل (ملف سوریا ) میں دیکھی جاسکتی
ہے ۔ اب ا ندازہ کیاجاسکتاہے کہ ان کی عیدکیسی ہوگی !!
سیریاکی
حکومت نے غیرملکی صحافیوںاورـذرائع ابلاغ پر مکمل طورپر پابندی لگائی ہوئی
ہے اورانہی صحافیوںکو ملک میں داخلہ کی اجازت ملتی ہے جن کو مختلف ممالک
میں اس کے سفارت خانے بھیجتے ہیں،جوظاہرہے کہ وہی خبریں دیتے ہیں جن سے
انقلابیوںکی شبیہ خراب ہو اور حکومت کی امیج بنے ۔غیرملکی ریلیف ورک بھی
نہیں ہونے دیاجارہاہے اورامدادی سامان مستحقوں تک نہیں پہنچ پاتاکیونکہ
شامی سرکاری فوج کے علاوہ حکومت کے مسلح مخبرجوسادے کپڑوںمیں ہوتے
ہیں،ہرجگہ پھیلے ہوئے ہیں اور لوگوں کوخوف زدہ اورہراساں کرنے کاسب سے
بڑاآلہ بنے ہوئے ہیں،جن کوسیریامیں الشبیحہ کہتے ہیں اردومیں ان کو’’کرایہ
کے قاتل‘‘ کہہ سکتے ہیں۔بشارالاسدکابھائی ماہرالاسدسیریائی انٹیلی جنس
کاسربراہ اورانتہائی سفاکانہ طبیعت رکھتاہے ،اس کوشام میں ماہرالجزار(قسائی
)کہتے ہیں۔اس نے نوجوانوںکو قیدکرنے اور ٹارچر کرنے کا رکارڈ قائم کیاہے
اورحقوق انسانی کی وہ خلاف ورزیاں کی ہیں جن پر جنگی جرائم کا مقدمہ
چلایاجاناچاہیے۔
مہینوں
تک سیاسی لڑنے اور پرامن مطالبات کے بعد آخر خود شام کی سرکاری فوج سے
فوجیوں کے بھاگنے اورانقلابیوںمیں شامل ہونے کا عمل شروع ہوااورکرنل ریاض
الاسعدکی قیادت میں الجیش السوری الحر(آزادسیریائی فوج )کی بنیادڈالی گئی
۔شروع میں اس کے اندر صرف چندہزارنفرتھے اب ترکی کی فوجی تربیت اوراسلحہ کی
سپلائی کے باعث یہ آزادفوج بھی بہترپوزیشن میں ہے اورسرکاری فوج سے لوہا
لے رہی ہے مگراس فوج کے پاس اورانقلابی رضاکاروںکے پاس ہلکے پھلکے اسلحے
ہیں ،ان کے پاس نہ بمبارجہازہیں نہ ٹینک اور توپ ،مگرظالم وجابرنظام سے
آزادی حاصل کرنے کا جذبہ ہے جوان کو اپنی جوانیاںلگانے اور جانیں قربانیں
کرنے کے لیے مہمیز کررہا ہے ۔
شامی
مہاجرین کی تعداد ترکی میں سرکاری اعدادوشمارکے مطابق تعدادساٹھ ہزارتک
پہہنچ چکی ہے ۔بشارالاسدنے ریاض الحجاب کو جوان کے پرانے وفادارتھے
،وزیراعظم بنادیاتھا لیکن گزشتہ ہفتہ وہ بشارالاسدکا ساتھ چھوڑکر
انقلابیوںسے مل گئے اورشام سے نکل گئے ہیں ۔ ابھی وہ عمان میں ہیں
اورانہوںنے شامی فوج سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے شہریوںکا قتل عام نہ کریں
اوربشار الاسدکا ساتھ چھوڑکر عوام کا ساتھ دیں۔
سترہ
مہینے کی لگاتارجدوجہدکرنے والے اورایک وحشی فوج سے نبردآزماشام کے ان
انقلابیوںمیں بڑاحصہ ان مذہبی لوگوںکا ہے جواخوان المسلمون کی فکرکے حامل
ہیںیاسلفی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں ۔اس کے علاوہ ایک قلیل تعدادان لوگوںکی
بھی ہے جونیم مذہبی یالبرل ہیں مگرجمہوریت اوراستبدادی نظام سے آزادی
چاہتے ہیں۔ان سترہ مہینوںکے اندر شامی قوم پر قیامت گزرگئی ہے ،وہ ببدترین
عذاب جھیل رہی ہے مگرابھی تک ہزاروں بیٹوںاورفرزندوںکی قربانیاں دے کربھی
اس نے حوصلہ نہیں کھویاہے۔اس سلسلہ میں بدقسمتی سے57 رکن ممالک والی اوآئی
سی اور عرب لیگ عالم اسلام کی دونوںتنظیمیں ان مظلوموںکی کوئی مددکرنے
اورشام کے بحران کاکوئی حل نکالنے میں ناکام رہی ہیں ۔عرب لیگ نے اب سے کئی
مہینے پہلے اپنے دوسومبصرین شام میں تعینات کیے تھے اورحکومت سے اپیل تھی
کہ وہ خون خرابہ بندکردے مگرہزارزبانی دعووںاورعالمی برادری سے کیے گئے
وعدوںکے باوجودحکومت نے اپنے تمام جارحانہ اقدامات جاری رکھے ۔ نتیجہ یہ ہے
کہ کئی بارعرب لیگ نے امن منصوبے پیش کیے مگرحکومت نے سردمہری سے کام
لیااوراپناظلم وجبرترک نہیں کیا۔عالمی قوتوں میں روس اورچین کی ہمدردیاں
شام کو حاصل ہیں کیونکہ دونوںملکوںکے وسیع تجارتی مفادات اس سے جڑے ہوئے
ہیں۔چونکہ برسراقتدار بعث پارٹی کمیونزم کا عربی ورژن ہے ،اس لئے روس سے اس
کی زبردست قربت چلی آرہی ہے ،یہاں کہ 1956سے دونوں میں دفاعی معاہدہ بھی
چلاآرہاہے ۔اسی لئے روس سلامتی کونسل میں اس کے خلاف
ہرقراردادکوویٹوکردیتاہے اوراس نے اس کا اعلان بھی کررکھاہے ۔ یہی وجہ ہے
کہ شام کو ناٹو کارروائی کا خوف نہیں ہے ۔عرب علماء اور ان میں خاص طورپر
شیخ یوسف القرضاوی نے واضح پر اس جابرنظام حکومت کے خلاف فتوی دیاہے اور اس
نظام کو بیخ وبن سے اکھاڑپھینکنے کی اورشام کے مظلوم سنی مسلمانوںکی
تائیدوحمایت کی اپیل کی ہے۔ان کے علاوہ شام کے شیخ محمدغسان نجار،شیخ ہشیم
المالح،سلفی جماعت کے شیخ عدنان عرعور،جامع اموی کے سابق خطیب معاذ الخطیب
الحسنی اورنمایاں کردلیڈرسب انقلاب کے حامی ہیں اوراس میں شامل ہو کر ہرطرح
کی قربانیاں دے رہے ہیں ۔نیز دنیاکے مختلف ممالک میں سیریائی سفارت کاروں
نے بھی اپنی حکومت سے انحراف شروع کردیا ہے۔
اقوام
متحدہ اوردوسرے عالمی ادارے بھی اس محاذپر ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔یواین
اوکے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کو اقوام متحدہ نے اپناسفیربناکرخصوصی
مشن پر سیریابھیجاتھا ۔ان کا مشن سیریامیں امن کا قیام ،سیاسی اصلاحات میں
تیزی لانااورحکومت کواس پر راضی کرنا تھا کہ وہ فوج کوشہروںاورآبادیوںسے
ہٹاکرواپس بیرکوںمیں بھیجے اورانقلابیوںکے ساتھ گفت وشنیدکرے مگربالآخریہ
ان کا مشن بھی سیریا حکومت کی ہٹ دھرمی کے آگے فیل ہوگیا۔سچی بات گرچہ تلخ
تویہ ہے کہ امریکہ اورناٹووغیرہ اگرکوئی کاروائی سیریاکے خلاف کرتے ہیں تو
اس کے خلاف سب سے زیادہ غل بھی مسلمان اورعرب ہی مچائیںگے اورہنگامہ کریں
گے کہ صلیبی دنیاایک اورمسلم ملک پر چڑھ دوڑی مگر وہ خوداپناگھردرست کرنے
کی کوشش نہیں کرتے ،اورالمیہ یہ ہے کہ ہم ہروقت مغرب کو کوستے کاٹتے بھی
ہیںاور اپنے مسائل کے حل کے لئے بھی مغربی دنیاکی طرف ہی دیکھتے ہیں!ہفتہ
عشرہ قبل مکہ میں تنظیم اسلامی کانفرنس کے وزراء خارجہ کی چوٹی کانفرنس
ہوئی ،اس کے صدرنے پہلے ہی یہ
عندیہ دیا کہ سیریاکو تنظیم سے نکالاجاسکتاہے ، فی الحال شام کو او آ ئی
سی سے معطل کیا گیا ہے ۔یادرہے کہ ایک ڈیڑھ ماہ قبل اس کوعرب لیگ سے بھی
نکال دیا گیا ہے ۔امریکہ اوردوسرے مغربی ملکوں نے شام پر اقتصادی پابندی
عائد کررکھی ہیں ،اس کے ساتھ کاروبارکی بندش کے علاوہ درجنوںاشخاص کے اثاثے
بھی منجمدکردئے ہیں اور ان پر سفرکرنے پر بھی پابندی ہے ۔امریکہ نے تنظیم
اسلامی کانفرنس پر زوردیا کہ وہ شام میں فوجی مداخلت کرے ۔واقعہ یہ ہے کہ
ایک مسلم دشمن قوت کے منہ سے ہی سہی ، یہ ایک صحیح مشورہ ہے اورمسلم ملکوں
کو بہت پہلے ہی یہ قدم اٹھالیناچاہیے تھامگرمسلمانان عالم کی قیادتوںکا
جورخ ہے اس سے نہیں لگتاکہ وہ کوئی ٹھوس قدم اٹھاسکیںگے ۔
لیبیامیں
انقلاب اسی طرح رونماہواتھا کہ عوام نے اقتداروقت کے خلاف ہتھیاراٹھالئے
اورمحض چندمہینے میں قذافی کا خاتمہ کردیا۔ سیریا میں یہ تجربہ اس لئے نہیں
دہرایاجاسکتاکہ لیبیادنیامیں تن تنہاپڑگیاتھااورآس پاس کے کسی ملک نے اس
کی حمایت نہیں کی تھی جب کہ مشرق وسطیٰ میں سیریا،ایران اورحزب اللہ کی ایک
تکون بن گئی ہے جس پر سوائے کف افسوس ملنے کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا
۔اوریہ محورہم مسلک بھی ہے ۔ان کے مقابلے میں سیریاکے اکثریتی مسلما نو ں
کی بڑی نازک پوزیشن ہے ۔ وہ سچ مچ بے یار ومددگارہیں،مغربی دنیاان کی
مددنہیں کررہی ،اقوام متحدہ اورحقوق انسانی کے دوسرے ادارے ان کے لئے زبانی
جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھتے ۔پڑوسی عرب ممالک منافق حکمرانوںکے قبضہ میں
ہیں،جو پون صدی سے چلے آرہے مشرق وسطیٰ کے ناسور یعنی مسئلہ فلسطین کو حل
نہ کراسکے توان سے سیریاکے مسئلہ کے حل کی توقع رکھناخودفریبی کے سواکچھ
نہیں۔البتہ سعودی عرب، قطر اور دوسرے ممالک نے ریلیف پہنچائی ہے اوراخلاقی
طورپر انقلابیوںکی مددکی ہے۔
حیرت
ہوتی ہے کہ ہندوستانی مسلمان جوروایتی طورپر پوری امت مسلمہ کے لئے تڑپتے
ہیں اورہمیشہ امیرمینائی کے اس شعرکے مصداق ثابت ہوئے ہیں ؎
خنجرچلے کہیں پر تڑپتے ہیں ہم امیرؔ سارے جہاں کادردہمارے دلوںمیں ہے
سیریاکے
مظلوم مسلمانوںکے لئے کیوں بے حس بن گئے ہیں ؟ان کے اخبارات وجرائدخاموش
،ان کی ملی تنظیمیں جوہرچھوٹے بڑے مسئلہ پر غل مچانے میں اپناجواب
نہیںرکھتیں وہ بھی خاموش ۔میرااندازہ ہے (کاش کہ یہ انداز ہ غلط ہو!)کہ ان
کے کسی اجلاس اورکسی کانفرنس نے اس لمبی مدت میں سیریاکے مسئلہ
پرانقلابیوںکی حمایت اورجابرحکومت کی مذمت میں کوئی قراردادجاری نہیں کی
۔صرف فقہ اکیڈمی کااستثناء ہے جس نے اپنے علی گڑھ کے سیمنارمیں اس مضمون کی
باضابطہ ایک قرارداد پاس کی تھی ۔اس کے علاوہ مادرعلمی دارالعلوم ندوۃ
العلماء کے عربی رسائل الرائداورالبعث میںشام پر برابرمضامین شائع ہوتے رہے
ہیں۔اردومیںہندوستانی علماء ودانشوروںمیں صرف پروفیسر محسن عثمانی ندوی کی
کئی چھوٹی بڑی تحریریں اس سلسلہ میں شائع ہوئی ہیں اورموقع موقع سے ان کے
مضامین کئی اخبارات ورسائل میں آئے ہیں اورانہوںنے اپناخون جگرصفحہ قرطاس
پر انڈیلاہے ۔ان کے علاوہ بالکل سناٹاہے اورہزاروںعلماء ودانشوروںکی
بھیڑمیں کوئی نہیں جو ملی غیرت کا ثبوت دے اورمصلحتوںکا دامن چھوڑکرحق کے
دوبول بول سکے ۔یہاں تک کہ وہ تنظیمیں اوروہ لوگ بھی جوخودکو اخوان
المسلمون کاہم خیال بتاتے ہیں،وہ بھی مصلحتوںکے اسیرہیں۔
بدنام
زمانہ مفلو ج شامی صدر بشارالا سدجن کے ہاتھ سے زمین آہستہ آہستہ سرک
رہی ہے۔ ہوش کے ناخن نہیں لے رہے ہیں۔حا لا نکہ اب وہ دن دورنہیں جب ان کے
وحشی خانوادے اوران کے وفاداروںکا وہی حشر ہو گا جو حسنی مبا رک ،قذافی ،بن
علی، صالح جیسے جا بر حکمرا نو ں کا ہو ا، شا می صدر کا بھی یوم حساب شروع
ہوگااوران ظالموںکوخوددنیاکے اندرہی اسی حشرسے دوچارہوناہوگاجس سے ان کے
جیسے سینکڑوںجابراورآمردوچارہوچکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ آزادپیشہ مصنف ،مترجم وصحافی اورڈائرکٹرفاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز C-303/3شاہین باغ جامعہ نگرنئی دہلی 110025
ٓای میل : mohammad.ghitreef@gmail.com
ghitreef1@yahoo.com
Sunday, 19 August 2012
EID - TAZA DAM HOJA JAHDE MUSALSAL KE LIYE
عیدالفطر ۔ تازہ دم ہو جا جہد مسلسل کے لئے۔۔۔۔
ایاز الشیخ گلبرگہ
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ۖنے:رمضان میں رکھنے والا روزہ اللہ کی بارگاہ میںپیش ہوگا اور رمضان سفارش و شفاعت کرتے ہوئے کہے گا:اے رب!میں نے اس کو کھانے پینے اور شہوت سے دن بھر روکے رکھا تھا،اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔اس کی تائید کرتے ہوئے قرآن بارگاہِ ایزدی میں عرض کرے گا:اے رب!میں نے اسے رات کے آرام سے روکے رکھا، تو میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما۔ اللہ ان دونوں کی سفارش قبول کرے گا اور اس کو دنیا و آخرت میں بہتر اجر سے نوازے گا۔
چاند رات فرشتوں میں خوشی کے مارے دھوم مچ جاتی ہے اور اللہ رب العزت ان پر جلوہ فرماتے ہوئے دریافت کرتا ہے کہ بتاو، مزدور اپنی مزدوری پور ی کرچکے تو اس کی جزا کیا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں اس کو پوری پوری اجرت ملنی چاہیے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: اے فرشتو! تم گواہ رہو میں نے محمد ۖکے روزہ داروں کو بخش دیا اور ان کے لیے جنت واجب کردی۔ اسی لیے یہ رات لیل الجائزہ انعام کی رات کے نام سے مشہور ہے۔ ایک لمحہ رک کر سوچیں!ہم میں سے کتنے ہیں جو اس رات میں پوری مزدوری ضائع کردیتے ہیں؟حدیث پاک میں آپ ۖ نے ارشاد فرمایا: جو شخص دونوں عیدوں کی راتوں کو شب بیداری کرے گا نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ تو اس بندے کا دل نہیں مرے گا ، جس دن اوروں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: اے فرشتو!تم گواہ رہو، ان کے رمضان کے روزے اور نمازوں کی وجہ سے میں اپنے بندوں سے خوش ہوگیا ہوں اور ان کو بخش دیا ہے۔ اور فرماتا ہے:اے میرے بندو! تم مجھ سے مانگو میں اپنی عزت اور جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس اجتماع میں دنیا وآخرت کی جو کچھ بھلائی مجھ سے مانگو گے میں دوں گا اور تمھارا خصوصی خیال رکھوں گا اور جب تک میری ناراضی سے ڈرتے رہو گے، تمھاری خطاوں اور لغزشوں سے درگزر کرتا رہوں گا اور مجھے اپنی بزرگی اور عزت کی قسم ہے! نہ تمھیں رسوا وذلیل کروں گا اور نہ مجرمین کے سامنے تمھاری رسوائی ہونے دوں گا۔ تم سب کو میںنے معاف کردیا، تم نے مجھے راضی کرنے کی کوشش کی، میں تم سے راضی ہوگیا یہ اعلان اور انعام ِ بخشش سن کر فرشتے جھوم اٹھتے ہیں اور مومنین کی کامیابی پر جشن مناتے ہیں۔
عیدالفطر کا تہوار اس امر پر خوشی کا اظہار ہے کہ ہم نے رمضان المبارک کے دوران اللہ تعالیٰ کی رحمت کی فصل اکٹھی کی ہے۔ اس مبارک مہینے کے دوران جو تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا احساس اور اپنے اوپر ضبط حاصل کیا جاتا ہے، اسے سال کے باقی مہینوں میں برقرار رکھا جائے اور اپنی روزمرہ زندگی میں بھی اسے استعمال میں لایا جائے۔ عید درحقیقت ان لوگوں کی ہے جنہوں نیرمضان المبارک کے روزے رکھے ہیں اور اس ماہ مبارک کی تمام عبادتیں ادا کر کے اپنے دامن مراد کو نیکیوں سے بھر لیا ہے اور امتحان میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ عید ان لوگوں کی نہیں ہے جنہوں نے اس ماہ کو غفلت اور لاپرواہی میں ضائع کر دیا اور امتحان میں ناکام ہو گئے۔ کسی نے سچ کہا ہے : لیس العید لمن لبس الجدید۔۔۔۔نما العید لمن خاف الوعید "عید اس کی نہیں جس نے نئے اور زرق برق لباس پہن لیے،عید اس کی ہے جو اللہ کی وعید سے ڈرگیا۔" یعنی رمضان المبارک کے روزے رکھ کر متقی اور پرہیزگار بن گیا اور ایفائے عہد وذمہ داری کے امتحان میں کامیاب ہوگیا۔عید کا دن وعید کے دن سے مشابہت رکھتا ہے۔ قرآن حکیم کے الفاظ میں: کچھ چہرے اس روز دمک رہے ہوں گے، ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اڑ رہی ہوگی اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی (سورہ عبس)۔ تروتازہ اور خوش باش چہروں والے ہی تو ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے صیام و قیام کی نعمت مکمل فرمائی۔ لہذا اس دن وہ خوش ہوں گے اور یقینا ان کا حق ہے کہ وہ خوش ہوں۔ دوسری طرف وہ چہرے جن پر کلونس چھائی ہوگی، یہی وہ چہرے ہوں گے جنھوں نے اللہ کی نعمت کی قدر نہ کی اور قیام و صیام کے بارے میں اللہ تعالی کے حکم کی پروا نہ کی۔ ان کے لیے عید کا دن وعید کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہماری عید کا یہ روز بے ہودگی، بے مقصدیت اور شہوت پرستی کے لیے آزاد ہوجانے کا دن نہیں ہے، جیساکہ بعض قوموں اور ملکوں کا وتیرا ہے کہ ان کی عید شہوت، اباحیت اور لذت پرستی کا نام ہے۔ مسلمانوں کی عید اللہ کی کبریائی کے اقرار و اظہار اور اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا مقصد اللہ تعالی کے ساتھ تعلق استوار کرنا ہے۔ اس دن کا پہلا عمل اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور دوسرا اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا ہے۔ اللہ کی کبریائی___ تکبیر، ہم مسلمانوں کی عیدوں کی شان ہے۔ یہ تکبیر ___اللہ اکبر، مسلمانوں کا شعار ہے۔ مسلمان روزانہ پانچ وقت اپنی نماز میں اسی عظیم کلمے کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ روزانہ پانچ وقت نماز کے لیے کیا جانے ولا اعلان اذان اسی کلمے سے شروع ہوتی ہے۔ نماز کی اقامت کا آغاز اسی کلمے سے ہوتا ہے۔ جانور کو ذبح کرتے وقت مسلمان اسی کلمے کو ادا کرتا ہے۔ یہ بہت عظیم کلمہ ہے___ اللہ اکبر! اللہ اکبر ہر موقع پر مسلمانوں کا شعار ہوتا ہے۔ مسلمان میدانِ جہاد کے معرکے میں داخل ہو تو اللہ اکبر ___ یہ نعرئہ تکبیر دشمن کے دل میں خوف و دہشت طاری کر دیتا ہے۔ اللہ اکبر عید کی شان ہے۔ اسی لیے یہ تکبیر پڑھتے ہوئے عیدگاہ کی طرف جائو: اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ ، واللہ اکبر، اللہ اکبر، وللہ الحمد۔
عید کے معنی ہر پابندی سے آزاد ہونا نہیں ہے۔ عید اللہ تعالی کے ساتھ جڑے تعلق کو توڑ دینے کا نام نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کا رویہ بن گیا ہے کہ رمضان ختم ہوا تو مسجد کے ساتھ تعلق بھی ختم ہوگیا۔ عبادت اور اطاعت کے کاموں سے بھی ہاتھ روک لیا۔ نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص رمضان کو معبود مان کر روزہ رکھتا اور عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہو کہ رمضان ختم ہوگیا، اور جو اللہ کو معبود مان کر اس کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ و جاوید ہے، اسے کبھی فنانہیں! جس شخص کے روزے اور قیام اللہ کی بارگاہ میں قبولیت پا چکے ہوں، اس کی بھی تو کوئی علامت ہوگی! اس کی علامت یہ ہے کہ اس صیام و قیام کے اثرات ہم اس شخص کی زندگی میں رمضان کے بعد بھی دیکھ سکیں گے۔اللہ تعالی سورہ محمد ۖ میں فرماتے ہیں: ''اور وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے، اور انھیں ان کے حصے کا تقوی عطا فرماتا ہے''۔ نیکی قبول ہوجانے کی علامت اس کے بعد بھی نیکی کا جاری رہنا ہے، اور برائی کی سزا کی علامت اس کے بعد بھی برائی کرتے رہنا ہے۔ لہذاللہ اور اسکے حبیب ۖکے ساتھ دائمی تعلق استوار کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: تم جہاں بھی ہو، اللہ سے ڈرتے رہو۔
امت محمدیہ ۖ کا ایک امتیاز ہے، اور اس امتیاز کی کلید ایمان ہے۔ اسے ایمان کے ذریعے متحرک کیجیے، یہ حرکت میں آجائے گی۔ ایمان کے ذریعے اس کی قیادت
کیجیے، یہ پیچھے چلنے کے لیے تیار ہوجائے گی۔ اسے اللہ تعالی پر ایمان کے جذبات کے ذریعے حرکت دی جائے تو ایک بہترین امت تیار ہوسکتی ہے۔ یہ بڑی بڑی رکاوٹوں کو عبور کرلیتی ہے، مشکل ترین اہداف کو حاصل کرلیتی ہے، اور بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتی ہے۔ یہ خالد بن ولید، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی کا دور واپس لاسکتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے اس امت کے دشمن خائف ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ امت اسلام کی بنیاد پر متحرک نہ ہوجائے۔
آج ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جو فتنوں کا دور ہے، آزمایشوں کا دور ہے۔ نبی کریم ۖنے ہمیں اس دور سے ڈرایا ہے جس میں فتنے سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں ماریں گے، جن کی وجہ سے لوگ اپنے عقائد سے گمراہ ہوجائیں گے۔ رسول اللہ ۖفرماتے ہیں: لوگ ان فتنوں کے کاموں کی طرف اس طرح بڑھیں گے جیسے سخت اندھیری رات چھا جاتی ہے۔ آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور شام کو کافر ہوگا، شام کو ایمان کی حالت میں ہوگا اور صبح کافر ہوگا۔ آدمی دنیا کی بہت تھوڑی قیمت پر اپنے دین کو بیچ دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں جن فتنوں سے ڈرایا گیا ہے ان میں عورتوں کا سرکش ہوجانا، جوانوں کا فسق میں مبتلا ہوجانا، جہاد کا ترک کر دیا جانا، امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل نہ ہونا، بلکہ ان پیمانوں ہی کا بدل جانا، یعنی لوگوں کا اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگنا بھی شامل ہیں۔اس امت کے لیے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ قرآن و سنت رسول ۖ ہی ہے، انسانوں کے وضع کردہ قوانین نہیں۔ کتاب و سنت ہی اسے بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔ ہمارے اوپر یہ فرض ہے کہ ہم ان کی طرف واپس آئیں اوران کی ہدایت پر چلیں۔
آج ہمارا عقیدہ، ہمارا دین، ہماری تہذیب، ہمارے مساجد ومدارس، ہماری جان ومال اور عزت وآبرو سب خطرے میں ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں ہر سطح پر مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ آج دنیا میں سب سے سستی چیز مسلمان کی جان ہے۔ خون مسلم کی ارازانی کا ہم برما، عراق، شام، فلسطین، افغانستان ، چیچنیا، صومالیہ، مالی ،آسام اور دنیا کے دیگر خطوں میں دیکھ رہے ہیں۔ غور کریں کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس واسطے ہے کہ مسلمان دین سے دور ہوگئے ہیں۔ ہم میں اتفاق واتحاد نہیں ہے۔ خلافت عثمانیہ کے ختم ہو جانے کے بعد مسلمانوں کا کوئی متحدہ پلیٹ فارم نہیں۔ آج ان کی کوئی اجتماعی فوج اور طاقت نہیں۔ ان میں کوئی رابطہ اور تعاون نہیں۔ سب ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں اور ریوڑ سے الگ ہو جانے والی بکری کی طرح باری باری انسان نما بھیڑ یوں کا شکار ہورہے ہیں۔
اللہ کا وعدہ ہے کہ "و لینصرن اللہ من ینصرہ"، ) اور جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے یقینا اللہ اس کی مدد فرماتا ہے)۔رب العالمین تاکید کے ساتھ فرماتا ہے کہ اگر تم اس کی مدد کروگے وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا؛ اگر معمولی اور مادی نگاہوں سے دیکھا جائے تو ممکن ہے کہ یہ غیر ممکن نظر آئے؛ لیکن بہت سی چیزی بعید از قیاس نظر آتی تھی جو واقع ہوئیں۔دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور جدوجہد کی اللہ نے ان ظلم سے نجات دی۔ مصر، لیبیا، تیونس، مراقش، ترکی اسکی زندہ مثالیں ہیں۔ کیاکچھ عرصہ قبل تک یہ تصور کرسکتے تھے کہ ساری دنیا کی باطل طاقتوں کی پشن پناہی کے باوجود یہ وہا ں کے مسلمانوں کے عزم اور جہد مسلسل کے سامنے نہ ٹک سکے۔ اور راہ فرار اختیار کرلی اور ذلت کا نمونہ بن گئے۔ بقول شاعر : جہاں پناہ ڈھونڈتے ہیں پناہ ۔۔اسی کو گردش لیل و نہار کہتے ہیں۔
عیدالفظر کا پیغام شوکت و عروج کا پیغام ہے۔ یہ عروج ہمیں صرف رجوع الی الاسلام کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی ہی ہمیں اندھیروں سے نکال کر اجالوں کی طرف لے جاسکتی ہے۔ ہم نے غیروں کی پیروی کی، تقلید کی ، نقالی کی۔ ان تمام نے ہمیں کیا دیا؟ شکست، رسوائی، ندامت، نقصان، اخلاقی فساد اور غلامانہ انتشار کے سوا ہمیں کیا ملا ہے! ہمیں نہ معاشی آسودگی میسر آسکی، نہ سیاسی استحکام نصیب ہوا نہ معاشرتی تعلقات میں بہتری آسکی، اور نہ اخلاقی ترقی ہوئی نہ روحانی رفعت حاصل ہوسکی۔اللہ تعالی تعالی فرماتے ہیں۔''اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا طالب ہوگا تو وہ اس سے ہرگز بھی قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔''
ہمارے پاس اسلامی اصول، ربانی شریعت، محمدی ۖ طریق ہاے کار اور عظیم ورثہ موجود ہے۔ لہذا ہم امیر ہیں اور دوسروں سے ان چیزوں کے معاملے میں بے نیاز ہیں۔ پھر کیوں سب کچھ درآمد کرتے اور بھیک مانگتے پھرتے ہیں؟ ہمیں اپنے قرآن، آسمانی ہدایت اور نبوی ۖ سنت کی طرف پلٹنا چاہیے۔ ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم اللہ کی کتاب اور رسول ۖاللہ کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں۔ ببانگِ دہل توحید کے عقیدے پر کاربند ہوجائیں۔ اسی طرح مسلمان ہوجائیں جیسے کبھی ہوا کرتے تھے، یعنی حقیقی مسلمان، نہ کہ نام کے مسلمان، یا موروثی مسلمان۔ مسلمانوں کو مستعد و متحرک ہونا چاہیے کہ وہ اپنے دین کے راستے میں اپنا سب کچھ نچھاور کرسکیں، اس دین کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ یہ جدوجہد عزم و ہمت اور ارادوں کی جدوجہد ہوگی۔ جس فریق یا عزم و ارادہ زیادہ قوی ہوگا غلبہ اسی ہوگا، غالب وہی ہے۔ جس کا دل اللہ تعالی پر بھروسے اور توکل سے مالامال ہے، وہی غالب ہے۔ ارشاد ہے: "ِن ینصرم اللہ فلا غالِب"؛ (اگر اللہ تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کوئی غالب نہیں آئے گا)۔
عظیم فیصلے اور عظیم ارادے عظیم دنوں میںہی میں ہوتے ہیں۔ اہلِ اسلام کو عید کے موقع پر اسلام کی نصرت کا عزم کرنا چاہیے۔ روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز اپنے اصحاب کی ایک جماعت سے پوچھا: سب سے زیادہ کن لوگوں کا ایمان تمھارے نزدیک عجیب ہوسکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: فرشتوں کا۔ آپ نے فرمایا: وہ کیوں ایمان نہ لائیں گے وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر انبیا کا۔ آپ ۖنے فرمایا: وہ کیوں نہ ایمان لائیں گے، جب کہ ان کے اوپر تو وحی نازل ہوتی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر ہمارا۔ آپ نے فرمایا: تم کیوں ایمان نہ لاتے، جب کہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں۔ پھر آپ ۖنے فرمایا: سنو! میرے نزدیک سب سے زیادہ عجیب ایمان ان لوگوں کا ہے جو تمھارے بعد آئیں گے اور کتاب کو پڑھ کر ہی ایمان لے آئیں گے۔
اللہ کے رسولۖ کی بشارت ہمارے ساتھ ہیں۔ احساس کمتری سے باہر آئیں۔ اسباب کی دنیا کے سارے وسائل بروئے کار لائیں۔ قرآن وسنت کی روشنی میں علوم اور ٹکنولوجی کو مسخر کریں۔اپنے آپ کو ایمانی اور مادی لحاظ سے طاقتور بنائیں۔ اللہ تعالی ضرور ہماری حالت بدلیں گے، امت مرحوم کودوبارہ عروج نصیب ہوگا۔ساری دنیا دوبارہ امن کا گہوار بنے گی۔ عیدالفطر ہمیں موقعہ فراہم کررہا ہے کہ ہم تجدید عزم کریں اور تازہ دم ہوکر جہد مسلسل کے لئے تیار ہوجائیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسہم (الرعد)ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ربنا اتنا من لدنک رحمت وھیی لنا من امرنا رشدا (الکہف)ترجمہ :خدایا! ہمیں اپنی رحمت خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کر دے۔
Mobile: 9845238812
ayazfreelance@gmail.com
Saturday, 18 August 2012
Subscribe to:
Posts (Atom)