Search This Blog

Friday, 18 May 2012

امت مسلمہ اور غیرریاستی جدوجہد کی شاندار تاریخ

امت مسلمہ اور غیرریاستی جدوجہد کی شاندار تاریخ

شاہنواز فاروقی
مسلمانوں کی تاریخ کی دو اصطلاحیں بنیادی ہیں، یعنی معاشرہ اور ریاست۔ ان اصطلاحوں میں معاشرے کی اصطلاح اس اعتبار سے زیادہ اہم ہے کہ معاشرہ اسلام کی لازمانیت کو ظاہر کرتا ہے، اور ریاست اسلام کی زمانیت کے امکانات کو سامنے لاتی ہے۔ معاشرہ اسلام کے جمال کا مظہر ہے اور ریاست اسلام کے جلال کی علامت۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت ِراشدہ کا زمانہ معاشرے اور ریاست کی کامل یکجائی کا زمانہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ان ادوار میں اسلام اتنی تیزی سے پھیلا کہ انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانۂ نبوت صرف 23 برس ہے، اور اتنی مختصر سی مدت میں اسلام کم و بیش پورے جزیرہ نمائے عرب کو فتح کرچکا تھا۔ خلافتِ راشدہ بالخصوص حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں مسلمان اتنی تیزی سے آگے بڑھے کہ بعض غیر مسلموں نے کہا ہے کہ اگر اسلام کی تاریخ میں دوسرے عمرؓ ہوتے تو مسلمان ساری دنیا کو فتح کرلیتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت ِراشدہ کے بعد بھی مسلمانوں کو جب کبھی معاشرے اور ریاست کی یکجائی فراہم ہوئی انہوں نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کیں۔ تاہم اسلام اپنی بقا، فروغ اور مزاحمت کے لیے کبھی ریاست کا ’’محتاج‘‘ نہیں رہا، اور اس نے ہر دور میں صرف معاشرے کی قوت سے ہی بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں۔ یونانی فکر کا چیلنج اگرچہ فکری تھا لیکن یہ چیلنج اتنا بڑا تھا کہ اس کے مقابلے کے لیے ایک عظیم الشان ریاست کی قوت بھی کم تھی، لیکن اُس وقت کی ریاست نے اس چیلنج کا مقابلہ تو درکنار، اس چیلنج کی نشاندہی بھی نہیں کی۔ لیکن کئی خرابیوں کے باوجود اُس وقت کے معاشرے میں زندگی تھی اور وہ امام غزالیؒ پیدا کرنے اور سامنے لانے کی اہلیت رکھتا تھا۔ چنانچہ اس عہد میں امام غزالیؒ معاشرے کا جمال اور ریاست کا جلال بن کر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے تن تنہا یونانی فکر کے سیلابِ بلاخیز کو روک کر دکھادیا۔ یہاں تک کہ یونان کی عقل پرستی مسلم معاشرے میں اجنبی بن کر رہ گئی، اور وہ اس کے بعد سے اب تک مسلم معاشرے میں منہ چھپائے پھرتی ہے، اور مسلم معاشرے کے مرکزی دھارے میں اس کا کوئی والی وارث نہیں۔ چنگیز خان کا چیلنج اپنی نہاد میں عسکری تھا، لیکن چنگیز کی عسکری طاقت بے پناہ تھی، یہاں تک کہ اپنے مخصوص عرصے میں وہ وقت کی واحد سپرپاور نظر آتا تھا۔ چنانچہ مختلف مسلم ریاستوں، یہاں تک کہ خلیفۂ بغداد نے بھی چنگیز خان کے آگے سپر ڈال دی اور اس کی مزاحمت سے انکار کردیا۔ لیکن مسلم معاشرے کے دامن سے جلال الدین خوارزم ایک مزاحمتی قوت بن کر ابھرا۔ اس نے بہت معمولی عسکری طاقت کی بنیاد پر چنگیز خان کو چیلنج کیا اور کئی محاذوں پر اسے بدترین شکست سے دوچار کیا۔ جلال الدین خوارزم اپنی قوت میں اضافے کے لیے ریاست بغداد کی طرف دیکھتا رہا مگر اسے وہاں سے کوئی مدد حاصل نہ ہوسکی۔ چنانچہ وہ تاریخ کے دھارے کا رخ نہ موڑ سکا لیکن اس کی مزاحمت ہمیشہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب رہے گی، کیونکہ اس مزاحمت نے اسلام کے جلال اور جمال کو ظاہر کیا اور مسلم تاریخ کے ماتھے کو اس الزام کے داغ سے بچا لیا کہ چنگیزخان بے پناہ طاقت کے ساتھ اٹھا تو اس کی مزاحمت کرنے والا مسلم دنیا میںکوئی نہ تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جلال الدین خوارزم کی مزاحمت ناکام ہونے کے باوجود بھی بے پناہ کامیاب رہی اور اس نے پوری امت ِمسلمہ کا فرضِ کفایہ ادا کرکے دکھا دیا۔ لیکن یہ کام وہ مسلم معاشرے کی قوت کے بغیر انجام نہیں دے سکتا تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں کی جنگ ِآزادی اگرچہ ناکام ہوئی، لیکن یہ جنگِ آزادی ریاست کے وسائل اور قوت کے دائرے کے باہر شروع ہوئی اور وہیں لڑی گئی۔ جنگ آزادی کے ہیرو جنرل بخت خان نے بہادر شاہ ظفر کو بہت سمجھایا کہ وہ قلعے سے باہر نکلیں اور جنگ آزادی کی قیادت کریں تو انگریزوں کو شکست دی جاسکتی ہے، مگر بہادر شاہ ظفر ایسا نہ کرسکے اور مجاہدینِ آزادی کو یہ جنگ تنہا لڑنی پڑی۔ بلاشبہ اس جنگ میں ہندو بھی شریک تھے، مگر مسلمانوں کا حصہ ہندوئوں سے بہت زیادہ تھا اور اس حصے کی جڑیں معاشرے میں پیوست تھیں جو جنگ آزادی کو افرادی قوت اور مادی وسائل دونوں فراہم کررہا تھا۔ اس جنگِ آزادی کی اہمیت یہ ہے کہ انگریزوں کی طاقت بہت زیادہ تھی اور ان کی ہیبت کا یہ عالم تھا کہ وہ صرف ایک لاکھ فوجیوں سے تقریباً 50 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر حکومت کررہے تھے، مگر اس کے باوجود مسلم معاشرہ نہ صرف یہ کہ آزادی کا خواب دیکھ سکتا تھا بلکہ جدوجہدِ آزادی برپا بھی کرسکتا تھا۔ اس دور میں مسلم معاشرے کی قوت کا ایک مظہر یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی مذہبی فکر کے سرمائے کی بقا اور فروغ کے لیے دیوبند اور بریلی میں بڑے بڑے ادارے قائم کیے اور ندوۃ العلماء کی بنیاد رکھی۔ انگریزوں نے مذہبی مدرسوں کی امداد کی پیشکش کی مگر مسلمانوں نے اس پیشکش کو قبول نہ کیا اور اپنے فکری و مادی وسائل سے ان اداروں کو چلاکر دکھادیا۔ ان اداروں نے اگرچہ نیا علم پیدا کرکے نہ دکھایا، لیکن ان کا یہ کارنامہ بھی بہت بڑا ہے کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی مذہبی میراث کو محفوظ کرکے نسل در نسل اس کی ترسیل کے عمل کو جاری رکھا۔ اس منظرنامے میں مولانا مودودیؒ کی شخصیت غیر معمولی نظر آتی ہے۔ اس لیے کہ ان کا تعلق ریاست کیا برصغیر کی ’’مذہبی اسٹیبلشمنٹ‘‘ سے بھی نہیں تھا۔ وہ صرف ایک فرد تھے اور برصغیر کے مسلم معاشرے کے جمال اور کمال کا ایک مظہر۔ چنانچہ انہوں نے تن تنہا وہ کام کیا جو بڑے بڑے مکاتبِ فکر انجام نہ دے سکے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ برصغیر کے مذہبی مکاتبِ فکر کے اثرات کبھی برصغیر سے باہر نہیں گئے لیکن مولانا نے برصغیر کے معاشرے پر جو اثر ڈالا ہے اس سے کہیں زیادہ اثرات برصغیر سے باہر ہیں۔ فرق یہ ہے کہ برصغیر میں ان کا علمی اثر بھی ہے اور عملی اثر بھی، جب کہ بیرونی دنیا میں ان کا اثر بیشتر صورتوں میں علمی ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے ماضی کی طرف پلٹ کر دیکھا جائے تو جہانگیر کا زمانہ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ جہانگیر کے عہد میں مسلم معاشرے میں قوت کے دو مراکز تھے: خانقاہ اور ریاست۔ خانقاہ کی علامت حضرت مجدد الف ثانیؒ تھے اور ریاست کی علامت جہانگیر تھا۔ خانقاہ کی قوت صرف روحانی اور اخلاقی تھی۔ اس کے مقابلے پر ریاست کی قوت میں سیاسی، عسکری اور معاشی قوتیں جمع تھیں، لیکن حضرت مجدد الف ثانیؒ جہانگیر کی قوت سے مرعوب نہیں ہوئے اور انہوں نے ریاست کی قوت کو چیلنج کردیا اور کہا کہ ریاست کو اپنے بعض معاملات درست کرنے ہوں گے ورنہ برصغیر میں اسلام کا جداگانہ تشخص اور اس کی شوکت متاثر ہوگی۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کہنے کو ایک فرد تھے اور ان کی آواز ایک فرد کی آواز تھی، مگر چونکہ ان کی آواز حق کی آواز تھی اس لیے حضرت مجدد الف ثانیؒ کی قوت ریاست کی قوت سے بڑھ گئی اور جہانگیر کو بالآخر وہی کرنا پڑا جو حضرت مجدد الف ثانیؒ چاہتے تھے۔ عصرِ حاضر میں مسلم معاشرے کی قوت جس شان سے ظاہر ہوئی ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت ِراشدہ کے بعد اس کی مثال نہیں ملتی۔ مسلمانوں پر نوآبادیاتی طاقتوں کی غلامی کا ایک اثر یہ تھا کہ مسلمان سمجھتے تھے کہ معاذاللہ اب پورے اسلام پر عمل ممکن نہیں، خاص طور پر اسلام کے تصورِ جہاد کا احیاء تو اب ممکن ہی نہیں۔ لیکن افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مزاحمت نے جہاد کے تصور کو زندہ بھی کیا اور وہ نتیجہ خیزی بھی عطا کی جس کی توقع اچھے اچھوں کو نہیں تھی۔ بلاشبہ سوویت یونین کے خلاف جہاد کو ریاستوں کی سرپرستی حاصل تھی، مگر کوئی ریاست جہاد میں خود شریک نہ تھی اور جہاد کا پورا عمل ریاست کی قوت کے بجائے معاشرے کی قوت سے انجام پایا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس جہاد میں پندرہ لاکھ افغانی شہید اورکم و بیش اتنے ہی زخمی ہوئے۔ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جہاد نے ریاست کی قوت کو مزاحمتی عمل سے یکسر خارج کردیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسانی تاریخ میں طاقت کا ایسا ہولناک عدم توازن کبھی نہیں دیکھا گیا جیسا امریکہ اور مجاہدین کے درمیان دیکھنے میں آیا۔ چنانچہ یہ معرکہ ایک سطح پر ایمان اور ٹیکنالوجی کا معرکہ تھا، دوسری سطح پر شوقِ شہادت اور سیاسی طاقت کی پنجہ آزمائی تھی، تیسری سطح پر یہ جذبۂ جہاد اور معاشی طاقت کی رزم آرائی تھی۔ ایمان اور ٹیکنالوجی کے معرکے میں ایمان فتح یاب ہوا۔ شوقِ شہادت اور سیاسی طاقت کی جنگ میں شوقِ شہادت غالب رہا۔ جذبۂ جہاد اور معاشی طاقت کی کشمکش میں جذبۂ جہاد سرخرو ٹھیرا۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ کے عہد میں معاشرہ اور ریاست ایک نامیاتی کُل یا Organic Whole تھے اور ریاست معاشرے کی توسیع یا حصہ تھی، لیکن ملوکیت نے اس نامیاتی رشتے کو متاثر کیا اور ان کے فطری اور برجستہ تعلق میں رخنہ ڈال دیا۔ یہاں تک کہ جدید ریاست کے تجربے تک آتے آتے ریاست معاشرے کا ایسا بالائی ڈھانچہ یا Super Structure بن گئی جو معاشرے سے برآمد نہیں ہوا بلکہ معاشرے پر خارج سے مسلط کیا گیا ہے۔ اس صورتِ حال نے معاشرے اور ریاست کے درمیان ایک مغائرت اور کشمکش کو جنم دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید مسلم ریاستیں اکثر مواقع پر اسلام کے مقاصد کے لیے بروئے کار نہیں آتیں، لیکن مسلم معاشرے اپنے بہت سے نقائص کے باوجود اسلام کے مقاصد کے لیے بروئے کار آجاتے ہیں۔ ریاستوں کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی فرد، خاندان، گروہ یا طبقے کے مفادات کی ترجمان اور نگہبان بن جاتی ہیں اور وہ اس مفاد کو اسلام کے مفاد پر ترجیح دینے لگتی ہیں۔ لیکن معاشرے میں بے غرض اور مخلص لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے، یہ لوگ مفادات سے بلند ہونے کی وجہ سے اس حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں کہ اسلام کے مقاصد اور مفادات کیا ہیں اور ان کے تحفظ کے سلسلے میں کس قسم کی جدوجہد ضروری ہے۔ ریاست کی گزشتہ تین چار سو سال کی تاریخ کو دیکھا جائے تو ریاست پیشہ ورانہ یا Professional ذہنیت کی گرفت میں ہے اور ریاست کو چلانے کی نوعیت تقریباً ’’تیکنیکی‘‘ ہوگئی ہے۔ اس کے برعکس معاشرے کے بہت سے لوگوں میں رضاکارانہ طریقے سے کام کرنے کی نفسیات موجود ہوتی ہے جو ان کی محنت، لگن اور قربانی کے جذبے کو بہت بڑھا دیتی ہے۔ اسلام کا نام آتے ہی اس نفسیات کا دائرہ بھی وسیع ہوجاتا ہے اور اس میں شدت بھی بہت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلم معاشروں کے مسائل کا بہترین حل معاشرے اور ریاست کی حقیقی معنوں میں یکجائی ہے۔ یہ یکجائی اتنی اہم ہے کہ بدترین قیادت کی موجودگی کے باوجود اس نے آج کل کے دور میں بھی بہترین نتائج پیدا کیے ہیں۔ 

Wednesday, 16 May 2012

مئی ٹیپو سلطان کی شہادت کا مہینہ ہے

مئی ٹیپو سلطان کی شہادت کا مہینہ ہے

غزالہ عزیز 
-مئی کا مہینہ شہیدان محبت کے امام‘حریت کے پروانے ’’سلطان ابوالفتح علی ٹیپو‘‘کی شہادت کا مہینہ ہے ۔ جس نے غیرملکی اقتدارکوروکنے کے لیے اپنی پوری زندگی مجاہدانہ سرگرمیوں میں بسرکی۔ وطن کوغیرکی غلامی سے بچانے کے لیے اپنا آرام چین بھلادیا اور اپنی زندگی اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے قربان کردیا اور آخرکار خود بھی مردانہ وارلڑتاہوا شہیدہوگیا سلطان ٹیپوکی شہادت پرلارڈہارس بے اختیارپکاراٹھاکہ ’’آج ہندوستان ہماراہے‘‘ تمام بڑے مورخ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ 1764ء میں سندھیا کی وفات کے بعدانگریزہندوستان کی سرزمین پرمکمل قبضہ کی راہ میں صرف ایک شخصیت کو اپنا حریف سمجھتے تھے اوروہ تھا میسورکا مسلم فرمانروا ’’ٹیپوسلطان‘‘ ہندوستان کو غلامی سے بچانے کے لیے ٹیپو نے اس وقت کی ہندوستان کی تمام طاقتوں کو انگریزوں کے خلاف متحدہونے کی دعوت دی۔ حالانکہ اس وقت کے والیان ریاست متحدہ قومیت کے تصورسے بھی آشنا نہیں تھے۔ ٹیپونے مرہٹوں اورنظام دونوں کو آنے والے خطرے سے آگاہ کرنے کی کوششیں کی انہیں متحد ہوکر آزادی کے حفاظت کی ترغیب دلائی لیکن افسوس ذاتی اقتدار اورشخصی مفاد کے خاطر انگریزوں کا ساتھ دیا گیا بالکل اسی طرح جیسے آج اپنے اقتدارکو قائم رکھنے کے لیے امریکیوں کا ساتھ دیا جارہاہے۔ لیکن اقتداررہا نہ حکومت ‘وہاں یہ ہواکہ پوری ہندوستانی قوم غلامی کی دلدل میں دھنس گئی جس پر ہرتاریخ داں نے انہیں غداران قوم کے لقب سے پکارا۔ اقبال نے کہا۔ جعفر از بنگال وصادق از دکن ننگِ آدم ننگ دیں ننگ وطن لیکن افسوس کہ نہ جعفروصادق سبق سیکھتے ہیں نہ ان کے حامی وموالی ہی عقل سے کام لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ ہم نے اپنی آزادی کے حقیقی ہیروں کو بھلادیا۔ غلامی اورمحکومی سوچ وفکرمیں ایسے بسائی کہ آقائوں کی ہراداکو دل سے لگایا ان کے طورطریقے ادب وآداب تہذیب وثقافت زبان لباس ہرچیزکو اپنایا ان کی خوشی کو اپنی خوشی اور ان کی ناراضگی کو اپنی ناراضی کہا ہی نہیں سمجھابھی لہٰذا ہم نے اپنی تاریخ میں آزادی کے ان تمام ہیرووںکوجگہ نہ دی جنہوں نے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ سراج الدولہ‘ حافظ رحمت خان‘ شاہ اسماعیل شہید اورسید احمدشہید سب کو فراموش کردیا۔ یہ سب اس طقبے نے کیا جو اہل دانش کی حیثیت رکھتاہے جس کی بنیادی ذمہ داری قومی زندگی کو استحکام اورقوت فراہم کرناہوتی ہے۔ اقبال نے تاریخ کی گردصاف کرکے ہمیں ان کی یاددلائی لیکن اب تو لگتاہے کہ اقبال کوبھی ہم نے فراموشی کے پردوں سے ڈھانپنے کا ارادہ کرلیاہے۔ مہینوںکیا سالوں گزرجاتے ہیں ریڈیو ٹی وی پر نہ اقبال کی شاعری سنائی دیتے ہیں نہ اس کی فکرسے آگاہی کا کوئی پروگرام کیاجاتاہے۔ یوں نئی نسل اقبال سے ناآشنا سی ہوتی جارہی ہے۔ اقبال ٹیپوسلطان سے اپنی ملاقات کا حال جاوید نامے میں یوں کہتے ہیں ۔ آں شہیدانِ محبت را امام آبروئے ہندوچین وروم وشام نامش از خورشید ومہ تابند تر خاک قبرش از من وتو زندہ تر یعنی اے اقبال! سلطان ٹیپوشہیدانِ محبت کا امام تھا اور مشرقی ممالک کی آبرو(آزادی) اس کی ذات سے وابستہ تھی آج اس کا نام سورج اورچاند سے زیادہ روشن ہے اور اس کی قبرکی مٹی ہندوستان کے رسمی مسلمانوں سے زیادہ زندگی کے خواص اور آثاراپنے اندر رکھتی ہے۔ سیاسی تدبر اور حسن تدبیرمیں ٹیپوسلطان کو تمام ہندوستانی بادشاہوں پربلند مقام حاصل ہے۔ وہ ہندوستان کے مقتدر حلقوں میں پہلا شخص تھا جس نے انگریز بادشاہت کے بڑھتے ہوئے اثرات اور اس میں پنہاں خطرات کو پوری طرح محسوس کیا اور ان کو روکنے کے لیے بہترین تدابیرجوکچھ ہوسکتیں تھیں کیں۔ اس نے فوجی طاقت کے علاوہ صنعتی اورتجارتی شعبوں کی اہمیت کو محسوس کیاتمام گردونواح کے مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ سمٹ کر اس کی سلطنت میں جمع ہوجائیں۔ کیونکہ مضبوط متحد آبادی کی اہمیت سے واقف تھا۔ اس نے مسلم اورغیرمسلم ریاستوں کو انگریزوں سے مقابلہ کرنے کے لیے متحدکرنے کی بھی حتی الامکان کوشش کی۔ ان تمام حکمتوں اور قابلیت کے باوجود وہ ناکام رہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ نظرآتی ہے کہ وہ تمام قابلیتیں اورخوبیاں اس کی شخصی تھیں اجتماعی نہیں تھیں…ہندوستان کے لوگ اخلاقی طورپر بری طرح بگڑچکے تھے۔ سب سے بڑھ کرہرفرد اپنے اپنے ذاتی فائدے کے لیے ہرانتہا پرجانے کے لیے تیارتھا۔ لہذا جہاں اجتماعی فائدے کے بجائے ذاتی فائدہ اہم بن جائے فردقوم کے بجائے اپنی ذات کو مقدم رکھے تو وہاں کسی دوسری قوم کو غلبے سے روکنا ممکن نہیں رہتا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اوراس فتنے سے بچتے رہو جواگر اٹھا تو اس کی زد انہی پرنہیں پڑے گی جو تم میں ظلم کرنے والے ہیں بلکہ سبھی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ (سورہ انفال) حضرت عبداللہ بن عباسؓ جن کو رسول اللہ نے ’’ترجمان القرآن‘‘ کا خطاب دیا تھا’’فتنہ‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’لَسّلَطُ الظَلِمَتِہ‘‘ یہ ظالم قوم کا تسلط ہے۔ قرآن میں اسی سورہ میں بھی دوآیت کے بعد اس ظلم کی تفسیر فرمادی گئی کہ کون سی بداعمالی ہے جس کا ارتکاب اگر قوم کے بعض افراد کریں تو تمام قوم کی قوم محکوم بنادی جاتی ہے فرمایاگیا’’مسلمانوں ایسا نہ کروکہ اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کرو اور نہ یہ کہ آپس کی امانتوں میں خیانت کرو‘‘ اللہ کی سنت یہ ہی ہے کہ جب کسی قوم کے مقتدر افراد قومی اورملی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں تو ان کی بداعمالی کی سزامیں تمام قوم کی قوم غلام اور محکوم بنادی جاتی ہے۔ یہ نوشتہ تقدیرہے جسے پڑھااورسمجھانہیں گیا تو غلامی کی دلدل میں دھنسنا پھرمقدرٹھہرے گا۔

Tuesday, 15 May 2012

قرآن کی بے حرمتی…مغرب کاشرمناک کردار

قرآن کی بے حرمتی…مغرب کاشرمناک کردار

حشمت اللہ صدیقی 
-امریکی پادری ٹیری جونز نے قرآن پاک کو نذرِآتش کرکے ایک مرتبہ پھر اسلام اور مسلمانوں سے مغرب کے تعصب کا عملی ثبوت دیا ہے۔ یہ مغرب کا دیرینہ ایجنڈا ہے جس کو ماضی کی صلیبی جنگوں کے درمیان پروان چڑھایا گیا، جس کے تحت اسلام، پیغمبر اسلامؐ‘ قرآن پاک‘ قرآنی قوانین، اسلامی معاشرہ وثقافت کے خلاف مسلسل نفرت و استہزا اور تعصب پر مبنی پروپیگنڈا مختلف ادوار میں مختلف شکلوں میں کیا جاتا رہا ہے، امریکی پادری کے خبث ِباطن کے اظہار پر مبنی حالیہ شرمناک واقعہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ایسے واقعات تواتر کے ساتھ رونما ہورہے ہیں۔کبھی خاکوں کے ذریعے توہین وگستاخیٔ رسولؐ کی جاتی ہے، کبھی جوتے اور کپڑوں کے ڈیزائن کے ذریعے توہین کا پہلو نکلتا ہے، توکبھی اسلام و پیغمبراسلامؐ کے خلاف منفی پروپیگنڈے پر مبنی فلم ’’فتنہ‘‘ اور سلمان رشدی کی ’’شیطانی آیات‘‘ کا چرچا ہوتا ہے، اورکبھی اسلام دشمنوں کو ’’سر‘‘ کا خطاب دے کر اسلام سے اپنی عداوت کا اظہار کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ قرآن کا متبادل تیارکیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مغرب کی حکومتوں کے رویّے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جوآزادیٔ اظہارکے خوشنما پردے میں ایسے اسلام دشمن عناصرکی پردہ پوشی کرتی ہیں۔ مغرب کے اس دوہرے معیارکے باعث ایسے عناصرکو حوصلہ ملتا ہے اور ایسے واقعات کا اعادہ ہوتا رہتا ہے، لیکن المیہ یہ بھی ہے کہ عالم اسلام کی 57 سے زیادہ مسلم حکومتیں ایسے واقعات پر بے حسی کا شکار ہیں۔ وہ مسلمانوں کے دینی جذبات و حمیت کی نمائندگی کرتے ہوئے ان شرمناک واقعات پرکوئی قابل ذکر ٹھوس عملی قدم اٹھانے میں ناکام رہی ہیں۔ حکومتوں کی اس کمزوری کے باعث ہی مغرب میں نائن الیون کے بعد ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے پردے میں جو کہ دراصل ’’اسلام کے خلاف جنگ‘‘ ہے، اسلام اور مسلمانوںکو دہشت گردی سے جوڑنے کا منظم منصوبہ ہے۔ وہاں تہذیبوں کے تصادم کے ذریعے اسلام اور شعائرِاسلام کے خلاف بھی منظم منصوبے پرعمل کیا جارہا ہے، جبکہ ہمارے حکمران مغرب کی غلامی و عالمی استعمارکی سازشوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان حکمرانوں میں جرأت نہیں کہ اسلام اور مسلمانوںکا دفاع کرسکیں اور ایسے شرمناک ودل آزار واقعات پرکوئی سخت قدم اٹھائیں۔ یہ تو سلالہ جیسے واقعہ پر بھی خاموش تماشائی ہیں، ڈرون حملوں پر بھی صرف لفاظی کررہے ہیں اور ناٹو سپلائی بحال کرنے کے لیے جواز ڈھونڈ رہے ہیں۔ کیا اپنی خودمختاری اور سلالہ کے شہداء اور ڈرون حملوں میں بے گناہوں کے خون کی کوئی اہمیت نہیں؟ لیکن اسلام اور قرآن کی بے حرمتی تو ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ کیا ہم اب بھی خوابِ غفلت سے بیدار نہیں ہوں گے؟ یاد رکھیے اسلام‘ نبی آخرالزماںؐ اور اس کی کتاب قرآن مجیدکی حفاظت کے لیے اللہ کافی ہے جیسے کہ اس نے اپنے گھرکعبہ کو ڈھانے کا ناپاک ارادہ کرنے والے ابرہہ کے لشکرکو اپنے حکم سے پرندوںکے ذریعے تہس نہس کرکے عبرت کا نمونہ بنادیا تھا۔ اسی اللہ نے قرآن پاک کی حفاظت کا بھی ذمہ لیا ہوا ہے۔ لیکن وہ امت کی آزمائش کرنا چاہتا ہے، وہ قرآن سے ہماری محبت کا امتحان لینا چاہتا ہے کہ ہم بحیثیت اہلِ ایمان و اہل قرآن کیا قربانی دے سکتے ہیں۔ ایسے واقعات بحیثیتِ مجموعی پوری امت کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ چیلنج وہی قبول کرسکتے ہیں جو قرآن کی عظمت و ہدایت پر ایمان رکھتے ہوں اور اس پر عمل پیرا بھی ہوں۔ لیکن کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ دنیا کے کسی اسلامی ملک میں قرآن کا مکمل قانون نافذ نہیں! تمام ممالک میں اکثر قرآنی عدل وانصاف و عدلِ اجتماعی کے بجائے مغربی قوانین کا چربہ نافذ ہے! اگر ہم آج قرآن کے قانون و نظامِ عدل کو نافذ کردیں تو بڑی سے بڑی سپرپاور اسلام و قرآن کی بے حرمتی کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ لیکن ہمارے یہاں ایسے واقعات پر محض چند روزہ احتجاج، جلسے، جلوس، ریلیاں، قراردادیں، بائیکاٹ کا نعرہ لگتا ہے، پھر خاموشی طاری ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ دوبارہ کوئی سانحہ رونما ہوجاتا ہے۔ ہمیں خواب ِغفلت سے جاگنے کی ضرورت ہے، او آئی سی کے ذریعے اقوام متحدہ میں اسلامی ممالک کی جانب سے قرارداد لائی جانی چاہیے جس کے تحت مقدس الہامی کتب‘ انبیاء کرام و شعائر اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈہ و توہین کرنے والوں پر عالمی عدالت میں مقدمہ چلاکر انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے اور ان کی پس پردہ حمایت کرنے والی حکومت کو بھی اپنے جذبات سے آگاہ کیا جاسکے۔

Sunday, 13 May 2012

بد نصیب


بد نصیب


-فرحی نعیم
یہ دنیا دکھوں کی آماجگاہ ہے۔ یہاں قدم قدم پر دکھ بکھرے پڑے ہیں۔ خوشیوں کے لمحات بہت تھوڑے لیکن غم اور مصائب بے شمار… جو چین سے جینے ہی نہیں دیتے۔ دوسروں کے رنج و الم کی داستان سن کر انسان اپنی تکالیف بھول جاتا ہے۔ ایسی ہی کہانی ساجدہ کی تھی۔ ساجدہ ایک زندہ دل لڑکی تھی۔ عمر تقریباً اٹھارہ، انیس سال۔ وہ تین بہنوں میں دوسرے نمبر پر تھی۔ ایک بہن بڑی اور ایک اس سے چھوٹی تھی۔ اس کی ماں ہمارے گھر کام کے لیے آتی تھی۔ وہ کبھی ماں کے ساتھ آجاتی۔ چونکہ ان کے سارے رشتہ دار گائوں ہی میں رہائش پذیر تھے، لہٰذا ایک دفعہ جب ساجدہ کی ماں کام پر آئی تو یہ خوشخبری سنائی کہ اس نے اپنی دونوں بیٹیوں کا رشتہ اپنے رشتہ داروں میں کردیا ہے۔ دونوں بیٹیاں ایک ہی گھر میں دو بھائیوں سے کچھ مہینوں بعد بیاہ دی گئیں اور گائوں روانہ ہوگئیں۔ وہاں نرم گرم ان کے ساتھ چلتی رہی۔ ایک سال بعد خوشی کی خبر آئی کہ دونوں بیٹیاں ایک ایک بیٹے کی ماں بن گئی ہیں۔ وہ خوشی خوشی گائوں روانہ ہوئی، لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی، جب ساجدہ کی والدہ واپس آئیں تو یہ عجیب و غریب خبر سنائی کہ دونوں بچے چند دن زندہ رہ کر نامعلوم بیماری میں مبتلا ہوکر فوت ہوگئے حالانکہ دونوں بظاہر صحت مند اور نارمل تھے۔ ’’ایسا لگتا ہے کہ نظر کھا گئی کسی کی دونوں کو‘‘۔ جمیلہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ افسوس تو ہمیں بھی بہت تھا، لیکن بہرحال خدا کی مرضی کے آگے سب انسان بے بس ہیں۔ کچھ ہی عرصے بعد جمیلہ (ساجدہ کی ماں) نے پھر خبر سنائی کہ اس کی لڑکیوں کے ہاں پھر خوشی آنے والی ہے۔ بڑی بیٹی کے ہاں تو ایک لڑکی ہوئی لیکن ساجدہ چند مہینوں کے بعد ہی اس خوشی کے آنے سے پہلے محروم ہوگئی۔ ساجدہ اس کے بعد واپس یہاں آگئی اور اپنے میاں کے ساتھ یہیں رہنے لگی اور مختلف گھروں میں صفائی وغیرہ کا کام کرنے لگی۔ ساجدہ ایک مختلف مزاج کی لڑکی تھی۔ وہ بنگلوں میں کام کے لیے جاتی تو وہاں رہنے والی خواتین و لڑکیوں کو دیکھ کر اسے بڑا رشک آتا، وہ ان سے اپنا موازنہ کرتی اور پھر ان کے طور طریقے اپنانے کی کوشش کرتی۔ اس نے پھر شوق میں آکر مہندی لگانی سیکھی اور میک اَپ کرنے کا کورس کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ڈرائیونگ بھی سیکھی۔ اس دوران پھر امید کی کرن جگمگائی لیکن جلد ہی بجھ گئی۔ وہ بہت مایوس ہوگئی تھی لیکن زندگی کی جدوجہد تو جاری رکھنی تھی نا۔ سو وہ چل رہی تھی۔ اس دوران اسے ٹائیفائیڈ وغیرہ بھی ہوگیا۔ اس کی ماں اس کا علاج کراتی رہی لیکن وہ لاپروا ہوگئی تھی۔ ماں شکایت کرتی کہ یہ وقت پر دوا نہیں کھاتی، اور جب میری ڈانٹ سنتی ہے تو دن بھر کی ساری گولیاں اکٹھی ایک ساتھ کھالیتی ہے۔ جب میں نے یہ سنا تو نرمی سے اسے سمجھایا کہ اس طرح تم اپنا ہی نقصان کررہی ہو، دوا بجائے فائدہ دینے کے نقصان دہ ہوجائے گی۔ دوسری طرف اس کا میاں بھی ٹھیک سے کام کاج نہ کرتا۔ وہ بھی سسرال کے ہی آسرے پر رہتا۔ اس وجہ سے بھی وہ دلبرداشتہ رہتی۔ ابھی وہ پوری طرح صحت یاب نہیں ہوئی تھی کہ پھر امید کا جگنو جگمگایا۔ اس دفعہ اس نے حتی الامکان احتیاط برتی اور پھر اس کی امید برآئی۔ ایک دفعہ پھر خدا نے اسے بیٹے کی نعمت سے نوازا تھا۔ وہ بہت خوش تھی بچے کو پاکر۔ لیکن یہ خوشی بھی چند دن سے زیادہ نہیں رہی۔ بچہ بیمار رہنے لگا تھا، اس کے مختلف ٹیسٹ ہوئے اور پھر اسے اسپتال میں داخل کرلیا گیا۔ بچے کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، وہ اس کے پاس تھی۔ دورانِ علاج بچے کو خون چڑھانے کی ضرورت پڑی، اُس وقت ساجدہ اکیلی ہی اسپتال میں تھی۔ اس نے ماں کو کئی فون کیے (اس وقت موبائل اتنا عام نہیں تھا)، شوہر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن بدقسمتی سے ہر کوشش بیکار گئی۔ ادھر ڈاکٹر اسے فوری طور پر خون کا بندوبست کرنے کو کہہ رہے تھے، اس کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ وہ خود ہی کچھ کرسکے۔ اسے اور کچھ نہ سوجھا تو اپنا ہی خون دے دیا۔ غریب کا تو ویسے بھی کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا، اور سرکاری اسپتالوں کی جو حالت ِزار ہے اس سے سب ہی واقف ہیں۔ بچے کو بیمار ماں کا خون چڑھا دیا گیا۔ کیونکہ ساجدہ کی طبیعت بھی آئے دن خراب رہتی تھی اور بچے کے ہونے کے بعد بھی وہ مکمل طور پر تندرست نہیں ہوئی تھی۔ اور پھر وہی ہوا، ممتا کی ماری ایک دفعہ پھر ہارگئی۔ موت نے زندگی کو شکست دے دی اور وہ بچے کی لاش اٹھائے گھر آگئی۔ کتنے ہی دن وہ ہوش میں نہ رہی۔ کتنی خواہش تھی اسے بچے کی، اور ہر دفعہ یہ خواہش کیسی بے دردی سے خاک میں مل جاتی۔ اس کا پھول سا بچہ ممتا کی آغوش چند دن سے زیادہ نہ پاسکا اور منوں مٹی تلے جا سویا۔ وقت کا کام تو گزرنا ہے، سو وہ گزر جاتا ہے۔ وہ بھی آہستہ آہستہ سنبھل گئی۔ کئی مہینے گزر گئے، وہ خدا سے دعا کرتی رہی۔ اس دوران پھر امید چمکی لیکن جلد ہی بجھ گئی۔ ’’شاید میرے نصیب میں اولاد ہی نہیں‘‘۔ وہ کبھی کبھی مایوسی سے سوچتی۔ دن پر دن گزرتے چلے گئے۔ وہ تھک سی گئی تھی کہ اس دوران ایک دفعہ پھر اللہ نے اس کی گود میں خوشی بخشی اور بڑی منتوں کے بعد وہ پھر بیٹے کی ماں بن گئی۔ اس دفعہ وہ ایک نارمل بچے کی ماں تھی۔ ساجدہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ بڑی مرادوں سے اپنے بیٹے کو پال رہی تھی۔ بچہ ابھی سال بھر کا بھی نہ ہوا تھا کہ ساجدہ کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ وہ اپنے علاج کے سلسلے میں بڑی کوتاہی برتتی تھی۔ وقت پر دوا نہ کھاتی۔ اس کو پیلیا ہوگیا تھا جو صحیح اور بروقت علاج نہ کرانے سے بگڑ رہا تھا۔ اس کی ماں مختلف ڈاکٹروں کو دکھا رہی تھی لیکن ساجدہ کی بیماری قابو سے باہر ہوگئی تھی۔ اس کے مختلف ٹیسٹ ہوئے اور پھر یہ اندوہناک خبر آئی کہ اسے ہیپاٹائٹس سی ہوگیا ہے۔ اسے اسپتال میں داخل کرلیا گیا تھا۔ وہ علاج کراتے کراتے تنگ آگئی تھی۔ ایک دن میرے پاس آئی۔ میں تو اسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ یہ وہ ساجدہ تو نہ تھی… دبلی، پتلی، کالی سی یہ لڑکی تو کوئی اور ہی تھی۔ وہ بتارہی تھی کہ ڈاکٹر نے اسے چلنے پھرنے، بولنے، ہنسنے، کھانے پینے ہر چیز سے منع کردیا ہے۔ اسے سخت پرہیز بتایا گیا ہے اور بہت زیادہ آرام کے لیے کہا گیا ہے۔ اس کا بچہ سال سے اوپر کا ہوگیا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ ڈاکٹر اس کی طرف سے مایوس ہوگئے تھے، اور وہ اپنے بچے کی فکر میں تھی کہ اس کی دیکھ بھال کون کرے گا! ممتا کی ماری کو جب اولاد کی خوشی ملی تو خود اس کی صحت نے جواب دے دیا تھا۔ اور پھر ساجدہ اپنے بچے کو پالنے، اس کے ناز نخرے اٹھانے اور اس کی پرورش کی حسرت لیے اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلی گئی۔ کیسی ماں تھی جب تک زندہ رہی اپنے بچے کے لیے ترستی رہی، اور جب بیٹے کی نعمت ملی تو خود اس کی زندگی نے ہی وفا نہ کی۔ ساجدہ کی وفات کے بعد اس کے بیٹے کو جمیلہ (ساجدہ کی ماں) نے اپنے سینے سے لگالیا اور نواسے کو اپنے پاس ہی رکھ لیا، لیکن اس بدنصیب بچے کو ماں کے بعد نانی سے بھی چھڑوالیا گیا اور ایک دن اس کا باپ بہانہ کرکے اسے اپنے ساتھ گائوں لے گیا اور پھر پلٹ کر نہ آیا۔ نہ جانے وہ بچہ اب کس حال میں ہے۔ نانی نے بڑی کوشش کی کہ وہ اپنی بیٹی کی نشانی اپنے پاس رکھ لے لیکن اس کے ددھیال والے نہ مانے۔ خدا کرے وہ جہاں ہو خوش ہو، اور خدا ساجدہ کی روح کو بھی مطمئن رکھے اور اس کی مغفرت کرے۔ (آمین)

ماں‘ میرے لیے خاص کیوں ہے؟

ماں‘ میرے لیے خاص کیوں ہے؟


-محمد نور الہدیٰ
میری ماں میرے لیے خاص کیوں ہے؟ جب میں سخت بارش میں گھر آیا تو میرے بھائی نے استفسار کیا: تم نے چھتری کیوں نہیں لی؟ میری بہن نے کہا: تم نے بارش رکنے کا انتظار کیوں نہ کیا؟ والد صاحب نے تنبیہہ کی کہ تم بیمار ہوئے تو تمہاری خیر نہیں۔ مگر ماں، جو اب تک میرے بال خشک کررہی تھی بولی: اے بارش، میرے بچے کے گھر پہنچنے تک انتظار تو کرلیتی۔ یہ ہے ماں… نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھا کہ میں نے اپنی معذور ماں کو کاندھوں پر بٹھاکر حج کروایا ہے، کیا میرا حق ادا ہوگیا؟ ارشاد فرمایا: ابھی تو اُس ایک رات کا حق ادا نہیں ہوا جس رات تُو نے بستر گیلا کردیا تھا اور تیری ماں نے تجھے خشک جگہ پر سلایا اور خود گیلے میں سوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اپنی والدہ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے کوہِ طور پر تشریف لے گئے تو ایک غیبی آواز آئی: ’’اے موسیٰ، اب ذرا سنبھل کے آنا اور سوچ سمجھ کر گفتگو کرنا۔‘‘ حضرت موسیٰ بہت حیران ہوئے اور پوچھا ’’یاباری تعالیٰ وہ کیوں؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اب تمہارے لیے مجھ سے رحم و کرم اور عنایت کی دعا کرنے والی ماں اس دنیا میں نہیں رہی۔‘‘ ماں… احسانات، احساسات، خوبیوں اور جذبات کا وہ مجموعہ ہے جو سارے زمانے کے وار اور موسم کی سختیاں اپنے جسم پر سہتی ہے مگر اس کا ہر لمحہ رشتوں کو پیار کی ڈوری میں پروتے اور اپنی اولاد کے لیے خوشیاں خریدتے گزرتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک دوست کے پاس اُس کی والدہ کی وفات کا افسوس کرنے گیا تو اُس نے بتایا کہ اس کی ماں نے اس کی آسائشوں کی خاطر اس سے آٹھ جھوٹ بولے اور وہ چاہنے کے باوجود اس کے لیے کچھ نہ کرسکا۔ اس نے بتایا کہ ’’اس کی ماں ہمیشہ سچ نہیں بولتی تھی۔ وہ ایک غریب فیملی کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اکثر کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا۔ اگر کبھی کچھ مل جاتا تو ماں اپنے حصے کا کھانا بھی اسے دے دیتی اور کہتی تم کھالو مجھے بھوک نہیں ہے۔ یہ اس کی ماں کا پہلا جھوٹ تھا… تھوڑا بڑا ہوا تو ماں گھر کا کام ختم کرکے قریبی جھیل پر مچھلیاں پکڑنے چلی جاتی۔ ایک دن بالآخر اس نے دو مچھلیاں پکڑلیں، انہیں جلدی جلدی پکایا اور اس کے سامنے رکھ دیا۔ وہ کھاتا جاتا اور جو کانٹے کے ساتھ تھوڑا بہت لگا رہ جاتا اسے اس کی ماں کھاتی۔ اس نے دوسری مچھلی ماں کے سامنے رکھ دی۔ اس نے واپس کی اور کہا: بیٹا تم کھالو مجھے مچھلی پسند نہیں ہے۔ یہ اس کی ماں کا دوسرا جھوٹ تھا… جب وہ اسکول جانے کی عمر کا ہوا تو اس کی ماں نے ایک گارمنٹس فیکٹری میں ملازمت اختیار کرلی، سردی کی ایک رات جب بارش زوروں پر تھی، وہ ماں کا انتظار کرتا رہا جو ابھی تک نہیں آئی تھی، بالآخر وہ اسے ڈھونڈنے آس پاس کی گلیوں میں نکلا، دیکھا تو وہ لوگوں کے دروازوں پر کھڑی سامان بیچ رہی تھی، اس نے کہا: ماں اب بس بھی کرو، سردی بھی بہت ہے، رات بھی ہوگئی ہے اور تم تھک بھی گئی ہو، باقی کل کرلینا، تو ماں بولی: بیٹا میں بالکل نہیں تھکی۔ یہ اس کی ماں کا تیسرا جھوٹ تھا… ایک روز اس کا فائنل پیپر تھا، اس کی ماں نے ضد کی کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلے گی۔ وہ اندر پیپر دے رہا تھا اور وہ باہر دھوپ کی تپش میں کھڑی اس کے لیے دعا کررہی تھی۔ وہ باہر آیا تو اس کی ماں نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا اور ٹھنڈا جوس لے کر دیا۔ اس نے ایک گھونٹ لیا اور ماں کے پسینے سے شرابور چہرے کی طرف دیکھ کر جوس اس کی طرف بڑھایا تو بولی: مجھے پیاس نہیں ہے۔ یہ اس کی ماں کا چوتھا جھوٹ تھا… اس کے باپ کی موت ہوئی تو زندگی مزید مشکل ہوگئی، اکیلے گھر کا خرچ چلانا آسان نہ تھا، اکثر نوبت فاقوں تک آجاتی۔ رشتہ داروں نے ان کی حالت دیکھ کر ماں کو دوسری شادی کا مشورہ دیا مگر ماں نے کہا: ’’مجھے کسی سہارے کی ضرورت نہیں‘‘۔ یہ اس کی ماں کا پانچواں جھوٹ تھا… گریجویشن مکمل کرنے پر اچھی ملازمت مل گئی، سوچا اب ماں کو آرام کرنا چاہیے وہ بہت بوڑھی ہوگئی ہے۔ اس نے ماں کو کام سے روک دیا اور اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ اس کے لیے مختص کردیا۔ ماں نے انکار کیا اور کہا کہ اسے پیسوں کی ضرورت نہیں۔ یہ اس کی ماں کا چھٹا جھوٹ تھا… حصولِ روزگار کے لیے وہ بیرون ملک چلاگیا۔ کچھ عرصے بعد ماں کو اپنے پاس بلایا تو اس نے بیٹے کی تنگی کے خیال سے منع کردیا اور کہا کہ اسے گھر سے باہر رہنے کی عادت نہیں۔ یہ اس کی ماں کا ساتواں جھوٹ تھا… ماں کو کینسر ہوا، وہ بہت لاغر ہوگئی۔ وہ اپنی ماں کے قدموں میں بیٹھ کر خون کے آنسو رونے لگا، ماں اسے دیکھ کر مسکرائی اور بولی: مت رو بیٹا، میں ٹھیک ہوں۔ یہ اس کی ماں کا آٹھواں جھوٹ تھا، اور پھر اس کی ماں نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب ماں کی تخلیق کی تو اسے رحمت کی چادر، چاہتوں کے پھول، پاکیزہ شبنم، دھنک کے رنگوں، دعائوں کے خزانوں، زمین و آسمان کی وسعتوں، جذبوں، چاہتوں، چاند کی ٹھنڈک، خلوص، رحمت، راحت، برکت، عظمت، حوصلے اور ہمت کے تمام رنگوں سے مزین کیا، یہاں تک کہ اس کے قدموں میں جنت ڈالی۔ یوں ماں قدرت کا بہترین تحفہ اور عطیہ ہے جس کی قدر ہم پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔ ’’ماں‘‘… یہ لفظ بہت سے معنی اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے۔ ممتا، پیار، وفا، قربانی، محبت، لگن، سچائی، خلوص، پاکیزگی، سکون، خدمت، محنت، عظمت، دعا، سایہ، دوست، ہمدرد، راہنما، استاد، بے غرضی، معصومیت، عبادت، ایمان، دیانت، جذبہ، جنت، یہ سب ماں کی خوبیوں کی صرف ایک جھلک ہے، ورنہ اس کی خوبیاں تو اس قدر ہیں کہ لفظ ختم ہوجائیں مگر ماں کی تعریف ختم نہ ہوگی۔ پس ’’ماں‘‘… ایک ایسا موضوع ہے کہ قلم بھی جس کا احاطہ نہیں کرپاتا۔ اس موضوع پر بہت ضخیم کتب لکھی جاسکتی ہیں مگر ماں کے احسانات، احساسات اور چاہتوں کا بدلہ تب بھی نہیں چُکتا۔ والدین کے احسانات کے بارے میں سوچنے بیٹھیں بھی، تو سوچ ان کے احسانات کے مقابلے میں بہت پیچھے دکھائی دیتی ہے۔ مائیں عزم و حوصلے اور ایثار و قربانی کا پیکر ہوتی ہیں۔ ہم تو مائوں کی ایک رات کا قرض بھی نہیں چکا سکتے۔ میرزا ادیب اپنی کتاب ’’مٹی کا دیا‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اباجی مجھے مارتے تھے تو امی بچا لیتی تھیں، ایک دن میں نے سوچا کہ اگر امی پٹائی کریں گی تو اباجی کیا کریں گے؟ یہ دیکھنے کے لیے میں نے امی کا کہا نہ مانا، انہوں نے بازار سے دہی لانے کو کہا میں نے بات نہ مانی، انہوں نے سالن کم دیا میں نے زیادہ پر اصرار کیا، انہوں نے کہا پیڑھی کے اوپر بیٹھ کر روٹی کھائو، میں زمین پر دری بچھاکر بیٹھ گیا، لہجہ بھی گستاخانہ اختیار کررکھا تھا۔ مجھے پوری توقع تھی کہ امی ضرور ماریں گی، مگر انہوں نے مجھے سینے سے لگاکر کہا: کیوں بیٹا! ماں صدقے جائے تم بیمار تو نہیں؟ اُس وقت میرے آنسو تھے کہ شرمندگی کے مارے رکنے میں نہیں آرہے تھے۔ جب بھی میرے دل کی مسجد میں تیری یادوں کی اذان ہوتی ہے اے ماں میں اپنے ہی آنسوئوں سے وضو کرکے تیرے جینے کی دعا کرتا ہوں بلاشبہ ماں کا وجود ایک نعمت اور اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی انسان کامیاب ہے تو اس کے پیچھے اس کی ماں ہی کا ہاتھ ہے جس کا آج وہ ثمر پارہا ہے۔ ان کی مائوں نے پال پوس کر ان پودوں کو تناور درخت بنایا اور اپنی مائوں ہی کے طفیل آج یہ پیڑ عمدہ اور رسیلا پھل دے رہے ہیں۔ ان کی تربیت میں جو خوبیاں ہیں وہ ان کی مائوں ہی کی مرہونِ منت ہیں۔ ماں کا وجود صرف گھر کے لیے ہی نہیں بلکہ ہماری زندگیوں کے لیے بھی مقدس صحیفے کی مانند ہے۔ ماں تو تپتے صحرا میں بوند برسنے کا نام ہے۔ یہ کڑی، چلچلاتی دھوپ میں ابر کی مانند ہے۔ دعا ہے کہ جن کے والدین حیات ہیں خدا کرے ان کا سایہ ہمیشہ سلامت رہے اور وہ ہر دکھ، پریشانی، آفت اور آزمائش سے محفوظ ہوں۔ اور جو لوگ والدین کی نعمت سے محروم ہیں وہ اس دعا کا ورد کرتے رہا کریں: … رب ارحمھما کما ربینی صغیرا …

شہرت ۔ شاہ نواز فاروقی

شہرت

شاہ نواز فاروقی

-شہرت ہمیشہ سے انسان کا مسئلہ رہی ہے، لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے ایک شاعرکو یہ کہنا پڑا ؎ ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے دور میں ’’بدنامی‘‘ بھی شہرت کی ’’ایک قسم‘‘ بن کر سامنے آگئی ہے، اور دنیا میں کروڑوں لوگ ہیں جو بدنام ہوکر بھی مشہور ہونا چاہتے ہیں۔ یہ صورتِ حال قدروں کی تبدیلی کا نتیجہ ہے، اور جب قدریں تبدیل ہوتی ہیں تو ہنر، عیب بن جاتا ہے اور عیب، ہنر۔ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ زندگی کا اصل مسئلہ ’’ہونا‘‘ یا ’’نہ ہونا‘‘ ہے۔ لیکن ہمارے زمانے میں ’’ہونے‘‘ سے شاید ہی کوئی خوش ہوتا ہو۔ اس لیے کہ عصرِ حاضر کے انسان کی تگ و دو ’’مشہور ہونے‘‘ کی ہے۔ یہاں ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ بیج سے پودے کے ظہور، یا شاخ پر پھول کے کھلنے کا عمل بھی ایک فطری عمل ہے۔ یہ صرف وجود کی نمود ہے۔ اپنے ’’ہونے‘‘ کا اظہار ہے۔ اس کا اچھی یا بری شہرت سے کوئی تعلق نہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ پودے کی نمود یا پھول کے ظہور اور اس کی خوشبو سے پودے یا پھول کی موجودگی کی اطلاع کچھ نہ کچھ لوگوں کو ہو ہی جاتی ہے۔ انسان کا معاملہ بھی اگر یہی ہو تو پھر شہرت میں کوئی ضرر نہیں۔ لیکن شہرت کی نفسیات وجود کے فطری اور برجستہ اظہار پر قناعت نہیں کرتی۔ وہ خود کو ساری دنیا پر چھایا ہوا دیکھنا چاہتی ہے، اور مزے کی بات ہے کچھ کیے بغیر۔ ورنہ کہنے کو تو میرؔ صاحب نے بھی کہا ہے ؎ سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا مستند ہے میرا فرمایا ہوا ……… جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا یہ شاعرانہ تعلی ہے اور شاعر اکثر اپنے بارے میں اس طرح کی باتیں کرتے رہتے ہیں، لیکن میرؔ نے ان شعروں میں اپنی جس شہرت کی نشاندہی کی ہے وہ ’’مفروضہ‘‘ نہیں ہے، چنانچہ میرؔ نے جوکچھ کہا ہے وہ خودپسندی اور خودنمائی نہیں ’’امرواقع‘‘ کا بیان یا ’’امر واقع‘‘ کا اظہار ہے اور اس اظہارکا ایک اخلاقی جواز ہے۔ ہمارے مذہب، ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ میں شہرت پسندی کو کبھی پسند نہیں کیا گیا، اور اس کے مقابلے پر تواضع اور انکسار کو نمایاں کیا گیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ خود اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ رسول اکرمؐ سید الانبیاء تھے، خاتم النبیین تھے۔ لیکن آپؐ کی تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپؐ اپنے اصحاب کے درمیان بھی نمایاں ہوکر بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ نبوت کے ابتدائی زمانے میں جب مکے سے باہر لوگ آپؐ کو آپؐ کے چہرۂ انور سے کم پہچانتے تھے اکثر ایسا ہوتا کہ باہر سے کوئی شخص آپؐ سے ملنے آتا اور آپؐ صحابہ کرام کے درمیان بیٹھے ہوتے اور وہ کسی بھی صحابی پہ قیاس کرلیتا کہ وہ محمدؐ ہیں۔ اس صورت حال سے صحابہ کرامؓ کو بہت شرمندگی ہوتی۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ نے یہ روش اختیارکی کہ جیسے ہی کوئی آپؐ سے ملنے آتا صحابہ کرامؓ آپ ؐ سے الگ ہوکر بیٹھ جاتے تاکہ آنے والے کی نظر صرف آپؐ پر پڑے۔ رسول اکرمؐ کا یہ طرزعمل صرف خلوت سے متعلق نہیں تھا، جلوت میں بھی آپؐ یہی کرتے تھے۔ چنانچہ جب آپؐ صحابہ کرامؓ کے ساتھ کہیں باہر جاتے تو کبھی ان سے آگے چلنے کی کوشش نہ کرتے۔ آپؐ بیٹھتے تو اکثر اکڑوں بیٹھ جاتے اور فرماتے کہ اس طرح بیٹھنا بندے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ آپؐ جب ہمارے درمیان موجود ہوتے تھے تو معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ کوئی اولوالعزم نبی ہمارے درمیان بیٹھا ہے۔ آپؐ گھر میں اپنے کام خودکرلیتے، اپنے کپڑے خود سی لیتے، جوتا خود گانٹھ لیتے، یہاں تک کہ امہات المومنین کے لیے آٹا گوندھ دیتے۔ آپؐ کی تواضع، انکسار اور فروتنی کا یہ عالم تھا کہ مشرکین کے ساتھ امن سمجھوتا ہوا تو آپؐ نے دستخط کے طور پر اپنا نام محمدالرسول اللہ لکھا تو کافروں اور مشرکوں کے نمائندے نے کہاکہ ہم آپؐ کو رسول مانتے تو پھر جھگڑا ہی کیا تھا! چنانچہ آپؐ نے حضرت علیؓ سے کہا کہ محمد کے ساتھ لکھا ہوا رسول اللہ مٹادو۔ حضرت علیؓ نے ازراہِ محبت اور ازراہِ احترام ایسا نہ کیا تو آپؐ نے اپنے ہاتھ سے رسول اللہ مٹادیا۔ حضرت خالدؓ بن ولید اسلامی لشکرکے سپہ سالار تھے۔ ان کا لقب ’’سیف اللہ‘‘ تھا، مگر ان کی ’’شہرت‘‘ یہ ہوگئی تھی کہ خالد جس معرکے میں شرکت کرتے ہیں فتح حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عمرفاروقؓ نے حضرت خالدؓ بن ولید کی تمام تر عظمت کے باوجود انہیں ان کے منصب سے ہٹادیا اور ان کے بغیر اسلامی لشکر کو مہمات پر روانہ کیا اور فتح حاصل کی۔ دراصل حضرت عمر فاروقؓ یہ بتانا چاہتے تھے کہ فتح اللہ تعالیٰ کی عنایت اور اسلام کی برکت سے ملتی ہے، حضرت خالدؓ بن ولید کی ’’شخصیت‘‘ یا ان کی ’’شہرت‘‘ اس کا سبب نہیں۔ لیکن حضرت عمرؓ کا یہ طرزعمل صرف حضرت خالدؓ بن ولید کے ساتھ نہیں تھا، اپنے ساتھ بھی ان کا یہی معاملہ تھا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے دور میں مہرکی رقم بہت بڑھ گئی اور حضرت عمرؓ کو اندیشہ ہوا کہ اس سے کم وسائل رکھنے والے لوگوں پر بار ہوگا، چنانچہ انہوں نے مہرکی حد مقررکرنے کی نیت کا اعلان کیا۔ لیکن انہیں ایک بوڑھی عورت نے ٹوک دیا اور کہا کہ قرآن مجید مہرکی حد مقرر کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اور یہ کہہ کر قرآن کی متعلقہ آیت پڑھی۔ حضرت عمرؓ نے یہ سنتے ہی اپنی رائے واپس لے لی اور فرمایا کہ دین کے معاملے میں ایک عورت بھی عمرؓ سے زیادہ جانتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے آپؓ کو خیال بھی نہ آیا کہ آپؓ ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ ہیں۔ ’’عمرفاروقؓ‘‘ ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام میں شہرت کا حقیقی تصورکیا ہے؟ ایک روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ کو جب اپنے کسی بندے سے محبت ہوجاتی ہے تو وہ سب سے پہلے حضرت جبرئیل ؑ کو بتاتے ہیں کہ مجھے فلاں بندے سے محبت ہوگئی ہے۔ حضرت جبرئیلؑ یہ بات حضیرت القدس کے فرشتوں کو بتاتے ہیں جو بزرگ فرشتوں کی ایک مجلس ہے۔ حضیرت القدس کے فرشتے اس بات کا ذکر ملائے اعلیٰ کے فرشتوں سے کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ بات زمین پرکام کرنے والے فرشتوں تک پہنچ جاتی ہے، اور وہ یہ بات انسانوں کے قلوب پر القا کرتے ہیں۔ اس طرح ایک بندہ زمین پر مشہور ہوجاتا ہے۔ لیکن غورکیا جائے تو یہ بندے کے مشہور ہونے کی نہیں ’’محبوب‘‘ ہونے کی مثال ہے، اور اس کے مقابلے پر شہرت ایک معمولی چیز ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انسان کے تعارف کے تین درجے ہیں:(1) شہرت، (2) مقبولیت،(3) محبوبیت تجزیہ کیا جائے تو شہرت کا حال الائو سے اٹھنے والی ایک چنگاری کی طرح ہے۔ شہرت کے دائرے کو بہت پھیلایا جائے تو وہ زیادہ سے زیادہ ایک قندیل کی طرح ہے جو کچھ دیرکے لیے فضا کو روشن کرتی ہے اور پھر ہمیشہ کے لیے بجھ جاتی ہے۔ مقبولیت کا معاملہ چراغ جیسا ہے۔ اس میں چنگاری اور قندیل کے مقابلے پر زیادہ روشنی اور زیادہ پائیداری ہے۔ اس کے مقابلے پر محبوبیت کا معاملہ ستارے بلکہ چاند والا ہے۔ چنانچہ شہرت کے حصے میں زیادہ سے زیادہ رغبت آتی ہے، مقبولیت کے حصے میں انس آتا ہے، جبکہ محبوبیت کے حصے میں عشق آتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فی زمانہ شہرت وبا کیوں بن گئی ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی عظیم اکثریت کو شعوری یا لاشعوری طور پر یہ معلوم ہے کہ محبوبیت اور مقبولیت ان کا مقدر نہیں بن سکتی۔ ہمارے عہدکا المیہ یہی ہے کہ شہرت انسان کا تشخص یا Identity بن گئی ہے، جو شخص مشہور نہیں اس کا گویا کوئی تشخص ہی نہیں خواہ وہ ایک شریف، ایماندار اور صاحبِ علم آدمی ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن شہرت صرف تشخص بن جاتی تو صورت حال سنگین نہ ہوتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ شہرت انسان کی موجودگی یا Existence بن گئی ہے۔ جو شخص مشہور نہیں گویا وہ موجود ہی نہیں۔ چنانچہ لوگ شہرت فراہم کرنے والے ذرائع مثلاً اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ’’موجود‘‘ رہنے کے لیے اپنے پورے وجود کی قوت صرف کردیتے ہیں۔ شہرت میں ایک ایسی سنسنی ہے جو بے شمار انسانوں کے لیے زندگی یا قوتِ حیات کی ہم معنی بن جاتی ہے۔ یعنی لوگوں کی بہت بڑی تعداد شہرت کے وسیلے سے اپنے وجود کو محسوس کرتی ہے۔ تشخص، موجودگی اور زندگی کا احساس مل کر انسان کو’’قابلِ احترام‘‘ بنادیتے ہیں۔ اور جس انسان کا ایک تشخص ہو، جس کی دنیا میں موجودگی ثابت ہو، جس کی موجودگی محسوس بھی ہو اور جو قابلِ احترام بھی بن گیا ہو اُس کی طرف پیسہ بھی دوڑتا چلا آتا ہے۔ یہ پانچوں چیزیں مل کر انسان کے ساتھ’’عظمت‘‘ وابستہ کردیتی ہیں۔ لیکن بیشترصورتوں میں شہرت کی عظمت ایک دھوکا ہوتی ہے۔ اس لیے کہ شہرت شخصیت کی مصنوعی توسیع کا حاصل ہوتی ہے۔ اس کی پشت پر حقیقی معنوں میں کوئی بڑا کام موجود نہیں ہوتا۔ البتہ جب کسی شہرت کی پشت پر حقیقی معنوں میں کوئی بڑا کام موجود ہوتا ہے تو شہرت کی ضرر رسانی کم ہوجاتی ہے اور انسان کی شہرت پھر صرف شہرت نہیں رہتی، اس میں مقبولیت کا رنگ در آتا ہے۔

Friday, 11 May 2012

مومن کا زیور .... حیا

مومن کا زیور .... حیا

لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم 
مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ مغرب نے ریاست کو چرچ سے جدا کرکے بہت کچھ کھو دیا ہے چونکہ اس سے ریاستی امور ،اخلاقیات کی مہک سے محروم ہو گئے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ پہلی جنگ عظیم کی اندوہناک بھٹی میں جاگرا جہاں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے اور اتنی قتل وغارت گری ہوئی کہ خون کی ندیاں بہہ نکلیں پھر دوسری جنگ عظیم میں بھی کئی ملین انسانوں کو گیس چیمبرز میں ڈال کر گھاس پھوس کی طرح جلا دیا گیا۔اُن کا قصور یہ تھا کہ وہ عیسائی نہیں بلکہ یہودی تھے پھر جاپان میں کیا ہوا۔ سفاک حملہ آوروں نے انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ ایٹم بم گرا کر معصوم لوگوں کے دو ہنستے بستے شہروںیعنی ہیروشیما اورناگا ساکی کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا،یہ سب اخلاقی پستی کی کرب ناک داستانیں ہیں۔ کوریا، ویتنام،گلف وار،عراق او ر افغان جنگوں سمیت یہ ساری قتل وغارت صرف معاشی وسائل پرقبضہ کرنے کےلئے تھی جس کا اقوام متحدہ کے چارٹر کےمطابق کوئی قانونی جواز تھا نہ اخلاقی۔ اخلاقیات کی تباہی کی سلسلے میں آج کے جدید دور میں بھی کیا کچھ نہیں ہو رہا۔ گوانتاناموبے میں قیدیوں کو ننگا کرکے اُن پرکتے چھوڑے گئے، افغانستان میں مسلمان نوجوانوں کو قتل کرکے ان پر پیشاب کیا گیا او رپھر فلم بنائی گئی اورڈرون حملوں سے درجنوں بلکہ سیکٹروں بے گناہ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ یہ سب کچھ مذہب اور اخلاقیات سے دوری کا نتیجہ ہے ۔ اس حیوانیت کو انسانیت کہنا ، انسانیت کی توہین کے مترادف ہو گا۔ یہ سب کچھ جنیوا کنونشن کےخلاف ہے۔ 
دراصل ریاستی امور سے مذہبی سوچ اور اخلاقیات کا جنازہ اٹھ جانے کے بعد مغربی قوموں کے افراد بھی بے راہ روی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اب مغرب کا نعرہ ”آزادی “کا ہے اور یہ وہ آزادی ہے جس کو میں اورآپ اور ساری مہذب دنیا مادر پدر آزاد، آزادی کہتے ہیں۔ اس آزاد ی کا مطلب عریانی ہے اور بے حیائی بھی۔اس آزادی کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپکے جوان سال بیٹیاں یا بیٹے بے شک بغیر شادی کے اپنے جوڑے چن لیں اور حتی کہ ناجائز بچے بھی پیدا کرلیں توماں باپ کو یہ حق نہیں کہ وہ ان سے کوئی سوال بھی کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ میں ایسے بچوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

یورپ کے سمندری ساحلوں پر سیاحوں کے ہجوم میں سرعام بدکاری کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ سیکنڈے نیویا (ناروے‘ ڈنمارک اور سویڈن) میں فری سیکس کا قانون ہے۔ سال 2001ءمیں جب میں بطور چیئرمین واہ نوبل گروپ آف کمپنیز سویڈن کے شہرسٹاک ہوم گیا تو وہاں ایک پارک میں میں نے ایک اُدھیڑ عمر عورت کو جسے خاتون کہنا خواتین کی توہین ہوگی، ننگے پھرتے دیکھا ۔ میں نے اپنے میزبان سویڈن میجر سورن سے تذبذب میں پوچھا کہ اگر یہ عورت پاگل ہے تو ا س کو ہسپتال داخل کیوں نہیں کیا جاتا۔ اس نے جواب دیا کہ یہ پاگل نہیں یہ تو ایک آزاد شہری ہے اور اپنی زندگی کے مزے لوٹ رہی ہے ، ہمیں ا س سے کیا غرض، یہاں کا قانون اس کو ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔ میں سوچ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تو گائے، بھینس اور گدھی کو بھی اپنی شرم گاہیں چھپانے کیلئے دُم کی ہیں اور انسانوں کو عقل بخشی ہے کہ وہ لباس میں رہیں لیکن مغربی تہذیب تو لگتا ہے کہ حیوانیت سے بھی آگے نکل چکی ہے اور بدقسمتی سے اب یہ کینسر ہمارے معاشرے میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ 
ایک مومن، اہل ایمان اور مسلمان کا بہت قیمتی زیور ”حیا“ ہی ہے۔ آزادی بھی اس کو ضرور ہے لیکن اسلامی تعلیم کے مطابق صرف حدود و قیود کے دائرے کے اندر۔ نبی کریم کا فرمان ہے کہ:
” حیا ہمارے ایمان کا ایک لازمی جزو ہے“۔ 
قرآنِ کریم میں ارشاد ربانی ہے:
”جولوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے اُن کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا“۔ (سورئہ نور آیت۱۹)

اس طرح قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”اے پیغمبر اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ(باہر نکلا کریں تو)اپنے اُو پر چادر اوڑھ لیا کریں۔ یہ امر اُن کےلئے موجب شناخت ہوگا تو کوئی اُنکو ایذا نہ دےگا اورخدا بخشنے والا مہربان ہے“۔(سورہ الاحزاب آیت59)۔میں اپنی مرحوم بیگم کی مغفرت کیلئے دعاگو ہوں۔ چار عشروں کی رفاقت میں‘ میں نے انکے سر سے دوپٹہ سر سے سرکتے نہیں دیکھا۔ صرف 66 برس کے بڑھاپے میں ہی نہیں‘ بلکہ 24 سال کی جوانی میں بھی۔

بدقسمتی سے اب پاکستانی معاشرے میں بھی بے حیائی عام ہوتی جار ہی ہے۔ کیبلز پر انتہائی واہیات پروگرام دیکھ کر اب ٹیلی ویژن پر شرم وحیا سے عاری اشتہار بھی مہذب لگنے شروع ہو گئے ہیں۔پیمرا بالکل غیر موثر اور ناکارہ ہو چکا ہے یا اُنکے اندربے حیائی کو روکنے کی وہ ایمانی طاقت نہیں رہی جس کا اُن کا منصب متقاضی ہے۔ صرف احکامات نکال کر اُس پر عمل کی یقین دہانی نہ کرانے سے مسائل حل نہیںہونگے۔ ا س بے حیائی اور بدکاری کو دیکھ کر ہماری جوان نسل اور بچے جو ہمارا ایک انمول سرمایہ ہیں، اخلاقی پستی کا شکار ہو رہے ہیں۔ حیا کا پردہ پھٹ جائے تو انسان بے حیائی کے گہرے سمند رمیں غرق ہو جاتا ہے۔ موبائل ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور کیبلز نیٹ ورک کے غلط استعمال سے ہماری جوان نسل اخلاقی طور پر اس طرح تباہ ہو رہی ہے جیسے رانی کھیت کی بیماری سے لاکھوں مرغے اور مرغیاں یک دم ہلاک ہو جاتے ہیں۔ کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہماری جوان بیٹیاں اور بہنیں ناجائز بچوں کو جنم دیں۔ ٹی وی سکرینوں پر ہندوستانی اور مغربی افسوس ناک عریانی کے مناظر دیکھ کر ہمارے بچے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ جوان نسل اگر بے راہ روی کا شکار ہو گئی تو مستقبل کے پاکستان کا محافظ کون ہو گا؟ 8مئی کے ایک اردو اخبار میں یہ خبر پڑھ کر میرا کلیجہ منہ کو آ گیا کہ ضلع صوابی کے ایک گاﺅں میں ایک ماں نے اپنی نوجوان بیٹی کو تیزاب پلا کر موت کی نیند سلا دیا اور بیٹی نے اپنی ماں کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ وجہ یہ تھی کہ کنواری بچی ماں بننے لگی تھی۔ اسکے علاوہ ایک اور خبر کےمطابق پنجاب کے ایک دور افتادہ گاﺅں کی ایک خاتون ڈاکٹر گائنا کالوجسٹ نے اسلا م آباد کے ایک نہایت قابل احترام اور معروف صحافی جناب انصار عباسی کو ٹیلی فون پر بتایا کہ اسکے پاس آئے دن چھوٹی کنواری بچیاں ور اُنکی مائیں استقاط کرانے کیلئے آتی ہیں اور ایک ماں نے تو ڈاکٹر صاحبہ کو بتایا کہ اگر آپ نے ہماری بات نہ مانی تو ہم اپنی بچی کو زہر پلا دے دیں گے۔ قارئین ہمارے معاشرے کو تباہ کرنےوالا خطرناک وائرس یہی ہے۔

دُکھ کی بات یہ ہے کہ معاشرے کی اس بتاہ کن پستی کی طرف کسی کا بھی کوئی دھیان نہیں۔ نام نہاد روشن خیال والدین بھی اپنی اولاد کےساتھ ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھ کر واہیات گفتگو اور بے حیا مناظر کایہ گند ہضم کر جاتے ہیں۔ ٹی وی چینلز اور کیبل آپریٹرز صرف کمائی کے دھندے میں مصروف ہیں۔ قلم کاروں کو یہ معاشرہ کش دیمک نظر ہی نہیں آرہی اور حکومت اور پمرا کی ترجیحات تو بالکل مختلف ہیں۔ ملک کے صدر کے پارلیمانی نظام میں کوئی قانونی اختیارات نہیں، وزیراعظم کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت مجرم قرار دے چکی ہے ۔ سینٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کی سپیکر غیر جانب دار رہنا بھی چاہیں تو موجودہ نظام میں ایسا ممکن نہیں ۔ پاکستان صرف پاکیزہ اور نیک ماﺅں، بہنوں اور بزرگوں کی وجہ سے قائم ہے لیکن بے حیائی اوربدکاری کے پھیلتے ہوئے کلچر کو روکنے والا کوئی نہیں۔ ہمارے قانون سازاداروں کے منتخب ارکان اسمبلیوں میں بیٹھ کر شراب نوشی اور بدکاری کےخلاف سخت قوانین توبناتے ہیں لیکن شاہرہ دستور کو عبور کرکے جب وہ پارلیمانی لاجز تک پہنچتے ہیں توبہت سے وڈیرے اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔

ہماری ایک بدنصیب خاتون ایکٹریس کے ننگے فوٹو نہ صرف ہندوستان اور پاکستان بلکہ یوٹیوب پر پوری دنیا میں دکھائے گئے۔اسکے باوجود پاکستان کے کئی ٹی وی چینلوں نے اس عورت کو اپنے پروگراموں میں خوش آمدید کہا لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کو حاصل کرتے وقت تحریک پاکستان کے مجاہدوں کا نعرہ تھا ”پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الا اللہ“ کا قانون حرکت میں نہ آ سکا۔ بچوں کی تربیت گھر کی چار دیواری سے شروع ہو جاتی ہے۔ میری ڈیڑھ سالہ نواسی رامین جب مجھے او رمیری بیٹی کو نماز ادا کرتے دیکھتی ہے تو وہ بھی سر پر دوپٹہ لے کر سجدے کرتی ہے۔ انگلینڈ سے آئی ہوئی میری دس سالہ نواسی نتاشا بی بی کو جب میں نے کہا کہ بیٹاآپ کو پینٹ اور ٹی شرٹ میں دیکھ کر میں خوش نہیں ہوتاچونکہ اس سے جسم اچھی طرح ڈھانپا نہیں جا سکتا جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے منافی ہے تو وہ چند گھنٹوں میں اپنی ماں کےساتھ بازار جاکر شلوار قمیض اور دوپٹہ خرید لائی اور میرے سامنے کھڑی ہو کر کہنے لگی ”ابو جی اب میں کیسی لگ رہی ہوں“ تو میں نے ا س کا ماتھا چومتے ہوئے کہا ”اب آپ پری لگ رہی ہیں۔ اب اگلی بات اُس نے خود کہہ دی، کہنے لگی”ابو جی! میں نے قرآن شریف ختم کیا ہوا ہے ، اب نماز بھی شروع کرونگی“۔ یہ سن کر میرا دل باغ باغ ہوگیا۔ 

بچوں کو پیار سے سمجھا کر راہِ راست پر لانا ہمارا بہت اہم فریضہ ہے۔ اس سے بھی بڑی ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ بے راہ راوی کا پرچار کرنےوالے، ٹیلی ویژن اور کیبل نیٹ ورک کے لائسنس منسوخ کرے۔ بچے انٹرنیٹ سے ضرور مستفید ہوں چونکہ یہاں علم کا سمندر ہے،ٹیلی ویژن کے معلوماتی اورتفریحی پروگرام بھی ضرور دیکھیں لیکن اس آزادی کی وہ حدود و قیود نہ پھلانگی جائیں جن کا تعین گھر کے بزرگ اور والدین کریں چونکہ ”حیا “مومن کا زیور ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”کہہ دو کہ خدا بے حیائی کے کام کرنے کا ہرگز حکم نہیں دیتا“۔(سورة الاعراف آیت27)۔



Disclaimer :The views expressed by the author in this feature/article/news story are entirly his own and not necessarily reflect my views.