Search This Blog

Sunday, 5 February 2012

کیا ہم ناموس رسالت ﷺ کے علمبردار ہیں؟


کیا ہم ناموس رسالت ﷺ کے علمبردار ہیں؟
ڈاکٹر رخسانہ جبین

’’اللہم صل علی محمد بعد دخلقہ وزنۃ عرشہ ورضا نفسہ ومداد کلمات‘‘

الحمدللہ کہ ہم اس رحمتِ عالم آقا ﷺکی امت میں سے ہیں جن کی شان خود مالکِ کائنات نے ورفعنا لک ذکرک کہہ کر اتنی اونچی کردی کہ اس کے اوپر کوئی ذکر ہے تو وہ خود مالکِ کائنات کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان ظالموں کی ہرزہ سرائیوں سے بالاو برتر ہیں‘ پھر ان کو اس دیدہ دلیری کی ہمت کیسے ہوتی ہی؟؟ انہوں نے رب کائنات کو کیوں اور کیسے چیلنج کیا؟ یہ سوال آج 2.2 billions مسلمانوں کو اپنے آپ سے ضرور پوچھنا چاہیی! اپنے ایمان کو ٹٹولنا چاہیی! ہر مسلمان کو خود کو ضمیر کی عدالت میں کھڑا کرنا ہوگا کہ میرے آباء جس شخصیت کے وضو کا پانی زمین پر نہ گرنے دیتے تھی‘ میرے سامنے اس کی توہین کی جسارت کس طرح ہورہی ہی؟؟ اصل میں تو یہ عشقِ رسول ک ﷺے دعویداروں کا امتحان ہی! ایک جانب یہ کہ ہمارے دلوں پہ کیا گزری‘ دوسری جانب یہ وقت ہمارے احتساب اور جائزے کا ہی! بلاشبہ دل پارہ پارہ ہیں‘ دکھ سے بھرے ہیں‘ لیکن احتساب اس بات کا بھی ضروری ہے کہ جب سمندر کی جھاگ کے برابر آپ کے نام لیوا موجود ہیں تو کفر کو یہ جرأت کیسے ہوئی کہ وہ اس پاک ہستی کی ناموس کے درپے ہو جس کا ایک ایک نام لیوا ان کی حرمت پر کٹ مرنے کا دعویدار ہی؟ *

کہیں وہ ہمارے قول وعمل کی دورنگی تو نہیں جس نے ہمیں بحیثیت امت دنیا کے ترازو میں ہلکا کردیا ہے۔ ہمیں بحیثیت فرد بھی جائزہ لینا ہوگا اور بحیثیت امت بھی‘ اور اپنے اعمال کے آئینے میں اپنے دعویٰ عشق و محبت کو پرکھنا ہوگا‘ کیونکہ رب کی عدالتِ عظمیٰ میں تو خالی خولی دعویٰ قبول نہ ہوگا‘ وہ تو پکار پکار کر کہہ رہا ہی:

’’والعصر ان الانسان لفی خسر۔۔۔‘‘

یعنی ایمان وعشق کا وہ دعویٰ قبول ہوگا جس کے ساتھ عملِ صالح ہوگا‘ اور عملِ صالح ہی وہ عمل ہے جس کی دعوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی اور جس پر آپ نے تمام عمر عمل کیا۔ وہ اخلاق ومعاملات‘ وہ تہذیب جو آپ نے پیش کی‘ کیا وہی ہمارے لیے رول ماڈل ہی؟ یا ہم کسی اور سے مرعوب ہیں؟ ہمارا کردار کیا مثال پیش کرتا ہی؟ ہم جو عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوے داروں میں سے ہیں‘ سوچیں ذرا کہ: ہمارے گھر کون سا نمونہ دکھاتے ہیں؟ ہمارا میڈیا کیسی تصویر دکھاتا ہی؟ ہمارے معاشرے کی اٹھان کیسی ہی؟ آئیے ذرا ایک جھلک دیکھیں: اخبار یا رسالہ اٹھائیں توسرورق پر کوئی دختر ان مسلم برہنہ لباس میں جلوے بکھیرتی نظر آتی ہی! (دل دہل جاتا ہی) T.V کھولیں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی بیٹیوں کو رقص کرتے ہوئے پاتے ہیں! (توہین آمیز کارٹون آنکھوں کے آگے لہرا جاتے ہیں) ۔ اسکول کی بچی دوپٹہ اوڑھنے پر ٹیچر کی ڈانٹ اس لیے سنتی ہے کہ اس نے ڈسپلن خراب کردیا ہے (سوچ کا مقام ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ

وسلم سے عشق تو اس ٹیچر کو بھی ہوگا؟) کسی ریڑھی سے پھل خریدنے کے بعد گھر جاکر معلوم ہوتا ہے کہ آدھا پھل گلا سڑا ہے (بددیانتی کی وعید یاد نہیں؟) تھانے میں پولیس کسی بے گناہ پر کوڑے برساکر اس سے اقبالِ جرم کرواتی ہے (رحم کرنے والا فرمان سامنے نہیں ہوتا؟) کوئی جج رشوت لے کر کتنے ہی بچوں کو یتیم کردینے والے قاتل کو بری کردیتا ہے (انصاف کا حکم کیسے پس پشت ڈال دیا جاتا ہی؟) کوئی وزیر کمیشن لے کر قوم کے مفادات کو بیچ دیتا ہے۔ (ایفائے عہد کی تاکید بھول کر منافق کی فہرست میں کھڑا ہوجاتا ہی!)

چاروں طرف ڈنمارک کے بھیانک اخبار رقص کررہے ہیں اور ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں کہ کیا یہی تعلیمات تھیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی؟؟ کیا عشقِ نبی کا صرف یہی تقاضا ہے کہ ہم کچھ تقریریں کرلیں! کچھ جلوس نکال لیں! کچھ شیرینی بانٹ دیں! کچھ چراغاں کرلیں!

ترے حسنِ خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا

یا اس کا تقاضا ہمارے کردار وعمل کی پاکیزگی کا بھی ہی! اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کا بھی ہی! پیغامِ محمد ﷺ کو نافذ کرنے کی جدوجہد کرنے کا بھی ہی! یہ وقت آئینۂ عشقِ رسول ﷺمیں اپنی جھلک دیکھنے کا ہی‘ خود کو جانچنے اور پرکھنے کا ہی‘ اور یہ دوعملی اور دورنگی چھوڑنے کا ہی! رحمتِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن مکمل نہیں ہوسکتا جب تک زندگی کے ہر گوشے میں نظام مصطفی جاری وساری نہ ہوجائی! خواب گاہوں سے لے کر حکومت کے ایوانوں تک! اگر حکومت میں ناروے اور ڈنمارک کے گماشتے براجمان رہیں اور توہینِ رسالت اور حدود اللہ کی تنسیخ کے قانون پاس ہوتے رہیں اور ہم ان کو برطرف کرنے کی بات نہ کریں‘ اور ہم محض کبھی سڑکوں پر اور کبھی کسی ہال میں عشقِ نبی پر تقریریں کرتے رہیں اور ان کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے رہیں تو سوچ لیں۔۔۔۔۔۔ روزِ قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کیسے کریں گی؟ اور عشق کا کیا ثبوت پیش کریں گی؟

رسول اکرم ﷺ کا تعمیر کردہ معاشرہ

رسول اکرم ﷺ کا تعمیر کردہ معاشرہ

   عتیق الرحمن صدیقی

حضرت عبداللہ بن عمرؓ وہ جلیل القدر صحابی ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے اپنے تعلق کا آغاز 13 برس کی عمر میں کیا۔ آپ حضرت عمر فاروقؓ کے لخت ِجگر اور اُم المومنین حضرت حفصہؓ کے حقیقی بھائی تھے۔ آپؓ میں جذبہ اتباعِ رسول اوجِ کمال تک پہنچا ہوا تھا۔ ایک موقع پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ”عبداللہ بن عمر سے بڑا نقوشِ نبوی کی اتباع کرنے والا کوئی نہیں“۔ آپؓ اُس وقت تک کوئی حدیث بیان نہیں کرتے تھے جب تک اس کا ایک ایک حرف یاد نہ آجاتا۔ آپؓ کے ہم عصر کہتے ہیں کہ ”اصحاب ِرسول میں عبداللہ بن عمرؓ سے بڑھ کر اس بات سے خوف کھانے والا کوئی نہیں کہ وہ حدیث میں کوئی کمی بیشی کرے“۔ امام مالکؒ اور زہری کا قول ہے کہ ”حضرت عبداللہ بن عمرؓ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے امور میں سے کوئی چیز پوشیدہ نہ تھی“۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھی: ”تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک جواب دہ ہی‘ اپنے ماتحتوں کے معاملے میں: (ا) امام (اسلامی ریاست کا خلیفہ یا صدر) نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (ب) ہر شخص اپنے گھر میں (بال بچوں کا) حاکم ہے اور اپنی ذمہ داریوں کے لیے (خدا کے ہاں) جواب دہ ہے۔ (ج) عورت اپنے شوہر کے گھر میں (اس کے بچوں اور مال و دولت کی) ذمہ دار ہی‘ اور ان کے سلسلے میں اس سے بازپرس ہوگی۔ (د) نوکر اپنے آقا کی جائداد کا امین و محافظ ہی‘ اور اللہ کے ہاں اس پر اُس سے محاسبہ ہوگا“۔ ]راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا: ”اور آدمی اپنے باپ کے مال کا نگران اور امین ہے اور اپنی امانت پر جواب دہ ہے“[ (غور سے سنو) تم میں سے ہر ایک (اپنے اپنے دائرے میں) حاکم اور نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے ان لوگوں کی بابت پوچھا جائے گا جو اس کی نگرانی میں ہیں۔“ (صحیح البخاری‘ کتاب الجمعتہ‘ صحیح مسلم‘ کتاب الامارة) حقوق و فرائض کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ زنجیر کی کڑیوں کی مانند یہ ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ یہ پیوستگی جتنی زیادہ توانا اور تنومند ہوگی معاشرہ اتنا ہی صحت مند ہوگا۔ ایک مسلم معاشرے میں ایک فرد جو برضا و رغبت اللہ کی ربوبیت کا اقرار کری‘ اسلام کو دین حق تسلیم کرے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لائے اس کی ذمہ داریاں دوچند ہوجاتی ہیں۔ وہ اس امر کا پابند ہوتا ہے کہ جو امانتیں اللہ نے اس کے سپرد کی ہیں ان کی نگرانی اور حفاظت کرے اور خیانت سے مجتنب رہی‘ اسے ہر لحظہ یہ خیال دامن گیر رہے کہ وہ خودمختار اور آزاد ہرگز نہیں‘ بلکہ اپنی تمام تر قوتوں اور صلاحیتوں کے معاملے میں جو اس کے رب نے اسے دی ہیں اور جو دائرہ ¿ کار اس کے لیے متعین کیا ہے اس میں وہ اس کے سامنے جواب دہ ہی‘ اللہ کی عدالت میں اس کا پورا پورا احتساب کیا جائے گا اور اس کی عطا کردہ نعمت میں خیانت کی صورت میں اس کا مواخذہ ہوگا۔ یہاں اسلامی ریاست کے سربراہ کو بڑی صراحت کے ساتھ اور اسی تناظر میں ریاست کے تمام چھوٹے بڑے حاکموں اور عہدیداروں کو انتباہ کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے فرائضِ منصبی کی تکمیل میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں اور اپنی ذمہ داریوں سے خدا خوفی کے ساتھ عہدہ برا ہوں۔ اپنے زیردستوں کے حقوق ادا کرنے میں اگر وہ کوتاہی اور تغافل سے کام لیں گے تو قیامت کے دن وہ اللہ کی بازپرس سے ہرگز نہ بچ سکیں گی‘ اللہ تعالیٰ کے حضور ان سے پوچھا جائے گا کہ جو امانت ان کے سپرد کی گئی تھی آیا انہوں نے اس کا حق ادا کیا یا اس سے پہلوتہی کی؟ حضرت معقل بن یسارؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا: ”جو شخص مسلمانوںکے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار مقرر ہوا‘ پھر اس کی موت اس حال میں آئی کہ وہ ان کے ساتھ خیانت کرتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص پر جنت حرام کردی ہے۔“ (صحیح البخاری‘ کتاب الاحکام) ایک دوسری حدیث میں حضرت معقل بن یسارؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا: ”جس کسی شخص نے مسلمانوں کے اجتماعی معاملہ کی ذمہ داری قبول کی‘ پھر اس نے ان کے ساتھ خیرخواہی نہیں کی اور ان کے کام کی انجام دہی میں اپنے آپ کو اس طرح نہیں تھکایا جس طرح وہ اپنی ذات کے لیے اپنے آپ کو تھکاتا ہے۔ ]اور ابن عباسؓ کی روایت میں ہی: ”پھر ان کی حفاظت ایسے طریقے سے نہیں کی جس طریقے سے اپنی اور اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتا ہے“[ تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو منہ کے بل جہنم میں گرادے گا۔“ (طبرانی‘ کتاب الخراج) یزید بن ابی سفیانؓ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مجھے سپہ سالار بناکر شام کی طرف روانہ کیا تو اُس وقت یہ نصیحت فرمائی: ”اے یزید! تمہارے کچھ رشتہ دار ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ تم ان کو ذمہ داریاں سونپنے میں ترجیح دو۔ یہ سب سے بڑا اندیشہ ہے جو مجھے تمہاری طرف سے لاحق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکا ارشاد ہے کہ جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار ہو اور وہ مسلمانوں پر کسی کو حکمران بنائے محض رشتہ داری اور دوستی کی وجہ سی‘ تو اس کے اوپر اللہ کی لعنت ہوگی‘ اللہ اس کی طرف سے کوئی فدیہ قبول نہیں کرے گا‘ یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دے گا“۔ (کتاب الخراج‘ امام ابو یوسف) حضرت اسما بنت ِعمیسؓ کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو خطاب کرکے فرمایا: ”اے خطاب کے بیٹی! میں نے مسلمانوں پر شفقت کے پیش نظر تمہیں خلیفہ منتخب کیا ہے اور تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہی‘ تم نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح ہم کو اپنے اوپر اور ہمارے گھر والوں کو اپنے گھر والوں کے اوپر ترجیح دیتے تھی‘ یہاں تک کہ ہم کو جو کچھ آپ کی طرف سے ملتا اس میں سے جو کچھ بچ جاتا وہ ہم نبی کے گھر والوں کو ہدیہ بھیجتے تھے“۔ (کتاب الخراج‘ امام ابویوسف) زیر مطالعہ حدیث میں ایک جہانِ معنی پنہاں ہی‘ اس میں ایک اہم بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ ہر آدمی اپنے بال بچوں کے دین‘ اخلاق‘ اصلاح اور تربیت کا بھی نگران اور محافظ ہی‘ اس سے ان کے حقوق کے متعلق بھی پوچھ گچھ کی جائے گی۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: ”اے ایمان والو! تم بچاو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گی‘ اس پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو بڑے تند خو‘ سخت مزاج ہیں‘ نافرمانی نہیں کرتے اللہ کی جس کا اس نے انہیں حکم دیا ہی‘ اور فوراً بجا لاتے ہیں جو حکم انہیں دیا جاتا ہے۔“ (التحریم:6) اس آیہ کریمہ میں ایمان والوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائیں‘ اور مزید یہ کہ وہ اس ذمہ داری کو اپنے آپ تک محدود نہ رکھیں‘ بلکہ ان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے بال بچوں کو بھی دوزخ کی آگ سے بچانے کے لیے فکرمند ہوں۔ یہ ان کے لیے لازمی اور ضروری ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اپنے آپ کو آتشِ جہنم سے بچانے کی بات تو سمجھ میں آگئی‘ ہم اپنے اہل و عیال کو کیونکر جہنم سے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”تم انہیں اس طرح بچا سکتے ہو کہ جن چیزوں سے اللہ نے تمہیں روکا ہے تم اپنے بال بچوں کو بھی ان سے روکو‘ اور جن کاموں کو بجا لانے کا اس نے تمہیں حکم دیا تم انہیں بھی ان کے بجا لانے کا حکم دو“۔ جناب مقاتل کہتے ہیں کہ ہر آدمی کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ اپنے آپ کو‘ اپنی اولاد کو‘ اپنی بیوی اور اپنے خدام کو عذابِ جہنم سے بچانے کی سعی کرے۔ علامہ قرطبی نے الکیا کا قول نقل کیا ہی: ”ہم پر فرض ہے کہ ہم اپنی اولاد اور اہلِ خانہ کو دین کی تعلیم دیں‘ اچھی باتیں سکھائیں اور ادب و ہنر جس کے بغیر چارہ نہیں اس کی تعلیم دیں“۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکا یہ ارشاد بھی ہی: ” باپ پر اولاد کا حق یہ ہے کہ (جب وہ پیدا ہوں تو) ان کے لیے عمدہ نام تجویز کرے اور (جب وہ بڑے ہوں تو) ان کی تعلیم و تربیت کرے“۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان‘ بحوالہ السلسلة الضعیفة:199) ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہتر عطیہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کا حکم دو جب کہ وہ سات سال کے ہوجائیں‘ اور نماز کے لیے ان کو مارو جب وہ دس سال کی عمر کے ہوجائیں‘ اور اس عمر کو پہنچنے کے بعد ان کے بستر الگ کردو“۔ (سنن ابی داود‘ کتاب الصلوٰة) گویا سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز کی تلقین کی جانی چاہیے اور دس سال کی عمر میں اگر وہ نماز نہ پڑھیں تو انہیں سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ اس عمر میں وہ ایک ہی چارپائی پر نہ لیٹیں‘ ان کی خواب گاہیں جدا کردینی چاہئیں۔ بچوں کی دینی تعلیم اور تربیت کا اہتمام بچپن ہی سے کیا جانا چاہیے۔ اوائل عمر میں جو سبق دیا جاتا ہے اور جو طور اطوار سکھائے جاتے ہیں ان کے نقوش ان کے لوحِ دل پر مرتسم ہوجاتے ہیں‘ اور وہ اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ مٹائے نہیں مٹتے۔ والدین کا احترام‘ بڑوںکا ادب‘ چھوٹوں پر شفقت‘ دوسروں کے لیے ایثار‘ خوراک‘ پوشاک‘ نشست و برخاست‘ سچ بولنی‘ سچی بات کہنی‘ سلیقے سے گفتگو کرنے کی بہتر انداز میں ترغیب اس عمر میں دی جانی ضروری ہے۔ لمحاتِ فرصت کا صحیح استعمال‘ مطالعہ کی تشویق اور اچھی صحبت کا پابند بنانے کے لیے یہ نہایت موزوں وقت ہوتا ہے۔ اولاد کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے ناگزیر ہے کہ والدین حزم و احتیاط سے کام لیں اور ان کی نگرانی پر خاص توجہ دیں‘ رات کا اندھیرا چھا جائے تو انہیں گھروں میں سمیٹ لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شام کے وقت اپنے بچوں کو (گھروں میں) روک لیا کرو‘ کیونکہ اس وقت شیاطین کھلی فضا میں پھرتے ہیں“۔ (المستدرک للحاکم 4/284‘ کتاب الادب۔ امام حاکم‘ الذہبی اور الالبانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو: السلسلة الصحیحة:905) نیک بیویوں کے اوصاف قرآن پاک نے یوں بیان فرمائی: ”تو نیک بیویاں (شوہروں کی) فرماں بردار ہوتی ہیں اور (شوہر کی) پیٹھ پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں (شوہر کے مال و دولت اور عزت و آبرو کی) حفاظت کرتی ہیں“۔ (النسا: 34) ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” وہ (تمہاری بیویاں) تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو“۔ (البقرة: 187) مولانا سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں: ” تم ان کے ستر پوش ہو‘ وہ تمہارے لیی‘ تم ان کی زینت ہو وہ تمہاری‘ تم ان کی خوب صورتی ہو وہ تمہاری‘ تم ان کی تکمیل کا ذریعہ ہو وہ تمہاری‘ یہی نکاح کے اغراض ہیں اور انہی اغراض کو پورا کرنا حقوقِ زوجین کو ادا کرنا ہے“۔ (سیرت النبی‘ جلد ششم) رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں فرمایا: ”ہاں عورتوں کے بارے میں خدا سے ڈرو کہ وہ اللہ کی امانت کے طور پر تمہارے بس میں ہیں۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کو تم ناپسند کرتے ہو۔ اگر وہ ایسا کریں تو ان کو بس اتنا مارو کہ تکلیف دہ نہ ہو“۔ (صحیح مسلم‘ کتاب الحج) نبی اکرم نے فرمایا: ”عورت جبکہ وہ پانچوں وقت کی نماز پڑھی‘ رمضان کے روزے رکھی‘ اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اسے کہا جائے گا کہ تم جنت کے دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہو داخل ہوجاو“۔ (مسند احمد) اولاد کی پرورش اور ان کی نشوونما کا خیال ماں اور باپ دونوں کا ایک مشترک فریضہ ہے۔ دونوں مل کر ہی اپنے حسنِ عمل کے ذریعے اپنے بچوں کو رفعت ِکردار سے آراستہ کرسکتے ہیں۔ ان کے فکر و فہم کی تربیت میں دونوں کا حصہ ضروری ہی‘ البتہ خرچ کی کفالت تنہا باپ کی ذمہ داری ہے۔ عورت کا حقیقی میدان اس کا گھر ہے اور اس کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ وہ بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تربیت کا فرض خوش اسلوبی سے نبھائے۔ اسی تناظر میں رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگران اور ذمہ دار ہے اور اس سے ان افراد اور چیزوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی جن کی وہ نگران بنائی گئی ہے۔ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھروں کی دیکھ بھال تمہاری ذمہ داری ہے۔ یہی تمہارا جہاد ہے“۔ (مسند احمد) نیز فرمایا: ”ایک خاتون کی اپنے گھر میں گھر گرہستی کی محنت و مصروفیت مجاہدوں کے عملِ جہاد کو پالے گی اگر اللہ نے چاہا“۔ (کنزالعمال) ہندوستان کے معروف عالم دین اور مفکر مولانا محمد یوسف اصلاحی فرماتے ہیں: ”مسلمان ماں کسی وقت بھی اس حقیقت کو ذہن سے اوجھل نہ ہونے دے کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اور دین و ایمان سے غافل ہوکر اس زندگی کی کامیابی ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی۔ آپ کی اولاد کا شاندار مستقبل یہ ہے کہ وہ دینی علوم سے آراستہ ہو‘ دین میں گہری سوجھ بوجھ انہیں حاصل ہو‘ پاکیزہ اخلاق اور اسلامی تہذیب کے وہ نمائندے ہوں‘ سماجی حقوق ادا کرنے میں وہ چاق و چوبند ہوں‘ ان کی زندگیاں پاکیزگی‘ خدا ترسی اور پرہیزگاری کا نمونہ ہوں۔ والدین کے اطاعت شعار اور خدمت گزار ہوں اور وہ دنیوی زندگی کے اونچے سے اونچے منصب پر ہوتے ہوئے بھی دینِ حق کے سچے نمائندے اور مخلص خادم ہوں“۔ (حسن معاشرت) اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت صدقہ ¿ جاریہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہی: ”جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اپنے عمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہی‘ مگر تین چیزیں (ایسی ہیں جن کا اجر و ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہی): صدقہ جاریہ‘ یا ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں‘ یا نیک لڑکا جو اس کے لیے دعا کرتا رہے“۔ (صحیح مسلم‘ کتاب الوصیة) حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر آقا نے اپنے خادم کو اپنی جائداد کا امین بنایا ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس کی پوری پوری محافظت کرے۔ اولاد بھی اپنے ماں باپ کی جائداد میں ان کی مرضی و منشا اور اجازت کے بغیر تصرف کرنے کی مجاز نہیں‘ محافظ اور نگران ہونے کی وجہ سے قیامت کے دن اسے جواب دہی کے لیے حاضر کیا جائے گا۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو جتنا کچھ اختیار عطا کیا ہے اور اسے تھوڑے یا زیادہ جتنے لوگوں پر بھی اقتدار بخشا ہی‘ آخرت میں اس کا محاسبہ ضرور ہوگا اور وہ بازپرس سے ہرگز نہ بچ سکے گا۔

Friday, 3 February 2012

عہد حاضر اور سیرت طیبہ کے انقلابی پہلو

عہد حاضر اور سیرت طیبہ کے انقلابی پہلو

- شاہنواز فاروقی
رسالت کی تاریخ میں ہر نبی کی تاریخ انسانیت کے کمال اور انسانیت کے جمال کی تاریخ ہی‘ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کمال کے کمال اور جمال کے جمال کی تاریخ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت و رسالت کی تاریخ کا خلاصہ بھی ہیں اور اس پر اضافہ بھی ہیں۔ یعنی ایک لاکھ 24 ہزار انبیاءاور مرسلین کو جو کمالات حاصل ہوئے وہ سب رسول اکرم کو حاصل تھی‘ اور جو کمالات تمام انبیاءو مرسلین کو حاصل نہیں ہوسکے وہ بھی رسول اکرم کو فراہم ہوئے۔ مثال کے طور پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہیں‘ حضرت موسیٰؑ کلیم اللہ ہیں اور حضرت عیسیٰؑ روح اللہ ہیں‘ مگر ان میں سے کوئی بھی شافع محشر نہیں ہی‘ ان میں سے کسی کو تمام امتوں پر گواہ نہیں بنایا گیا‘ اور ان میں سے کسی کو معراج کی سعادت حاصل نہ ہوسکی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ جامعیت آپ کی ذاتِ گرامی کا سب سے بڑا انقلابی پہلو ہے۔ آپ کے عہدِ مبارک میں آپ کی جامعیت پوری طرح آشکار تھی اور صحابہ کرامؓ اس جامعیت کا کامل مظہر تھے۔ آپ صحابہؓ کرام کے لیے خاتم النبیین تھے۔ معجزے کی روایت کا بلند ترین مقام تھے۔ ہدایت کا آفتاب تھے۔ قیادت کا نقطہ ¿ عروج تھے۔ مثالی باپ تھے۔ مثالی شوہر تھے۔ مثالی دوست تھے۔ مثالی پڑوسی تھے۔ یہاں تک کہ صحابہؓ کرام آپ کی ایک ایک ادا کے عاشق اور مقلد تھے۔ لیکن آپ کی جامعیت کا یہ تصور بعد کے زمانوں میں باقی نہ رہا اور سیرت نگاری کی روایت پر زمانی اثرات غالب آنے لگے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ آپ کی ذاتِ گرامی کے معجزاتی پہلو کو سیرت نگاری میں مرکزی اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نوآبادیاتی طاقتوں کے غلبے نے ایک جانب دین کی جامعیت کے تصور کو کمزور کردیا تھا اور دوسری جانب روایتی علماءدین اور سیرت کی جامعیت کے اطلاق کی اہلیت سے محروم ہوگئے تھے۔ انہیں محسوس ہوتا تھا کہ اجتماعی زندگی کے بیشتر معاملات ان کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں اور ان دائروں میں سیرت کی ہدایت دستیاب تو ہے مگر یہ ہدایت قابلِ عمل نہیں رہی۔ چنانچہ انہوں نے رفتہ رفتہ ان دائروں میں سیرت کے بیان سے گریز شروع کردیا۔ سرسید انگریزوں سے مرعوب تھے اور انگریز پروٹسٹنٹ تھی‘ اور پروٹسٹنٹ معجزے کی روایت کے قائل ہی نہیں تھے۔ چنانچہ سرسید نے سیرت کے معجزاتی پہلو کو یکسر نظرانداز کیا۔ ان کو یقینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہوگی‘ مگر ان کی عقل پرستی نے انہیں سیرت کے حوالے سے عقیدت سے بڑی حد تک محروم کردیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر عقیدت اور جذبے سے اتنا عاری ہوکر کیا کہ انہوں نے سرورِ کونین‘ خاتم النبیین‘ سردار الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کو صرف ”محمد صاحب“ لکھنا شروع کردیا۔ حالی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے سچی محبت تھی‘ اور یہ محبت سرسید کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت سے کہیں بڑھی ہوئی تھی۔ لیکن حالی بھی سرسید کے زیراثر تھی‘ اس لیے انہوں نے نعت نگاری میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے معجزاتی‘ الٰہیاتی اور مابعدالطبیعاتی پہلو پر اصرار کرنے کے بجائے آپ کی ذات کے سماجی پہلو پر اصرار کیا۔ شبلی نعمانیؒ کی ”سیرت النبی“ سیرت کے برصغیری سرمائے میں قابل فخر مقام رکھتی ہے اور اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ شبلی نے سیرت کی جامعیت کو بھی ملحوظ رکھا ہی‘ لیکن عصری رجحانات کے جبر نے شبلی کے اسلوب کو اتنا زیادہ عقلی اور فلسفیانہ بنادیا ہے کہ سیرت کی جامعیت پس منظر میں چلی گئی ہے اور اسلوب کو مرکزیت حاصل ہوگئی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے 20 ویں صدی میں دین کی جامعیت اور کلیت کو زندہ کرنے میں مرکزی اور تاریخ ساز کردار ادا کیا ہی‘ لیکن بیسویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی گئی ہے۔ چنانچہ مولانا کی تحریروں پر مشتمل ”سیرت ِسرور عالم“ کی دو جلدوں کا مواد سیرت کی جامعیت کو بیان کرنے کے باوجود اپنے اسلوب میں سیاسی محسوس ہوتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیرت ِطیبہ کی جامعیت کی بازیافت عصر حاضر کا اہم ترین تقاضا ہی‘ اور یہ بازیافت ہر اعتبار سے انقلابی ہوگی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عہد ِحاضر میں انسانی حقیقت جس طرح ریزہ ریزہ ہوئی ہے اس کی کوئی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جدید عمرانیات کہہ رہی ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان کے سوا کچھ نہیں‘ جدید نفسیات دعویٰ کررہی ہے کہ انسان صرف ایک جبلی حقیقت ہی‘ معاشیات دعویٰ کررہی ہے کہ انسان صرف ایک معاشی وجود ہی‘ حیاتیات اصرار کررہی ہے کہ انسان ایک حیاتیاتی تشکیل یا Construct ہی‘ جدید لسانیات اعلان کررہی ہے کہ زبان کے دائرے سے باہر انسانی زندگی کا کوئی وجود ہے نہ اس کا کوئی مفہوم ہے۔ اس صورتِ حال نے سیرتِ طیبہ کیا عام انسان کے تصور کو بھی انسانیت کے حافظے سے محو کردیا ہے۔ مسلمان کہتے ضرور ہیں کہ ان کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ نمونہ ہی‘ لیکن جس طرح دنیا کی دیگر اقوام کی زندگی پر معاشیات یا سیاسیات کا غلبہ ہے اسی طرح مسلمانوں کی زندگی پر بھی انہی چیزوں کا تسلط ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیرت طیبہ کی جامعیت کی بازیافت صرف امتِ مسلمہ کی نہیں پوری انسانیت کی ضرورت ہے۔ لیکن پہلے یہ کام امت ِمسلمہ میں ہوگا‘ باقی ماندہ دنیا اس سلسلے میں امتِ مسلمہ ہی کی پیروی کرے گی۔ سیرتِ طیبہ کی انقلابیت کا ایک زاویہ یہ ہے کہ آپ دونوں جہان کے مالک ہونے کے باوجود دونوں جہان سے بے نیاز تھے۔ عصرِ حاضر میں اس بات کی اہمیت یہ ہے کہ دنیا تین منفی رجحانات کے نرغے میں ہے۔ دنیا کے کئی مذاہب انسانوں کو ترک ِ دنیا کی تعلیم دیتے ہیں۔ عیسائیت‘ ہندو ازم اور بدھ ازم میں بلند ترین روحانی زندگی کا تصور ترکِ دنیا سے وابستہ ہے۔ اس روش نے سیکولرازم کے مقابلے پر مذاہب کی اجتماعی قوت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ دنیا کا دوسرا منفی رجحان یہ ہے کہ مذاہب کے دائرے میں جو لوگ ترک ِدنیا کے قائل نہیں ان کی عظیم اکثریت دنیا پرستی کی بدترین صورتوں میں مبتلا ہے۔ اس دائرے میں بعض لوگ دین اور دنیا کا ”امتزاج“ پیدا کرتے ہیں تو اس امتزاج میں غلبہ دنیا کا ہوتا ہی‘ دین کا نہیں۔ چنانچہ یہ امتزاج صرف نام کا امتزاج ہوتا ہے ورنہ اس میں دین دنیا کے تابع ہوکر اس کے پیچھے چلتا ہے۔ دنیا کا تیسرا منفی رجحان یہ ہے کہ اس نے دین اور دنیا کی تفریق پیدا کرکے اسے اجتماعی زندگی میں ایک مستقل اصول بنادیا ہے۔ بلاشبہ اسلام میں دین اور دنیا کی تفریق کا کوئی تصور موجود نہیں‘ لیکن اکثر مسلم ممالک میں دین اور دنیا کی تفریق ایک حقیقت ہی‘ اور مسلم دنیا میں اس تفریق کے لیے جواز جوئی کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ سیرتِ ِطیبہ کا کمال یہ ہے کہ اس سے فکری سطح پر ہی نہیں‘ عملی سطح پر بھی ان تینوں عالمگیر منفی رجحانات کی بیخ کنی ہوجاتی ہی‘ اس لیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا نمونہ بتاتا ہے کہ آپ نے دنیا میں رہتے ہوئے اور اس کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے دنیا کو ترک کیا ہے۔ اس طرح آپ کی سیرت ِطیبہ کے حوالے سے ترکِ دنیا اپنی مثبت ترین صورت میں سامنے آتی ہے۔ اس ترک میں نہ دنیا سے فرار کی کوئی صورت موجود ہی‘ نہ اس دنیا پرستی کا کوئی امکان جو حقیقی خدا پرستی کو ناممکن بنادیتی ہے۔ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ِطیبہ سے دین اور دنیا کی تفریق کا تصور بھی باطل قرار پاجاتا ہے اور ثابت ہوجاتا ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی‘ نیز دنیوی اور اخروی فلاح دین اور دنیا کی یکجائی کے تصور میں ہے۔ مسلم دنیا میں دین اور دنیا کی تفریق کی بحث کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سیکولر عناصر اس بحث کو ایک تجرید یا Abstraction میں شروع کرتے ہیں‘ تجرید میں آگے بڑھاتے ہیں اور تجرید میں اسے ختم کردیتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں سیرت ِطیبہ کے حوالے کو آنے ہی نہیں دیتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیرتِ طیبہ کا تجربہ اتنا واضح‘ ٹھوس اور تفصیلی ہے کہ اس کو سامنے رکھنے کے بعد کسی چونکہ اور چنانچہ کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ معاصر دنیا کی ایک محرومی یہ ہے کہ اس میں مذاہب تو بہت پائے جاتے ہیں‘ عقائد و عبادات کا نظام اور رسوم و رواج تو بہت پائے جاتے ہیں لیکن اس میں اعلیٰ ترین کرداری نمونوں کا فقدان ہے۔ دنیا میں ایک ارب عیسائی موجود ہیں مگر ان کے سامنے کوئی کرداری نمونہ موجود نہیں۔ عیسائیوں کو حضرت عیسیٰؑ سے محبت ہے مگر حضرت عیسیٰؑ ان کے لیے ترکِ دنیا کی علامت ہیں‘ دنیا کے درمیان رہ کر زندگی بسر کرنے کی علامت نہیں۔ ہندووں کی آبادی بھی ایک ارب سے زیادہ ہی‘ مگر ان کے لیے رام اور کرشن پوجنے کے لائق لوگ ہیں‘ تقلید کے لائق نمونے نہیں۔ خود مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ انہیں داڑھی رکھنی ہو تو سیرت یاد آتی ہے‘ شلوار یا پاجامے کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر کرنے ہوں تو سیرت یاد آتی ہے‘ ہاتھ سے کھانا کھانا ہو تو سیرت یاد آتی ہی‘ لیکن انہیں جب کسی کو معاف کرنا ہو تو پھر یاد نہیں آتا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کتنے معاف کرنے والے تھے‘ انہیں پھر صرف یہ یاد آتا ہے کہ وہ کتنے طاقت ور اور دوسرا کتنا کمزور ہے۔ وہ کتنے غصہ ور اور دوسرا کتنا برفانی مزاج رکھتا ہے۔ وہ کتنے برتر اور دوسرا کتنا حقیر ہے۔ مسلمان جب تجارت کرتے ہیں تو انہیں یاد نہیں آتا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیسے تاجر تھے۔ انہیں اس وقت صرف یہ یاد رہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال کیسے کمایا جائے۔ مسلمان جب اپنی بیویوں سے معاملہ کرتے ہیں تو انہیں یاد نہیں رہتا کہ اس سلسلے میں سیرت کی مثالیں کیا بتاتی ہیں‘ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امہات المومنین سے کیسی محبت کرنے والے‘ ان کی دل جوئی کرنے والے اور ان کے گھریلو کاموں میں ان کا کیسا ہاتھ بٹانے والے تھے۔ مسلمانوں کو اپنی بیویوں کے حوالے سے کچھ یاد رہتا ہے تو بس یہ کہ عورتیں ان کی پاوں کی جوتی ہیں اور ان کا کام دن رات خدمت کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ ہم کہیں جاکر آباد ہوتے ہیں تو ہمیں کبھی یاد نہیں آتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے پڑوسی تھے۔ ہمیں وعدہ کرتے ہوئے کبھی احساس نہیں ہوتا کہ آپ کس حد تک ایفائے عہد کے پابند تھے۔ ہم پر خودپسندی کا بھوت سوار ہوتا ہے تو ہم کبھی یاد نہیں رکھتے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اتنے متواضع تھے کہ صحابہ کرامؓ کے درمیان بھی نمایاں ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔ مطلب یہ کہ انسانی تعلقات اور معاملات کی پوری کائنات میں ہمیں سیرت کا آفتاب کہیں روشن نظر نہیں آتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسانی تعلقات اور معاملات زہرآلود ہوگئے ہیں۔ چنانچہ عہدِ حاضر میں انسانی تعلقات اور معاملات کے حوالے سے سیرت ِطیبہ کا ”معمول“ بھی ”انقلابی“ رنگ اختیار کرلیتا ہی‘ اس لیے کہ سیرت ِطیبہ کے نمونے کی تقلید کے بغیر انسانی تعلقات کی گہرائی و گیرائی‘ ان کا حسن و جمال اور ان کی بے پناہ معنویت بحال کی جاسکتی ہے نہ معاملات کو صحت مند خطوط پر استوار کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زندگی میں خدا اور انسان کے سوا کچھ اہم نہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اصل انقلاب خدا اور انسانوں کے ساتھ انسانوں کے تعلقات میں انقلاب ہے۔ ہماری سیاست‘ ہماری سماجیات‘ ہماری معاشیات‘ ہمارے علوم اور ہمارے فنون کا انقلاب بھی یا تو خدا کے لیے ہے یا انسانوں کے لیے۔


Thursday, 2 February 2012

اے ظہور ِ تو شابِ زندگی .... 1

اے ظہور ِ تو شابِ زندگی ....

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

تاریخ مہم جو لوگوں کی ایسی ہلاکت خیز سرگرمیوں سے بھری پڑی ہے جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، مغلوب کرنے اور لوگوں پر تسلط قائم کر کے محکوم بنانے سے عبارت ہیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے حالانکہ اب تو انسان نے مہذب ہونے کا دعوی بھی کردیا ہے۔

ترقی یافتہ اقوام نے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور قیام امن کے عالمی ادارے بھی بنا لئے ہیں لیکن دوسروں پر حکومت کرنے کی پرانی انسانی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ گزشتہ دو صدیاں انہی ” مہذب“ اقوامِ عالم کی باہمی جنگوں میں لتھڑی ہوئی ہیں جن میں جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوم سر فہرست ہیں۔ ان بدترین انسانی معرکوں میں پوری انسانی تاریخ کی ہلاکتوں کے ریکارڈ ٹوٹے ہیں۔ بعد ازاں دو عالمی قوتوں(امرےکہ و روس) کے درمیان رسہ کشی شروع ہوئی۔ دونوں نے پوری دنیا کو اپنے اپنے دھڑوں میں تقسیم کیے رکھا اور سرد جنگ کے دوران ہلاکت خیز ہتھیاروں کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے ریکارڈ قائم کیے۔

فاتح قوت نے نےو ورلڈ آرڈر جاری کےا اور پھر ےہ انسانی فطرت آج کے دور جدےد مےں داخل ہوگئی اور اگلی جنگ کا آغاز کردیا گےا۔ اس دفعہ مےدان جنگ اسلامی ممالک قرار پائے۔ انتہا پسندی و دہشت گردی کےخلاف اور ”قےام امن عالم“ کےلئے لڑی جانےوالی اس حالےہ جنگ مےں ہزاروں بستیاں ویران اور عمارتیں کھنڈرات بن چکی ہیں اور لاکھوں لوگوں کو آتش و آھن کی بارش میں تہہ خاک کردیا گیا ہے۔

یہ تصویر ہے آج کے اس ”مہذب“ انسانی معاشرے کے حکمرانوں کی۔ انکے ”امن پسند“ عزائم کی اور ان کی انسان دوستی کے معیاروں کی.... اسی معاشرے کے دانشور، محقق اور مذہبی پیشوا اپنے تبصروں، تجزیوں اور کتب و رسائل کی تحریروں میں پیغمبر انسانیت حضور ختمی مرتبت نبی اکرم پر اعتراضات کرتے نظر آتے ہیں۔ کوئی آپ کی ذاتِ مقدسہ پر دہشت گردی کا الزام لگاتا ہے۔۔۔ کوئی آپ کو انسانیت کا دشمن ۔۔۔اور کوئی محبوب خدا کے دین کو انسانیت کےخلاف سازش گردانتا ہے۔ کسی نے قرآن کو خونی کتاب قرار دیا ہے تو کسی کی متعصبانہ تحقیق نے محمد کی تلوار کو خونریزی کا سب سے بڑا ذمہ دار ٹھہرایا۔ حقیقت کو خرافات کے پردوں میں لپیٹنے والے یہ نام نہاد دانشور، محقق اور سکالر محض اسلام اور پیغمبر اسلام کےخلاف باطنی تعصب، عداوت اور بددیانتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

حق پر الزامات کا یہ سلسلہ نیا نہیں بلکہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی پرانی انسانی تاریخ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حضور نے جنگیں لڑی ہیں۔ معرکوں میں حصہ لیا ہے اور حق و باطل کے ان معرکوں کی سپہ سالاری بھی فرمائی ہے مگر اس کا مطلب کیا یہ نکالا جائےگا کہ آپ کی ساری زندگی جنگ کے میدان میں گزری؟ نہیں، اےسا ہر گز نہےں ہے بلکہ حیاتِ طیبہ کے 10 سالہ مدنی دور میں معرکوں کا یہ دورانیہ صرف آٹھ سالوں پر منحصر ہے۔

پھر ان آٹھ سالہ معرکوں کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سب جنگےں دفاعی نوعےت کی تھےں۔ کوئی ایک بھی جارحانہ اقدام نہیں تھا۔ آپ نے جنگوں کے قوانین اور ضوابط متعین فرمائے اور کم سے کم جانی نقصان کا اصول اختیار فرمایا۔ یہ ساری جنگیں کیوں لڑی گئیں؟

تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ان معرکوں میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ اہداف کو حاصل کیا۔ چونکہ جہاد فی سبیل اللہ تھا اس لیے ان کا بڑا مقصد اللہ کے دین کو اللہ تعالیٰ کی دھرتی پر قائم کرنا تھا اور بس۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم پر ایمان رکھنے والا شخص کبھی بھی اپنے جیسے انسان پر اس لئے ہتھیار نہیں اٹھاتا کہ وہ توسیع ملک چاہتا ہے، ذاتی تسلط چاہتا ہے، ہوس جاہ و منصب چاہتا ہے یا تجارتی اور معاشی مفادات چاہتا ہے۔ اسکے جہاد کا مقصد تو قرآن نے متعین کردیا ہے کہ وہ دنیا کو فتنہ گر قوتوں سے محفوظ و مامون کرنا چاہتا ہے۔ خواہ یہ فتنہ و فساد کسی بھی قومیت یا فرد کی طرف سے پھیل رہا ہو۔

اسلام کی تاریخ نے بالعموم اور حضور کی حیاتِ مقدسہ نے بالخصوص ثابت کیا ہے کہ اسلام نے کسی محدود نظریے، قومیت، نسب، لسانی شناخت یا جغرافیائی خطے کے حصول کیلئے معرکہ آرائی نہیں کی۔ حضور نے بےشتر بانیان مذاہب اور فاتحین عالم کے برعکس اپنی کاوشوںکا مرکز فلاح انسانیت ہی رکھا۔ کبھی سروں کو فتح کرنے کی تعلیم نہیں دی، ہمیشہ دلوں کو فتح کرنے پر زور دیا اور صاف ظاہر ہے کہ دل تیغ سے نہیں تبلیغ سے فتح ہوتے ہیں۔ اسلام نے جس قدر فتوحات حاصل کیں، جتنی تیزی سے دنیا کے اطراف و اکناف میں پھیلتا چلا گیا اور آج بھی اسکی نورانی کرنیں ظلمت شب کے پردوں سے جھانک رہی ہیں تو اسکے پیچھے لشکر و سپاہ کا عمل دخل نہیں رہا بلکہ دل و نگاہ کی جلوہ ریزیاں کارفرما رہی ہیں۔ ہاں وہاں وہاں لشکر و سپاہ کی ضرورت بھی پڑتی رہی جہاں جہاں عقل و شعور پر انسان دشمن اندھے اقتدار کے پہرے مسلط تھے۔ (جاری.........)

القاعدہ، اسامہ بن لادن کے بعد ؟

القاعدہ، اسامہ بن لادن کے بعد ؟

عالمگیر آفریدی  
 
-امریکا کی ایک معرو ف ریسرچ آرگنائزیشن ”رینڈکارپوریشن،، نے ”القاعدہ،اسامہ بن لادن کے بعد، امریکی حکمت عملی پر پڑنے والے اثرات،،کے عنوان سے مرتب کردہ اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں القاعدہ کے پس منظر اور اس کے مستقبل کے عزائم پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ واضح رہے کہ یہ رپور ٹ ا مریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے مسلح افواج کی ممکنہ خطرات اور صلاحیتوں سے متعلق ذیلی کمیٹی کے سامنے بھی پیش کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق القاعدہ کی طرف سے ممکنہ خطرات کے بارے میں تجزیہ نگاروں میں بہت کم اتفاق پایا جاتا ہے ۔کچھ کے خیال میں اسامہ بن لادن کی موت کے بعد القاعدہ دم توڑ چکی ہے اور روبہ تنزل ہے جب کہ بعض کہتے ہیں کہ القاعدہ پہلے کی طرح سرگرم عمل ہے خصوصاً جزیرہ نما عرب میں اس کے نظریات کا پھیلا و اور انٹرنیٹ پر اس کی تشہیر، مہلک ہتھیاروں کے حصول کی کوشیش اور افغانستان وپاکستان کے مشکل حالات جیسی باتوں سے اس کی فعالیت کا پتا چلتا ہے۔ 

رپورٹ کے مطابق القاعدہ اپنے پانچویں مرحلے یعنی ”پوسٹ بن لادن فیز ،،سے گزر رہی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ2007ءسے القاعدہ کی پسپائی کا آغاز ہوا یعنی اس دور میں القاعدہ عراق اور افغانستان سے باہر بڑی کارروائیاں کروانے میںناکام رہی ۔ا لقاعدہ کے چوتھے مرحلے کا اختتام اسامہ بن لادن کی موت کی صورت میں ہوا۔ مذکورہ رپورٹ میںاسامہ بن لادن کے بعد کی القاعدہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گزشتہ دس سالوں کے دوران القاعدہ کے خلاف خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ القاعدہ کے کام کرنے کی صلاحیتوں میں کافی کمی واقع ہوئی ہے ۔اس کی قیادت سمٹ چکی ہے اور فوجی تنظیم منتشر ہے۔ 2005کے بعد اس نے مغرب میں دہشت گردی کی کوئی بڑی کاروائی نہیں کی لیکن اپنے مشن کوجاری رکھنے کے لیے اس کی قوت ارادی اور ہمت میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ اس رپورٹ میں مزیدکہا گیا ہے کہ القاعدہ انفرادی جہاد اور اپنی مدد آپ کے تحت دہشت گرد واقعات کی حامی ہے۔ ان کے رابطہ کار تنظیم کے وجود کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور انفرادی جہاد کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ وہ مختلف قسم کی مزاحمتوں سے بچناچاہتے ہیں۔ القاعدہ کی یہ نئی حکمت عملی اس کے سابقہ مرکزی کردار اور خیالات کے منافی اور موجودہ حقائق کی ترجمانی کرتی ہے ۔ دس سالہ دہشت گردی اور بغاوت کے خلاف لڑنے سے ہمیں تاریخی پس منظر کی حامل وہ معلومات حاصل ہوئی ہیںجن سے ہمیں بحیثیت ایک قوم خطرات لاحق ہیں۔القاعدہ چونکہ بہت آگے جا چکی ہے اس لیے ہم امریکیوں کو بھی اسی رفتار سے آگے بڑھتے ہوئے اس کا حل ڈھونڈ نا ہوگا ۔ ہمیں کسی بے سرو پا پالیسی نہیں بلکہ باقاعدہ اصولوں کی بنیاد پر وضع کی گئی پالیسی پر بات کرنی چاہیے ۔ اگر چہ جہادی تنظیمیں کمزور ہو چکی ہیں لیکن وہ اب بھی مسلسل خطرے کی علامت ہیں اور القاعدہ کے تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خود کو موقع محل کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کا مقصدصرف امریکہ کو کمزور کرنا اور موقع پاکر دوسرے مقامات سے اپنے مشن کو جاری رکھناہے ۔ ان کو جڑ سے ختم کرنا انصاف کا تقاضا ہے تاکہ یہ نشان عبرت بنے اور اسے آئیندہ کبھی بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف حملہ کرنے کی جرات نہ ہو سکے۔ القاعدہ امریکیوں کے حواس پر کتنی سوار ہے اس کا اندازہ اس رپورٹ میں موجود تفاوت سے باآسانی لگا یا جا سکتا ہے۔ 

رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ ایمن الظواہری کے القاعدہ کے رہنما کی حیثیت سے منظر عام پر آنے سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اسامہ بن لادن کے موت کے بعد بھی امریکہ پر القاعدہ کے حملے جاری رہیں گے۔ جب کہ دوسری جانب اس رپورٹ میں اسامہ کی ہلاکت کا کریڈٹ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسامہ کے موت کے بعد القاعدہ کافی حد تک غیر مستحکم اور منتشر ہو چکی ہے اور اس کے خطرات کافی کم ہو چکے ہیں۔ کوئی جانشین اسامہ کی جگہ نہیں لے سکتا اور القاعدہ اب ہر جگہ خود مختار کمانڈروںکے زیر اثر رہ کر صرف عقیدے کے لحاظ سے یکجا ہے۔ آج کی القاعدہ میں 9/11کی طرز اور کیفیت کے حملے کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تاہم اس سے احتیاط ضروری ہے۔تیونس اور مصر میں انقلابات اور عرب بادشاہتوں کی کمزور یوں سے القاعدہ کو فائدہ ملتا ہے اور اگر ان انقلابات کو نابود کیا جائے تو بھی القاعدہ کو دوبارہ سے ان ممالک میں جگہ بنانے کا موقع مل سکتا ہے۔ یہاں ہمیں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ ان انقلابات سے وہ منظم اسلامی جماعتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں جن کے خیالات القاعدہ کی طرح خطرناک ہیں۔ یہ القاعدہ اور امریکہ دونوں کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔

اس رپورٹ میں پائے جانے والے اس تضاد سے یہ رائے سو فیصد درست معلوم ہوتی ہے کہ القاعدہ اور اسامہ کا ہوا امریکہ نے اپنے بعض مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کھڑا کیا تھااور اب جب عراق اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا چکی ہے اور اس خطے میں امریکہ اپنے مفادات حاصل کر چکا ہے توامریکی حکمران اسامہ کی شہادت کو اگر ایک طرف اپنی فتح سے تعبیر کر کے اس کا کریڈٹ آئندہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں حاصل کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف القاعدہ کو امریکی مفادات کے لیے خطرہ قرار دے کر اسے مستقبل میں بھی ایک سیاسی آلے کے طور پرزندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکی دانشور ایک طرف تو عرب دنیا میں رونما ہونے والے انقلابات کو جمہوریت کی فتح اور عرب ڈکٹیٹر رہنماوں کے اقتدار سے ہٹنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں پھر ایک ہی سانس میں عرب ممالک میں اسلام پسندوں کی انتخابی کامیابیوں اور بڑھتے ہوئے اثرات کو القاعدہ کے نظریات کے تناظر میں دیکھتے ہوئے ان تبدیلیوں کو امریکی مفادات کے لیے سنگین خطرات سے تعبیر کیا جا تا ہے۔ 

امریکیوں کے خبث باطن کا واضح اندازہ رپورٹ کے اس ایک جملے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عرب ممالک میں جمہوریت پر یقین رکھنے والے اسلام پسندوں کی جمہوری فتح القاعدہ اور امریکہ دونوں کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ امریکی دانشور جو جمہوریت کے نام نہاد چیمپئن ہیں اور جو عرصہ دراز سے عرب ڈکٹیٹروں اور بادشاہوں کے خلاف جمہوری جدوجہد کی تھیوری کی حد تک حمایت کرتے رہے ہیں لیکن اب جب مصر ، تیونس ا ور مراکش میں اسلام پسند جمہوری قوتیں تمام تر ریاستی دباو ، منفی ہتھکنڈوں اور نصف صدی سے ان تنظیموں پر ڈھائے جانے والے ریاستی ظلم و تشد کے باوجود بر سر اقتدار آگئی ہیں تو امریکہ کے نام نہاد آزاد خیال جمہوریت پسنددانشور اسلام پسندوں کی کامیابی کو القاعدہ سے تشبیہہ دے کر ان کی کامیابی کو مغربی مفادات کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں ۔ اسلام پسندوں کی پر امن جمہوری جدوجہد اور اس کے نتیجے میں ان کے بر سر اقتدار آنے سے چونکہ القاعدہ جیسی تشدد اور طاقت کے زریعے اقتدار میں آنے پر یقین رکھنے والی تنظیموں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور ان کا میابیوں سے چونکہ عالم اسلام اور بالخصوص عالم عرب کا امریکی پروپیگنڈے کے برعکس آیا ہے ۔ اس لیے امریکی کے لیے تمام تر زمینی حقائق کے باوجود اسلام پسندوں کی فتح کے اس کڑوے گھونٹ کو اپنے حلق سے اتارنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔اس امریکی پریشانی اور تشویش کا عکس زیر نظر رپورٹ میں ہر کوئی باآسانی دیکھ اور محسوس کر سکتاہے۔

Wednesday, 1 February 2012

طاقت کا خمار اتر گیا


طاقت کا خمار اتر گیا ، امریکہ طالبان سے مذاکرات پر مجبور
بالآخر وہ تاریخی لمحہ آگیا جس کا انتظار تھا۔امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں مذاکرات شروع ہوگئے او ر امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ حتمی مذاکرات انشاء اللہ سعودی عرب میں ہوں گے جس کے بعد افغانستان کا نیا منظر نامہ سامنے آئے گا۔
امریکی آج کی دنیا کی طاقتور ترین قوم ہیں اس لئے جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو اس کا خیال تھاکہ اس کی زبردست فضائی طاقت طالبان کو کچل کر رکھ دے گی جس کے بعد افغانستان کی قسمت کا فیصلہ واشنگٹن کرے گا لیکن کوئی فرد ہو یا قوم اس کی قسمت کا فیصلہ تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کرتے ہیں۔
افغانستان میں امریکی غرور ، طاقت ، تکبر اور گھمنڈ کو قدرت نے کس طرح خاک میں ملایا اس کا علم دنیا کے ہر فرد کو ہے۔ یقینی طور پر امریکیوں کو بھی اس بات کا احساس ہوا ہوگا کہ انہوں نے جو سوچا تھا، جو چاہا تھا ویسے نہیں ہوا لیکن انہیں اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ان کی ہر خواہش تشنہ کیوں رہی؟
حضرت علی کا فرمان ہے کہ،، میں نے اللہ کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا،، سو افغانستان میں امریکیوں کے لئے ایک بہت بڑا سبق ہے اگر ان میں اسے سمجھنے کی حس باقی ہے۔
امریکیوں کے لئے یہ بات بھی سمجھنے کے قابل ہے کہ اس کائنات کی سب سے بڑی طاقت اللہ ہے سو اللہ ان لوگوں کو نیست و نابود کر دیتے ہیں جو تکبر کی انتہائوں کو چھونے لگیں۔ وہ کمزوروں کے لئے غیب سے اسباب مہیا کر دیتے ہیں اور تکبر میں مبتلا لوگوں کو عبر ت کا نشان بنا دیتے ہیں اور تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔
دنیا کا ہر مذہب امن و آشتی اور انسانیت کا سبق دیتا ہے۔ کوئی بھی مذہب بے گناہ انسانوں کا خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا اور کسی بھی مذہب کے ماننے والے جب خدائی حدود کو پامال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے ہاتھ سوائے رسوائی کے اور کچھ نہیں آتا۔ امریکہ نے طاقت کے نشے میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے لیکن جاپانی قوم آج بھی نہ صرف زندہ ہے بلکہ معاشی اعتبار سے دنیا کی ایک طاقتور قوم کے طور پر موجود ہے۔ امریکیوں نے ویت نام میں طاقت کا وحشیانہ کھیل کھیلا لیکن ویت نام آج بھی ایک حقیقت کے طور پر دنیا میں موجود ہے۔ امریکیوں نے کئی عشروں تک کیوبا کے ساتھ دشمنی کی لیکن کیوبا آج بھی ایک حقیقت کے طور پر دنیا میں موجود ہے۔ انہوں نے عراق میں طاقت کا خونیں کھیل کھیلا لیکن عراق موجود ہے اور رہے گا۔ وہ طاقت کے گھمنڈ میں افغانستان پر چڑھ دوڑے اور اپنے ڈیزی کٹر بموں سے پہاڑوں کو بھی ریزہ ریزہ کر دیا لیکن افغان عوام سے آزادی کا جذبہ نہیں چھین سکے۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ انسان کتنی ہی طاقت استعمال کر ڈالے لیکن اپنے جیسے انسانوں کی روحوں اور ان کی سوچ کو غلام نہیں بناسکتا۔ انسان چونکہ ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوا ہے اس لئے غلامی اس کی فطرت کے خلاف ہے ۔ امریکہ کو اب اس بات کا یقین ہو جانا چاہیے کہ انسان اور انسانیت کے خلاف مہم جوئی ہمیشہ مہنگی پڑتی ہے۔ اس کے لئے اس بات میں بھی عبرت کا سامان ہونا چاہیے کہ اس کے ساتھ جو ملک اتحادی بن کر چلے تھے وہ ایک ایک کرکے اس سے الگ ہوتے چلے گئے کیونکہ اس کا ساتھ دینے والے ہر ملک کے عوام نے اپنے حکمرانوں کا محاسبہ کیا اور انہیں مجبور کیا کہ وہ ایک خلاف انسانیت کام میں حصہ نہ لیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ واشنگٹن کو پوری نیک نیتی سے مذاکرات کرنے چاہئیں کیونکہ جن لوگوں کے ساتھ وہ بات چیت کر رہا ہے ان کے دور میں افغانستان بہت بہتر تھا۔ جن کو وحشی ، اجڈ اور گنوار سمجھا گیا انہوں نے پوست کی فصلوں کو تلف کرکے اور منشیات کا خاتمہ کرکے امریکہ ، یورپ سمیت پوری دنیا پر بہت بڑا احسان کیاتھا ان کے دور میں چوری ، ڈاکہ اور راہزنی کی وارداتیں ختم ہوگئی تھیں اور یہ آج بھی افغانستان کو جنت کا نمونہ بناسکتے ہیں۔ ان کے ساتھ طاقت اور دھونس سے بات کرنا پرلے درجے کی حماقت ہوگی۔ بہتر ہوگا کہ اب امریکہ اپنے کردار کو مکمل طور پر بدل ڈالے اور حسن سلوک کے ذریعے لوگوں کو اپنا دوست بنائے تاکہ لوگ دل سے اس کا احترام کریں۔

ترکی: سیکولرازم کو ہزیمت

ترکی: سیکولرازم کو ہزیمت













(محمد احمد ترازی)

وہ ترکی جو 623برس تک خلافت عثمانیہ کا مرکز رہا اور جسے چھ صدیوں تک عالم اسلام میںمرکزی حیثیت حاصل رہی،یکم نومبر 1922ءکو اپنی مرکزی حیثیت کھو بیٹھا۔جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتا ترک نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ملک کا نظم و نسق چلانے کیلئے سیکولر ازم کا سہارا لیا،جس کی وجہ سے صدیوں تک دنیائے اسلام کی قیادت کرنے والی ریاست اپنی مسلم شناخت اور تشخص سے یک لخت محروم ہو گئی۔ مصطفی کمال پاشا نے مغرب کی تقلید اور تائید و حمایت کیلئے مذہب سے نفرت کو سیکولر ازم کی تعریف قرار دیا اور اسے ہر شعبہ ہائے زندگی سے خارج کر دیا،اُس نے ترکی کو مغربی ممالک کے ہم پلہ بنانے کےلئے سب سے پہلے اسلام کو زد پر رکھا، مدارس کو بند کر دیا گیا ، قرآن کریم کا پڑھنا اور تعلیم دینا جرم قرار پایا ،مساجد میں عربی زبان میں اذان دینے اور حج کی ادائیگی پر بھی پابندیاں لگا دی گئی،عورتوں کےلئے پردہ موقوف کر دیا گیا۔ مرد و خواتین کو جبراً مغربی لباس پہننے پر مجبور کیا گیا، ترکی ٹوپی ممنوع قرار دے دی گئی، نام اختیار کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا اور وہ نام رکھے جانے لگے جن سے کبھی مسلمان ہونے کی بو نہ آئے،اسلامی کلینڈر کا خاتمہ کر دیا گیا۔اسلام کے عائلی قوانین ختم کر کے اُس کی جگہ سوئس قوانین کو آئین کا حصہ بنایا گیا، نتیجتاً کثرت ازدواج بھی ممنوع ہو گئی اور حال یہ ہوگیا کہ 98 فیصد مسلمانوں کے حامل ملک میںایک سے زائد شادی کرنے والے افراد دوسری بیوی کو اپنی گرل فرینڈ قرار دیتے تو اُن سے کوئی باز پرس نہ کی جاتی، البتہ دو بیویاں رکھنے پر دھر لیا جاتا۔ عربی رسم الخط کو کالعدم قرار دے کر لاطینی رسم الخط اختیار کیا گیا، چن چن کر عربی اور فارسی الفاظ کو ترکی زبان سے نکال دیا گیا،چھ صدیوں تک مرکزی حیثیت رکھنے والے شہر استنبول کی جگہ دارالحکومت کو انقرہ منتقل کر دیا گیا۔ فتح قسطنطنیہ کی سب سے اہم نشانی ”ایاصوفیہ “کو مسجد سے عجائب گھر بنا دیا گیا،کمال اتاترک نے بہت سے رہنماوں کو زندانوں میں ڈلوادیا، جلا وطنی پر مجبور کیا یا انہیں سزائے موت دے دی، غرضیکہ اتا ترک نے پوری کوشش کی کہ اسلام اور مسلمانوں سے تعلق کی ہر نشانی کو مٹاکر ترکی کو مشرق سے کاٹ کر مغرب کا حصہ بنا دیا جائے۔اُس نے آئین بناکر فوج کے سیاسی کردار کو دستوری تحفظ اور آئین کا محافظ قرار دیا اورپوری کوشش کی کہ اسلام کا حلیہ بگاڑ کر ترک مسلمانوں کو ان کے صدیوں پر محیط عظیم علمی ادبی، ثقافتی اور ہر اُس دینی ورثے سے محروم کر دیا جو فکر اسلامی کا عکاس و آئینہ دار تھا،یوں29 اکتوبر 1923ءکو ترکی باضابطہ سرکاری طور پر ریپبلک آف ترکی کی شکل میں ایک نئی اور جدید سیکولر ریاست کی شکل میں دنیا کے سامنے آیا۔

1960 ءتک یہ وہی ترکی تھا جس میں اسلام کا نام لینا بھی جرم تھا، یہ وہی سال تھا جس میں وزیر اعظم عدنان میندریس کو اسلامی رجحان رکھنے کے جرم میں پھانسی دی گئی۔وہ ترک فوج جو ملک کی سیکولر پہچان کی نگہبان سمجھی جاتی ہے اور جس نے ملک میں اسلامی طرز زندگی بدلنے میں اہم ترین کردار ادا کیا،کے سامنے نجم الدین اربکان کی ذات پہلی بار ایک چٹان کے روپ میں سامنے آئی۔ترک جرنیلوں کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آنے لگا، چنانچہ بار بار نجم الدین اربکان اور اُن کی جماعت پر پابندیاں عائد کی گئیں ،لیکن نجم الدین اربکان نے جو راستہ کھول دیا تھا ، وہ فوج سے بند نہ ہوسکا۔ رفاہ سے فضیلت اور فضلیت سے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی تک کا سفر اسلام پسندوں کی پرامن سیاسی جدوجہد کا آئینہ دار ہے، ترکی کے موجودہ وزیراعظم رجب طیب اردگان نجم الدین اربکان کے تربیت یافتہ اور سیاسی وارث ہیں، گزشتہ الیکشن میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی تاریخ ساز کامیابی اِس اَمر پر دلالت کرتی ہے کہ عوام کی اکثریت نے ترکی میں سیکولرازم اور فوجی آئین کے خلاف اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔آج ترکی میںصورتحال بدل چکی ہے، اسلام پسندوں کی بڑھتی ہوئی قوت کے سامنے فوج بے بس نظر آتی ہے، وزیر اعظم رجب طیب اردگان اور صدر عبداللہ گل کی قیادت میں سیکولر ترکی نے ایک نئی انگڑائی لینی شروع کی ہے۔ فوج کی تمام تر کوشش کے باوجود عوام میں اسلامی تشخص مقبولیت حاصل کررہا ہے، اب یورپی یونین میں شرکت کےلئے بھیک مانگتا ترکی ایک نئے روپ میں دنیا کے سامنے آ رہا ہے،اسلام کا یہ سابق گڑھ اپنے مرکز کی طرف لوٹ رہا ہے اوراپنا جھکاو اسلامی ممالک کی جانب بڑھا رہا ہے۔ آج ترکی احیائے خلافت کی منزل کی طرف گامزن ہے اور اِس ساری جدوجہد کا سہرا نجم الدین اربکان اور اُن کے سیاسی وارث رجب طیب اردگان کو جاتا ہے ۔

درحقیقت طیب اردگان ایک ایسی مقناطیسی شخصیت کے مالک ہیں جس نے ترکی کے سیاسی نظام کی سمت کوہی بدل کر رکھ دیا ہے، انہوں نے ترکی کے سیاسی کلچر کو ایک تعمیری اورنئی جہت عطا کی ہے، انہوں نے اپنے عزم ،ہمت، حوصلے، دانشمندی اور حکمت عملی کی بنا پر ترکی کو متحد، مستحکم اور عالمی برادری میں ممتاز مقام ہی نہیں دلایا بلکہ وہ ایک ہیرو اور عالم اسلام کے مسلم رہنماکے طور پر بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں اوراُن کے اسرائیل کے خلاف دلیرانہ و جراتمندانہ موقف نے اُن کی شخصیت کو ترکی سے اٹھاکر عالمی سطح پر لاکھڑا کیاہے۔ قارئین محترم ! آپ کو یاد ہوگا کہ ترکی وہ واحد اسلامی ملک تھا جس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات تھے، مگر31مئی 2010ءکو اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مظلوم مسلمانوں کیلئے امداد لے کر جانے والے جہاز فریڈم فلوٹیلا پر حملے اور ترکی کے9 رضاکاروں سمیت 19 افراد کی شہادت کے بعد ترکی کے تعلقات اسرائیل سے کشیدہ ہوگئے تھے۔ ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے اسرائیلی ظلم و سفاکیت کو تاریخ کا ایک نیا موڑ قرار دیتے ہوئے اِسے انسانی ضمیر پر حملے سے تعبیر کیا تھا اور اسرائیل کے وحشیانہ اقدام کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے نہ صرف فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی بلکہ نہایت پرامن اور مہذب طریقہ اختیار کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کو بے نقاب کرتے ہوئے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا تھااور اسرائیلی فوج کے ساتھ ترک افواج کی ہونے والی مشترکہ مشقیں بھی منسوخ کردی تھیں،ساتھ ہی اسرائیلی طیاروں کو اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا تھا،آج اُسی ترکی نے فریڈم فوٹیلا کے حوالے سے اقوام متحدہ کی 56 صفحات پر مشتمل رپورٹ شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اُسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور ترک باشندوں کی ہلاکت سمیت غزہ کے محاصرے کے معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، اُس نے اسرائیلی سفیر کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیتے ہوئے فوجی تعاون کے خاتمے کا اعلان کیا اوراپنی بحریہ کو الرٹ کرتے ہوئے بحیرہ روم میں اپنا فوجی گشت بھی بڑھادیا ہے۔ترکی کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل اپنے اِس سفاکانہ عمل پر ترکی سے معافی مانگے اور زرتلافی ادا کرے ،جس سے اسرائیل انکاری ہے۔

ترک وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اِس واقعہ کی بڑی قیمت چکانی پڑے گی،جبکہ ترک صدر عبداللہ گل اور وزیر اعظم طیب اردگان نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو اپنے ملک کیلئے بے معنی قراردیتے ہیں۔دوسری طرف طیب اردگان 18ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں غزہ کی ناکا بندی ختم کرانے کیلئے رائے شماری کی غرض سے ایک بل بھی پیش کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اپنے دورہ مصر کے دوران وہ اہل غزہ سے اظہار یکجہتی کیلئے غزہ کا دورہ بھی کریں،اگر انہیں اِس دورے کی اجازت مل گئی تو وہ پہلے غیرملکی وزیر اعظم ہوںگے ،جنہیں غزہ جانے کا موقع ملے گا،اِس سارے قضیے میں سب سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ وہ ترکی جو کل تک اسرائیل کادوست اور حمایتی سمجھا جاتا تھا، آج وہی ترکی اسرائیل کی مخالفت میں تمام اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ سرگرم اور متحرک نظر آتا ہے اوراسرائیل کی وحشت و درندگی کے خلاف ڈٹا ہوا اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکار رہا ہے،جبکہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والا عالم اسلام مصلحتوں کی منافقانہ چادر اوڑھے خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔

ترکی کے موجودہ کردار نے عرب ممالک میں امریکا کے حامی حکمرانوں کو پریشان کردیا ہے اور عرب عوام کا اپنے حکمرانوں پر دباﺅ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات اٹھائیں اور اسرائیل پر دباﺅ ڈالیں کہ وہ غزہ کا محاصرہ ختم کرے۔ دوسری طرف ترکی جیسے ماڈریٹ اور اعتدال پسند اسلامی ملک میں فلسطینیوں کی اِس قدر بڑے پیمانے پر حمایت کا ابھرنا مغرب کےلئے لمحہ فکریہ بنا ہوا ہے، اسرائیل کے اقدام کے باعث ترکی کے اسرائیل مخالف رویّے نے امریکا کےلئے بہت سی پریشانیاں پیدا کردی ہیں جبکہ اسرائیل کی اندھا دھند حمایت نے ترکی کو امریکا سے دور کردیا ہے۔اَمر واقعہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے عالم اسلام کسی غیرت مند ولولہ انگیز قیادت کا منتظر تھا، اُسے ایک اعتدال پسند، اسلامی اقدار پر یقین رکھنے والی بالغ نظر قیادت کی ضرورت ہے اور رجب طیب اردگان میں یہ صلاحیت موجود ہے۔آج عالم اسلام کے مسلمان دعاگو ہیں کہ طیب اردگان کی قیادت میں ترکی اپنا کھویا ہوا تشخص حاصل کرکے اپنے روشن ماضی کی طرف لوٹے۔